کرپشن ایک عشرے کے دوران 1024 ملین ڈالر کا غیر قانونی زرمبادلہ پاکستان سے منتقل کیا گیا
انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے خصوصی رپورٹ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوئی اور نئی جغرافیائی حدود ظہور میں آنے لگیں تو ابھرتی ہوئی ان نئی مملکتوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور ان کی منڈیوں پر اجارہ داری حاصل کرنے کے لئے ترقی کے کچھ ثمرات کو ان ممالک تک پہنچانے کا فیصلہ ہوا اور اُس وقت کی چند طاقتوں کے درمیان اس حوالے سے دوڑ شروع ہوئی جس میں مارکیٹ کو قابو کرنے کے لئے مصنوعات کو ارزاں نرخ پر فراہم کرنے کے عمل کا آغازہوا اور ان مصنوعات کی خریداری کے لئے قرضہ جات کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔
یوں اپنے مالیاتی نظام کو مضبوط کرنے اور اپنی پیداوار کی کھپت کے لئے مغرب نے تیسری دنیا کے ممالک کو ایسے سنہرے جال میں پھنسایا جس میں اب وہ بری طرح پھڑپھڑا رہے ہیں اور اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے تیسر ی دنیا میں ایسے لوگوں کو بھاری رشوتیں دی گئیں جو فیصلہ ساز تھے۔ یوں بد عنوانی کے ناسور کو تیسری دنیا میں متعارف کروایا گیا اور ایک ترکش مثال ہے کہ مچھلی سب سے پہلے سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے یہی کچھ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ہوا۔
جب اعلیٰ ایوانوں میں اس کی باز گشت سنی گئی اور ان میں ناجائز دولت کے حصول کے خواہش نے انگڑائی لی تو پھر مغرب سے ملنے والے قرضوں کی خورد برد کا آغاز ہوا جو لئے تو عوام کے نام پر جاتے تھے لیکن در حقیقت ان سے فیض حاصل کرنے والے صرف اور صرف خواص ہی ہوتے تھے اس طرح زینہ بہ زینہ اوپر سے جیسے جیسے بد عنوانی میں ملوث ہونے کا عمل شروع ہوا نیچے والوں نے بھی درجہ بدرجہ اس گنگا میں نہانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دئیے ، یوں بد عنوانی کے ناسور نے تیسری دنیا کے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آج دنیا کے10بڑے بد عنوان لیڈروں کا تعلق بھی ترقی پذیر ممالک سے ہے جس میں انڈونیشیا کے سابق صدر محمد سہار تو کے غبن کے مالیت کا اندازہ 15سے35 ارب ڈالر ہے۔ دوسرے نمبر پر فلپائن کے سابق صدر فریڈینا نڈ مراکوس کے غبن کی مالیت 5 سے10ارب ڈالر اور زائر کے سابق صدر موبو ٹو سی سی سیکو کے غبن کی مالیت 5 ارب ڈالر ہے ۔ چوتھے نمبر پر نائیجیریا کے سابق صدر سالی آباچا ہیں جن کے غبن کی مالیت 2 تا پانچ ارب ڈالر ہے۔
پانچویں نمبر پر سربیا / یوگیوسلویہ کے سابق صدر سلو بوڈان میلا زویک کے غبن کی مالیت ایک ارب ڈالر ہے ۔ چھٹے نمبر پر ہیٹی کی سابق صدر جین کلارڈویلئیر کے غبن کی مالیت 3 سے8 سو ملین ڈالر ہے ۔ پیورو کے سابق صدر ایلبیر و فیجی موری نے600 ملین ڈالر کا غبن کیا اور یوکرائن کے سابق وزیر اعظم پاولولا زاراینکو نے114سے 200 ملین ڈالر کی بد عنوانی کی ۔ نکاراگوا کے سابق صدر آرنالڈ علیمین نے100ملین ڈالر کی ناجائز دولت اکھٹی کی جبکہ 10ویں نمبر پر 78 سے 80 ملین ڈالر کے غبن کے ساتھ فلپائن کے سابق صدر جوزف ایسڑاڈ ہیں ۔
تیسری دنیا میں اس قدر بڑی مقدار میں ہونے والے غبن سے حاصل شدہ ناجائز دولت جو لوٹی تو ملک سے جاتی ہے لیکن رکھی فارن اکائونٹس میں جاتی ہے۔ جس کا پھر فائدہ ان ہی ممالک کو ہوتا ہے جنہوں نے اس ناسور کو ترقی پذیر ممالک میں تقویت دینے کے عمل میں حصہ داری کی جس کا کچھ اندازہ Global Financial Integrity کی دسمبر 2013 میں جاری شدہ رپورٹ Illicit Financial Flows from Developing Countries: 2002-2011 کے ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2011 میں ترقی پذیر ممالک سے 946.7 ارب ڈالر مالیت کا غیر قانونی زرمبادلہ خطے سے باہر کے ممالک میں منتقل کیا گیا اور گزشتہ عشرے 2002-11 کے دوران مجموعی طور پر 5.9 کھرب ڈالر مالیت کا غیر قانونی زر ترقی پذیر دنیا سے باہر منتقل کیا جا چکا ہے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ شیئر، کک بیکس اورPercentage کی اصلاحات نے رشوت کے متبادل کی حیثیت لے لی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیامیں ہر سال ایک ٹریلین ڈالر رشوت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے National Corruption Perceptions Survey 2010 کے مطابق ہر سال ملک میں 223 ارب روپے معمولی رشوتوں(Petty Bibery) کی صورت میں ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان سے 2002-11 کے عشرے کے دوران Global Financial Integrity کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور 1024ملین ڈالرمالیت کا غیر قانونی زرمبادلہ باہر کی دنیا میںمنتقل کیا گیا۔ جس کی سالانہ اوسط مالیت 102 ملین ڈالر بنتی ہے۔
ہم میں سے کئی ایک کے نزدیک بد عنوانی آج ایک حق کی صورت اختیارکر چکی ہے۔کیو نکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثر معاشروں میں بد عنوانی کو قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔کام کروانے اورکام حاصل کرنے کے لئے جیب گرم کرنے کا عمل تقویت حاصل کررہا ہے۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کی مثل میں اب کاروبار کے لفظ کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔کیونکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کےBribe Payers Index 2011 کے مطابق دنیا کے28 ممالک کی کمپنیاں جو دنیا کے 80 فیصد کاروبار کو کنٹرول کرتی ہیں۔ بین الاقوامی کاروبار میں رشوت کا بھر پور سہارا لیتی ہیں۔
ان میں روس اور چین کی فرمز دنیا بھر میں کاروبار کے حصول کے لئے سب سے زیادہ رشوت دیتی ہیں ۔ (کم رشوت سے زیادہ رشوت کا سہارا لینے والے ممالک کی درجہ بندی پر مبنی اس انڈکس میں جس ملک کی کاروباری فرمز جتنا کم رشوت کا سہارا لیتی ہیں رینکنگ میں اتنا ہی پہلے نمبرز پر ہیں اور جو کاروبار میں زیادہ رشوت پر انحصار کرتی ہیں وہ ملک اتنا ہی نیچے کے درجوں پر ہوگا) دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بد عنوانی کو جتنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل بزنس میں اکثر ترقی یافتہ ممالک کی فرمز اُتنا ہی رشوت کا بازار گرم کرتی ہیں۔ اور اس کی واضح مثال Bribe Payers Index 2011 کے 28 ممالک میں سے تقریباً آدھے کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔ رشوت کا سہارا لے کر کاروبار کرنے والے ممالک کی فرمز میں پانچ مسلم ممالک ملائیشیاء، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیاء کی فرمز بھی شامل ہیں جبکہ بھارت بین الاقوامی کاروبار کے حصول میں اپنی رشوت دینے والی کمپنیوں کے ساتھ اس رینکنگ میں تائیوان اور ترکی کے ہمراہ 19 ویں نمبر پر موجود ہے۔
اس درجہ بندی میں ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ کی کمپنیاں سب سے کم رشوت دینے کے باعث سر فہرست ہیں اور بیلجیئم اورجرمنی کی کمپنیاں کم رشوت دینے کے حوالے سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ رینکنگ اس بات کی واضح علامت ہے کہ دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں۔ رشوت کے ذریعے کام حاصل کرنے یا کام کروانے کا عمل آج بھی موجود ہے ۔ بے شک اس کھیل کے پرانے کھلاڑیوں کی جگہ نئے کھلاڑیوں نے لے لی ہے لیکن بہر حال برائی تو برائی ہے چاہے اس کا کوئی بھی انجام دہندہ ہو اور اس برائی کے نتیجے میں دنیا میں کتنا زرمبادلہ ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوتا ہے اس کی مجموعی مالیت ورلڈ بینک کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ہے۔
ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی محسوس کی گئی کہ دنیا میں پھیلنے والے اس ناسور پر قابو پایا جائے اور لوگوں میں اس شعور کو پھر سے اجاگر کیا جائے کہ بد عنوانی کو روکنے کے لئے ہر ممکن طور پر اقدامات اور کوششیں کی جائیں اور افراد کے کردار کی اس خوبی کو پھر سے ابھارا جائے جو انہیں ایمانداری کی طرف راغب اور بد عنوانی سے دور رکھتی تھی ۔ اس حوالے سے دنیا کے پاس بد عنوانی کے خاتمے کے لئے ایک جامع اور مکمل پلیٹ فارم اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بد عنوانی کی صورت میں موجود ہے جو دسمبر 2005ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔
یہ بین الاقوامی سطح پر بد عنوانی کے طریقہ کار پر پہلی قانونی بندش ہے جو کرپشن کے خاتمے کے لئے عالمی رد عمل کے حصول کا ایک زبر دست موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس کنونشن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2003ء میں اختیار کیا اور ہر سال 9 دسمبر کے دن کو انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا کیونکہ اس ناسور کی نوعیت ہر ملک میں مخلتف تو ہو سکتی ہے لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک اس بیماری سے مبرا نہیں، چاہے وہ ترقی یافتہ ہو کہ ترقی پذیر ۔
دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد نے گزشتہ ایک سال کے دوران رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے ۔ رشوت کے بڑھتے ہوئے ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور معاشرے کا ایسے افراد سے سماجی قطع تعلق ماضی کی دھول میں کھوتا جا رہا ہے۔ یوں دنیا کے اکثر معاشروں میں بد عنوانی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی نشاندہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے GLOBAL CORRUPTION BAROMETER 2013 کے ان حقائق سے ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے 53 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔
29 فیصد نے کہا ہے کہ کرپشن میں گزرے 2 سال کے دوران نہ کو ئی اضافہ اور نہ ہی کمی ہوئی ہے۔ جبکہ 18 فیصد کے خیال میں مذکورہ عرصہ کے دوران کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر اگر کرپشن کی شدت کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دنیا کے زیر جائزہ 177ممالک میں سے 123 یعنی 70 فیصد میں بدعنوانی نے اپنے پنجے زیادہ مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا کے 51 فیصد رائے دہندگان نے بد عنوانی کوشدید مسئلہ قرار دیا ہے۔
پاکستان بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈکس 2013 کے مطابق اُن 123 ممالک میں شامل ہے جو بدعنوانی کے سنگین مسئلہ کا شکار ہیں۔کیونکہ گلوبل کرپشن بیرومیٹر 2013 کے مطابق پاکستان کا شمار اُن 83 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے عوام نے اپنے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ کی تائید کی ہے۔ اور72 فیصد پاکستانیوں کی رائے میں پچھلے دو سال کے دوران ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ 19 فیصد نے کہا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ 8 فیصد کا کہنا ہے ملک میں گزرے دو سال کے دوران کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، مالدیپ، نیپال ، پاکستان اور سری لنکاکے عوام میں سب سے زیادہ رائے دہندگان کے تناسب کا تعلق پاکستان اور نیپال سے ہے۔ جنہوں نے کہا ہے کہ اُن کے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 75 فیصد نے بد عنوانی کو پبلک سیکٹر کا شدید مسئلہ قرار دیا ہے۔ اور 34 فیصد پاکستانی رائے دہندگان نے گزشتہ 12ماہ کے دوران رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔
یوں ہمارا بدعنوانی کے حوالے سے جو تشخص دنیا کے سامنے آرہا ہے اُس کی منظر کشی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کےCorruption Perception Index 2013 (کم بد عنوانی سے زیادہ بدعنوانی کے شکار ممالک کی درجہ بندی پر مبنی انڈکس جس میں جو ملک جتنی کم بد عنوانی کا حامل ہو گا رینکنگ میں اتنا ہی پہلے نمبرز پر آئے گا اور جہاں بدعنوانی زیادہ ہو گی وہ ملک اتنا ہی نیچے کے درجوں پر ہو گا) سے یوں ہوتی ہے کہ پاکستان دنیا کے 177 ممالک میںآذربائیجان، کمروس،گیمبیا، لبنان، مڈگاسکر، مالی، نکاراگوا اور روس کے ہمراہ 127 ویں نمبر پر ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بنگلہ دیش اور افغانستان بدعنوانی کے حوالے سے سنگین صورتحال کی وجہ سے پاکستان سے کم تر درجوں پر موجود ہیں ۔ اس درجہ بندی میں دنیا میں سب سے کم بد عنوانی کی شدت کے حامل ملک ڈنمارک اور نیوزی لینڈ ہیں جس کے بعد فن لینڈ اور سویڈن کے ممالک ہیں۔
اس عالمی درجہ بندی میں (جس کا آغاز1995ء سے کیا گیا اور آج تک ہر سال اس درجہ بندی کا از سر نو تعین کیا جاتا ہے) سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ملک صومالیہ، شمالی کوریا اور افغانستان ہیں، یہ تینوں ممالک 175ویں نمبر پر ہیں جس کے بعد زیادہ شدید بدعنوانی کے شکار ملک بالترتیب سوڈان اورجنوبی سوڈان ہیں جو 174ویں اور173 ویں نمبر پر ہیں، نیچے سے اوپر جانے والی اس درجہ بندی میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کی رینکنگ یوں ہے کہ برطانیہ اس درجہ بندی میں 14ویں، امریکا 19ویں، فرانس22 ویں، چین 80 اور روس127ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کا اس درجہ بندی میں مقام کچھ اس طرح سے ہے کہ بھوٹان 31ویں ، سری لنکا91ویں ، بھارت94 ویں، نیپال116ویں ، بنگلہ دیش 136ویں اور افغانستان 175 ویں نمبر پر ہے۔ بد عنوانی کی شدت جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے کم بھوٹان میں ہے جو عالمی تناظر میں بھی قدرے کم ہے جو اس حوالے سے تو ایک اچھی علامت ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ایک پسماندہ ترین ملک میں کرپشن دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ معاشروں کی نسبت قدرے کم ہے لیکن بہر حال موجود ہے۔
ماہرین کے مطابق بد عنوانی حکومت کو معاشی گرداب کا شکار کردیتی ہے اور اُس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ اور ایسے میں ملک میں سرمایہ کاری خاص کر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل قدرِ محدود ہو جاتا ہے۔کیونکہ اقوام متحد ہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ''کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے''۔ اس
تناظر میں صاف شفاف طریقے سے کام کرنے والوں کے لئے سوائے حوصلہ شکنی کے اور کچھ نہیں جبکہ اس کے برعکس وہ کمپنیاں جو رشوت کا سہارا لیتے ہوئے تھوڑا دے کر زیادہ بٹورنے کے چکر میں رہتی ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور پھر ایسے معاہدات ہوتے ہیں جن میں ایسی شرائط تسلیم کرلی جاتی ہیں جو کہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہوتیں ۔ اور ایسی کئی ایک مثالیں ہمیں اپنے ملک میں اپنے اردگرد ملتی ہیں جن کے پس منظر میں کرپشن کے وسیع امکانات کے بارے میں عوام الناس میں قیاس آرائیاں آج بھی موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ بد عنوانی انسانی ترقی اور جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ اس کے باعث عوامی فلاح و بہبود کی خدمات کی فراہمی میں کمی آجاتی ہے۔کیونکہ وسائل عوام پر خرچ ہونے کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول میں استعمال ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جو صورتحال سامنے آتی ہے اس کی وضاحت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 2009 میں انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں یوں کی '' عوام کا پیسہ نجی مفادکیلئے چوری کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں کی تعمیر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے وسائل کم ہو جاتے ہیں۔ جب غیر ملکی امداد کا رخ پرائیویٹ بینک اکائونٹس کی طرف موڑ دیا جائے تو بنیادی ڈھانچوں کے اہم منصوبے رک جاتے ہیں''۔ شاید ان ہی وجوہات کی بناء پر پاکستان یو این ڈی پی کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس2013 میں دنیا کے 187 ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے 146 ویں نمبر پر ہے۔ اور اس کا شمار Low human development کی کیٹگری میں شامل ممالک میں ہوتا ہے۔کیونکہ ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق بدعنوانی ملک کی 17 فیصد جی ڈی پی کے برابر ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک کے 1998 کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی ملک کے 10 فیصد جی ڈی پی کے برابر تھی۔
بدعنوانی قانون کی عملداری کو گھن لگاتے ہوئے جمہوریت کی روح پرضرب لگاتی ہے۔ یہ جمہوری اداروں اور رہنمائوں پر عوام کے اعتماد کومتزلزل کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے GLOBAL CORRUPTION BAROMETER 2013 کے مطابق دنیا کے 65 فیصد رائے دہندگان نے سیاسی جماعتوں کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا ہے جبکہ 57 فیصد کی آراء ہے کہ پارلیمنٹ اور قانون ساز ادارے بدعنوانی کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹ دینے کا باعث بنتی ہے اور پاکستان اس صورتحال سے متعدد بار گزر چکا ہے۔
بدعنوانی سیاسی استحکام اور معاشی فروغ اور نمو کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم سنبھلنا نہیں چاہتے اور بدستور بد عنوانی کی ڈگر پر گامزن ہیں ۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے اور خریداری کے کام بدعنوانی کے زہر سے آلودہ ہیں جبکہ بنکوں سے قرضہ معاف کروانا بھی سنگین نوعیت کی بدعنوانی ہے۔ اس کے علاوہ صحت کا شعبہ تو بد عنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور مشینری و سامان کی خریداری اور خدمات مہیا کرنے میں بدعنوانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غیر معیاری ادویات، جعلی ہیلتھ سرٹیفیکٹس، ڈاکٹروں کو ادویات کی سیلز پرموشن کے نام پر تحائف اور مراعات کی فراہمی جیسی کئی ایک اور چیزیں بھی صحت کے شعبے کو کرپشن زدہ کر رہی ہیں۔ لیکن ایساصرف ہمارے یہاں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کی کچھ نہ کچھ جھلک مو جود ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں فراڈ اور صحت کی سہولیات کے غلط استعمال سے ہر انفرادی حکومت کو 23 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو تا ہے۔
صحت کے شعبے میں بد عنوانی براہ راست انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت انتباہ کرتا ہے کہ ایسے ممالک جہاں بدعنوانی کی صورتحال زیادہ سنگین ہے وہاں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ تو پھر کیا یہی وجہ تو نہیں کہ پاکستان پانچ سال اور اس سے کم عمر بچوں کی اموات کے حوالے سے یو نیسیف کی ورلڈ رینکنگ میں دنیا کے195 ممالک میں 26 ویں نمبر پر ہے؟۔
اس کے علاوہ ماہرین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ بدعنوانی منظم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے۔ بد عنوانی منی لانڈرنگ سے جڑی ہوئی ہے اور غیر قانونی ذرائع سے رقوم کی بین الاقوامی ترسیل انٹرنیشنل دہشت گردی کو معاونت مہیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے ہم امن وامان کی جس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ وہ شایدبد عنوانی کی وجہ سے ہمارے ہی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔
بدعنوانی ملک کے تقریباً ہر شعبے میں سرائیت کر چکی ہے۔ لیکن بعض شعبہ جات میں یہ سنگین نوعیت کی ہے۔ جس کی نشاندہی TI Pakistan کے National Corruption Perceptions Survey 2011 میں یوں کی گئی ہے کہ ملک کا کرپٹ ترین ادارہ Land Administration کا ہے۔ دوسرے نمبر پر بد عنوان ادارہ پولیس کا جبکہ Taxation ملک کا تیسرا بڑا کرپٹ دارہ ہے۔
بدعنوانی پر مبنی Practices نے ہماری Credibility کو بین الاقوامی سطح پر شدید متاثر کیا ہے۔ اور آج ہم اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ معاشی معاملات میںہم پر کو ئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنی ساکھ کی بحالی، اپنے شکست وریخت کا شکار ہوتے سسٹم کو بچانے ، غربت کے خاتمے ، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور معاشی مسائل سے نکلنے کے لئے بد عنوانی کا خاتمہ جنگی بنیادوں پرکرنا ہوگا ۔کیونکہ کوئی بھی قوم بدعنوانی کے خلاف صف آرا ہوکر اور قانون کی عملداری کو بہتر بناکر اپنی قومی آمدن میں 400 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہے۔
کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کے ساتھ ساتھ ایسے نظام کو بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے جو کرپشن کے مواقعوں کو محدود سے محدود تر کر د ے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بدعنوانی کے خاتمے کی کوششیں خود بد عنوانی کا شکار بن کر متنازعہ ہو رہی ہیں۔
سیاسی مداخلت نے احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام اور سیاسی نوازش کی روش پر ڈال دیا ہے اور بھاگتے چور کی لنگوٹی کی مثل پر کام کرنے والے احتسابی عمل نے بدعنوان عناصر کو جس انداز میںڈرائی کلین کیا ہے وہ بد عنوانی کی حوصلہ شکنی کا قطعاً باعث نہیں بن رہا ۔ اور اوپر سے ایسے قوانین کا اطلاق جو بد عنوان عناصر کو قانون کی گرفت سے بچالیں رہی سہی کسر بھی پوری کر رہے ہیں۔
یوں اپنے مالیاتی نظام کو مضبوط کرنے اور اپنی پیداوار کی کھپت کے لئے مغرب نے تیسری دنیا کے ممالک کو ایسے سنہرے جال میں پھنسایا جس میں اب وہ بری طرح پھڑپھڑا رہے ہیں اور اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے تیسر ی دنیا میں ایسے لوگوں کو بھاری رشوتیں دی گئیں جو فیصلہ ساز تھے۔ یوں بد عنوانی کے ناسور کو تیسری دنیا میں متعارف کروایا گیا اور ایک ترکش مثال ہے کہ مچھلی سب سے پہلے سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے یہی کچھ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ہوا۔
جب اعلیٰ ایوانوں میں اس کی باز گشت سنی گئی اور ان میں ناجائز دولت کے حصول کے خواہش نے انگڑائی لی تو پھر مغرب سے ملنے والے قرضوں کی خورد برد کا آغاز ہوا جو لئے تو عوام کے نام پر جاتے تھے لیکن در حقیقت ان سے فیض حاصل کرنے والے صرف اور صرف خواص ہی ہوتے تھے اس طرح زینہ بہ زینہ اوپر سے جیسے جیسے بد عنوانی میں ملوث ہونے کا عمل شروع ہوا نیچے والوں نے بھی درجہ بدرجہ اس گنگا میں نہانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دئیے ، یوں بد عنوانی کے ناسور نے تیسری دنیا کے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آج دنیا کے10بڑے بد عنوان لیڈروں کا تعلق بھی ترقی پذیر ممالک سے ہے جس میں انڈونیشیا کے سابق صدر محمد سہار تو کے غبن کے مالیت کا اندازہ 15سے35 ارب ڈالر ہے۔ دوسرے نمبر پر فلپائن کے سابق صدر فریڈینا نڈ مراکوس کے غبن کی مالیت 5 سے10ارب ڈالر اور زائر کے سابق صدر موبو ٹو سی سی سیکو کے غبن کی مالیت 5 ارب ڈالر ہے ۔ چوتھے نمبر پر نائیجیریا کے سابق صدر سالی آباچا ہیں جن کے غبن کی مالیت 2 تا پانچ ارب ڈالر ہے۔
پانچویں نمبر پر سربیا / یوگیوسلویہ کے سابق صدر سلو بوڈان میلا زویک کے غبن کی مالیت ایک ارب ڈالر ہے ۔ چھٹے نمبر پر ہیٹی کی سابق صدر جین کلارڈویلئیر کے غبن کی مالیت 3 سے8 سو ملین ڈالر ہے ۔ پیورو کے سابق صدر ایلبیر و فیجی موری نے600 ملین ڈالر کا غبن کیا اور یوکرائن کے سابق وزیر اعظم پاولولا زاراینکو نے114سے 200 ملین ڈالر کی بد عنوانی کی ۔ نکاراگوا کے سابق صدر آرنالڈ علیمین نے100ملین ڈالر کی ناجائز دولت اکھٹی کی جبکہ 10ویں نمبر پر 78 سے 80 ملین ڈالر کے غبن کے ساتھ فلپائن کے سابق صدر جوزف ایسڑاڈ ہیں ۔
تیسری دنیا میں اس قدر بڑی مقدار میں ہونے والے غبن سے حاصل شدہ ناجائز دولت جو لوٹی تو ملک سے جاتی ہے لیکن رکھی فارن اکائونٹس میں جاتی ہے۔ جس کا پھر فائدہ ان ہی ممالک کو ہوتا ہے جنہوں نے اس ناسور کو ترقی پذیر ممالک میں تقویت دینے کے عمل میں حصہ داری کی جس کا کچھ اندازہ Global Financial Integrity کی دسمبر 2013 میں جاری شدہ رپورٹ Illicit Financial Flows from Developing Countries: 2002-2011 کے ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2011 میں ترقی پذیر ممالک سے 946.7 ارب ڈالر مالیت کا غیر قانونی زرمبادلہ خطے سے باہر کے ممالک میں منتقل کیا گیا اور گزشتہ عشرے 2002-11 کے دوران مجموعی طور پر 5.9 کھرب ڈالر مالیت کا غیر قانونی زر ترقی پذیر دنیا سے باہر منتقل کیا جا چکا ہے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ شیئر، کک بیکس اورPercentage کی اصلاحات نے رشوت کے متبادل کی حیثیت لے لی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیامیں ہر سال ایک ٹریلین ڈالر رشوت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے National Corruption Perceptions Survey 2010 کے مطابق ہر سال ملک میں 223 ارب روپے معمولی رشوتوں(Petty Bibery) کی صورت میں ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان سے 2002-11 کے عشرے کے دوران Global Financial Integrity کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور 1024ملین ڈالرمالیت کا غیر قانونی زرمبادلہ باہر کی دنیا میںمنتقل کیا گیا۔ جس کی سالانہ اوسط مالیت 102 ملین ڈالر بنتی ہے۔
ہم میں سے کئی ایک کے نزدیک بد عنوانی آج ایک حق کی صورت اختیارکر چکی ہے۔کیو نکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثر معاشروں میں بد عنوانی کو قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔کام کروانے اورکام حاصل کرنے کے لئے جیب گرم کرنے کا عمل تقویت حاصل کررہا ہے۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کی مثل میں اب کاروبار کے لفظ کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔کیونکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کےBribe Payers Index 2011 کے مطابق دنیا کے28 ممالک کی کمپنیاں جو دنیا کے 80 فیصد کاروبار کو کنٹرول کرتی ہیں۔ بین الاقوامی کاروبار میں رشوت کا بھر پور سہارا لیتی ہیں۔
ان میں روس اور چین کی فرمز دنیا بھر میں کاروبار کے حصول کے لئے سب سے زیادہ رشوت دیتی ہیں ۔ (کم رشوت سے زیادہ رشوت کا سہارا لینے والے ممالک کی درجہ بندی پر مبنی اس انڈکس میں جس ملک کی کاروباری فرمز جتنا کم رشوت کا سہارا لیتی ہیں رینکنگ میں اتنا ہی پہلے نمبرز پر ہیں اور جو کاروبار میں زیادہ رشوت پر انحصار کرتی ہیں وہ ملک اتنا ہی نیچے کے درجوں پر ہوگا) دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بد عنوانی کو جتنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل بزنس میں اکثر ترقی یافتہ ممالک کی فرمز اُتنا ہی رشوت کا بازار گرم کرتی ہیں۔ اور اس کی واضح مثال Bribe Payers Index 2011 کے 28 ممالک میں سے تقریباً آدھے کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔ رشوت کا سہارا لے کر کاروبار کرنے والے ممالک کی فرمز میں پانچ مسلم ممالک ملائیشیاء، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیاء کی فرمز بھی شامل ہیں جبکہ بھارت بین الاقوامی کاروبار کے حصول میں اپنی رشوت دینے والی کمپنیوں کے ساتھ اس رینکنگ میں تائیوان اور ترکی کے ہمراہ 19 ویں نمبر پر موجود ہے۔
اس درجہ بندی میں ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ کی کمپنیاں سب سے کم رشوت دینے کے باعث سر فہرست ہیں اور بیلجیئم اورجرمنی کی کمپنیاں کم رشوت دینے کے حوالے سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ رینکنگ اس بات کی واضح علامت ہے کہ دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں۔ رشوت کے ذریعے کام حاصل کرنے یا کام کروانے کا عمل آج بھی موجود ہے ۔ بے شک اس کھیل کے پرانے کھلاڑیوں کی جگہ نئے کھلاڑیوں نے لے لی ہے لیکن بہر حال برائی تو برائی ہے چاہے اس کا کوئی بھی انجام دہندہ ہو اور اس برائی کے نتیجے میں دنیا میں کتنا زرمبادلہ ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوتا ہے اس کی مجموعی مالیت ورلڈ بینک کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ہے۔
ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی محسوس کی گئی کہ دنیا میں پھیلنے والے اس ناسور پر قابو پایا جائے اور لوگوں میں اس شعور کو پھر سے اجاگر کیا جائے کہ بد عنوانی کو روکنے کے لئے ہر ممکن طور پر اقدامات اور کوششیں کی جائیں اور افراد کے کردار کی اس خوبی کو پھر سے ابھارا جائے جو انہیں ایمانداری کی طرف راغب اور بد عنوانی سے دور رکھتی تھی ۔ اس حوالے سے دنیا کے پاس بد عنوانی کے خاتمے کے لئے ایک جامع اور مکمل پلیٹ فارم اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بد عنوانی کی صورت میں موجود ہے جو دسمبر 2005ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔
یہ بین الاقوامی سطح پر بد عنوانی کے طریقہ کار پر پہلی قانونی بندش ہے جو کرپشن کے خاتمے کے لئے عالمی رد عمل کے حصول کا ایک زبر دست موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس کنونشن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2003ء میں اختیار کیا اور ہر سال 9 دسمبر کے دن کو انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا کیونکہ اس ناسور کی نوعیت ہر ملک میں مخلتف تو ہو سکتی ہے لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک اس بیماری سے مبرا نہیں، چاہے وہ ترقی یافتہ ہو کہ ترقی پذیر ۔
دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد نے گزشتہ ایک سال کے دوران رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے ۔ رشوت کے بڑھتے ہوئے ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور معاشرے کا ایسے افراد سے سماجی قطع تعلق ماضی کی دھول میں کھوتا جا رہا ہے۔ یوں دنیا کے اکثر معاشروں میں بد عنوانی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی نشاندہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے GLOBAL CORRUPTION BAROMETER 2013 کے ان حقائق سے ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے 53 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔
29 فیصد نے کہا ہے کہ کرپشن میں گزرے 2 سال کے دوران نہ کو ئی اضافہ اور نہ ہی کمی ہوئی ہے۔ جبکہ 18 فیصد کے خیال میں مذکورہ عرصہ کے دوران کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر اگر کرپشن کی شدت کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دنیا کے زیر جائزہ 177ممالک میں سے 123 یعنی 70 فیصد میں بدعنوانی نے اپنے پنجے زیادہ مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا کے 51 فیصد رائے دہندگان نے بد عنوانی کوشدید مسئلہ قرار دیا ہے۔
پاکستان بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈکس 2013 کے مطابق اُن 123 ممالک میں شامل ہے جو بدعنوانی کے سنگین مسئلہ کا شکار ہیں۔کیونکہ گلوبل کرپشن بیرومیٹر 2013 کے مطابق پاکستان کا شمار اُن 83 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے عوام نے اپنے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ کی تائید کی ہے۔ اور72 فیصد پاکستانیوں کی رائے میں پچھلے دو سال کے دوران ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ 19 فیصد نے کہا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ 8 فیصد کا کہنا ہے ملک میں گزرے دو سال کے دوران کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، مالدیپ، نیپال ، پاکستان اور سری لنکاکے عوام میں سب سے زیادہ رائے دہندگان کے تناسب کا تعلق پاکستان اور نیپال سے ہے۔ جنہوں نے کہا ہے کہ اُن کے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 75 فیصد نے بد عنوانی کو پبلک سیکٹر کا شدید مسئلہ قرار دیا ہے۔ اور 34 فیصد پاکستانی رائے دہندگان نے گزشتہ 12ماہ کے دوران رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔
یوں ہمارا بدعنوانی کے حوالے سے جو تشخص دنیا کے سامنے آرہا ہے اُس کی منظر کشی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کےCorruption Perception Index 2013 (کم بد عنوانی سے زیادہ بدعنوانی کے شکار ممالک کی درجہ بندی پر مبنی انڈکس جس میں جو ملک جتنی کم بد عنوانی کا حامل ہو گا رینکنگ میں اتنا ہی پہلے نمبرز پر آئے گا اور جہاں بدعنوانی زیادہ ہو گی وہ ملک اتنا ہی نیچے کے درجوں پر ہو گا) سے یوں ہوتی ہے کہ پاکستان دنیا کے 177 ممالک میںآذربائیجان، کمروس،گیمبیا، لبنان، مڈگاسکر، مالی، نکاراگوا اور روس کے ہمراہ 127 ویں نمبر پر ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بنگلہ دیش اور افغانستان بدعنوانی کے حوالے سے سنگین صورتحال کی وجہ سے پاکستان سے کم تر درجوں پر موجود ہیں ۔ اس درجہ بندی میں دنیا میں سب سے کم بد عنوانی کی شدت کے حامل ملک ڈنمارک اور نیوزی لینڈ ہیں جس کے بعد فن لینڈ اور سویڈن کے ممالک ہیں۔
اس عالمی درجہ بندی میں (جس کا آغاز1995ء سے کیا گیا اور آج تک ہر سال اس درجہ بندی کا از سر نو تعین کیا جاتا ہے) سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ملک صومالیہ، شمالی کوریا اور افغانستان ہیں، یہ تینوں ممالک 175ویں نمبر پر ہیں جس کے بعد زیادہ شدید بدعنوانی کے شکار ملک بالترتیب سوڈان اورجنوبی سوڈان ہیں جو 174ویں اور173 ویں نمبر پر ہیں، نیچے سے اوپر جانے والی اس درجہ بندی میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کی رینکنگ یوں ہے کہ برطانیہ اس درجہ بندی میں 14ویں، امریکا 19ویں، فرانس22 ویں، چین 80 اور روس127ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کا اس درجہ بندی میں مقام کچھ اس طرح سے ہے کہ بھوٹان 31ویں ، سری لنکا91ویں ، بھارت94 ویں، نیپال116ویں ، بنگلہ دیش 136ویں اور افغانستان 175 ویں نمبر پر ہے۔ بد عنوانی کی شدت جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے کم بھوٹان میں ہے جو عالمی تناظر میں بھی قدرے کم ہے جو اس حوالے سے تو ایک اچھی علامت ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ایک پسماندہ ترین ملک میں کرپشن دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ معاشروں کی نسبت قدرے کم ہے لیکن بہر حال موجود ہے۔
ماہرین کے مطابق بد عنوانی حکومت کو معاشی گرداب کا شکار کردیتی ہے اور اُس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ اور ایسے میں ملک میں سرمایہ کاری خاص کر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل قدرِ محدود ہو جاتا ہے۔کیونکہ اقوام متحد ہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ''کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے''۔ اس
تناظر میں صاف شفاف طریقے سے کام کرنے والوں کے لئے سوائے حوصلہ شکنی کے اور کچھ نہیں جبکہ اس کے برعکس وہ کمپنیاں جو رشوت کا سہارا لیتے ہوئے تھوڑا دے کر زیادہ بٹورنے کے چکر میں رہتی ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور پھر ایسے معاہدات ہوتے ہیں جن میں ایسی شرائط تسلیم کرلی جاتی ہیں جو کہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہوتیں ۔ اور ایسی کئی ایک مثالیں ہمیں اپنے ملک میں اپنے اردگرد ملتی ہیں جن کے پس منظر میں کرپشن کے وسیع امکانات کے بارے میں عوام الناس میں قیاس آرائیاں آج بھی موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ بد عنوانی انسانی ترقی اور جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ اس کے باعث عوامی فلاح و بہبود کی خدمات کی فراہمی میں کمی آجاتی ہے۔کیونکہ وسائل عوام پر خرچ ہونے کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول میں استعمال ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جو صورتحال سامنے آتی ہے اس کی وضاحت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 2009 میں انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں یوں کی '' عوام کا پیسہ نجی مفادکیلئے چوری کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں کی تعمیر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے وسائل کم ہو جاتے ہیں۔ جب غیر ملکی امداد کا رخ پرائیویٹ بینک اکائونٹس کی طرف موڑ دیا جائے تو بنیادی ڈھانچوں کے اہم منصوبے رک جاتے ہیں''۔ شاید ان ہی وجوہات کی بناء پر پاکستان یو این ڈی پی کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس2013 میں دنیا کے 187 ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے 146 ویں نمبر پر ہے۔ اور اس کا شمار Low human development کی کیٹگری میں شامل ممالک میں ہوتا ہے۔کیونکہ ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق بدعنوانی ملک کی 17 فیصد جی ڈی پی کے برابر ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک کے 1998 کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی ملک کے 10 فیصد جی ڈی پی کے برابر تھی۔
بدعنوانی قانون کی عملداری کو گھن لگاتے ہوئے جمہوریت کی روح پرضرب لگاتی ہے۔ یہ جمہوری اداروں اور رہنمائوں پر عوام کے اعتماد کومتزلزل کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے GLOBAL CORRUPTION BAROMETER 2013 کے مطابق دنیا کے 65 فیصد رائے دہندگان نے سیاسی جماعتوں کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا ہے جبکہ 57 فیصد کی آراء ہے کہ پارلیمنٹ اور قانون ساز ادارے بدعنوانی کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹ دینے کا باعث بنتی ہے اور پاکستان اس صورتحال سے متعدد بار گزر چکا ہے۔
بدعنوانی سیاسی استحکام اور معاشی فروغ اور نمو کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم سنبھلنا نہیں چاہتے اور بدستور بد عنوانی کی ڈگر پر گامزن ہیں ۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے اور خریداری کے کام بدعنوانی کے زہر سے آلودہ ہیں جبکہ بنکوں سے قرضہ معاف کروانا بھی سنگین نوعیت کی بدعنوانی ہے۔ اس کے علاوہ صحت کا شعبہ تو بد عنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور مشینری و سامان کی خریداری اور خدمات مہیا کرنے میں بدعنوانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غیر معیاری ادویات، جعلی ہیلتھ سرٹیفیکٹس، ڈاکٹروں کو ادویات کی سیلز پرموشن کے نام پر تحائف اور مراعات کی فراہمی جیسی کئی ایک اور چیزیں بھی صحت کے شعبے کو کرپشن زدہ کر رہی ہیں۔ لیکن ایساصرف ہمارے یہاں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کی کچھ نہ کچھ جھلک مو جود ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں فراڈ اور صحت کی سہولیات کے غلط استعمال سے ہر انفرادی حکومت کو 23 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو تا ہے۔
صحت کے شعبے میں بد عنوانی براہ راست انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت انتباہ کرتا ہے کہ ایسے ممالک جہاں بدعنوانی کی صورتحال زیادہ سنگین ہے وہاں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ تو پھر کیا یہی وجہ تو نہیں کہ پاکستان پانچ سال اور اس سے کم عمر بچوں کی اموات کے حوالے سے یو نیسیف کی ورلڈ رینکنگ میں دنیا کے195 ممالک میں 26 ویں نمبر پر ہے؟۔
اس کے علاوہ ماہرین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ بدعنوانی منظم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے۔ بد عنوانی منی لانڈرنگ سے جڑی ہوئی ہے اور غیر قانونی ذرائع سے رقوم کی بین الاقوامی ترسیل انٹرنیشنل دہشت گردی کو معاونت مہیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے ہم امن وامان کی جس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ وہ شایدبد عنوانی کی وجہ سے ہمارے ہی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔
بدعنوانی ملک کے تقریباً ہر شعبے میں سرائیت کر چکی ہے۔ لیکن بعض شعبہ جات میں یہ سنگین نوعیت کی ہے۔ جس کی نشاندہی TI Pakistan کے National Corruption Perceptions Survey 2011 میں یوں کی گئی ہے کہ ملک کا کرپٹ ترین ادارہ Land Administration کا ہے۔ دوسرے نمبر پر بد عنوان ادارہ پولیس کا جبکہ Taxation ملک کا تیسرا بڑا کرپٹ دارہ ہے۔
بدعنوانی پر مبنی Practices نے ہماری Credibility کو بین الاقوامی سطح پر شدید متاثر کیا ہے۔ اور آج ہم اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ معاشی معاملات میںہم پر کو ئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنی ساکھ کی بحالی، اپنے شکست وریخت کا شکار ہوتے سسٹم کو بچانے ، غربت کے خاتمے ، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور معاشی مسائل سے نکلنے کے لئے بد عنوانی کا خاتمہ جنگی بنیادوں پرکرنا ہوگا ۔کیونکہ کوئی بھی قوم بدعنوانی کے خلاف صف آرا ہوکر اور قانون کی عملداری کو بہتر بناکر اپنی قومی آمدن میں 400 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہے۔
کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کے ساتھ ساتھ ایسے نظام کو بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے جو کرپشن کے مواقعوں کو محدود سے محدود تر کر د ے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بدعنوانی کے خاتمے کی کوششیں خود بد عنوانی کا شکار بن کر متنازعہ ہو رہی ہیں۔
سیاسی مداخلت نے احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام اور سیاسی نوازش کی روش پر ڈال دیا ہے اور بھاگتے چور کی لنگوٹی کی مثل پر کام کرنے والے احتسابی عمل نے بدعنوان عناصر کو جس انداز میںڈرائی کلین کیا ہے وہ بد عنوانی کی حوصلہ شکنی کا قطعاً باعث نہیں بن رہا ۔ اور اوپر سے ایسے قوانین کا اطلاق جو بد عنوان عناصر کو قانون کی گرفت سے بچالیں رہی سہی کسر بھی پوری کر رہے ہیں۔