بال جب قاتل بن جائے
کرکٹ گیند دس انسانوں کو عالم ِبالا پہنچا چکی
ایک عاقل کا قول ہے: '' مرنے والے کی زندگی رہنے والوں کی یادداشت میں محفوظ رہتی ہے۔'' پچھلے دنوں آسٹریلوی کرکٹر، فلپ ہیوز ایک دلدوز حادثے سے دوچار ہوا، تو اپنی زندگی کی حسین یادیں بھی اپنے پیاروں کے ذہنوں اور دلوں میں چھوڑ گیا۔ بھری جوانی میں اس خوبصورت نوجوان کی موت سبھی اپنے پرایوں کو افسردہ کرگئی۔
فلپ ہیوز لکڑی اور چمڑے سے بنی بھاری بھرکم کرکٹ بال کا نشانہ بنا جو پچھلے ڈیڑھ سو برس کے دوران میدان میں دس افراد کی قیمتی جانیں لے چکی۔ جب یہ بھاری گیند تیز رفتاری سے کرائی جائے، تو اڑتا میزائل بن جاتی ہے۔ تب یہ خصوصاً دل کے نزدیک سینے پہ یا دماغ سے ٹکرائے تو شدتِ ضرب خون کی شریانیں و رگیں پھاڑ کر انسان کو کنارِ قبر تک پہنچا دیتی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق 25 سالہ برطانوی کھلاڑی، جارج سمرز (George Summers) پہلا معلوم کرکٹر ہے جو قاتل گیند کا شکار ہوا۔ جارج سمرز ناٹنگھم شہر کا باسی تھا اور ناٹنگھم شائر کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتا۔ عمدہ بلے باز تھا اور جب جم جاتا تو معاصر بالروں کی خوب ٹھکائی کرتا۔
جون 1870ء کے دوسرے ہفتے ناٹنگھم شائر کلب کی ٹیم لندن پہنچی۔ اس نے مشہور ایم سی سی (میری لی بورن کرکٹ کلب) سے میچ کھیلنا تھا جس کی قیادت لیجنڈری کھلاڑی، ڈبلیو جی گریس کررہے تھے۔ پچھلے سال بھی دونوں ٹیموں کے مابین مقابلہ ہوا تھا جو مہمانوں نے جیت لیا۔ چناں چہ اس بار ایم سی سی والے انہیں شکست دے کر مزہ چکھانا چاہتے تھے۔
17 جون کو تین روزہ میچ شروع ہوا۔ ناٹنگھم کلب میں اچھے بالر موجود تھے اور انہوں نے میزبانوں کو کُھل کر کھیلنے نہیں دیا۔ چناںچہ آخری دن مہمانوں کوصرف 157 رن بنانے کا ٹارگٹ ملا۔ ناٹنگھم والوں کو اپنی جیت صاف نظر آرہی تھی لہٰذا وہ بہت خوش تھے۔ اُدھر ایم سی سی کے بالروں کی سعی تھی کہ کسی نہ کسی طرح معاصر بیٹسمین آؤٹ کیے جائیں۔
کپتان کی فرمائش یا ازخود ایم سی سی کا بالر، جان پلاٹس (John Platts) بڑی تیز بالنگ کرانے لگا۔ وہ لمبا چوڑا اور طاقتور بالر تھا لہٰذا اس کی پھینکی گئی بال کسی میزائل کے مانند بلے باز کی سمت بڑھتی۔ جلد ہی اس نے ناٹنگھم کا پہلا کھلاڑی آؤٹ کردیا۔
اب حسب معمول تیسرے نمبر پر جارج سمرز نمودار ہوا۔ جان پلاٹس نے اسے بھی تیز رفتار گیند کرائی۔ بال ٹپا کھا کر اچھلی اور اس کے سر پر جالگی۔ سمرز کو دن میں تارے نظر آگئے۔ وہ تیورا کر گر پڑا۔
سبھی کھلاڑی اس کی طرف دوڑ پڑے۔ اسے سہارا دیا، مالش وغیرہ کی اور پانی وغیرہ پلایا، پھر اسے پویلین واپس پہنچا دیا گیا۔ اگلی باری ناٹنگھم کلب کے کپتان، رچرڈ ڈیفٹ کی تھی۔ وہ جان پلاٹس کی خطرناک بالنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سر پر تولیہ باندھے میدان میں داخل ہوا۔ ظاہر ہے، اس وقت ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا رچرڈ صاحب کو تولیہ ہی بطور دفاعی ہتھیار استعمال کرنا پڑا۔
میچ عمدہ کارکردگی کے باعث مہمان ٹیم نے جیت لیا۔ ادھر شام تک سمرز کی طبیعت صحیح نہیں ہوئی۔ رچرڈ ڈیفٹ اور دیگر کھلاڑیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ لندن رک کر علاج کرائے، مگر سمرز گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ چناں چہ وہ بھی ٹیم کے ساتھ بذریعہ ریل ناٹنگھم روانہ ہوگیا۔
تین دن بعد یعنی 22 جون کو وہ گھر میں چل پھر رہا تھا کہ اچانک گرا اور آناً فاناً چل بسا۔ قدرتاً گھر میں کہرام مچ گیا۔ اس کے باپ کو جوان جہان بیٹے کی موت پر اتنا گہرا صدمہ پہنچا کہ وہ بھی چند ماہ بعد اگلے جہان جا پہنچا ۔ یوں ایک خطرناک گیند نے بھرا پرا گھر تباہ کر ڈالا۔
خیال ہے کہ جان سمرز کی ایسی رگ پر گیند لگی جو خون دماغ تک پہنچاتی ہے۔ ضرب کے باعث رگ سے خون رسنے لگا۔ جب وہ دماغ میں جمع ہوا، تو آکسیجن کا راستہ رک گیا۔ چناں چہ آکسیجن نہ ملنے سے جھٹ پٹ سمرز موت کے منہ میں پہنچ گیا۔
پاکستان کے بھی دو کھلاڑی چوبی گیند کا شکار بن کر عالم بالا پہنچ چکے۔ پہلا واقعہ 17 جنوری 1959ء کو پیش آیا۔ اس دن قائداعظم ٹرافی کا فائنل کراچی اور پاکستان کمبائنڈ سروسز کے مابین کھیلا گیا۔ یہ پانچ روزہ میچ تھا۔
کراچی کی ٹیم نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیم میں حنیف محمود، مشتاق محمد، علیم الدین، وقار حسن، وزیر محمود وغیرہ جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھے جبکہ انتخاب عالم اور ڈی سوزا بطور بالر لیے گئے۔ وکٹ کیپر عبدالعزیز تھے۔
کراچی کے کھلاڑیوں نے عمدہ آغاز کیا اور پہلی وکٹ 130 سکور پر گری لیکن پھر کھلاڑی وقفے وقفے سے آؤٹ ہونے لگے۔ آٹھویں نمبر پر 18 سالہ ابھرتے وکٹ کیپر، عبدالعزیز بلے بازی کرنے آئے۔
کہا جاتا ہے، عبدالعزیز کا دل کمزور تھا۔ اب دوران کھیل یہ ہوا کہ اسپنر، دلدار اعوان کی گیند ٹپا کھا کر اچھلی، تو عبدالعزیز کے سینے سے جاٹکرائی۔ فوراً ہی انہیں شدید تکلیف ہوئی اور وہ گر پڑے۔
ساتھیوں نے پہلے انہیں ابتدائی طبی امداد دی لیکن جب عبدالعزیز کی حالت نہ سنبھلی، تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ انتقال کرگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس المناک حادثے کے بعد میچ ملتوی نہیں ہوا۔ شاید اس لیے کہ وہ قائداعظم ٹرافی کا فائنل تھا اور مزید کچھ قباحتیں بھی آڑے آگئی ہوں گی۔ وہ میچ کراچی ٹیم نے 279 رن سے جیتا۔
سینے پر گیند لگ کر چل بسنے کا ماجرا پاکستان میں چون برس بعد سکھر میں دہرایا گیا۔ اس دن دو مقامی ٹیموں، سپر سٹار کرکٹ کلب اور سندھ ینگ کرکٹ کلب کے مابین میونسپل اسٹیڈیم میں میچ ہوا۔ 22 سالہ سالہ ذوالفقار بھٹی اول الذکر کلب کے ابھرتے بلے باز تھے۔
سپرسٹار کرکٹ کلب نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کی۔ ایک اوپنر آؤٹ ہوا، تو ذوالفقار بھٹی کھیلنے آیا۔ دوسری بال اس کے سینے میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ راستے ہی میں چل بسا۔ اس طرح خونی گیند نے ایک اور پاکستانی کھلاڑی کی جان لے لی۔
یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ اسرائیل سے خبر آئی، وہاں 55 سالہ ہلال آسکر نامی امپائر گیند لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ موصوف اسرائیل کی قومی کرکٹ ٹیم کا سابق کپتان تھا۔
اطلاعات کے مطابق ہلال آسکرایک میچ میں امپائرنگ کررہا تھا۔ بلے باز نے سیدھی شاٹ ماری۔ گیند وکٹوں سے لگ کر اچھل گئی۔ امپائر نے بچنے کی کوشش کی مگر گیند اس کے جبڑے سے آٹکرائی۔ وہ فوراً بے ہوش ہوگیا۔ کھلاڑی اسے ہسپتال لے گئے مگر وہ دوران راہ ہی چل بسا۔
٭٭٭
درج بالا الم ناک واقعات سے عیاں ہے کہ چوبی کرکٹ گیند خاصی خطرناک شے بن چکی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ گیند کو لکڑی کے بجائے کسی ایسے سخت میٹریل سے بنایا جائے جو زیادہ ہلاکت خیز ثابت نہ ہو۔ فی الوقت تو یہ چوبی سرخ گیند انسانوں کو لہو میں نہلانے لگی ہے۔ یا پھر بلے باز فولادی خود اور زرہ بکتر پہن کر میدان میں جائیں جیسے زمانہ قدیم میں فوجی اپنی جان بچانے کے لیے سرتاپا لوہے کا لباس پہن لیا کرتے تھے۔
فلپ ہیوز لکڑی اور چمڑے سے بنی بھاری بھرکم کرکٹ بال کا نشانہ بنا جو پچھلے ڈیڑھ سو برس کے دوران میدان میں دس افراد کی قیمتی جانیں لے چکی۔ جب یہ بھاری گیند تیز رفتاری سے کرائی جائے، تو اڑتا میزائل بن جاتی ہے۔ تب یہ خصوصاً دل کے نزدیک سینے پہ یا دماغ سے ٹکرائے تو شدتِ ضرب خون کی شریانیں و رگیں پھاڑ کر انسان کو کنارِ قبر تک پہنچا دیتی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق 25 سالہ برطانوی کھلاڑی، جارج سمرز (George Summers) پہلا معلوم کرکٹر ہے جو قاتل گیند کا شکار ہوا۔ جارج سمرز ناٹنگھم شہر کا باسی تھا اور ناٹنگھم شائر کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتا۔ عمدہ بلے باز تھا اور جب جم جاتا تو معاصر بالروں کی خوب ٹھکائی کرتا۔
جون 1870ء کے دوسرے ہفتے ناٹنگھم شائر کلب کی ٹیم لندن پہنچی۔ اس نے مشہور ایم سی سی (میری لی بورن کرکٹ کلب) سے میچ کھیلنا تھا جس کی قیادت لیجنڈری کھلاڑی، ڈبلیو جی گریس کررہے تھے۔ پچھلے سال بھی دونوں ٹیموں کے مابین مقابلہ ہوا تھا جو مہمانوں نے جیت لیا۔ چناں چہ اس بار ایم سی سی والے انہیں شکست دے کر مزہ چکھانا چاہتے تھے۔
17 جون کو تین روزہ میچ شروع ہوا۔ ناٹنگھم کلب میں اچھے بالر موجود تھے اور انہوں نے میزبانوں کو کُھل کر کھیلنے نہیں دیا۔ چناںچہ آخری دن مہمانوں کوصرف 157 رن بنانے کا ٹارگٹ ملا۔ ناٹنگھم والوں کو اپنی جیت صاف نظر آرہی تھی لہٰذا وہ بہت خوش تھے۔ اُدھر ایم سی سی کے بالروں کی سعی تھی کہ کسی نہ کسی طرح معاصر بیٹسمین آؤٹ کیے جائیں۔
کپتان کی فرمائش یا ازخود ایم سی سی کا بالر، جان پلاٹس (John Platts) بڑی تیز بالنگ کرانے لگا۔ وہ لمبا چوڑا اور طاقتور بالر تھا لہٰذا اس کی پھینکی گئی بال کسی میزائل کے مانند بلے باز کی سمت بڑھتی۔ جلد ہی اس نے ناٹنگھم کا پہلا کھلاڑی آؤٹ کردیا۔
اب حسب معمول تیسرے نمبر پر جارج سمرز نمودار ہوا۔ جان پلاٹس نے اسے بھی تیز رفتار گیند کرائی۔ بال ٹپا کھا کر اچھلی اور اس کے سر پر جالگی۔ سمرز کو دن میں تارے نظر آگئے۔ وہ تیورا کر گر پڑا۔
سبھی کھلاڑی اس کی طرف دوڑ پڑے۔ اسے سہارا دیا، مالش وغیرہ کی اور پانی وغیرہ پلایا، پھر اسے پویلین واپس پہنچا دیا گیا۔ اگلی باری ناٹنگھم کلب کے کپتان، رچرڈ ڈیفٹ کی تھی۔ وہ جان پلاٹس کی خطرناک بالنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سر پر تولیہ باندھے میدان میں داخل ہوا۔ ظاہر ہے، اس وقت ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا رچرڈ صاحب کو تولیہ ہی بطور دفاعی ہتھیار استعمال کرنا پڑا۔
میچ عمدہ کارکردگی کے باعث مہمان ٹیم نے جیت لیا۔ ادھر شام تک سمرز کی طبیعت صحیح نہیں ہوئی۔ رچرڈ ڈیفٹ اور دیگر کھلاڑیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ لندن رک کر علاج کرائے، مگر سمرز گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ چناں چہ وہ بھی ٹیم کے ساتھ بذریعہ ریل ناٹنگھم روانہ ہوگیا۔
تین دن بعد یعنی 22 جون کو وہ گھر میں چل پھر رہا تھا کہ اچانک گرا اور آناً فاناً چل بسا۔ قدرتاً گھر میں کہرام مچ گیا۔ اس کے باپ کو جوان جہان بیٹے کی موت پر اتنا گہرا صدمہ پہنچا کہ وہ بھی چند ماہ بعد اگلے جہان جا پہنچا ۔ یوں ایک خطرناک گیند نے بھرا پرا گھر تباہ کر ڈالا۔
خیال ہے کہ جان سمرز کی ایسی رگ پر گیند لگی جو خون دماغ تک پہنچاتی ہے۔ ضرب کے باعث رگ سے خون رسنے لگا۔ جب وہ دماغ میں جمع ہوا، تو آکسیجن کا راستہ رک گیا۔ چناں چہ آکسیجن نہ ملنے سے جھٹ پٹ سمرز موت کے منہ میں پہنچ گیا۔
پاکستان کے بھی دو کھلاڑی چوبی گیند کا شکار بن کر عالم بالا پہنچ چکے۔ پہلا واقعہ 17 جنوری 1959ء کو پیش آیا۔ اس دن قائداعظم ٹرافی کا فائنل کراچی اور پاکستان کمبائنڈ سروسز کے مابین کھیلا گیا۔ یہ پانچ روزہ میچ تھا۔
کراچی کی ٹیم نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیم میں حنیف محمود، مشتاق محمد، علیم الدین، وقار حسن، وزیر محمود وغیرہ جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھے جبکہ انتخاب عالم اور ڈی سوزا بطور بالر لیے گئے۔ وکٹ کیپر عبدالعزیز تھے۔
کراچی کے کھلاڑیوں نے عمدہ آغاز کیا اور پہلی وکٹ 130 سکور پر گری لیکن پھر کھلاڑی وقفے وقفے سے آؤٹ ہونے لگے۔ آٹھویں نمبر پر 18 سالہ ابھرتے وکٹ کیپر، عبدالعزیز بلے بازی کرنے آئے۔
کہا جاتا ہے، عبدالعزیز کا دل کمزور تھا۔ اب دوران کھیل یہ ہوا کہ اسپنر، دلدار اعوان کی گیند ٹپا کھا کر اچھلی، تو عبدالعزیز کے سینے سے جاٹکرائی۔ فوراً ہی انہیں شدید تکلیف ہوئی اور وہ گر پڑے۔
ساتھیوں نے پہلے انہیں ابتدائی طبی امداد دی لیکن جب عبدالعزیز کی حالت نہ سنبھلی، تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ انتقال کرگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس المناک حادثے کے بعد میچ ملتوی نہیں ہوا۔ شاید اس لیے کہ وہ قائداعظم ٹرافی کا فائنل تھا اور مزید کچھ قباحتیں بھی آڑے آگئی ہوں گی۔ وہ میچ کراچی ٹیم نے 279 رن سے جیتا۔
سینے پر گیند لگ کر چل بسنے کا ماجرا پاکستان میں چون برس بعد سکھر میں دہرایا گیا۔ اس دن دو مقامی ٹیموں، سپر سٹار کرکٹ کلب اور سندھ ینگ کرکٹ کلب کے مابین میونسپل اسٹیڈیم میں میچ ہوا۔ 22 سالہ سالہ ذوالفقار بھٹی اول الذکر کلب کے ابھرتے بلے باز تھے۔
سپرسٹار کرکٹ کلب نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کی۔ ایک اوپنر آؤٹ ہوا، تو ذوالفقار بھٹی کھیلنے آیا۔ دوسری بال اس کے سینے میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ راستے ہی میں چل بسا۔ اس طرح خونی گیند نے ایک اور پاکستانی کھلاڑی کی جان لے لی۔
یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ اسرائیل سے خبر آئی، وہاں 55 سالہ ہلال آسکر نامی امپائر گیند لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ موصوف اسرائیل کی قومی کرکٹ ٹیم کا سابق کپتان تھا۔
اطلاعات کے مطابق ہلال آسکرایک میچ میں امپائرنگ کررہا تھا۔ بلے باز نے سیدھی شاٹ ماری۔ گیند وکٹوں سے لگ کر اچھل گئی۔ امپائر نے بچنے کی کوشش کی مگر گیند اس کے جبڑے سے آٹکرائی۔ وہ فوراً بے ہوش ہوگیا۔ کھلاڑی اسے ہسپتال لے گئے مگر وہ دوران راہ ہی چل بسا۔
٭٭٭
درج بالا الم ناک واقعات سے عیاں ہے کہ چوبی کرکٹ گیند خاصی خطرناک شے بن چکی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ گیند کو لکڑی کے بجائے کسی ایسے سخت میٹریل سے بنایا جائے جو زیادہ ہلاکت خیز ثابت نہ ہو۔ فی الوقت تو یہ چوبی سرخ گیند انسانوں کو لہو میں نہلانے لگی ہے۔ یا پھر بلے باز فولادی خود اور زرہ بکتر پہن کر میدان میں جائیں جیسے زمانہ قدیم میں فوجی اپنی جان بچانے کے لیے سرتاپا لوہے کا لباس پہن لیا کرتے تھے۔