مقبوضہ کشمیر میں سنسان پولنگ اسٹیشنز لیکن ٹرن آؤٹ 72 فیصد
مقبوضہ کشمیر میں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو انگلیاں کاٹنے کی دھمکیاں، پھر بھی گلیاں اور سڑکیں سنسان
آٹھ لاکھ سے زائد بھارت کی درندہ صفت فوج کی بندوقوں کی گھن گرج میں جہنم زار بنی وادی جنت نظیرمیں نئی دہلی کا ساختہ وپرداختہ نام نہاد الیکشن ڈرامہ دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
پچیس نومبرکو پہلے مرحلے میں کل 87 ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں سے 15 پر ووٹ ڈالے گئے۔ بھارتی سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ 72 فی صد رہا۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے توہمیں کشمیری عوام کی جمہوریت پسندی کوداد دینی چاہیے۔ عالمی مبصرین اور انسانی حقوق کے مندوبین کی رسائی سے دورلاکھوں فوجیوں کی بندوق تلے رچائے جانے والے اس الیکشن ڈرامے میں ٹرن آؤٹ کے حقیقی اعدادو شمار تک پہنچنا ویسے ہی محال ہے۔
بہرحال جو بھارتی سرکار دعویٰ کرے گی عالمی سطح پر اسی کی بات سنی جائے گی تاہم جہاں تک گراس روٹ لیول پر کشمیری عوام کے گھروں سے رضاکارانہ اور مرضی کے تحت نکلنے کا سوال ہے تو تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کہیں بھی اتنے غیر معمولی ٹرن آؤٹ کی تصدیق نہیں مل سکی۔
جموں و کشمیر کے جن پندرہ حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے وہاں سے ملنے والی اطلاعات بھارتی میڈیا اورکٹھ پتلی اخبارات کی اطلاعات سے بالکل برعکس ہیں۔ الیکشن کے روز بانڈی پور، گاندر بل اور کشتواڑ جیسے اہم اور بڑے حلقوں میں کشمیری عوام نے جہاں پولنگ مراکز میں بندوق کی گولیوں کے خوف میں ووٹ ڈالے ہیں وہیں انتخابات کے موقع پر خوف کی کیفیت طاری رہی کیونکہ نامعلوم اطراف سے چلائی گئی ایک منظم مہم میں دھمکی دی گئی تھی کہ جس شخص نے ووٹ نہیں ڈالا اس کے ہاتھ کی انگلی کاٹ دی جائے گی۔
حیرت ہے عالمی سطح پراب بھی بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے، حال یہ ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے والوں کی انگلیاں کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود کشمیریوں نے حریت قیادت کی اپیل پربھرپور شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی کی۔ سڑکوں پر بھارتی فوج کی گشتی گاڑیاں اور گھروں سے شہریوں کو زبردستی نکال کرپولنگ مراکز تک لانے کے لیے مختص سرکاری ویگنیں ہی دوڑتی دکھائی دیں مگر باقی مکمل پہیہ جام تھا۔ کاروباری سرگرمیاں پولنگ کی وجہ سے معطل نہیں بلکہ حریت کانفرنس اور دوسرے آزادی پسند رہنماؤں کی اپیل پر بند کی گئی تھیں۔
گاندربل، لداخ، کارگل، زنسکار، کشتواڑ، اندروال، ڈوڈہ اور بانہال جیسے حلقوں میں بی ایس ایف کے اہلکار شہریوں کے گھروں میں گھس کراْنہیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالتے اور پولنگ مراکز لاتے رہے ہیں۔ بھارت اس حقیقت کو کبھی طشت ازبام نہیں ہونے دے گا اور اس کی جانب سے طوطے کی طرح رٹی رٹائی ایک ہی بات پوری دنیا میں عام کی جائے گی۔ کشمیری عوام نے آزاد مرضی کے تحت بھارت نواز جماعتوں کو ووٹ ڈالے ہیں۔ پانچ مرحلوں میں ہونے والے الیکشن ڈرامے کے اگلے مراحل میں بھی یہی تماشا دیکھنے کو ملے گا کیونکہ بھارت طاقت ہی کے ذریعے کشمیرپرقبضہ جمائے ہوئے ہے اور فوجی طاقت ہی کوانتخابات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اورمقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کو بھی مکمل جمہوری حقوق دیے گئے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگر بھارت نے کشمیری عوام کو جمہوری حقوق دے رکھے ہیں تو انہیں دکھانے کے لیے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اورمبصرین کو وادی تک رسائی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ آخر عالمی مبصرین سے کیا چیز چھپائی جا رہی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فوج معصوم کشمیری عوام پرروزانہ طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتی اور عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔
بھارت سرکار کا دعویٰ ہے کہ کشمیری عوام کی بھاری تعداد نے گھروں سے نکل کر انتخابات میں حصہ لیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اگرنئی دہلی کے اس دعوے کو کچھ دیر کے لیے درست مان بھی لیا جائے تب بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کشمیریوں نے بھارت سے الحاق کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے۔ جن لوگوں کے حق میں بندوق کے ذریعے شہریوں کے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں انہیں کشمیری دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ سری نگر، جموں اور وادی کے دوسرے علاقوں میں جگہ جگہ مفتی سعید، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور حنا بھٹ جیسے رہ نماؤں کے ہورڈنگ بورڈز پردن دیہاڑے ہونے والی جوتا باری کیاظاہرکرتی ہے۔
حریت کانفرنس کے رہ نماؤں کے فکرو فلسفے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن سیدعلی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور دوسرے آزادی پسند رہ نما جب مجمع عام میں آتے ہیں تولوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر ان کے ہاتھ چومنے کی باری کا انتظارکرتے ہیں۔ الیکشن ڈرامے کے دوران جن لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی حریت قیادت پرلوگوں کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ جہاں تک لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا تعلق ہے تویہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ جوکشمیری ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہیں تو وہ آزادی پرسمجھوتہ نہیں کررہے ہوتے بلکہ اپنے گلی محلے کے مسائل کی خاطر ووٹ ڈالتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جن لوگوں کو ووٹ دے رہے ہیں وہ ان کے مقامی مسائل کے حل کی صلاحیت تو نہیں رکھتے لیکن جمہوری عمل میں حصہ لینا بھی شہریوں کا حق ہے۔
گراس روٹ لیول پرکشمیری عوام میں بھارت سے بے انتہا نفرت موجود ہے۔ اس نفرت کی وجہ قابض افواج کے ہاتھوں آئے روز ہونے والی ہلاکتیں ہیں۔ بھارتی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں کشمیر کا ہرخاندان براہ راست یا بالواسطہ طورپر متاثر ہوا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ لوگ شہید کیے جا چکے ہیں۔ 80 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں بھی ہزاروں گمنام قبروں کا رزق بنا دیا گیا ہے یا ان کے ٹکڑے کرکے انہیں دریائے جہلم اور نیلم کی بے رحم موجوں کی نذرکیا جا چکا ہے۔ ان بھارتی مظالم کو دیکھتے ہوئے بھلا کشمیری عوام نئی دہلی کی کیسے حمایت کرسکتے ہیں۔
دفعہ 370 ایک ٹائم بم
بھارتی حکومتوں نے مقبوضہ کشمیرکے خصوصی 'سٹیٹس' کی پہچان سمجھے جانے والی آئینی دفعہ 370 کو ختم کرنے کی مختلف انداز میں سازشیں جاری رکھیں۔ رسمی طورپر اس دفعہ کو ختم نہیں کیا جاسکا لیکن عملاً اس کی کھلے عام خلاف ورزیاں کئی سال سے جاری ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کے درمیان ایک ملاقات میں بھی کشمیر کی آئینی حیثیت کوتبدیل کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت نے اسرائیل کے تعاون سے لائن آف کنٹرول پرالیکٹرک باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا تھا۔
اس موقع پر شیرون نے مسٹر واجپائی کو تجویز دی تھی کہ وہ کشمیرمیں اسرائیل کا طرز عمل اختیارکرتے ہوئے غیر ریاستی باشندوں کی کالونیاں قائم کرے۔ کانگریس کی حکومتیں ایسا کوئی عملی قدم اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں لیکن غیرریاستی باشندوں کی غیراعلانیہ آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ زیادہ تر آباد کاری جموں سیکٹر میں دیکھی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں ایک بھارتی اخبار میں شائع مضمون کا ایک اقتباس بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔
''آج سے قریباً 50سال قبل، 4دسمبر 1964ء کو بھارت کے اس وقت کے وزیرداخلہ گلزاری لال نندا نے پارلیمنٹ میں اس بات کا برملااعتراف کیا:''دفعہ 370 کا صرف خول باقی رہاہے، چاہے آپ اسے رکھیں یا نہ رکھیں اسے اپنے نفس ِمضمون سے مکمل طور پر خالی کیا جا چکا ہے،اس میں کچھ بھی باقی نہیں بچاہے''۔وہ بالکل صحیح تھے ، کل ملا کراس دفعہ میں97 میں سے 94 مدات کا اطلاق جن پر مرکزی قانو ن سازی کا اختیار ہے ، ریاست جموں وکشمیر پر بھی ان کی توسیع و تنقیدکی گئی ہو،اسی طرح آئین ِ ہند کی 395 دفعات میں 260 ریاست پر لاگو تھے(تو اب بچتا ہی کیا ہے ؟)
کچھ سال قبل دہلی کی طرف سے ایک بدنام سیاسی مہم بازنے اپنے شاطرانہ انداز میں یہ آدھی ادھوری پیشکش (اہل کشمیر کو) کی تھی کہ: ''تم رائے شماری کی مانگ سے باز آجاؤ،ہم وعدہ کرتے ہیںکہ ہم دفعہ 370 پرخط ِ تنسیخ نہیں پھیریں گے۔'' سوال ہے کہ آج بی جے پی کس وجہ سے دفعہ 370 کی تنسیخ پرا تنی پریشاں حال ہے؟ اس بنا پر کہ بی جے پی کوشاید اب ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ مرکز میں اس کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ بکاؤ کشمیری لیڈروں کوجو اپنی روح کی سودا بازی کے لئے تیارہوں، کچھ ایسی مراعات کے ذریعے للچانے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کے عوض بی جے پی اپنے دیر ینہ مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی۔
اس ضمن میں 19نومبرکے ''انڈین ایکسپریس'' میں دواہم خبریں قابل غور ہیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ کاتعلق لکھنؤ سے ہے، جس میںکہاگیا: ''بی جے پی نے 124ایسے لیڈروں کو اتر پردیش سے کشمیر روانہ کیا جواصل میں آر ایس ایس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ انتخابات اختتام پذیر ہونے تک یہ لیڈران کشمیرمیں ہی مقیم رہیں گے اورچالیس مخصوص حلقہ ہائے انتخاب پر اپنی توجہ مرکوزرکھیں گے۔ دوسری خبر کاتعلق جموں سے ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تارک الوطن پنڈتوںکی آبادی پچھلے چھ سالوں میں27فیصد بڑھ گئی ہے،خصوصاً مئی کے لوک سبھا انتخابات کے بعد 4.65فیصد اضافہ ہوگیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر وادی میں بائیکاٹ کال کااثر رہاتو اس سے پنڈت ووٹ بنک کوسرینگرکے حبہ کدل،امیراکدل اورخانیارحلقوں میں کلیدی اور فیصلہ کن رول نبھانے کاموقع مل جائے گا۔''
اس تفصیلی پیراگراف میں مذکورہ دفعہ کے بارے میں ماضی میں ہونے والی سازشوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کی وضاحت ہوتی ہے مگر کیا باضابطہ طور پر بی جے پی اس دفعہ کو ختم کرنے کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی خود بی جے پی کو بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ ماضی میں کٹھ پتلی کشمیر لیڈر غلام نبی آزاد نے بھی ایک مرتبہ نئی دہلی کی خوشنودی کے لیے دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے اعلان پرپورے جموں و کشمیر میں عوامی غم وغصے کا ایک ایسا طوفان اٹھا جس کے نتیجے میں جہاں بڑی تعداد میں شہری بھارتی فوج کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے وہیں بھارتی سرکار کوبھی اندازہ ہوا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی علامت اس آئینی دفعہ کو چھیڑنا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
جب غلام نبی آزاد اور ان کے چند دوسرے بہی خواہوں نے اس دفعہ کو چھیڑنے کی کوشش کی تو کشمیری عوام نے کھل کراعلان کردیا کہ وہ کسی غیر ریاستی باشندے کو وادی میں اقامت کے حق کی اجازت نہیں دینگے۔ شہریوں نے بھارت کے ساتھ تجارت بند کردی اور آزاد خطے میں چکوٹھی کے قریب سے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ شروع کردیا تھا۔ اس لیے آئین کی اس دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ریاستی جبر سے تنگ کشمیری عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مبصرین یہ خیال بھی ظاہرکررہے ہیں کہ بی جے پی نے تازہ منشورمیں دفعہ 370کو نہ چھیڑنے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ اس کی ایسی کسی بھی حرکت کی وجہ سے اسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں، تاہم مستقبل قریب یا بعید میں جنتا پارٹی اس دفعہ کو مختلف طریقوں سے ختم کرانے کی سازشیں جاری رکھے گی۔
پچیس نومبرکو پہلے مرحلے میں کل 87 ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں سے 15 پر ووٹ ڈالے گئے۔ بھارتی سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ 72 فی صد رہا۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے توہمیں کشمیری عوام کی جمہوریت پسندی کوداد دینی چاہیے۔ عالمی مبصرین اور انسانی حقوق کے مندوبین کی رسائی سے دورلاکھوں فوجیوں کی بندوق تلے رچائے جانے والے اس الیکشن ڈرامے میں ٹرن آؤٹ کے حقیقی اعدادو شمار تک پہنچنا ویسے ہی محال ہے۔
بہرحال جو بھارتی سرکار دعویٰ کرے گی عالمی سطح پر اسی کی بات سنی جائے گی تاہم جہاں تک گراس روٹ لیول پر کشمیری عوام کے گھروں سے رضاکارانہ اور مرضی کے تحت نکلنے کا سوال ہے تو تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کہیں بھی اتنے غیر معمولی ٹرن آؤٹ کی تصدیق نہیں مل سکی۔
جموں و کشمیر کے جن پندرہ حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے وہاں سے ملنے والی اطلاعات بھارتی میڈیا اورکٹھ پتلی اخبارات کی اطلاعات سے بالکل برعکس ہیں۔ الیکشن کے روز بانڈی پور، گاندر بل اور کشتواڑ جیسے اہم اور بڑے حلقوں میں کشمیری عوام نے جہاں پولنگ مراکز میں بندوق کی گولیوں کے خوف میں ووٹ ڈالے ہیں وہیں انتخابات کے موقع پر خوف کی کیفیت طاری رہی کیونکہ نامعلوم اطراف سے چلائی گئی ایک منظم مہم میں دھمکی دی گئی تھی کہ جس شخص نے ووٹ نہیں ڈالا اس کے ہاتھ کی انگلی کاٹ دی جائے گی۔
حیرت ہے عالمی سطح پراب بھی بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے، حال یہ ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے والوں کی انگلیاں کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود کشمیریوں نے حریت قیادت کی اپیل پربھرپور شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی کی۔ سڑکوں پر بھارتی فوج کی گشتی گاڑیاں اور گھروں سے شہریوں کو زبردستی نکال کرپولنگ مراکز تک لانے کے لیے مختص سرکاری ویگنیں ہی دوڑتی دکھائی دیں مگر باقی مکمل پہیہ جام تھا۔ کاروباری سرگرمیاں پولنگ کی وجہ سے معطل نہیں بلکہ حریت کانفرنس اور دوسرے آزادی پسند رہنماؤں کی اپیل پر بند کی گئی تھیں۔
گاندربل، لداخ، کارگل، زنسکار، کشتواڑ، اندروال، ڈوڈہ اور بانہال جیسے حلقوں میں بی ایس ایف کے اہلکار شہریوں کے گھروں میں گھس کراْنہیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالتے اور پولنگ مراکز لاتے رہے ہیں۔ بھارت اس حقیقت کو کبھی طشت ازبام نہیں ہونے دے گا اور اس کی جانب سے طوطے کی طرح رٹی رٹائی ایک ہی بات پوری دنیا میں عام کی جائے گی۔ کشمیری عوام نے آزاد مرضی کے تحت بھارت نواز جماعتوں کو ووٹ ڈالے ہیں۔ پانچ مرحلوں میں ہونے والے الیکشن ڈرامے کے اگلے مراحل میں بھی یہی تماشا دیکھنے کو ملے گا کیونکہ بھارت طاقت ہی کے ذریعے کشمیرپرقبضہ جمائے ہوئے ہے اور فوجی طاقت ہی کوانتخابات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اورمقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کو بھی مکمل جمہوری حقوق دیے گئے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگر بھارت نے کشمیری عوام کو جمہوری حقوق دے رکھے ہیں تو انہیں دکھانے کے لیے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اورمبصرین کو وادی تک رسائی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ آخر عالمی مبصرین سے کیا چیز چھپائی جا رہی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فوج معصوم کشمیری عوام پرروزانہ طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتی اور عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔
بھارت سرکار کا دعویٰ ہے کہ کشمیری عوام کی بھاری تعداد نے گھروں سے نکل کر انتخابات میں حصہ لیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اگرنئی دہلی کے اس دعوے کو کچھ دیر کے لیے درست مان بھی لیا جائے تب بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کشمیریوں نے بھارت سے الحاق کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے۔ جن لوگوں کے حق میں بندوق کے ذریعے شہریوں کے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں انہیں کشمیری دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ سری نگر، جموں اور وادی کے دوسرے علاقوں میں جگہ جگہ مفتی سعید، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور حنا بھٹ جیسے رہ نماؤں کے ہورڈنگ بورڈز پردن دیہاڑے ہونے والی جوتا باری کیاظاہرکرتی ہے۔
حریت کانفرنس کے رہ نماؤں کے فکرو فلسفے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن سیدعلی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور دوسرے آزادی پسند رہ نما جب مجمع عام میں آتے ہیں تولوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر ان کے ہاتھ چومنے کی باری کا انتظارکرتے ہیں۔ الیکشن ڈرامے کے دوران جن لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی حریت قیادت پرلوگوں کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ جہاں تک لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا تعلق ہے تویہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ جوکشمیری ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہیں تو وہ آزادی پرسمجھوتہ نہیں کررہے ہوتے بلکہ اپنے گلی محلے کے مسائل کی خاطر ووٹ ڈالتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جن لوگوں کو ووٹ دے رہے ہیں وہ ان کے مقامی مسائل کے حل کی صلاحیت تو نہیں رکھتے لیکن جمہوری عمل میں حصہ لینا بھی شہریوں کا حق ہے۔
گراس روٹ لیول پرکشمیری عوام میں بھارت سے بے انتہا نفرت موجود ہے۔ اس نفرت کی وجہ قابض افواج کے ہاتھوں آئے روز ہونے والی ہلاکتیں ہیں۔ بھارتی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں کشمیر کا ہرخاندان براہ راست یا بالواسطہ طورپر متاثر ہوا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ لوگ شہید کیے جا چکے ہیں۔ 80 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں بھی ہزاروں گمنام قبروں کا رزق بنا دیا گیا ہے یا ان کے ٹکڑے کرکے انہیں دریائے جہلم اور نیلم کی بے رحم موجوں کی نذرکیا جا چکا ہے۔ ان بھارتی مظالم کو دیکھتے ہوئے بھلا کشمیری عوام نئی دہلی کی کیسے حمایت کرسکتے ہیں۔
دفعہ 370 ایک ٹائم بم
بھارتی حکومتوں نے مقبوضہ کشمیرکے خصوصی 'سٹیٹس' کی پہچان سمجھے جانے والی آئینی دفعہ 370 کو ختم کرنے کی مختلف انداز میں سازشیں جاری رکھیں۔ رسمی طورپر اس دفعہ کو ختم نہیں کیا جاسکا لیکن عملاً اس کی کھلے عام خلاف ورزیاں کئی سال سے جاری ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کے درمیان ایک ملاقات میں بھی کشمیر کی آئینی حیثیت کوتبدیل کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت نے اسرائیل کے تعاون سے لائن آف کنٹرول پرالیکٹرک باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا تھا۔
اس موقع پر شیرون نے مسٹر واجپائی کو تجویز دی تھی کہ وہ کشمیرمیں اسرائیل کا طرز عمل اختیارکرتے ہوئے غیر ریاستی باشندوں کی کالونیاں قائم کرے۔ کانگریس کی حکومتیں ایسا کوئی عملی قدم اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں لیکن غیرریاستی باشندوں کی غیراعلانیہ آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ زیادہ تر آباد کاری جموں سیکٹر میں دیکھی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں ایک بھارتی اخبار میں شائع مضمون کا ایک اقتباس بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔
''آج سے قریباً 50سال قبل، 4دسمبر 1964ء کو بھارت کے اس وقت کے وزیرداخلہ گلزاری لال نندا نے پارلیمنٹ میں اس بات کا برملااعتراف کیا:''دفعہ 370 کا صرف خول باقی رہاہے، چاہے آپ اسے رکھیں یا نہ رکھیں اسے اپنے نفس ِمضمون سے مکمل طور پر خالی کیا جا چکا ہے،اس میں کچھ بھی باقی نہیں بچاہے''۔وہ بالکل صحیح تھے ، کل ملا کراس دفعہ میں97 میں سے 94 مدات کا اطلاق جن پر مرکزی قانو ن سازی کا اختیار ہے ، ریاست جموں وکشمیر پر بھی ان کی توسیع و تنقیدکی گئی ہو،اسی طرح آئین ِ ہند کی 395 دفعات میں 260 ریاست پر لاگو تھے(تو اب بچتا ہی کیا ہے ؟)
کچھ سال قبل دہلی کی طرف سے ایک بدنام سیاسی مہم بازنے اپنے شاطرانہ انداز میں یہ آدھی ادھوری پیشکش (اہل کشمیر کو) کی تھی کہ: ''تم رائے شماری کی مانگ سے باز آجاؤ،ہم وعدہ کرتے ہیںکہ ہم دفعہ 370 پرخط ِ تنسیخ نہیں پھیریں گے۔'' سوال ہے کہ آج بی جے پی کس وجہ سے دفعہ 370 کی تنسیخ پرا تنی پریشاں حال ہے؟ اس بنا پر کہ بی جے پی کوشاید اب ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ مرکز میں اس کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ بکاؤ کشمیری لیڈروں کوجو اپنی روح کی سودا بازی کے لئے تیارہوں، کچھ ایسی مراعات کے ذریعے للچانے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کے عوض بی جے پی اپنے دیر ینہ مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی۔
اس ضمن میں 19نومبرکے ''انڈین ایکسپریس'' میں دواہم خبریں قابل غور ہیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ کاتعلق لکھنؤ سے ہے، جس میںکہاگیا: ''بی جے پی نے 124ایسے لیڈروں کو اتر پردیش سے کشمیر روانہ کیا جواصل میں آر ایس ایس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ انتخابات اختتام پذیر ہونے تک یہ لیڈران کشمیرمیں ہی مقیم رہیں گے اورچالیس مخصوص حلقہ ہائے انتخاب پر اپنی توجہ مرکوزرکھیں گے۔ دوسری خبر کاتعلق جموں سے ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تارک الوطن پنڈتوںکی آبادی پچھلے چھ سالوں میں27فیصد بڑھ گئی ہے،خصوصاً مئی کے لوک سبھا انتخابات کے بعد 4.65فیصد اضافہ ہوگیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر وادی میں بائیکاٹ کال کااثر رہاتو اس سے پنڈت ووٹ بنک کوسرینگرکے حبہ کدل،امیراکدل اورخانیارحلقوں میں کلیدی اور فیصلہ کن رول نبھانے کاموقع مل جائے گا۔''
اس تفصیلی پیراگراف میں مذکورہ دفعہ کے بارے میں ماضی میں ہونے والی سازشوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کی وضاحت ہوتی ہے مگر کیا باضابطہ طور پر بی جے پی اس دفعہ کو ختم کرنے کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی خود بی جے پی کو بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ ماضی میں کٹھ پتلی کشمیر لیڈر غلام نبی آزاد نے بھی ایک مرتبہ نئی دہلی کی خوشنودی کے لیے دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے اعلان پرپورے جموں و کشمیر میں عوامی غم وغصے کا ایک ایسا طوفان اٹھا جس کے نتیجے میں جہاں بڑی تعداد میں شہری بھارتی فوج کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے وہیں بھارتی سرکار کوبھی اندازہ ہوا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی علامت اس آئینی دفعہ کو چھیڑنا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
جب غلام نبی آزاد اور ان کے چند دوسرے بہی خواہوں نے اس دفعہ کو چھیڑنے کی کوشش کی تو کشمیری عوام نے کھل کراعلان کردیا کہ وہ کسی غیر ریاستی باشندے کو وادی میں اقامت کے حق کی اجازت نہیں دینگے۔ شہریوں نے بھارت کے ساتھ تجارت بند کردی اور آزاد خطے میں چکوٹھی کے قریب سے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ شروع کردیا تھا۔ اس لیے آئین کی اس دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ریاستی جبر سے تنگ کشمیری عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مبصرین یہ خیال بھی ظاہرکررہے ہیں کہ بی جے پی نے تازہ منشورمیں دفعہ 370کو نہ چھیڑنے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ اس کی ایسی کسی بھی حرکت کی وجہ سے اسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں، تاہم مستقبل قریب یا بعید میں جنتا پارٹی اس دفعہ کو مختلف طریقوں سے ختم کرانے کی سازشیں جاری رکھے گی۔