ایڈز نا قابل علاج نہیں
یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سال 2030 تک دنیا سےاس جان لیوا بیماری کا خاتمہ ہوسکے اس مہم کو’ کلوز دی گیپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ایڈز کی آگاہی کے حوالے سے دنیا بھر میں آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔آسٹریلیا میں منعقدہ بیسویں عالمی کانفرنس کے صدرکرس بیرئر کا کہنا ہے کہ امتیازی قوانین پالیساں اس حوالے سے پیش رفت میں رکاؤٹ بن رہی ہے ۔متاثرین ایڈز کے حقوق محدود ہو رہے ہیں اور وائرس پھیل رہا ہے ،کانفرنس میں چودہ ہزار محققین، پالیسی ساز اور ایڈز کے لیے کام کرنے والے اداروں کے نمایندوں نے حصہ لیا۔ اگلی کانفرنس 2016میں جنوبی افریقی شہر ڈربن میں منعقد ہوگی۔
2010 میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ایڈز اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایڈز کی وبا روکنے کے لیے ایک نئی ایجاد کی رپورٹس کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا ، رپورٹس کے مطابق عورتوں میں ایڈز کے انفیکشن کو کم کرنے کے لیے ایک نئی تیار شدہ ویجائنل جل کو مددگار کہا گیا۔یو این ایڈز کے ڈائیرکیٹر مائیکل سیڈیبے کا کہناتھا کہ اس جل کے ٹیسٹ نتائج خواتین کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں۔انھوں نے یہ تبصرہ ویانا میں عالمی ایڈز کانفرنس کے موقعے پر کیا تھا ۔
2010ء میں ایڈز کے عالمی دن کے موقعے پر واشنگٹن میں چین کے سفارتخانے اورلاس اینجلس میں قونصل خانے پر عالمی فنڈ کے حوالے سے چین کو نامناسب استعمال کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے فنڈ سے تقریبا ایک کھرب ڈالر وصول کیے جب کہ صرف سولہ ملین کی امداد فراہم کی تھی ۔یکم دسمبر ایڈز کے عالمی دن کی شام ایڈز کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ایڈز ہیلتھ کئیر فاؤنڈیشن ، واشنگٹن ڈی سی اور لاس اینجلس میں بیک وقت دو مظاہرے کیے۔
جس کا مقصد چین کی حکومت کو انسداد ایڈز ، ٹی بی اور ملیریا کے عالمی فنڈ کے غلط استعمال پر نشانہ بنانا تھا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں تعلقات عامہ کے سربراہ اور جنرل کونسل برائے ایڈز ہیلتھ کئیر فاؤنڈیشن ٹام میئرز نے کہا تھا کہ'' اس وقت چین کے پاس 2.5ٹریلین ڈالر کے بیرونی کرنسی محفوظات ہیں اس نے 2008 میں سرمائی اولمپیکس کے انعقاد میں چالیس کھرب ڈالر سے زائد اور2010 ورلڈ ایکسپوزیشن کی میزبانی پر 58کھرب ڈالر خرچ کیے ہیں ، چین ایک مالدار ملک ہے اور اپنی حفاظت صحت کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔
''بتایا یہی جاتا ہے کہ گزشتہ برس پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایچ آئی وی سے نئے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایسے ایچ آئی وی پوزیٹو افراد کے مقابلے میں کم تھی جن کی رسائی ان ادویات تک ممکن بنائی گئی جو ایڈز سے بچنے کے لیے اب انھیں زندگی بھر استعمال کرنا ہوگی۔اقوام متحدہ کی ایڈز ایجنسی UNAIDSکے مطابق اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لیے آگاہی پیدا کرنے اور وائرس سے متاثرہ افراد کی ایڈز سے بچاؤ کی ادویات تک رسائی بڑھانے اور دیگر اقدامات کی بدولت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سال 2030 تک دنیا سے اس جان لیوا بیماری کا خاتمہ ہوسکے اس مہم کو ' کلوز دی گیپ' کا نام دیا گیا ہے۔
ایڈز کا باعث بننے والا ہیومن امیونو ڈیفشئنسی وائرس یا HIVخون ، جنسی ملاپ یا ماں کے دودھ کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے ۔ ابھی تک اس انفکیشن کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے، تاہم مختلف ''اینٹی ریٹرو وائرل'' کے مجموعے کی مدد سے اس وائرس کے باعث ایڈز ہونے کے خطرے کو کئی برس تک ٹالا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 میں ایسے افراد کی تعداد جو HIVسے متاثر ہیں ان کی تعداد 35ملین یا تین کروڑ پچاس لاکھ تھی۔اسی سال کے دوران 2.1ملین نئے افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے جب کہ 1.5ملین یا 15لاکھ افراد ایڈز کے باعث موت کا شکار ہوئے ۔ ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں کی زیادہ تر تعداد سب صحارا افریقہ کے ممالک سے ہے۔
ایڈز کی وبا کا آغاز ہوئے 30برس سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور یہ بیماری اب تک 40ملین سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایڈز ایجنسی UNAIDSکے مطابق جون2014 تک دنیا بھر میں قریب13.6ملیں افراد کو ایڈز سے بچاؤ کی ادویات تک رسائی حاصل ہوگئی تھی ۔ یہ تعداد 2010 کے مقابلے میں حیران کن حد تک زیادہ ہے جب کہ صرف پانچ ملین افراد کو اس دوائی کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔بھارت میں ایڈز سے متاثرین کی تعداد 57لاکھ کے قریب بتائی جاتی رہی ہے جیسے بعد میں 25لاکھ تک محدود کردیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت جیسے ملک میں غریب عوام کے علاج کے لیے مہنگی ادویات ناپید ہیں جس کی وجہ سے ایڈز کے مریضوں کی تعداد بڑھنے اور اموات کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔
ایک جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارت نے عالمی امداد کے حصول کے لیے تعداد کو بڑھائی، جبونی افریقہ میں 50 لاکھ تعداد بتائی جاتی ہے۔مئی2007 میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن نے دو بھارتی کمپنیوں کے اشتراک سے ترقی پذیر ممالک کو ایڈز اور ایچ آئی وی کی کم قیمت دواؤں کی فراہمی کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ' انٹی ربٹر و وائزلز ' ادویات اس وقت استعمال کی جاتی ہیں جب ایچ آئی وی کے مریض کو سستی دواؤں اور ابتدائی علاج سے افاقہ نہ ہو ۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کی مطابق ایڈز کے مریضوں کی تعداد ستر لاکھ سے زائد بتائی گئی۔پاکستان میں مستند اعدادوشمار کا فقدان ہے تاہم سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی منیجرڈاکٹرمحمد احمد قاضی نے بتایا تھا کہ پاکستان میں ایڈز کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ادویات دستیاب نہیں ہیںاور یہ بھی بھارت سے منگوانی پڑتی ہیں ۔ عالمی اداروں نے گزشتہ ادوار میں مریضوں کی تعداد اندازاً 87ہزار بتائی تھی جس میں کراچی میں متاثرہ مریضوں کی تعداد دو ہزار دوسو بتائی گئی تھی۔وفاق کی سطح پر صحت کی وزرات ختم ہونے کے بعد اب ایڈزکا باقاعدہ ڈیٹا جمع ہونا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
اس بیماری کی تمام تر وجہ جنسی بے راہ روی ہے جو غیر سماجی تعلق کی وجہ سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور نومولود بچے کو ماں کے دودھ کے ذریعے اور منشیات فروشوں کو انجکشن اور مریضوں کو فراہم کیے جانے والے خون کی درست تشخص نہ ہونے کے سبب دوسرے مریض میں منتقل ہوجاتاہے ، یہ کوئی چھوت یا موروثی بیماری نہیں ہے کہ ایک مریض سے کسی دوسرے مریض کو منتقل ہوجائے گی ۔ لیکن اس کے لیے اسلام کا سب سے حسین اصول و حکم ہے پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ۔ ہمیں عموما دیکھنے کو ملتا ہے کہ گھروں میں چلنے والی عریاں فلمیں ، ڈرامے اور اخلاق باختہ اشتہارات اور خواتین کو بازاری بنا کر ہم اپنی نسل کو جنسی ذہنی مریض بنا رہے ہیں جس کا نتیجہ جنسی امراض کی صورت میں سامنے آتا ہے ، جس میں شک جیسی بیماری بھی ہے جو اس کے دماغ کو ماؤف کر کے قتل جیسے افعال کا بھی موجب بن جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ایڈز یا جنسی امراض کی جو بھی وجوہات یا توجہیہ بیان کیں جائیں لیکن ان سب کا علاج ایک ہی ہے وہ ہے'' پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ۔'' مرد کے لیے حکم اپنی نگاہیں نیچی رکھو ، عورتوں کے لیے حکم اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرو ، حجاب میں اس طرح نکلو کہ شریف زادیاں نظر آؤ ''اگر تعلیمات اسلامی پر ہمارا عمل درست ہو جائے تو قوم لوط جیسے افعال قبیح کے ساتھ جنسی بے راہ روی سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ ہر بیماری کا آغاز دماغ میں پرورش پاتا ہے ، دماغ پاکیزہ کرلیں ۔ تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔
2010 میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ایڈز اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایڈز کی وبا روکنے کے لیے ایک نئی ایجاد کی رپورٹس کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا ، رپورٹس کے مطابق عورتوں میں ایڈز کے انفیکشن کو کم کرنے کے لیے ایک نئی تیار شدہ ویجائنل جل کو مددگار کہا گیا۔یو این ایڈز کے ڈائیرکیٹر مائیکل سیڈیبے کا کہناتھا کہ اس جل کے ٹیسٹ نتائج خواتین کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں۔انھوں نے یہ تبصرہ ویانا میں عالمی ایڈز کانفرنس کے موقعے پر کیا تھا ۔
2010ء میں ایڈز کے عالمی دن کے موقعے پر واشنگٹن میں چین کے سفارتخانے اورلاس اینجلس میں قونصل خانے پر عالمی فنڈ کے حوالے سے چین کو نامناسب استعمال کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے فنڈ سے تقریبا ایک کھرب ڈالر وصول کیے جب کہ صرف سولہ ملین کی امداد فراہم کی تھی ۔یکم دسمبر ایڈز کے عالمی دن کی شام ایڈز کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ایڈز ہیلتھ کئیر فاؤنڈیشن ، واشنگٹن ڈی سی اور لاس اینجلس میں بیک وقت دو مظاہرے کیے۔
جس کا مقصد چین کی حکومت کو انسداد ایڈز ، ٹی بی اور ملیریا کے عالمی فنڈ کے غلط استعمال پر نشانہ بنانا تھا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں تعلقات عامہ کے سربراہ اور جنرل کونسل برائے ایڈز ہیلتھ کئیر فاؤنڈیشن ٹام میئرز نے کہا تھا کہ'' اس وقت چین کے پاس 2.5ٹریلین ڈالر کے بیرونی کرنسی محفوظات ہیں اس نے 2008 میں سرمائی اولمپیکس کے انعقاد میں چالیس کھرب ڈالر سے زائد اور2010 ورلڈ ایکسپوزیشن کی میزبانی پر 58کھرب ڈالر خرچ کیے ہیں ، چین ایک مالدار ملک ہے اور اپنی حفاظت صحت کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔
''بتایا یہی جاتا ہے کہ گزشتہ برس پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایچ آئی وی سے نئے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایسے ایچ آئی وی پوزیٹو افراد کے مقابلے میں کم تھی جن کی رسائی ان ادویات تک ممکن بنائی گئی جو ایڈز سے بچنے کے لیے اب انھیں زندگی بھر استعمال کرنا ہوگی۔اقوام متحدہ کی ایڈز ایجنسی UNAIDSکے مطابق اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لیے آگاہی پیدا کرنے اور وائرس سے متاثرہ افراد کی ایڈز سے بچاؤ کی ادویات تک رسائی بڑھانے اور دیگر اقدامات کی بدولت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سال 2030 تک دنیا سے اس جان لیوا بیماری کا خاتمہ ہوسکے اس مہم کو ' کلوز دی گیپ' کا نام دیا گیا ہے۔
ایڈز کا باعث بننے والا ہیومن امیونو ڈیفشئنسی وائرس یا HIVخون ، جنسی ملاپ یا ماں کے دودھ کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے ۔ ابھی تک اس انفکیشن کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے، تاہم مختلف ''اینٹی ریٹرو وائرل'' کے مجموعے کی مدد سے اس وائرس کے باعث ایڈز ہونے کے خطرے کو کئی برس تک ٹالا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 میں ایسے افراد کی تعداد جو HIVسے متاثر ہیں ان کی تعداد 35ملین یا تین کروڑ پچاس لاکھ تھی۔اسی سال کے دوران 2.1ملین نئے افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے جب کہ 1.5ملین یا 15لاکھ افراد ایڈز کے باعث موت کا شکار ہوئے ۔ ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں کی زیادہ تر تعداد سب صحارا افریقہ کے ممالک سے ہے۔
ایڈز کی وبا کا آغاز ہوئے 30برس سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور یہ بیماری اب تک 40ملین سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایڈز ایجنسی UNAIDSکے مطابق جون2014 تک دنیا بھر میں قریب13.6ملیں افراد کو ایڈز سے بچاؤ کی ادویات تک رسائی حاصل ہوگئی تھی ۔ یہ تعداد 2010 کے مقابلے میں حیران کن حد تک زیادہ ہے جب کہ صرف پانچ ملین افراد کو اس دوائی کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔بھارت میں ایڈز سے متاثرین کی تعداد 57لاکھ کے قریب بتائی جاتی رہی ہے جیسے بعد میں 25لاکھ تک محدود کردیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت جیسے ملک میں غریب عوام کے علاج کے لیے مہنگی ادویات ناپید ہیں جس کی وجہ سے ایڈز کے مریضوں کی تعداد بڑھنے اور اموات کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔
ایک جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارت نے عالمی امداد کے حصول کے لیے تعداد کو بڑھائی، جبونی افریقہ میں 50 لاکھ تعداد بتائی جاتی ہے۔مئی2007 میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن نے دو بھارتی کمپنیوں کے اشتراک سے ترقی پذیر ممالک کو ایڈز اور ایچ آئی وی کی کم قیمت دواؤں کی فراہمی کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ' انٹی ربٹر و وائزلز ' ادویات اس وقت استعمال کی جاتی ہیں جب ایچ آئی وی کے مریض کو سستی دواؤں اور ابتدائی علاج سے افاقہ نہ ہو ۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کی مطابق ایڈز کے مریضوں کی تعداد ستر لاکھ سے زائد بتائی گئی۔پاکستان میں مستند اعدادوشمار کا فقدان ہے تاہم سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی منیجرڈاکٹرمحمد احمد قاضی نے بتایا تھا کہ پاکستان میں ایڈز کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ادویات دستیاب نہیں ہیںاور یہ بھی بھارت سے منگوانی پڑتی ہیں ۔ عالمی اداروں نے گزشتہ ادوار میں مریضوں کی تعداد اندازاً 87ہزار بتائی تھی جس میں کراچی میں متاثرہ مریضوں کی تعداد دو ہزار دوسو بتائی گئی تھی۔وفاق کی سطح پر صحت کی وزرات ختم ہونے کے بعد اب ایڈزکا باقاعدہ ڈیٹا جمع ہونا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
اس بیماری کی تمام تر وجہ جنسی بے راہ روی ہے جو غیر سماجی تعلق کی وجہ سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور نومولود بچے کو ماں کے دودھ کے ذریعے اور منشیات فروشوں کو انجکشن اور مریضوں کو فراہم کیے جانے والے خون کی درست تشخص نہ ہونے کے سبب دوسرے مریض میں منتقل ہوجاتاہے ، یہ کوئی چھوت یا موروثی بیماری نہیں ہے کہ ایک مریض سے کسی دوسرے مریض کو منتقل ہوجائے گی ۔ لیکن اس کے لیے اسلام کا سب سے حسین اصول و حکم ہے پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ۔ ہمیں عموما دیکھنے کو ملتا ہے کہ گھروں میں چلنے والی عریاں فلمیں ، ڈرامے اور اخلاق باختہ اشتہارات اور خواتین کو بازاری بنا کر ہم اپنی نسل کو جنسی ذہنی مریض بنا رہے ہیں جس کا نتیجہ جنسی امراض کی صورت میں سامنے آتا ہے ، جس میں شک جیسی بیماری بھی ہے جو اس کے دماغ کو ماؤف کر کے قتل جیسے افعال کا بھی موجب بن جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ایڈز یا جنسی امراض کی جو بھی وجوہات یا توجہیہ بیان کیں جائیں لیکن ان سب کا علاج ایک ہی ہے وہ ہے'' پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ۔'' مرد کے لیے حکم اپنی نگاہیں نیچی رکھو ، عورتوں کے لیے حکم اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرو ، حجاب میں اس طرح نکلو کہ شریف زادیاں نظر آؤ ''اگر تعلیمات اسلامی پر ہمارا عمل درست ہو جائے تو قوم لوط جیسے افعال قبیح کے ساتھ جنسی بے راہ روی سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ ہر بیماری کا آغاز دماغ میں پرورش پاتا ہے ، دماغ پاکیزہ کرلیں ۔ تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔