پاکستان ایک نظر میں افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
آج ہم میں سے ہرایک پریشان ہے اورملک میں ایک اچھی تبدیلی کا آرزومند بھی ہے،مگرپھر بھی اپنی روش سے باز آنے کو تیار نہیں۔
گزشتہ اتوار مہینے کا سودا سلف لینے گیا تو خلاف توقع امجد کی دکان پر تالا دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ساتھ والے دکاندار سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ امجد کی ماں بیمار ہے اس لئے کچھ دن کے لئے گاؤں گیا ہے۔ واپس پلٹنے لگا تو دکاندار بولا، 'صاحب کبھی ہم سے بھی خریداری کر لیا کریں ہم تو آپ کے ہی لوگ ہیں....'، میں اس کو دیکھ کہ مسکرایا اور گھر کی راہ لی۔
اس محلے میں ہم گزشتہ5 سال سے مقیم ہیں اور شروع سے ہی سودا سلف امجد سے لیا کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امجد ایک ایماندار آدمی ہے، کبھی ڈنڈی نہیں مارتا، کم تولنا تو دور کی بات اکثر زیادہ ہی تول دیتا ہے، سامان کی کوالٹی بہترین اور ریٹ انتہائی مناسب...انسان خوش مزاج اور ملنسار۔ ہاں لیکن'اپنے لوگوں' میں سے نہیں ہے۔ سندھ کے کسی گاؤں سے تعلق ہے اور فرقہ کیا ہے، یہ معلوم نہیں اور نہ ہی مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے۔
گاڑی یا موٹر سائیکل میں پٹرول/گیس ڈلوانا ہو تو ہم اسی پمپ پر جاتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ ڈنڈی نہیں مارتا، بچوں کے اسکول سے لے کر شادی بیاہ تک کے معاملات میں ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جس کسی سے ہمارا رشتہ ناطہ ہو وہ ایک مناسب آدمی ہو، کردار کا اچھا ہو، کسی دو نمبر کام اس کا حوالہ نہ ہو اور معاشرے میں اچھی شہرت کا حامل ہو۔ کونسی زبان بولتا ہے کس گروہ یا فرقے سے اس کا تعلّق ہے ہرگز ہمارا ایشو نہیں ہوتا لیکن ....معاملہ جب دھرتی 'ماں' کا آتا ہے تو ہمارے تمام تر تعصبات امڈ امڈ کر باہر نکلتے ہیں۔ ذات، برادری، رنگ، نسل، فرقہ، پارٹی ۔۔۔۔ غرض کہ ہر وہ چیز جس کو ہم عام زندگی اور لین دین کے معاملات میں کردار کے مقابلہ میں شاید ایک فیصد بھی فوقیت نہیں دیتے وہ دھرتی ''ماں'' کے معاملے میں ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہو جاتی ہے اور ہم اپنی''ماں'' کو کسی بدکردار، کرپٹ اور بے ایمان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو لیڈر/پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
اب اگر یہی منطق روز مرّہ کے معاملات میں اختیار کرنے کو کہا جائے تو شاید ہم کو منظور نہ ہو۔ مثال کے طور پر کسی بھی کمپنی کی ہر پروڈکٹ اچھی نہیں ہوا کرتی، گاڑی سے لے کر موبائل فون کی خریداری تک جب تک ہم اچھی طرح جانچ پڑتال نہ کر لیں اور 4، 3 لوگوں سے مشورہ نہ کر لیں، نہیں خریدتے، بھلے برانڈ کتنا ہی مشہور اور جانا پہچانا کیوں نہ ہو۔
لہٰذا یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ لیڈر یا پارٹی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر اس پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر ایک اچھے کردار کا حامل نہیں تو اس سے اچھی توقع رکھنا محض غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں اور ویسے بھی پارٹیاں بدلنے کا رواج تو ہمارے یہاں بہت عام سی بات ہے مطلب آپ نے جس پارٹی کے مقابلہ میں کسی کو ووٹ دیا وہ بندہ آپ کے ووٹ سمیت آپ کے مخالف سے جا ملا۔ ایک اور بات جو اس ضمن میں کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ''کسی کے ماتھے پر تھوڑی لکھا کہ وہ کیسا آدمی ہے''، تو جناب، آپ سے اچھے تو وہ غیر تعلیم یافتہ دیہاتی/قبائلی نہیں ہوتے جو اپنے معاملات کی ذمے داری اپنے قبیلے یا گاؤں کے بہترین لوگوں کے حوالے کرتے ہیں؟ کیا ہم اتنی بنجر قوم ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی میں سے چند سو ایسے لوگ نہیں منتخب کر سکتے جو کہ صاحب کردار ہوں؟
آج ہم میں سے ہر ایک پریشان ہے اور ملک میں ایک اچھی تبدیلی کا آرزومند بھی، ہم مہنگائی، غربت، لاقانونیت اور امن و امان کی مخدوش صورت حال سے پریشان بھی ہیں اور روزگار کی عدم دستیابی سے دل گرفتہ بھی لیکن ہم اپنی روش سے باز آنے کو تیار نہیں۔ ہمارا تعلّق کسی بھی پارٹی سے ہو ہمارا لیڈر کوئی بھی لیکن جب تک ہمارے حلقے سے منتخب ہونے والا فرد صاحب کردار نہ ہو، تبدیلی نہیں آسکتی۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
اس محلے میں ہم گزشتہ5 سال سے مقیم ہیں اور شروع سے ہی سودا سلف امجد سے لیا کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امجد ایک ایماندار آدمی ہے، کبھی ڈنڈی نہیں مارتا، کم تولنا تو دور کی بات اکثر زیادہ ہی تول دیتا ہے، سامان کی کوالٹی بہترین اور ریٹ انتہائی مناسب...انسان خوش مزاج اور ملنسار۔ ہاں لیکن'اپنے لوگوں' میں سے نہیں ہے۔ سندھ کے کسی گاؤں سے تعلق ہے اور فرقہ کیا ہے، یہ معلوم نہیں اور نہ ہی مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے۔
گاڑی یا موٹر سائیکل میں پٹرول/گیس ڈلوانا ہو تو ہم اسی پمپ پر جاتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ ڈنڈی نہیں مارتا، بچوں کے اسکول سے لے کر شادی بیاہ تک کے معاملات میں ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جس کسی سے ہمارا رشتہ ناطہ ہو وہ ایک مناسب آدمی ہو، کردار کا اچھا ہو، کسی دو نمبر کام اس کا حوالہ نہ ہو اور معاشرے میں اچھی شہرت کا حامل ہو۔ کونسی زبان بولتا ہے کس گروہ یا فرقے سے اس کا تعلّق ہے ہرگز ہمارا ایشو نہیں ہوتا لیکن ....معاملہ جب دھرتی 'ماں' کا آتا ہے تو ہمارے تمام تر تعصبات امڈ امڈ کر باہر نکلتے ہیں۔ ذات، برادری، رنگ، نسل، فرقہ، پارٹی ۔۔۔۔ غرض کہ ہر وہ چیز جس کو ہم عام زندگی اور لین دین کے معاملات میں کردار کے مقابلہ میں شاید ایک فیصد بھی فوقیت نہیں دیتے وہ دھرتی ''ماں'' کے معاملے میں ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہو جاتی ہے اور ہم اپنی''ماں'' کو کسی بدکردار، کرپٹ اور بے ایمان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو لیڈر/پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
اب اگر یہی منطق روز مرّہ کے معاملات میں اختیار کرنے کو کہا جائے تو شاید ہم کو منظور نہ ہو۔ مثال کے طور پر کسی بھی کمپنی کی ہر پروڈکٹ اچھی نہیں ہوا کرتی، گاڑی سے لے کر موبائل فون کی خریداری تک جب تک ہم اچھی طرح جانچ پڑتال نہ کر لیں اور 4، 3 لوگوں سے مشورہ نہ کر لیں، نہیں خریدتے، بھلے برانڈ کتنا ہی مشہور اور جانا پہچانا کیوں نہ ہو۔
لہٰذا یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ لیڈر یا پارٹی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر اس پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر ایک اچھے کردار کا حامل نہیں تو اس سے اچھی توقع رکھنا محض غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں اور ویسے بھی پارٹیاں بدلنے کا رواج تو ہمارے یہاں بہت عام سی بات ہے مطلب آپ نے جس پارٹی کے مقابلہ میں کسی کو ووٹ دیا وہ بندہ آپ کے ووٹ سمیت آپ کے مخالف سے جا ملا۔ ایک اور بات جو اس ضمن میں کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ''کسی کے ماتھے پر تھوڑی لکھا کہ وہ کیسا آدمی ہے''، تو جناب، آپ سے اچھے تو وہ غیر تعلیم یافتہ دیہاتی/قبائلی نہیں ہوتے جو اپنے معاملات کی ذمے داری اپنے قبیلے یا گاؤں کے بہترین لوگوں کے حوالے کرتے ہیں؟ کیا ہم اتنی بنجر قوم ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی میں سے چند سو ایسے لوگ نہیں منتخب کر سکتے جو کہ صاحب کردار ہوں؟
آج ہم میں سے ہر ایک پریشان ہے اور ملک میں ایک اچھی تبدیلی کا آرزومند بھی، ہم مہنگائی، غربت، لاقانونیت اور امن و امان کی مخدوش صورت حال سے پریشان بھی ہیں اور روزگار کی عدم دستیابی سے دل گرفتہ بھی لیکن ہم اپنی روش سے باز آنے کو تیار نہیں۔ ہمارا تعلّق کسی بھی پارٹی سے ہو ہمارا لیڈر کوئی بھی لیکن جب تک ہمارے حلقے سے منتخب ہونے والا فرد صاحب کردار نہ ہو، تبدیلی نہیں آسکتی۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔