یہ سب کیا ہو رہا ہے
عمران خان کے لیےبوجوہ میرے دل میں ایک نرم گوشہ اس وقت سے موجود ہے جب ابھی وہ سیاست کے میدان میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔
30 نومبر کو پی ٹی آئی کا اسپیشل دھرنا کیوں تھا اور حکومت وقت نے اسے کس طرح سے دیکھا او دکھایا؟ اس پر کئی پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے مگر مجھے سب سے پہلے اپنے گزشتہ کالم ''پی ٹی وی کے پچاس برس'' کے حوالے سے کچھ ضروری وضاحت کرنی ہے۔
ہوا یوں کہ یہ کالم میں نے اسلام آباد سے (جہاں میں انور مسعود کے بیٹے عزیزی عمار مسعود کی شادی اور پنجاب آرٹ کونسل کے دو لیکچرز کے ضمن میں 27 نومبر سے یکم دسمبر تک رہا) ای میل کیا تھا مگر سکینر کی سہولت مہیا نہ ہونے کے سبب اس کے صفحات کی کیمرے سے لی ہوئی تصویریں بھجوائیں، ادارتی صفحات کے نگران برادرم لطیف چوہدری نے فون پر بتایا کہ کئی الفاظ صحیح طرح سے پڑھے نہیں جا رہے اس لیے کالم روکنا پڑ رہا ہے۔ طے پایا کہ میں 2 دسمبر کو لاہور آ کر یہ کالم اوریجنل شکل میں بھجوا دوں گا تا کہ یہ اپنے آیندہ کے مقررہ دن یعنی جمعرات کو شایع ہو سکے لیکن اس دوران میں متعلقہ اسٹاف نے کوشش کر کے ''مشتبہ الفاظ'' کو اس حد تک پڑھ لیا کہ ان کے خیال میں چھپنے کے قابل ہو گیا اور بدھ کے روز شایع بھی کر دیا گیا۔
پی ٹی وی کی پچاس سالہ تاریخ کے حوالے سے اس میں بہت سے احباب کے نام شامل تھے تاہم پی ٹی وی کے نمایندہ مصنّفین کی فہرست میں سے برادرم اصغر ندیم سید کا نام رہ گیا جو بلا شبہ اپنے شاندار، مقبول عام اور یاد رہ جانے والے انفرادی ڈراموں اور ڈرامہ سیریلز کی وجہ سے پہلی صف کا آدمی ہے اور اس کا نام درج کیے بغیر کم از کم میرے نزدیک پی ٹی وی کے ٹاپ ٹین کی فہرست مکمل نہیں ہو سکتی۔ سو سب سے پہلے تو میں اس نادانستہ قسم کی غلطی پر اپنے اس عزیز دوست اور اس کے مداحین سے معذرت خواہ ہوں اسی طرح ایک اور لکھاری برادرم ڈاکٹر طارق عزیز کا نام بھی درج ہونے سے رہ گیا جنہوں نے بہت سے ڈرامے لکھے ہیں۔
چلیے اب عمران خان کے اس خصوصی دھرنے کی طرف چلتے ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل نیوز اینکرز کو ایک ایسی پھڑکتی ہوئی خبر کا رزق فراہم کر رہا تھا جس میں ہر طرح کے ڈرامائی عناصر، افراط اور شدت سے پائے جاتے تھے۔ عمران خان کے لیے بوجوہ میرے دل میں ایک نرم گوشہ اس وقت سے موجود ہے جب ابھی وہ سیاست کے میدان میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے اس کو کرکٹ کھیلتے دیکھا ہی نہیں بلکہ کئی برس اس کے ساتھ کھیلا بھی ہوں لیکن یہ بات تقریباً چالیس پینتالیس برس پرانی ہے۔ میرے شاعری اور ڈرامے کی طرف نکل جانے کی وجہ سے ہماری راہیں جدا ہو گئیں اور رابطے کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے گئے لیکن ورلڈ کپ کی جیت، کرکٹ سے ریٹائرمنٹ اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیری مہم کے دنوں میں تجدید ملاقات ہوئی تو ایک نیا عمران خان سامنے آیا۔
سان فرانسسکو کے ایک ڈنر میں جو کینسر اسپتال کی چندہ مہم کا حصہ تھا اور جس میں جمائما عمران بھی شریک تھی۔ ایک ہنگامی صورت حال میں مجھے اس کے اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی ادا کرنے پڑے (کہ اصل میزبان معین اختر مرحوم کو اچانک علالت کی وجہ سے کراچی میں ہی رکنا پڑگیا تھا) گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ زندگی اور مقصد حیات کے حوالے سے اب اس کے خیالات ایک ایسی نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں جو اس کی گزشتہ زندگی سے سراسر مختلف ہے اور وہ بڑی سنجیدگی سے اپنی تہذیب اور تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے کوئی ایک برس بعد اشفاق احد مرحوم کے گھر پر اس سے ایک طویل ملاقات ہوئی جس کا بنیادی موضوع اندلس کی اسلامی حکومت اور تہذیب کا عروج و زوال اور اس کی وجوہات کی تلاش اور نشان دہی تھی پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس نے تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی ہے جس کا مقصد وطن عزیز میں ایک ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہے جو غریبوں کے حقوق کی حفاظت اور انصاف کی پاسداری کا ضامن ہو۔
اس کی پارٹی کو تو مقبول ہونے میں خاصا وقت لگا مگر اس کی ذاتی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ نواز شریف حکومت کی برطرفی، 12 اکتوبر 1999ء کے مشرفانہ انقلاب، مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ اور زرداری کی پانچ سالہ نام نہاد جمہوریت نے 2013ء کے الیکشن سے قبل ایک ایسی فضا پیدا کر دی جس میں عمران خان کی باتیں معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے بعد سب سے اہم سیاسی جماعت بن گئی اگرچہ مسلم لیگ ن کو اپنی مقبولیت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ ناکارکردگی کا بھی بھر پور فائدہ ملا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں اسی کے حصے میں آئیں۔
دھاندلی ہوئی یا نہیں اور اگر ہوئی تو اس کا طریق کار اور ذمے دار کون تھا! اس بحث سے ہٹ کر دیکھا جائے تو انتخابات کی فضا، الیکشن کلچر اور اس دور کے تخمینوں اور اندازوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ شیشے کی طرح صاف اور شفاف ہوتا تب بھی قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سیٹوں کے نتائج میں تبدیلی کا امکان ہو سکتا تھا یعنی اگر یہ تمام سیٹیں پی ٹی آئی کو ہی مل جاتیں تب بھی اس کا اور مسلم لیگ کا فرق پچاس سے زیادہ سیٹوں کا ہوتا البتہ یہ فرق پڑ سکتا تھا کہ پی پی پی کی جگہ تحریک انصاف ایک نسبتاً مضبوط اور بڑی حزب اختلاف کے طور پر سامنے آتی۔
عمران خان کا یہ مطالبہ بالکل صحیح تھا کہ نہ صرف ان مشکوک سیٹوں کے معاملات کی باقاعدہ چھان بین کرائی جائے بلکہ آیندہ اور ہمیشہ کے لیے انتخابی دھاندلی کے راستے بند کرنے کے یے عملی اقدامات بھی کیے جائیں اور یہ کہ اس نیک عمل کا آغاز کن چار حلقوں سے کیا جائے مگر بدقسمتی سے میاں برادران کے مشیروں نے ایک پھر انھیں غلط ٹریک پر چلا دیا اور ان کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ سازشوں اور منصوبوں کا ایک ایسا تصوراتی ہوّا کھڑا کر دیا کہ انھوں نے آصف زرداری کی طرح ہر قیمت پر اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کو ہی اپنے لیے مرکزی نقطہ بنا لیا اور یوں عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا رویہ مخالفانہ اور ڈنگ ٹپاؤ ہوتا چلا گیا جب کہ درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے انھیں سب سے زیادہ ضرورت اسی جماعت کی تھی۔
ان کا یہ خدشہ بالکل بجا تھا کہ اگر متعلقہ چار حلقوں میں سے دو میں بھی کسی قسم کی دھاندلی ثابت ہو گئی تو ان کی حکومت کے جواز اور Credibility پر اس کا بہت منفی اثر پڑے گا لیکن انھوں نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ دوسری صورت میں وہ کسی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے! اس پر مستزاد ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے چند دن قبل حکومت کے مشیران خاص اور اس کی ذاتی ''وفادار پولیس'' نے ایک انتہائی ظالمانہ اور احمقانہ کارروائی کر کے انھیں ایک ایسی مشکل میں ڈال دیا جو شاید ان کے گمان میں بھی نہیں تھی اور یوں 14 اگست 2014ء کو شروع ہونے والے دھرنے ان کے لیے ایک آسیب کی شکل اختیار کرتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اتنی واضح اور فیصلہ کن اکثریت سے بننے والی حکومت اندر باہر سے ہل گئی۔
یہی وہ موقع تھا جہاں ماہرین کے نزدیک عمران خان اور پی ٹی آئی نے بھی ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا اور سیاسی بصیرت کے بجائے ایک ایسے جذباتی اور بچگانہ رویے کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے معاملات ان کی گرفت سے بھی پھسلنا شروع ہو گئے۔ اگر اس وقت عمران خان ''گو نواز گو'' کے نعرے لگانے اور لگوانے کے بجائے اپنے مطالبات کو منوانے پر زور دیتا اور Battle اور War کے فرق کو سمجھتے ہوئے اپنی حاصل کردہ کامیابی کو Consolidate کرنے کے کچھ عرصہ بعد اگلے معرکے لیے دوبارہ پیش قدمی کرتا تو شاید اس کے اور ملک کے حق میں زیادہ اچھا ہوتا۔ یہ کہنا کہ حکومت دھوکے باز جھوٹی اور منافق ہے اور کیے ہوئے وعدوں سے مکر جاتی ہے۔ ایک حد تک تو صحیح ہو سکتا ہے مگر اسے پوری اور مکمل حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ نواز شریف اور ان کی حکومت کو Target کرنا اور بات ہے اور اسے ایک Obsession بنا لینا ایک بالکل دوسری اور مختلف بات ہے۔
مانا کہ چودہ اگست سے 30 نومبر تک کے 109 دن طوالت کے اعتبار سے دھرنوں کی حد تک ایک عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بہرحال اس کا اصل مقصد نہیں تھا (قادری صاحب والے دھرنے کا شائد ہو کہ اس میں سوائے موصوف کے جوش خطابت کے اور کوئی بھی چیز چند دنوں سے زیادہ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہی اور نہ ہی مولانا اپنے ہی کیے ہوئے کسی وعدے اور اعلان پر قائم رہے، اللہ انھیں صحت دے تو ممکن ہے کسی روز یہ پتہ چل ہی جائے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر گئے کیوں تھے اور آئے کس لیے ہیں؟) عمران خان کے ایک سچا، محنتی جوشیلا اور محبت وطن پاکستانی ہونے سے انکار ممکن نہیں۔
اس نے جس طرح سے نئی نسل اور انتخابی سیاست سے الگ رہنے والی پڑھی لکھی کلاس کو متحرک کیا ہے اور میڈیا کے پرائم ٹائم کا غالب حصہ اپنے نام کیا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ صرف وہی سیاستدان بڑے لیڈر بنتے ہیں جن کی نظر اگلے الیکشن سے زیادہ اگلی نسل پر ہوتی ہے اور جو زمینی حقائق کو جذبے کے ساتھ ساتھ عقل کے ذریعے سے بھی سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں فی الوقت ہمارے معاشرے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سو اسے ٹھیک کرنے میں کچھ وقت تو بہرحال لگے گا۔
سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی برائیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ لیکن نہ یہ راتوں رات پیدا ہوئی تھیں اور نہ ہی راتوں رات ختم ہوں گی سو اگر آپ انھیں بہتر کرنے کی Space دیے بغیر ہر ایک سے لڑائی مول لے لیں تو کل کو آپ بالکل اکیلے رہ جائیں گے اور اگر آپ نے مڈٹرم یا آیندہ الیکشن میں کسی حد تک اکثریت حاصل کر بھی لی تب بھی کوئی آپ کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہو گا۔ ہمارا سیاسی نظام ابھی تک منشور اور پارٹی کے بجائے اشخاص کی بنیاد پر ہے شہروں کی تیس پینتیس فی صد سیٹوں سے قطع نظر اب بھی ووٹ پارٹی کے بجائے بیشتر دیہاتی علاقوں میں سرداروں، جاگیرداروں، پیروں اور برادریوں کو ہی پڑتا ہے۔ یہ صورت حال کتنی بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو بہرحال ایک حقیقت ہے۔
آپ میاں برادران کی سیاسی طاقت کو کمزور ضرور کریں لیکن اس رو میں ملک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے کیونکہ یہ کسی ایک جماعت یا گروہ کا نہیں ہم سب کا ہے میرے نزدیک عمران خان اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی اس وقت پاکستان کی سب سے اہم اور مقبول شخصیت ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی نیا پاکستان تو ضرور بنائیں مگر محبت دانش اور بردباری کے ساتھ برداشت اور وسعت قلب کے ساتھ اور سب سے زیادہ صبر اور حوصلے کے ساتھ۔
ہوا یوں کہ یہ کالم میں نے اسلام آباد سے (جہاں میں انور مسعود کے بیٹے عزیزی عمار مسعود کی شادی اور پنجاب آرٹ کونسل کے دو لیکچرز کے ضمن میں 27 نومبر سے یکم دسمبر تک رہا) ای میل کیا تھا مگر سکینر کی سہولت مہیا نہ ہونے کے سبب اس کے صفحات کی کیمرے سے لی ہوئی تصویریں بھجوائیں، ادارتی صفحات کے نگران برادرم لطیف چوہدری نے فون پر بتایا کہ کئی الفاظ صحیح طرح سے پڑھے نہیں جا رہے اس لیے کالم روکنا پڑ رہا ہے۔ طے پایا کہ میں 2 دسمبر کو لاہور آ کر یہ کالم اوریجنل شکل میں بھجوا دوں گا تا کہ یہ اپنے آیندہ کے مقررہ دن یعنی جمعرات کو شایع ہو سکے لیکن اس دوران میں متعلقہ اسٹاف نے کوشش کر کے ''مشتبہ الفاظ'' کو اس حد تک پڑھ لیا کہ ان کے خیال میں چھپنے کے قابل ہو گیا اور بدھ کے روز شایع بھی کر دیا گیا۔
پی ٹی وی کی پچاس سالہ تاریخ کے حوالے سے اس میں بہت سے احباب کے نام شامل تھے تاہم پی ٹی وی کے نمایندہ مصنّفین کی فہرست میں سے برادرم اصغر ندیم سید کا نام رہ گیا جو بلا شبہ اپنے شاندار، مقبول عام اور یاد رہ جانے والے انفرادی ڈراموں اور ڈرامہ سیریلز کی وجہ سے پہلی صف کا آدمی ہے اور اس کا نام درج کیے بغیر کم از کم میرے نزدیک پی ٹی وی کے ٹاپ ٹین کی فہرست مکمل نہیں ہو سکتی۔ سو سب سے پہلے تو میں اس نادانستہ قسم کی غلطی پر اپنے اس عزیز دوست اور اس کے مداحین سے معذرت خواہ ہوں اسی طرح ایک اور لکھاری برادرم ڈاکٹر طارق عزیز کا نام بھی درج ہونے سے رہ گیا جنہوں نے بہت سے ڈرامے لکھے ہیں۔
چلیے اب عمران خان کے اس خصوصی دھرنے کی طرف چلتے ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل نیوز اینکرز کو ایک ایسی پھڑکتی ہوئی خبر کا رزق فراہم کر رہا تھا جس میں ہر طرح کے ڈرامائی عناصر، افراط اور شدت سے پائے جاتے تھے۔ عمران خان کے لیے بوجوہ میرے دل میں ایک نرم گوشہ اس وقت سے موجود ہے جب ابھی وہ سیاست کے میدان میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے اس کو کرکٹ کھیلتے دیکھا ہی نہیں بلکہ کئی برس اس کے ساتھ کھیلا بھی ہوں لیکن یہ بات تقریباً چالیس پینتالیس برس پرانی ہے۔ میرے شاعری اور ڈرامے کی طرف نکل جانے کی وجہ سے ہماری راہیں جدا ہو گئیں اور رابطے کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے گئے لیکن ورلڈ کپ کی جیت، کرکٹ سے ریٹائرمنٹ اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیری مہم کے دنوں میں تجدید ملاقات ہوئی تو ایک نیا عمران خان سامنے آیا۔
سان فرانسسکو کے ایک ڈنر میں جو کینسر اسپتال کی چندہ مہم کا حصہ تھا اور جس میں جمائما عمران بھی شریک تھی۔ ایک ہنگامی صورت حال میں مجھے اس کے اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی ادا کرنے پڑے (کہ اصل میزبان معین اختر مرحوم کو اچانک علالت کی وجہ سے کراچی میں ہی رکنا پڑگیا تھا) گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ زندگی اور مقصد حیات کے حوالے سے اب اس کے خیالات ایک ایسی نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں جو اس کی گزشتہ زندگی سے سراسر مختلف ہے اور وہ بڑی سنجیدگی سے اپنی تہذیب اور تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے کوئی ایک برس بعد اشفاق احد مرحوم کے گھر پر اس سے ایک طویل ملاقات ہوئی جس کا بنیادی موضوع اندلس کی اسلامی حکومت اور تہذیب کا عروج و زوال اور اس کی وجوہات کی تلاش اور نشان دہی تھی پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس نے تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی ہے جس کا مقصد وطن عزیز میں ایک ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہے جو غریبوں کے حقوق کی حفاظت اور انصاف کی پاسداری کا ضامن ہو۔
اس کی پارٹی کو تو مقبول ہونے میں خاصا وقت لگا مگر اس کی ذاتی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ نواز شریف حکومت کی برطرفی، 12 اکتوبر 1999ء کے مشرفانہ انقلاب، مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ اور زرداری کی پانچ سالہ نام نہاد جمہوریت نے 2013ء کے الیکشن سے قبل ایک ایسی فضا پیدا کر دی جس میں عمران خان کی باتیں معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے بعد سب سے اہم سیاسی جماعت بن گئی اگرچہ مسلم لیگ ن کو اپنی مقبولیت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ ناکارکردگی کا بھی بھر پور فائدہ ملا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں اسی کے حصے میں آئیں۔
دھاندلی ہوئی یا نہیں اور اگر ہوئی تو اس کا طریق کار اور ذمے دار کون تھا! اس بحث سے ہٹ کر دیکھا جائے تو انتخابات کی فضا، الیکشن کلچر اور اس دور کے تخمینوں اور اندازوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ شیشے کی طرح صاف اور شفاف ہوتا تب بھی قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سیٹوں کے نتائج میں تبدیلی کا امکان ہو سکتا تھا یعنی اگر یہ تمام سیٹیں پی ٹی آئی کو ہی مل جاتیں تب بھی اس کا اور مسلم لیگ کا فرق پچاس سے زیادہ سیٹوں کا ہوتا البتہ یہ فرق پڑ سکتا تھا کہ پی پی پی کی جگہ تحریک انصاف ایک نسبتاً مضبوط اور بڑی حزب اختلاف کے طور پر سامنے آتی۔
عمران خان کا یہ مطالبہ بالکل صحیح تھا کہ نہ صرف ان مشکوک سیٹوں کے معاملات کی باقاعدہ چھان بین کرائی جائے بلکہ آیندہ اور ہمیشہ کے لیے انتخابی دھاندلی کے راستے بند کرنے کے یے عملی اقدامات بھی کیے جائیں اور یہ کہ اس نیک عمل کا آغاز کن چار حلقوں سے کیا جائے مگر بدقسمتی سے میاں برادران کے مشیروں نے ایک پھر انھیں غلط ٹریک پر چلا دیا اور ان کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ سازشوں اور منصوبوں کا ایک ایسا تصوراتی ہوّا کھڑا کر دیا کہ انھوں نے آصف زرداری کی طرح ہر قیمت پر اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کو ہی اپنے لیے مرکزی نقطہ بنا لیا اور یوں عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا رویہ مخالفانہ اور ڈنگ ٹپاؤ ہوتا چلا گیا جب کہ درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے انھیں سب سے زیادہ ضرورت اسی جماعت کی تھی۔
ان کا یہ خدشہ بالکل بجا تھا کہ اگر متعلقہ چار حلقوں میں سے دو میں بھی کسی قسم کی دھاندلی ثابت ہو گئی تو ان کی حکومت کے جواز اور Credibility پر اس کا بہت منفی اثر پڑے گا لیکن انھوں نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ دوسری صورت میں وہ کسی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے! اس پر مستزاد ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے چند دن قبل حکومت کے مشیران خاص اور اس کی ذاتی ''وفادار پولیس'' نے ایک انتہائی ظالمانہ اور احمقانہ کارروائی کر کے انھیں ایک ایسی مشکل میں ڈال دیا جو شاید ان کے گمان میں بھی نہیں تھی اور یوں 14 اگست 2014ء کو شروع ہونے والے دھرنے ان کے لیے ایک آسیب کی شکل اختیار کرتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اتنی واضح اور فیصلہ کن اکثریت سے بننے والی حکومت اندر باہر سے ہل گئی۔
یہی وہ موقع تھا جہاں ماہرین کے نزدیک عمران خان اور پی ٹی آئی نے بھی ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا اور سیاسی بصیرت کے بجائے ایک ایسے جذباتی اور بچگانہ رویے کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے معاملات ان کی گرفت سے بھی پھسلنا شروع ہو گئے۔ اگر اس وقت عمران خان ''گو نواز گو'' کے نعرے لگانے اور لگوانے کے بجائے اپنے مطالبات کو منوانے پر زور دیتا اور Battle اور War کے فرق کو سمجھتے ہوئے اپنی حاصل کردہ کامیابی کو Consolidate کرنے کے کچھ عرصہ بعد اگلے معرکے لیے دوبارہ پیش قدمی کرتا تو شاید اس کے اور ملک کے حق میں زیادہ اچھا ہوتا۔ یہ کہنا کہ حکومت دھوکے باز جھوٹی اور منافق ہے اور کیے ہوئے وعدوں سے مکر جاتی ہے۔ ایک حد تک تو صحیح ہو سکتا ہے مگر اسے پوری اور مکمل حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ نواز شریف اور ان کی حکومت کو Target کرنا اور بات ہے اور اسے ایک Obsession بنا لینا ایک بالکل دوسری اور مختلف بات ہے۔
مانا کہ چودہ اگست سے 30 نومبر تک کے 109 دن طوالت کے اعتبار سے دھرنوں کی حد تک ایک عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بہرحال اس کا اصل مقصد نہیں تھا (قادری صاحب والے دھرنے کا شائد ہو کہ اس میں سوائے موصوف کے جوش خطابت کے اور کوئی بھی چیز چند دنوں سے زیادہ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہی اور نہ ہی مولانا اپنے ہی کیے ہوئے کسی وعدے اور اعلان پر قائم رہے، اللہ انھیں صحت دے تو ممکن ہے کسی روز یہ پتہ چل ہی جائے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر گئے کیوں تھے اور آئے کس لیے ہیں؟) عمران خان کے ایک سچا، محنتی جوشیلا اور محبت وطن پاکستانی ہونے سے انکار ممکن نہیں۔
اس نے جس طرح سے نئی نسل اور انتخابی سیاست سے الگ رہنے والی پڑھی لکھی کلاس کو متحرک کیا ہے اور میڈیا کے پرائم ٹائم کا غالب حصہ اپنے نام کیا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ صرف وہی سیاستدان بڑے لیڈر بنتے ہیں جن کی نظر اگلے الیکشن سے زیادہ اگلی نسل پر ہوتی ہے اور جو زمینی حقائق کو جذبے کے ساتھ ساتھ عقل کے ذریعے سے بھی سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں فی الوقت ہمارے معاشرے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سو اسے ٹھیک کرنے میں کچھ وقت تو بہرحال لگے گا۔
سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی برائیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ لیکن نہ یہ راتوں رات پیدا ہوئی تھیں اور نہ ہی راتوں رات ختم ہوں گی سو اگر آپ انھیں بہتر کرنے کی Space دیے بغیر ہر ایک سے لڑائی مول لے لیں تو کل کو آپ بالکل اکیلے رہ جائیں گے اور اگر آپ نے مڈٹرم یا آیندہ الیکشن میں کسی حد تک اکثریت حاصل کر بھی لی تب بھی کوئی آپ کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہو گا۔ ہمارا سیاسی نظام ابھی تک منشور اور پارٹی کے بجائے اشخاص کی بنیاد پر ہے شہروں کی تیس پینتیس فی صد سیٹوں سے قطع نظر اب بھی ووٹ پارٹی کے بجائے بیشتر دیہاتی علاقوں میں سرداروں، جاگیرداروں، پیروں اور برادریوں کو ہی پڑتا ہے۔ یہ صورت حال کتنی بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو بہرحال ایک حقیقت ہے۔
آپ میاں برادران کی سیاسی طاقت کو کمزور ضرور کریں لیکن اس رو میں ملک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے کیونکہ یہ کسی ایک جماعت یا گروہ کا نہیں ہم سب کا ہے میرے نزدیک عمران خان اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی اس وقت پاکستان کی سب سے اہم اور مقبول شخصیت ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی نیا پاکستان تو ضرور بنائیں مگر محبت دانش اور بردباری کے ساتھ برداشت اور وسعت قلب کے ساتھ اور سب سے زیادہ صبر اور حوصلے کے ساتھ۔