مسخ شدہ لاشیں اور سندھ

جہاں پاکستان کےمجموعی حوالے سےعمران خان کا بخار پایا جاتا ہے،سندھی نوجوانوں میں قوم پرستی کارجحان بڑھتا ہوا نظرآرہاہے۔

Jvqazi@gmail.com

سندھ کی قوم پرستی کے بڑے نشیب و فراز ہیں۔ پاکستان میں ون یونٹ کے قیام نے اس قوم پرستی کی بنیادیں ڈالیں ۔ پہلے یہ قوم پرستی دہقانوں و محکوم طبقوں اور اس ملک کی اور قوم پرست تحریکوں سے جڑی رہی اور پھر یوں بھی ہوا کہ سانحہ ڈھاکہ کے بعد بہت آگے جاتے ہوئے جی ایم سید نے سندھو دیش کا نام بنگلہ دیش کے نام سے متاثر ہوکر لگا ہی دیا۔ اس سندھو دیش کی رومانس کی پاداش میں کئی پروانے آئے اور آکر جل گئے لیکن پچھلے ہفتے اس قوم پرست تاریخ کا سیاہ ہفتہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا اس لیے کہ اتنی لاشیں یعنی آٹھ مختلف مقامات سے ملیں۔

اس سے پہلے ضیا الحق کے زمانے میں ایک بڑا واقعہ توڑی پھاٹک کے حوالے سے رقم ہے۔ یوں تو بھٹو کا زمانہ بھی کوئی کم ستم آمیز نہیں رہا ہوگا ان قوم پرستوں پر مگر خالد میاں سومرو کے قتل سے لے کر وہ آٹھ اغوا کیے ہوئے نوجوان اور پھر ان کی لاشیں ملنا،آج کا دور اس سے برا دور پھر کیسے کوئی اور نہیں ہوگا۔ اپنے خدوخال سے یہ قتل اپنے انداز میں بلوچوں کے قتل سے ملتے جلتے ہیں۔ اب جو بھی ہو لیکن ایک دھیمے انداز سے دکھتی ہوئی چلمن کی طرح اس مرتبہ سندھ سارا سرنگوں رہا ۔

رنج و غم سے چور بھی تو غصے سے بھرپور بھی۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر سال یہاں ثقافت کا دن منایا جاتا ہے جس کی ابتدا ایک ٹی وی کے چینل پر کسی اینکر کی سندھی ٹوپی پر فقروں پر ردعمل سے ہوئی ۔ یوں کہیے اس ثقافتی تہوار پر دو رائے بنتی ہیں ایک یہ کہ اس مرتبہ یہ نہ منایا جائے اور اپنے رنج کا بھرپور احتجاج رقم کرایا جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ثقافتی دن تو منایا جائے لیکن سادگی کے ساتھ۔ ان آٹھ شہادتوں سے جو ڈر یا ہیجان مجموعی طور پر پیدا ہونے کا امکان تھا، اس کے برعکس کم ازکم قوم پرستی اور جڑیں مضبوط کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

جہاں پاکستان کے مجموعی حوالے سے عمران خان کا بخار پایا جاتا ہے، سندھی نوجوانوں میں قوم پرستی کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔اور اس طرح سندھ کے اندر گڑھی خدا بخش ایک طرف تو کچھ ہی فاصلے پر ایک نیا قبرستان بشیر قریشی کے حوالے سے بھی بنتا جا رہا ہے۔ خالد محمود سومرو کو بھی ایک قوم پرست رہنما کا اعزاز کچھ زیادہ مل رہا ہے اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ مولانا سومرو بنیادی طور پر ایک مذہبی لیڈر تھے ۔لیکن وہ واحد مذہبی لیڈر تھے جو کالاباغ ڈیم کے خلاف، سندھ کے بٹوارے کے حوالے سے قوم پرستوں سے بھی سخت موقف رکھتے تھے۔

پچاس سال سے چلتی ہوئی اس طویل قوم پرستی نے علیحدگی پسند ہونے میں اپنی حیثیت زیادہ بنائی مگر کبھی بھی مزاحمتی راہ نہیں اپنائی ، وہ روایت جو آج کل بلوچ قوم پرستوں میں بہت جان پکڑ چکی ہے۔ ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ سندھ کی اس قوم پرستی نے جمہوریت کو بھی مسئلے کا حل نہیں سمجھا۔ یہ وہ بات تھی جو ضیا الحق کو بہت اچھی لگی تھی اور وہ خود جی ایم سید سے ملنے عیادت کرنے کے بہانے، خود سن آگے ۔ جی ایم سید نے بھی ایم آر ڈی کی تحریک کو چوروں اور ڈاکوؤں کی تحریک کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی۔

غور سے دیکھا جائے تو سندھ کی قوم پرستی کی سیاست کی بنیادیں، سندھ کی مڈل کلاس سیاست سے جڑی ہوئی ہیں۔ جتنا سندھ کا مڈل کلاس پسماندہ ہے اتنا ہی سندھ کے قوم پرست سیاست کی بلوغت پر سوالیہ نشان ہیں۔ اب جا کے بہت سے حلقوں میں یہ بحث سنجیدگی اختیار کرگئی کہ جمہوری سیاست ہی میں حصہ لینا چاہیے۔ لیکن اب بھی ایک قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں جس پر کوئی قوم پرست ہونے یا مڈل کلاس سیاست کے نظریے پر جیت سکتا ہو۔


لیکن ان آٹھ نوجوانوں کی لاشیں ملنے سے قوم پرست سیاست ، جو جمہوری طرز عمل سے سندھ کے حقوق کی بات وفاق کے دائرے میں رہ کر آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہتی تھی ، اس کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ آج کل اندرون سندھ سندھی اخبارات اور دیگر اردو روزناموں کے ادارتی صفحے اس رنج کے مظہر ہیں ۔ جس طرح ایم آر ڈی تحریک نے سندھ کے اندر ایک نیا سیاسی رومانس پیدا کیا تھا، اس مرتبہ وہ کام اس ہفتے ملتی ہوئی اس آٹھ لاشوں نے کیا ہے۔ افسوس اور اندیشہ کی بات یہ ہے کہ یہ ابھرتا ہوا سیاسی Narrative جمہوریت کو بے معنی سمجھتا ہے۔

یہ سوال تو بالکل ٹھیک ہے کہ ہم سب کو آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جمہوری طرز عمل اپناتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے، لیکن جو شخص مسلح طریقہ کار اپناتے ہوئے یہ مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے وہ غلط ہے اور اسے قانون کی جکڑ میں لانا چاہیے۔مگر جو ادارے ایسے قوم پرستوں کو یا کسی بھی انتہا پرست کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک جاتے ہیں کیا وہ اپنے آپ کو آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں؟ اور ایسی صورتحال میں پھر سپریم کورٹ سامنے آئی تھی اور وہ گمشدہ لوگوں والا کیس تو سب کی نظر سے گزرا ہوگا۔ اسی ویرانی دل اور وحشت و یاس میں ایسا کوئی بھی بیان نہیں آیا کہ ایسے اغوا و قتل میںکس کا ہاتھ ہے ۔ نہ حکمرانوں نے بیان دے کر ایسے ماورائے قانون قتل پر اپنا موقف دیا ہے ۔

پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 10Aنے ہر شہری کو آزاد و شفاف ٹرائل کا حق دیا ہوا ہے۔ اور جو بھی آئین سے تجاوز کرگیا وہ کسی بھی لحاظ سے اپنے آپ کو اس ملک سے مخلص نہیں کہلا سکے گا۔ ہمارے سامنے تاریخ پڑی ہے۔ ہم نے اکبر بگٹی کے ساتھ آئین سے تجاوز ہوکر جو کام کیا وہ دراصل بلوچ مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے قوم پرستوں کی کامیابی تھی ۔ ہم نے جس طریقے سے مشرقی پاکستان کے بحران کو حل کرنے کے لیے جو طریقہ اپنایا وہ خود بھی ہمیں نقصان دے گیا۔

آج کل کی ریاستیں اس طرح سے مسلح جدوجہد اور مزاحمتی تحریکوں کو نہیں کچلا کرتیں ۔ اور دوسری بات یہ کہ جن نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں کیا وہ مسلح جدوجہد میں ملوث بھی تھے کہ نہیں تھے؟ کچھ معلوم نہیں، لیکن سندھ کے اندر عام تاثر یہ ہے کہ وہ قوم پرست تو تھے مگر مسلح جدوجہد میں ملوث نہیں تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں ریل کی پٹریاں اکھاڑنے، کریکر وغیرہ پھینکنے دہشت گردی کرنے کے پہلی مرتبہ کئی بڑے واقعات ہوئے بھی ہیں ۔ اور جو بھی ایسی حرکات کر رہے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے سندھی قوم کے مخلص نہیں کہلا سکتے۔ یہ موزوں جگہ نہیں کہ اس پر اس وقت بحث کی جائے کیوںکہ پورا سندھ جذباتی تقسیم کی کیفیت میں ہے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ پاکستان کی جمہوری سیاست کا، جمہوری قوتوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جتنا یہاں کے لوگ جمہوریت کے شیدائی ہیں اتنا کوئی اور نہیں ہو گا۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ آمریتوں کے خلاف صف آرا رہے ہیں اس لیے ایسی مسلح جدوجہد کبھی بھی عوام میں جڑیں نہیں بنا پائیں گی ۔

باقی اگر کوئی علیحدگی پرست جذبات رکھتا بھی ہے ، اسی انداز سے سوچتا بھی ہے تو یہ خود جمہوریت کا حسن ہے۔ اس سے ڈرنے کی یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ سندھ ایک میدانی سرزمین ہے یہاں کی زرخیز زمینیں، پہاڑی طرز عمل جیسی زندگی کا متبادل نہیں ہوسکتیں ، لیکن کوئی ہاتھ سے اپنے ردعمل سے یہاں پر ایسے بیج بونے میں کامیاب جاتا ہے تو اس پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

جمہوریت سے بھرپور ابھرتا ، سنبھلتااور اپنے ارتقائی زینوں سے اوپر جاتا ہوا پاکستان ایسی چھوٹی فروگزاشتوں سے خود ہی کمزور کرسکتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ایسی علیحدگی پرست تحریکیں جمہوریت کی ناکامی اور آمریتوں کو ہی اپنا ایندھن سمجھتی ہیں یہی وجہ تھی کہ جی ایم سید، ضیا الحق سے ملنے پر راضی ہوگئے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ضیا الحق پاکستان کو کمزور کریگا اس طرح وہ ہمارا کام کر رہا ہے جب کہ ضیا الحق سمجھتے رہے کہ جی ایم سید جمہوریت کے خلاف ہے اس لیے وہ ہمارا کام کر رہا ہے۔
Load Next Story