پاکستان ایک نظر میں تضاد یافتہ قادری صاحب

پیروکار بھی اپنے رہنما پر اس پائے کا اعتماد رکھتے ہیں کہ قادری صاحب کہہ دیں رات تو رات اور گر کہیں دن تو بس پھر دن۔

دلی دعا ہے کہ خدا تعالی قادری صاحب کو جلد از جلد صحت عطا فرمائیں اوریہ صاحب رو بہ صحت ہو کر فوراً سے پہلے پاکستان کا رخ فرمائیں کیوں کہ شدید تفریحی قلت کے شکار پاکستان میں ان دھرنے ورنوں اور جلسے جلوسوں سے کافی رونق شونق لگی رہتی ہے. فوٹو: فائل

تمام تر اختلافات کے باوجود اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قادری صاحب بے شک انتہائی عقلمند، دور اندیش اور نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ ایک ایسا ہنر مند کہ جسے 'مریدین' نامی انسان نما مشینین تخلیق کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔وہ فنکار کہ جسے جہالت، کم علمی، فرسودہ عقائد و روایات، قدامت پسندی اور بنیاد و توہم پرستی میں لتھڑے دماغ کے تاروں کو چھیڑ چھیڑ کر سُر سے سُر نکالنے پر قدرت ہے۔ماہرِ نفسیات ایسا کہ چند ساعتوں میں صف بہ صف مریدین کی سوچ اپنی مٹھی میں قید کر لے ۔ ایسا ہیراکھلاڑی جسے ندرت ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے مقصد سے مریدین کے جذبات کو کب کب اور کس کس موقع پر ابھارنے یا ٹھنڈا کرنے کی خاطران بیچاروں کی محدود، تنگ نظر،یک طرفہ اور حد درجہ قابلِ پیشین گوئی سوچ کوکن کن زاویوں پر سے کتنی کتنی زور دار لاتیں رسید کرنی ہے۔

کامیاب اور مجرب لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیروکاروں کی نفسیات جانتا ہو،ان کی خواہشات سے بھی بخوبی واقف ہواور ان کی خامیوں خوبیوں سے مکمل آگاہی رکھتا ہو! قادری صاحب میں یہ تمام تر خصوصیات بدرجہ اتم وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ قادری صاحب تسی گریٹ ہو! دوسری جانب پیروکار بھی اپنے رہنما پر اس پائے کا اعتماد رکھتے ہیں کہ قادری صاحب کہہ دیں رات تو رات اور گر کہیں دن تو بس پھر دن!!!اس کامیابی کا سہرہ پاکستان میں جا بجا بے حساب کوڑیوں کے بھاؤ پھیلی کج علمی کے ساتھ ساتھ قادری صاحب کی دانش، فراست، حکمت، معاملہ فہمی، قصہ گوئی، سخنوری اور عالم رویا سے حاصل کردہ دہائیوں پر مشتمل اس تعلیم کو بھی جاتا ہے جس کا حصول کسی عام سے کمزور عقیدہ پاکستانی کے لئے ناممکنات میں سے ہے۔نہ ہماری ایسی عقل نہ شکل اور سونے پہ سہاگا نہ ہی ایسا ایمان جو عالمِ رویا میں حصولِ تعلیم کے لئے اندراج کی بنیادی شرائط میں سے ہے! اب مسئلہ یہ ہے کہ قادری صاحب کی صلاحیتوں کا معترف ہونا تو ٹھیک لیکن کیونکہ بیوقوفی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے تو اسی بیوقوفی میں بہت سوں کو قادری صاحب کے قول و فعل میں تضاد اس قدر دکھائی پڑتا ہے کہ رہے نام رب کا!

شروع کیجئے لاہور سے!مریدین کو انقلاب لائے بغیر اسلام آباد سے واپس آنے والے شرکاء کو بشمول قادری صاحب کے شہادت کا رتبہ بخش دینے کے حکم سے لے کراسلام آباد پہنچ جانے تک اور پھر اسلام آباد میں جوش یبانیوں کے سلسلے، قبروں کی کھدائی اور کفن پہنے مریدین سے لے کر پارلیمان پر حملے تک بعد ازاں حکومت گرانے میں ناکامی اور دھرنے ختم کرنے کے اعلان تک کا سفر حقیقتاً شیخ چلی کے قضیے سے زیادہ کچھ نہیں جس میں فتح کی نوید تھی ، جوش تھا، قصے تھے اور کامیاب انقلاب آ جانے کی خوش خبری بھی تھی جسے سن سن کر مریدین سر مستی سے دھنے چلے جاتے تھے۔ غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ مریدین کو وعدے کے مطابق ان کا من چاہا انقلاب تو نہیں ملا ہاں البتہ انقلاب کے نام پر پیر صاحب کی طرف سے تسلی اور ذہنی سطح پر انقلاب برپا کرنیکی مبارکباد ضرور مل گئی جو کہ مریدین کو مجازی انقلاب کے مزے اور دل کو فتح کی سی سرشاری محسوس کرانے کے لئے بہت کافی ہے۔


انقلاب مارچ کے آغاز سے جس جمہوری سیاسی نظام کو قادری صاحب استحصالی، ناکارہ اور مردہ نظام قرار دیتے رہے دھرنے کے اختتام پر نظام میں من چاہی تبدیلی لانے کے مقصد سے اسی جمہوری قاتل نظام کے تحت سیاسی جدوجہد کرنے پر متفق ہوئے اور اپنی جماعت کی تنظیم نو کا اعلان کر کے امریکا روانہ ہو گئے۔ اب اس حرکت کو کیا کہئیے گا؟ تبدیلی، انقلاب یا حکمتِ عملی!!! حکمتِ عملی ہے تو بات قابلِ فہم ہے کیونکہ دھرنوں کی ناکام پالیسی سے جان چھڑانے کا اس سے بہتر طریقہ اُس وقت میسر نہیں تھا لیکن اگر واقعی محترم اب تشدد ترک کر کے اسی نظام کے تحت سیاسی جد و جہد پر عمل پیرا ہوں گے تو پھر انقلاب درحقیقیت نظام لے کر آیا ہے قادری صاحب کی سوچ میں! دوسرے الفاظ میں نظام ختم کرنے کے وعدے سے لے کر اسی سیاسی جمہوری نظام کو تسلیم کرنے تک کاوقت قادری صاحب کے لئے انقلاب کا سفر ثابت ہوا ہے!

قوی امید ہے کہ تضاد یافتہ قادری صاحب سے متعلق یہ بھی محض ایک مفروضہ ہی ثابت ہو گا کیونکہ بصورتِ دیگر قادری صاحب اپنی بیماری کا علاج کرانے امریکا تشریف نہ لے جاتے بلکہ اسی انقلاب زدہ پیارے پاکستان میں اسی مریدینی عوام کے بیچ رہ کر یہیں کے ہسپتالوں اور ڈاکڑوں سے علاج کرواتے۔پاکستان اتنا گیا گزرا ملک بھی نہیں کہ قادری صاحب کو بہتر علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہ کر سکے لیکن فیصلہ قادری صاحب کا اختیار تھا اور انہوں نے اپنے مشکل وقت میں کینیڈین شہریت کو پاکستانی شہریت پر فوقیت دی جس کا ان کو پورا پورا حق حاصل ہے۔ حقیقی طور پر مریدین کو چھوڑ کر پاکستانی عوام سے ان کا اعتماد اسی دوران اٹھ گیا تھاجب عوام الناس نے اسلام آباد دھرنوں کے دوران بالعموم ان کی تشدد کی پالیسی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کی تمام انقلابی کالوں کو سنا ان سنا کر دیا ۔

دلی دعا ہے کہ خدا تعالی قادری صاحب کو جلد از جلد صحت عطا فرمائیں اوریہ صاحب رو بہ صحت ہو کر فوراً سے پہلے پاکستان کا رخ فرمائیں کیوں کہ شدید تفریحی قلت کے شکار پاکستان میں ان دھرنے ورنوں اور جلسے جلوسوں سے کافی رونق شونق لگی رہتی ہے، میڈیا کا ٹائم بھی اچھا بک جاتا ہے اور عوام کے لئے ڈرائینگ روم میں ملکی حالات پر بحث کے لئے کافی مواد بھی موجود رہتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story