یہ ہے امریکا…

امریکا کی سرزمین پر چند صدیوں پیش تر ریڈ انڈین بالکل اسی طرح بستے تھے جس طرح قرنوں پہلے یہودی فلسطین میں آباد تھے

امریکا کی سرزمین پر چند صدیوں پیش تر ریڈ انڈین بالکل اسی طرح بستے تھے جس طرح قرنوں پہلے یہودی فلسطین میں آباد تھے۔ فوٹو: فائل

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ اس سیارے کا نام جس پر ہم رہتے ہیں ''امریکا'' نہیں زمین ہے۔ امریکا تو اس سیّارے کا ایک ملک ہے، جس کی مستقل سرحدیں ہیں، البتہ یہ سرحدیں دوسروں کے لیے ہیں، خود امریکیوں کے لیے تو ''نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے'' والا معاملہ ہے۔

جہاں تک امریکا کے جغرافیے کا تعلق ہے اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہوتا ہے، یہاں تک کہ خود امریکی بھی اتنی ترقی کے باوجود اب تک اپنا جغرافیہ دریافت نہیں کر پائے ہیں۔ اس لیے کسی بھی ملک کو امریکہ کا حصہ سمجھ ''بیٹھتے'' ہیں۔ اس تجاہل کا مظاہرہ وہ اکثر دیگر ممالک کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں، مثلاً افغانستان روانہ کیا جانے والا ان کا میزائل پاکستان میں آگرتا ہے۔

امریکا کولمبس نے دریافت کیا تھا، جسے بھی یہ بات بتاؤ وہ آستینیں چڑھا کر کولمبس کا پتا دریافت کرنے لگتا ہے۔ دراصل کولمبس انڈیا کی تلاش میں نکلا تھا مگر سمندر میں بھٹک کر امریکا دریافت کر بیٹھا، شاید کولمبس کی اس ''لغزش'' ہی پر شاعر نے کہا تھا ''لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔''

اس واقعے سے ہمیں قدیم ہندوستانیوں کے سمندر کے سفر سے گریز کی وجہ بہ خوبی سمجھ میں آجاتی ہے۔

امریکا کی سرزمین پر چند صدیوں پیش تر ریڈ انڈین بالکل اسی طرح بستے تھے جس طرح قرنوں پہلے یہودی فلسطین میں آباد تھے۔ ہم نے یہ مثال یوں ہی دے دی، براہ کرم اسے علامہ اقبال کے سوال ''ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا'' کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ عین نوازش ہوگی۔


ان ریڈ انڈینز یا سرخ ہندیوں کا کمیونزم کی سرخی سے اگرچہ کوئی تعلق نہیں مگر دونوں کا انجام اور انجام تک پہنچانے والے ایک ہی ہیں۔ ویسے یہ بھی اک طرفہ تماشا ہے کہ جب تک ہندوستان ایک طاقت ور ملک تھا گوروں کی نظر میں یہاں کے باشندے سرخ ہندی تھے، لیکن سلطنت انگلیشیہ کا حصہ بنتے ہی یہ بے چارے کالے ہندوستانی کہے جانے لگے۔ پتا نہیں اسے سرخ روئی کی سیاہ بختی میں تبدیلی کہیں گے یا نظروں کا بدل جانا۔

امریکی اپنی زبان کو انگریزی کہتے ہیں۔ یہ وہ انگریزی ہے جو انگریزوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتی، تاہم ان کے وزیراعظم ٹونی بلیئر صاحب خوب سمجھ لیتے ہیں، بل کہ اسی لب و لہجہ میں بول بھی لیتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی انگریزی پڑھ کر انگریز لغت کھولنے پر مجبور ہوجاتے تھے مگر امریکیوں کی انگریزی سن کر ان کا خون کھول اٹھتا ہے۔

مشرق کے معصوم لوگ زبان اور گوری رنگت کی وجہ سے امریکیوں اور انگریزوں میں تمیز نہیں کر پاتے، تاہم حالات نے یہ فرق آسان بنادیا ہے۔ آپ کسی گورے کے سامنے اسامہ اور القاعدہ کا ذکر لے بیٹھیں اگر اس کا چہرہ سرخ ہوجائے تو انگریز اور پیلا پڑجائے تو امریکی۔

امریکا میں صدارتی نظام حکومت اور بڑی مستحکم جمہوریت ہے، لہٰذا حسن ظن ہونا چاہیے کہ جارج ڈبلیو بش صاحب بھی عوام کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے۔ اب رہا یہ سوال کے انہیں کن خصوصیات کی بناء پر چنا گیا تو ہمیں بڑی دماغ سوزی کے بعد اس ''انتخاب لاجواب'' کی اک یہی وجہ سمجھ میں آئی کہ موصوف شکلاً اور عملاً اپنے والد پرگئے ہیں اور آن دی ریکارڈ (On the record) بھی ان ہی کے صاحبزادے ہیں، امریکا میں یہ بڑے شرف و اعزاز کی بات ہے۔

ہم امریکیوں کی بہت سی خوبیوں پر دل و جان سے فدا ہیں، مثلاً ان کی دوست نوازی تو بے مثال ہے، دوست پر فائر بھی کرتے ہیں تو فرینڈلی، اسی طرح جمہوریت پسندی میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، جمہوریت کے تو ایسے سچے عاشق ہیں کہ معشوق کو ان بادشاہوں کے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے جن کے کردار پر ذرّہ برابر بھی شک و شبہہ ہو۔

ہم نے امریکا کا مختصر تعارف پیش کردیا۔ اگر آپ کو اس سے زیادہ جاننے کی خواہش ہو تو امریکا چلے جائیں، جانا مشکل ہو تو کسی طرح مشہور کرادیجئے کہ آپ 11 ستمبر 2001ء کی صبح اپنی گلی میں مشکوک اور اضطراب کی حالت میں ٹہل رہے تھے۔ ادھر یہ اطلاع امریکا پہنچے گی، ادھر خود امریکی آکر آپ کو لے جائیں گے، نہ ویزے کا جھنجھٹ نہ ٹکٹ کا خرچہ۔
Load Next Story