پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا راستہ کٹھن ہوگیا

تندوتیز بیانات اور نئے اتحاد کی بازگشت

تندوتیز بیانات اور نئے اتحاد کی بازگشت۔ فوٹو: فائل

سندھ کے عوام عرصے سے قبائلی تنازعات، دہشت گردی، لاقانونیت، قتل، لوٹ مار، جرائم اور بدامنی کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہری بنیادی سہولیات سے محروم اور مختلف مسائل کا شکار بھی ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کو تقریباً سات برس ہو چکے ہیں، لیکن صوبے کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے دعوے اور سہولیات کی فراہمی کے وعدے پورے ہوتے نظر نہیں آرہے بلکہ صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ شہری منتخب نمائندوں اور وزرا کی کارکردگی سے مایوس اور متنفر ہو گئے ہیں۔ کراچی میں خاص طور پر بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔

موجودہ صورتِ حال اور عوام میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف غم و غصّے کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی مخالف جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور مسلم لیگ ن کے ناراض راہ نماؤں نے قومی ایشوز اور عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے کے لیے ایک سیاسی اتحاد کے قیام کا فیصلہ سنایا، جس میں مسلم لیگ فنکشنل بھی شامل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین اختلافات اور الزامات زور پکڑتے جارہے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور اندرون سندھ چھوٹے بڑے علاقوں میں ایم کیو ایم نہایت منظم طریقے سے عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے کے علاوہ کرپشن، اقربا پروری، لسانی تفریق اور جاگیردارانہ ذہنیت کے خلاف شہریوں کو متحرک کررہی ہے۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف کی سرگرمیاں پی پی پی مشکلات بڑھا رہی ہیں۔

پچھلے ماہ لاڑکانہ میں پی ٹی آئی کے کام یاب جلسے کو تجزیہ کار سیاسی تبدیلی کا اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح فنکشنل لیگ کی قیادت بھی متحرک اور فعال نظر آرہی ہے اور صوبے بھر میں پی پی پی کی مخالفت زوروں پر ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنی قیادت اور حکومت پر الزامات اور تنقید کو مسترد کرتے ہوئے عوام کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

پچھلے دنوں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی پر الزامات کی بارش کر دی گئی۔ اس پریس کانفرنس کا سبب پی پی پی کے سینئر راہ نما پیر مظہرالحق کا ایک بیان تھا۔ رابطہ کمیٹی کے رکن بابر غوری نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کی تعلیم، ترقی اور خوش حالی کا حق غصب کرنے کے لیے پی پی پی ہر دور میں سازشیں کرتی رہی ہے۔

انہوں نے سابق صوبائی وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق کے ایک اخباری بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق ان کا بیان متعصبانہ ہے اور یہ پی پی پی کی مجموعی سوچ بھی ہے۔ ان زیادتیوں کے سبب مہاجروں کا احساسِ محرومی شدت اختیار کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجروں نے ون یونٹ کے خلاف سندھیوں کے ساتھ مل کر احتجاج کیا، کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی ہے، لیکن صوبے کے سالانہ پانچ سو ارب روپے کا بھی غیرمنصفانہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر صوبائی حکومت سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے تو انتظامی سسٹم بنا دینا چاہیے۔

اس موقع پر سید حیدر عباس رضوی، سید سردار احمد، خواجہ اظہار الحسن اور ہیر سوہو بھی موجود تھے۔ بابر خان غوری نے کہا کہ اگر پیر مظہر الحق کا بیان پی پی پی کی پالیسی نہیں تو گذشتہ سات سال سے ایم کیو ایم کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی نے یونیورسٹی کیوں نہیں بننے دی۔


اس کانفرنس میں انہوں نے مختلف سرکاری محکموں میں سندھ کے شہری علاقوں کے عوام سے ناانصافیوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ مختلف محکموں میں شہری علاقوں سے افسران اور عہدے داروں کی تعداد بہت کم ہے، جو ناانصافی اور تعصب کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر حیدر عباس رضوی نے بھی سرکاری ملازمتوں اور کوٹا سسٹم کے حوالے سے سندھ کے شہری علاقوں کے عوام سے ناانصافیوں اور زیادتیوں کا تذکرہ کیا۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں عوام کو بلاتفریق ان کے حقوق دیے ہیں اور موجودہ حکومت اب بھی کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے سندھ کے عوام کی خدمت کررہی ہے ۔

گذشتہ ہفتے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی جمعیت علمائے اسلام کے راہ نما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کے بعد جے یو آئی (ف) کے کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کی سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں نے مذمت کی ہے۔ وہ ایک اہم سیاسی اور مذہبی راہ نما تھے، جو سندھ میں جے یو آئی کو مضبوط اور فعال رکھنے کے ساتھ عوامی مسائل پر آواز بلند کرتے رہے اور سندھ کے حقوق کی جدوجہد میں آگے رہے۔ جے یو آئی کی قیادت نے ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

قوم پرست جماعتوں کا صوبے اور انتظامی یونٹس کے مطالبے پر احتجاج اور جلسوں میں ایم کیو ایم کے خلاف تقاریر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پچھلے ہفتے سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کراچی میں اس مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو متنبہ کیا کہ وہ سندھ دشمنی بند کر دے، اگر اسمبلی میں سو فی صد اکثر یت سے بھی سندھ کی تقسیم کی بات ہوئی تو اس کے خلاف باہر نکل آئیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے صوبوں کے شہریوں کو یہاں ورک پرمٹ جاری کیا جائے، مشرف دور میں سندھ کے ساتھ زیادتیاں بڑھی تھیں اور اب ایم کیو ایم منافرت کو بڑھا رہی ہے۔ کراچی میں ترقیاتی کام صرف پلوں اور پارکوں کی تعمیر کی حد تک کیے گئے، لیکن پسماندہ بستیوں میں منتخب نمائندے صاف پانی تک فراہم نہ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو کراچی سے کشمور تک امن کی ضمانت دینا مشکل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میں اردو بولنے والوں کو بھی سندھ کی تقسیم کے خلاف ہماری مہم میں ساتھ دینے کی دعوت دیتا ہوں۔

مسلم لیگ (ن) سے ناراض سید غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی کے بعد ذوالفقار کھوسہ بھی پچھلے دنوں کراچی پہنچے۔ ان کی آمد کا مقصد ن لیگ سے بددل کارکنوں سے ملاقات اور ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کے ناراض راہ نماؤں سے رابطے کے بعد انہوں نے اس سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔

باخبر ذرایع کے مطابق کراچی میں سینیٹر ذوالفقار کھوسہ نے سید غوث علی شاہ، ارباب غلام رحیم، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی سمیت دیگر سے رابطے کیے ہیں۔ شہرِ قائد میں میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے اپنے سیاسی رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ پر کرپٹ لوگ قابض ہو چکے ہیں، قائد اعظم کی مسلم لیگ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے اور میں اسی کی جدوجہد کر رہا ہوں۔

سندھ میں مسلم لیگ پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ن لیگ کے متعدد سینئر راہ نماؤں کا دیگر جماعتوں کی طرف متوجہ ہونا اور مخالف اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں سے محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی قیادت سندھ میں اپنی پارٹی کو مضبوط اور فعال بنانے میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتی۔ ہفتۂ رفتہ میں پارٹی کا ورکرز اجلاس ''نواز شریف زندہ باد'' کے بینر تلے ہوا، لیکن اسی اجلاس میں اپنے لیڈر کی سندھ میں بااعتماد قیادت کو فوری ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت سینئر راہ نما زین انصاری کر رہے تھے جب کہ مہمان خصوصی، رکن سندھ اسمبلی حاجی شفیع محمد جاموٹ تھے۔

اس موقع پر حاجی امین وانا، میر اعجاز تالپور، راجا انصاری، عبدالستار آرائیں اور دیگر بھی موجود تھے۔ اس اجلاس میں ن لیگ کے صوبائی صدر اسماعیل راہو، سینئر نائب صدر شاہ محمد شاہ اور جنرل سیکریٹری نہال ہاشمی کو پارٹی کی سندھ میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ حاجی شفیع محمد جاموٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا جارہا، جس سے ن لیگ کے ورکروں میں مایوسی پھیلی ہے۔
Load Next Story