تھر ایک انسانی المیہ

دنیا کے نویں سب سے بڑے ریگستان ہونے کے سبب اس کو دنیا بھر میں پاکستان کی ایک شناخت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

تھر کا ریگستان صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکر میں واقع ہے، اپنی منفرد تاریخی حیثیت اور مختلف تہذیبوں کے مسکن ہونے کی وجہ سے یہ کافی حد تک عالمی شہرت کا سبب بھی رہا ہے۔ 77000 اسکوائر میٹر کے علاقے یہ پھیلا ہوا ہے، ریگستان بھارتی صوبے راجھستان سے ملتا ہے اور یہی ریگستان بھارت اور پاکستان کے بارڈر کو بھی ملاتا ہے۔

دنیا کے نویں سب سے بڑے ریگستان ہونے کے سبب اس کو دنیا بھر میں پاکستان کی ایک شناخت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چار سے پانچ ہزار سال پہلے اس کو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تاریخی (Civilization) کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اپنے زرخیز ورثے اور تہذیب و تمدن کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں کی آمد کا مرکز بھی رہا ہے۔ یہاں تقریباً 23 اقسام کی چھپکلیاں اور 25 مختلف اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ جب کہ جنگل حیات کی کئی اور اقسام جو دنیا بھر میں معدوم ہوتی جا رہی ہیں جن میں چنکارا نامی ہرن، جنگلی بلی اور مور وغیرہ شامل ہیں۔

جب کہ کثیر تعداد میں رینگنے والے جانور اور پرندے بھی اس وسیع و عریض علاقے میں اپنا وجود رکھتے ہیں موجود ہیں۔ جن میں سے تقریباً 76 فی صد کچی اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں جب کہ باقی میں پکی ہوئی اینٹوں اور لکڑیوں کا استعمال کیا گیا ہے، سردیوں کے موسم میں چلنے والی تیز ہواؤں کے طوفان کی وجہ سے یہ لوگ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان غریب لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی موجود نہیں۔ ہر سال مون سون کے موسم میں چند ملی میٹر بارش کے علاوہ یہاں پر پانی کا کوئی قابل ذکر وسیلہ موجود ہی نہیں پچھلے کچھ مہینوں سے یہ علاقہ شدید مسائل کا شکار ہے۔


غذائی قلت اور قحط تو یہاں تقریباً ہر دور کا مسئلہ رہا ہے لیکن اس دفعہ پانی کی کمی اور دیگر بیماریوں سے نہ صرف انسان بلکہ یہاں رہنے والی جنگلی حیات بھی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں رانی کھیت کی بیماری کی وجہ سے موروں کی ہلاکت، پھر پانی کی کمی سے ہرنوں اور باقی مویشیوں کی ہلاکت نے اس دور دراز علاقے میں میڈیا کی توجہ حاصل کی۔ چوں کہ سارے ہی افراد انتہائی غریب ہیں لہٰذا وہ اپنی بات حکومتی ایوانوں تک پہنچانے سے قاصر ہیں لیکن جب جانوروں کی ہلاکت کے بعد انسانوں کی خاص طور پر شیر خوار بچوں کی اموات ہونی شروع ہوئیں تو اس کی بازگشت اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنی شروع ہوئی اور جب یہ ہلاکتیں بڑھنے لگیں تو سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر از خود نوٹس لیا اور صوبائی حکومت کو اس مسئلے پر زیادہ سنجیدگی سے کام کرنے کا حکم دیا۔ کئی فلاحی اداروں اور این جی اوز نے یہاں کا رخ کیا۔

پاکستان آرمی نے بھی حسب سابق ان فلاحی کاموں میں حصہ ڈالا کچھ عرصے پہلے یہاں پر پانی کی تلاش میں کھودے گئے کنویں میں گر کر ہلاک ہونے والے مزدوروں کی خبر نے اس سارے بحران کو ایک نیا رخ دیا اور اب ایک بار پھر شیر خوار بچوں کی ہلاکت نے حکومتی عملداری پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ شروع میں تو حکومت سندھ نے اس کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی اور پھر ضلعی انتظامیہ پر سارا الزام دے کر اس کا ٹرانسفر کر دیا۔

اس دوران میڈیا کے ذریعے سے یہ انکشافات سامنے آئے کہ وہاں کے ضلعی انتظامیہ کے افسران سنگین غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے۔ افسران اور ناظم دن کے اوقات میں گرمی کی وجہ سے وہاں جانے سے گریز کرتے جو امداد صوبائی حکومت کی طرف سے وہاں بھیجی گئی اس میں سے کثیر تعداد گودام میں پڑی پڑی ضایع ہو گئی۔ جن میں گندم کی سیکڑوں بوریاں شامل تھیں۔ زائد المیعاد ادویات (Expired Medicine) تقسیم کی گئیں اور متاثرین تک کھانے پینے کا سامان اور دیگر غذائی اجناس وقت پر نہ پہنچائی جا سکیں، آج یہ دور دراز علاقہ ایک بار پھر پوری قوم اور بالخصوص صوبائی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔ یہاں ہونے والی غفلت اور کوتاہی نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔

جس کی نشاندہی وزیراعلیٰ سندھ کی اپنی کابینہ کے ارکان پر بالواسطہ تنقید سے ہوتی ہے۔ جب انھوں نے یہ سوال اٹھایا۔ اگر سارے کاموں پر انھوں نے ہی توجہ دینی ہے تو کابینہ کے وزیروں کا کیا فائدہ۔ حال ہی میں ایک صوبائی مشیر نے بھی گمبھیر صورت حال کا اعتراف کیا اور اس کی پوری رپورٹ آصف زرداری کو دینے کا اشارہ کیا لیکن اصل بات تو پھر جوں کی توں ہے کہ تھر کے باسیوں کے مسائل تو وہیں ہیں۔ اس وقت اس انسانی المیے سے موثر طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ الزام در الزام سے تو کچھ فیصلہ نہ ہوا اس سلسلے میںسول سوسائٹی، این جی اوز، صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو مل کر مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ تا کہ اس تاریخی اور قیمتی ورثے کو بچایا جا سکے جو کہ یقیناً ایک ملکی اثاثہ اور قدرت کا تحفہ ہے۔
Load Next Story