’’ایبولا‘‘
اس وائرس کے خلاف ویکسین کے انسانوں پر تجربے کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں
''ایبولا'' کئی انسانوں کا قاتل ہے اور ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس خطرناک وائرس کے خلاف طبی ماہرین اپنی کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں، لیکن ابھی اس کا فوری اور مؤثر علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم اس ضمن میں امریکا میں طبی ماہرین کو ایک اہم کام یابی حاصل ہوئی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انسانوں پر اس کے علاج کی غرض سے پہلے تجربے کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ ایبولا کے خلاف مؤثر ویکسین تیار کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے، لیکن اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ایبولا اور اس سے ہونے والی اموات نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور گذشتہ دنوں پاکستان میں بھی ایک مرد میں ایبولا وائرس کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
طبی محققین کے مطابق ایبولا کا جرثوما خشک آب و ہوا والے علاقوں میں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن خون اور کسی سیال مادے میں یہ کئی روز تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ایبولا انسانوں اور جانوروں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا شکار فرد دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں کھنچاؤ اور سر درد کی شکایت کرسکتا ہے۔ ان علامات کے ساتھ قے، اسہال اور جسم پر خارش کا مسئلہ بھی لاحق ہو سکتا ہے، جب کہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متأثر ہوتی ہے۔
یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو جسم کے کسی ایک حصّے یا مختلف حصّوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی دیکھ بھال کرنے والوں اور اس کے ملاقاتیوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ خون کے ذریعے اس وائرس کی کسی بھی انسان یا جانور میں منتقلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون بہنا شروع ہو جائے تو مریض کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایبولا کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ تھوک، خون، پیشاب، پسینا، فضلہ، اس وائرس سے متأثرہ سرنج کا استعمال اور متأثرہ ماں کا دودھ ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ 1976 میں پہلی مرتبہ سوڈان میں اس وائرس کو ایبولا کے نام سے شناخت کیا گیا تھا۔ 2013 تک اس کا شکار ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی، لیکن رواں برس مغربی افریقا میں یہ ایک وبا کی شکل میں پھیلا اور اب امریکا، اسپین و دیگر ممالک میں بھی اس کے مریض سامنے آئے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اب تک یہ وائرس چھے ہزار افراد کی ہلاکت کا باعث بنا ہے، جب کہ اس سے متأثرہ افراد کی تعداد سولہ ہزار ہے اور ہر ہفتے دو سو سے زائد انسان ایبولا کی وجہ سے زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کے شکار افراد کو پانی اور زیادہ سے زیادہ مشروبات دینے سے اس کی طبیعت میں کسی حد تک بہتری لائی جاسکتی ہے، لیکن اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کرنا چاہیے، جہاں ڈاکٹر اور تربیت یافتہ عملہ ہی اس کی بہتر دیکھ بھال اور علاج کرسکتا ہے۔
امر یکا کے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ' کے ماہرین نے ایبولا کے علاج کی غرض سے ایک ویکسین کو بیس صحت مند افراد پر آزمایا اور نتائج کے مطابق ان تمام افراد میں اس وائرس کے خلاف کارآمد 'اینٹی باڈیز' ظاہر ہوئیں۔ 'نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ مزید تجربات کے بعد یہ ویکسین ایبولا سے نجات دلانے کے لیے استعمال کی جاسکے گی۔
طبی ماہرین کے مطابق انسانوں پر اس کے علاج کی غرض سے پہلے تجربے کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ ایبولا کے خلاف مؤثر ویکسین تیار کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے، لیکن اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ایبولا اور اس سے ہونے والی اموات نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور گذشتہ دنوں پاکستان میں بھی ایک مرد میں ایبولا وائرس کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
طبی محققین کے مطابق ایبولا کا جرثوما خشک آب و ہوا والے علاقوں میں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن خون اور کسی سیال مادے میں یہ کئی روز تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ایبولا انسانوں اور جانوروں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا شکار فرد دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں کھنچاؤ اور سر درد کی شکایت کرسکتا ہے۔ ان علامات کے ساتھ قے، اسہال اور جسم پر خارش کا مسئلہ بھی لاحق ہو سکتا ہے، جب کہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متأثر ہوتی ہے۔
یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو جسم کے کسی ایک حصّے یا مختلف حصّوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی دیکھ بھال کرنے والوں اور اس کے ملاقاتیوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ خون کے ذریعے اس وائرس کی کسی بھی انسان یا جانور میں منتقلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون بہنا شروع ہو جائے تو مریض کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایبولا کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ تھوک، خون، پیشاب، پسینا، فضلہ، اس وائرس سے متأثرہ سرنج کا استعمال اور متأثرہ ماں کا دودھ ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ 1976 میں پہلی مرتبہ سوڈان میں اس وائرس کو ایبولا کے نام سے شناخت کیا گیا تھا۔ 2013 تک اس کا شکار ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی، لیکن رواں برس مغربی افریقا میں یہ ایک وبا کی شکل میں پھیلا اور اب امریکا، اسپین و دیگر ممالک میں بھی اس کے مریض سامنے آئے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اب تک یہ وائرس چھے ہزار افراد کی ہلاکت کا باعث بنا ہے، جب کہ اس سے متأثرہ افراد کی تعداد سولہ ہزار ہے اور ہر ہفتے دو سو سے زائد انسان ایبولا کی وجہ سے زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کے شکار افراد کو پانی اور زیادہ سے زیادہ مشروبات دینے سے اس کی طبیعت میں کسی حد تک بہتری لائی جاسکتی ہے، لیکن اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کرنا چاہیے، جہاں ڈاکٹر اور تربیت یافتہ عملہ ہی اس کی بہتر دیکھ بھال اور علاج کرسکتا ہے۔
امر یکا کے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ' کے ماہرین نے ایبولا کے علاج کی غرض سے ایک ویکسین کو بیس صحت مند افراد پر آزمایا اور نتائج کے مطابق ان تمام افراد میں اس وائرس کے خلاف کارآمد 'اینٹی باڈیز' ظاہر ہوئیں۔ 'نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ مزید تجربات کے بعد یہ ویکسین ایبولا سے نجات دلانے کے لیے استعمال کی جاسکے گی۔