خاتون ہونے کے ناتے میرا حق کبھی سلب نہیں ہوا
معروف شاعرہ، نقّاد اور ماہر تعلیم پروین طاہر کے ساتھ چند باتیں
''میں نے لمحہ موجود میں زندہ رہنا سیکھ لیا ہے، بہ ظاہر کام یاب دکھائی دیتی ہوں لیکن آموزش کا عمل شاید ابھی باقی ہے''
اس ایک جملے نے پروین طاہر کی شخصیت کے بہت سے پردے ہٹا دیے تھے۔ سال 2005 میں ان کی نظموں کا مجموعہ ''تنکے کا باطن'' منظر عام پر آ چکا ہے جسے ادبی سماج نے اردو کے شعری ذخیرے میں اور خاص طور پر نسائی ادب میں ایک بہت اچھا اضافہ قرار دیا ہے اس کے علاوہ پروین کے ادبی تجزیوں اور تنقیدی مضامین کو بھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے ہاں طبیعیات اور مابعدالطبعیات کا بہت خوب صورت امتزاج ملتا ہے، ان کے اندر بہ یک وقت ایک صوفی اور ایک معقولیت پسند بیٹھا ہے اور عجب یہ ہے کہ دونوں میں اختلافِ رائے کے باوجود کبھی تصادم نہیں ہوتا ۔یہ ان کی عام زندگی کا رویہ بھی ہے۔ انہیں پڑھتے ہوئے ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ وہ طبیعیات جیسے خشک اور بھاری بھرکم مضمون کی استاد ہیں۔
پروین طاہر نے سیالکوٹ سے میٹرک لیڈی اینڈرسن ہائی اسکول سے کیا، پھر ایف ایس سی اور بی ایس سی تک کی تعلیم گورنمنٹ کالج فار ویمن لاہور سے مکمل کی۔ بعد ازاں ایم ایس سی پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے مکمل کیا اور درس و تدریس کے شعبے میں آگئیں، اسی دوران اردو میں بھی ایم اے کر لیا۔ پروین ایک متحرک مزاج کی حامل ہیں، ''بے کار مباش کچھ کیا کر'' کی قائل ہیں لیکن علم و عمل کے حوالے سے ''کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر'' والا مزاج نہیں رکھتیں بل کہ اس معاملے میں ازحد سنجیدہ اور انتخابی رویہ رکھتی ہیں سو آج کل نمل یونی ورسٹی اسلام آباد سے ہی اردو ادب میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہی ہیں۔
''سائنس اور ادب کو ساتھ لے کر چلنے کا تجربہ میرے لیے انوکھا نہیں طبیعیات میں ایٹم کامرکزہ اور نظم میں ایک مربوط خیال، میرے لیے ایک جیسا تجربہ ہے۔ نظم میں مرکزی خیال جامع نہ ہو تو سب کچھ بے معنی لگتا ہے جس طرح ایٹم کا مرکزہ ٹوٹ جائے تو خود ایٹم بکھر جاتا ہے، بالکل ویسا ہی عمل ،جو ایک تجریدی قسم کا خیال بھی ہے لیکن میرے لیے ٹھوس اور جامع حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی لیے میں نظم کی طرف زیادہ مائل ہوئی، دوسری بات یہ بھی کہ نظم میں بات کہنے کی آزادی غزل کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، گو کہ غزل میرے طبعی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتی مگر میں غزل کو دل جمعی سے نہ صرف پڑھتی ہوں بل کہ اُس کی دل کشی کو محسوس بھی کرتی ہوں۔
سائنس کی طالبہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سائنس دانوں میں حسِ جمال نہیں ہوتی، جملے کی آمد، شعر کی بنت اگر مجھے مابعدالطبیعیات کی طرف لے جاتی ہے، تو فزکس مجھے اِس رستے کی تفہیم سمجھانے لگتی ہے۔ میں اپنی خوش قسمتی اور بدقسمتی کو اس تناظر میں بہت اچھی طرح پہچاننے لگی ہوں۔ خوش قسمتی سے بدقسمتی کا سفر ایک قدم کی مسافت کا ہوتا ہے، جس پر انسان کا زور نہیں چلتا، ایک قدم غلط اٹھ جائے تو مسافت رائیگاں ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے، یہی زندگی ہے۔ یہی اِس سفر کا حسن بھی ہے۔ بچپن میں ماں باپ کی لاڈلی ٹھہری، پیا گھر آئی تو لاڈلی کا منصب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا، اولاد نے اِس کو کندن کر دیا، اتنا لاڈ، اتنا پیار، میں اِس قابل کہاں، پھر ایک دن میرا 15 سالہ اکلوتا لاڈلا بیٹا پانی کی نذر ہو گیا۔
میں خود لاڈلی تھی، مجھے میرے ہی لاڈلے نے پانی میں ڈوب کر آگ میں جھونک دیا، منتوں مرادوں سے لیا ہوا ''فیضان'' مجھے ایک نئے رستے پر ڈال کر خود اُس راہ پر چل دیا جہاں سے میں نے لمحۂ موجود سے آشنائی حاصل کی۔ ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں، جو تھوڑا بہت بس میں تھا، جس کو میں ہوش سنبھالتے ہی جاننے لگی تھی، اب اُس میں خود کو ڈبو دیا، کتاب میرا سہارا بن گئی اور میں اِس سانحے سے نکل کر پھر سے جینے کی کوشش میں مصروف ہو گئی۔ اس مصروفیت نے مجھے ایم اے اردو کرنے کی ہمت دی اور اب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں لیکن ساتھ ہی اسسٹنٹ پروفیسر (فزکس) کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج فار وویمن مسلم ٹائون راول پنڈی میں درس و تدریس کا عمل بھی جاری ہے''۔
پروین طاہر کی شخصیت کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ وہ حقوقِ نسواں کو مسئلہ نہیں سمجھتیں۔ ''بہ حیثیتِ خاتون آج تک میرا حق سلب ہی نہیں ہوا، میرے ذاتی تجربے میں عورت کے حقوق کے لیے جدوجہد کا عمل دخل بہت ہی کم ہے، لیکن میں اپنی ہم جنس کے دکھ سے، تجربے سے آگاہ ہوں۔ عورت کا حق کیا ہے اور فرض کیا یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ عورت کے حقوق اور فرائض مرد کی نسبت فطرت کے زیادہ قریب ہیں، عورت میں یہ جوہر موجود ہے کہ مرد جو بات سننے، کہنے اور سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھ سکتا وہی بات اکثر و بیش تر عورت بنا کچھ کہے، سنے اور بولے جان جاتی ہے، اِسی لیے خاتون کو فطرت نے زیادہ برداشت سے نوازا ہے۔ لازمی بات ہے جو صبر کے مقام پر ہو گا، اُس کا خیال رکھنا زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔ اِس تناظر میں حقوقِ نسواں ایک خاص حیثیت اختیار کر جاتا ہے''۔
پروین طاہر نے انکار کر دیا کہ وہ کسب کی طاقت سے نظم لکھتی ہیں، میں قلبی واردات کے زور پر ہی کچھ لکھ یا کہ پاتی ہوں زیادہ نہ لکھنے کی بھی وجہ یہ ہی ہے۔ بہت کم کم نظم لکھتی ہوں، بعض اوقات پورا سال خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ میں زبردستی شاعری کی قائل نہیں ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ اصل شاعری اُسی وقت ہو سکتی ہے جب آمد اپنے عروج پر ہو اور لکھنے پر طبیعت پورے وفور کے ساتھ آمادہ ہو اگر اس کے بغیر شاعری کی جائے تو وہ تخلیق نہیں ہوسکتی میرے نزدیک کسب ہو گا۔
شاعر کی برداشت کا لیول عام لوگوں سے زیادہ بلند ہوتا ہے جو اُن کو انسان دوست بنا دیتا ہے، جو اِس جوہر کا حامل نہیں وہ معاشرے کی مزاج آشنائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ شاعری الہامی وصف ضرور ہے مگر اِس کی تربیت حاصل کیے بنا چارہ نہیں۔ علامت کو کردار بنانا، یا کردار کو تحلیل کرکے علامت کا روپ دینا تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کل شاعروں کو قاری نہیں ملتا، یہ عہد حاضر کا ایک المیّہ ہے، شاعروں کو شاعر ہی پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور ان پر تنقید کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں، شاید اس کی ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا بھی ہو، جس نے مطالعہ بینی کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہے، حال آں کہ کتاب کا نعم البدل ہے ہی نہیں۔
کتاب پڑھنے کے عمل میں خیال جہاں جہاں سے گزرتا ہے، وہاں پر کیمرے کی آنکھ، یا کوئی دوسرا الیکٹرانک آلہ نہیں گزر سکتا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ''Innovation'' (اختراع) کا عمل اکثر و بیش تر دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر ایک جملہ، ایک مصرع یا ایک لفظ انسانی سوچوں کو حیرت کے سمندر میں لے جاتا ہے جہاں سب کچھ خود بخود ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ قاری کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس قاری ایک خیال سے دوسرے، تیسرے اور نہ جانے کتنے خیالوں سے ہوتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں اُس کی روح ایک نئی سمت سے آشنا ہو جاتی ہے۔
یہ کتاب کا کمال ہے اسی لیے آج بھی مغرب میں کتاب کو الیکٹرانک میڈیا پر فوقیت حاصل ہے۔ وہاں آج بھی لوگ چلتے پھرتے سفر کرتے ہوئے کتاب کو ساتھ رکھتے ہیں، جوں ہی کوئی لمحہ فرصت کا ملتا ہے تو وہ فضول گوئی کے بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یورپ میں آج بھی کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی جب کہ ہمارے ہاں اِس کے بالکل برعکس ہو چکا ہے''۔
اپنے دل کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''افراتفری کے اِس دور میں علم و ادب کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ مطالعہ آج کی سب سے بڑی سرگرمی ہونی چاہیے تاکہ رِفعت خیال کی آب یاری ہو سکے۔ میں اپنے حکم رانوں کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ کتاب کو عزت دینے سے ہی پاکستانی قوم باعزت ہو سکے گی۔ نظام تعلیم میں تبدیلی عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ سمت بدلنے کا وقت آ چکا ہے، استاداور علم و ادب کا احترام لازم ہوگیا ہے، اِس چھوٹے سے عمل سے قوم دال روٹی کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ پر آ جائے گی۔ نظام معیشت سے قباحتیں دور ہونے لگیں گی، مجھے فلاحی ریاست کا تصور بہت اچھا لگتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ کتاب ہی فلاح کو ممکن کر سکتی ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ ہمارے معاشرے میں جیسے جیسے مطالعہ بینی کم ہو رہی ہے اُسی تناسب سے معاشرے میں صلہ رحمی بھی کم ہو رہا ہے''۔
پروین طاہر نے ملک کی موجود ابتر صورت حال کو وطن عزیز کی جغرافیائی پوزیشن سے تعبیر کیا۔ بعض اوقات حسن و جمال انسان کے لیے عذاب بن جاتا ہے، پاکستان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں، کچھ نظریں حاسدین کی ہیں تو کچھ مفاد پرستوں کی، اِس ملک کو ہر کوئی اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے، یہاں تک کہ وطن کے اندر رہنے والے بھی باہر والوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ خواہ مجبوری کے عالم میں ایسا کر رہے ہیں یا اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر، یہ پاکستان کے ساتھ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ ہم لاکھ آپس میں لڑیں، مریں، لیکن باہر والوں کے لیے ہمیں متحد ہو کر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم کشکول توڑ کر اُسے بہ وقت ضرورت پھر نظریہ ضرورت کی ''ایلفی'' سے جوڑ لیتے ہیں۔ کشکول اٹھانے والے ہاتھ کاٹنا ہوں گے، تب ہی جا کر وطن عزیز کی جغرافیائی حیثیت معتبر ہو سکے گی''۔
بطور نقاد پروین طاہر نے کہا ''مجھے شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ منصب بھی اچھا لگا۔ تنقید لکھنے سے پہلے میں بہت زیادہ مطالعہ کرتی ہوں، تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کچھ لکھتی ہوں، عملی تنقید مجھے پسند ہے، اس سے قاری کی تربیت ہوتی ہے، گزشتہ عہد میں نظم پر جو تنقید ہوئی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہوں، میرے لیے یہ کوئی خشک اور بور کام نہیں، یہ مجھے محبت کرنے جیسا عمل لگتا ہے''۔
پروین طاہر نے بڑے اعتماد سے کہا ''میں نے مستقبل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا، لمحہ موجود ہی میرا سب کچھ ہے، یہ تجربہ اتنا سنسنی خیز ہے کہ کئی برس گزرنے کے باوجود بیٹے کی جدائی اِس طرح تازہ ہو جاتی ہے جیسے یہ سانحہ ابھی ابھی گزرا ہو، وقت بہت بڑا مرہم ہے، لیکن بعض زخم اِس مرہم سے بھی نہیں بھرتے۔ پھر ایسے زخموں کو باقاعدہ تازہ رکھنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس طرح گل دان میں پھولوں کو رکھا جاتا ہے اِسی طرح بچھڑنے والوں کو دِل میں جگہ دینا پڑتی ہے، میں اپنے لمحۂ موجود میں خود فراموشی اور خود شناسی کے عمل سے بہ یک وقت گزرتی ہوں، یہ میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا مگر میں نے حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا، بس ارادہ نیک اور نیت صالح ہونی چاہیے، میں نے بیٹے کی موت کے بعد منصوبے بنانے تو چھوڑ دیے مگر خواب دیکھنا نہیں چھوڑے، وہ میری آنکھوں میں اب بھی رہتے ہیں''۔
نقد و نظر کے حوالے سے انہوں نے کہا ''آج کل مجلسی تنقید کا دور ہے، تاثراتی تنقید ہو رہی ہے، بے جا تعریف کا پہلو روشن اور تحقیق کا دیا بجھ چکا ہے، معیاری تنقید نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے نااہل لوگ خود رو پودوں کی طرح اُگ آئے ہیں، ذاتی تعلقات اور گروپ بندیوں سے بلند ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کبھی کبھی مجھے یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کو قاری سے اور قاری کو کتاب سے دور کرنے میں لکھنے والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وہ کچھ لکھتے ہیں تو وہ قاری کو درمیان سے نکال کر مسابقت اور مقابلے کے میدان میں اتر آتے ہیں، اکثر ایک دوسرے کی خاطر لکھتے ہیں، قاری جائے بھاڑ میں، اِس رویے کے باعث قارئین بھی اب چٹ پٹی تحریروں کے عادی ہو گئے ہیں۔
وہ بھی اب ''ریڈی میڈ'' تحریروں کو پذیرائی دیتے ہیں، اِس سارے عمل میں نقصان علم و ادب کا ہو رہا ہے، پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ادب جمود کا شکار ہے، یورپ کے حالیہ معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر جس بڑے پیمانے کے ساتھ کوششیں ہوئیں وہ ایک اچھا امر تھا۔ کاش اِس طرح کی ایک کوشش علم و ادب کے لیے بھی ہو تاکہ ہمارے آنے والے دِن، آج سے بہتر ہو جائیں، بہتری سے میری مراد آسائش و زیبائش ہرگز نہیں بل کہ امن، محبت، صبر و تحمل، بھائی چارہ اور رواداری ہے''۔
بحیثیت عورت پروین نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا ''باپ نے اگر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کی تو شوہر نے اپنی محبت میں مجھے ریزہ ریزہ کر دیا۔ طاہر کی محبت کا احسان میں قائم رکھنا چاہتی ہوں، آج میں جوکچھ بھی ہوں، اُسی کی حوصلہ افزائی سے ہوں، مردوں کو خواتین کی حوصلہ افزائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے، مرد کی محبت عورت کا راستہ آسان کر دیتی ہے جو عورت اِس نعمت سے سرفراز ہو جائے، اُس کے تخلیقی عمل کے سامنے کوئی شے ،کوئی دیوار حائل نہیں ہو سکتی''۔
اس ایک جملے نے پروین طاہر کی شخصیت کے بہت سے پردے ہٹا دیے تھے۔ سال 2005 میں ان کی نظموں کا مجموعہ ''تنکے کا باطن'' منظر عام پر آ چکا ہے جسے ادبی سماج نے اردو کے شعری ذخیرے میں اور خاص طور پر نسائی ادب میں ایک بہت اچھا اضافہ قرار دیا ہے اس کے علاوہ پروین کے ادبی تجزیوں اور تنقیدی مضامین کو بھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے ہاں طبیعیات اور مابعدالطبعیات کا بہت خوب صورت امتزاج ملتا ہے، ان کے اندر بہ یک وقت ایک صوفی اور ایک معقولیت پسند بیٹھا ہے اور عجب یہ ہے کہ دونوں میں اختلافِ رائے کے باوجود کبھی تصادم نہیں ہوتا ۔یہ ان کی عام زندگی کا رویہ بھی ہے۔ انہیں پڑھتے ہوئے ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ وہ طبیعیات جیسے خشک اور بھاری بھرکم مضمون کی استاد ہیں۔
پروین طاہر نے سیالکوٹ سے میٹرک لیڈی اینڈرسن ہائی اسکول سے کیا، پھر ایف ایس سی اور بی ایس سی تک کی تعلیم گورنمنٹ کالج فار ویمن لاہور سے مکمل کی۔ بعد ازاں ایم ایس سی پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے مکمل کیا اور درس و تدریس کے شعبے میں آگئیں، اسی دوران اردو میں بھی ایم اے کر لیا۔ پروین ایک متحرک مزاج کی حامل ہیں، ''بے کار مباش کچھ کیا کر'' کی قائل ہیں لیکن علم و عمل کے حوالے سے ''کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر'' والا مزاج نہیں رکھتیں بل کہ اس معاملے میں ازحد سنجیدہ اور انتخابی رویہ رکھتی ہیں سو آج کل نمل یونی ورسٹی اسلام آباد سے ہی اردو ادب میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہی ہیں۔
''سائنس اور ادب کو ساتھ لے کر چلنے کا تجربہ میرے لیے انوکھا نہیں طبیعیات میں ایٹم کامرکزہ اور نظم میں ایک مربوط خیال، میرے لیے ایک جیسا تجربہ ہے۔ نظم میں مرکزی خیال جامع نہ ہو تو سب کچھ بے معنی لگتا ہے جس طرح ایٹم کا مرکزہ ٹوٹ جائے تو خود ایٹم بکھر جاتا ہے، بالکل ویسا ہی عمل ،جو ایک تجریدی قسم کا خیال بھی ہے لیکن میرے لیے ٹھوس اور جامع حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی لیے میں نظم کی طرف زیادہ مائل ہوئی، دوسری بات یہ بھی کہ نظم میں بات کہنے کی آزادی غزل کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، گو کہ غزل میرے طبعی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتی مگر میں غزل کو دل جمعی سے نہ صرف پڑھتی ہوں بل کہ اُس کی دل کشی کو محسوس بھی کرتی ہوں۔
سائنس کی طالبہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سائنس دانوں میں حسِ جمال نہیں ہوتی، جملے کی آمد، شعر کی بنت اگر مجھے مابعدالطبیعیات کی طرف لے جاتی ہے، تو فزکس مجھے اِس رستے کی تفہیم سمجھانے لگتی ہے۔ میں اپنی خوش قسمتی اور بدقسمتی کو اس تناظر میں بہت اچھی طرح پہچاننے لگی ہوں۔ خوش قسمتی سے بدقسمتی کا سفر ایک قدم کی مسافت کا ہوتا ہے، جس پر انسان کا زور نہیں چلتا، ایک قدم غلط اٹھ جائے تو مسافت رائیگاں ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے، یہی زندگی ہے۔ یہی اِس سفر کا حسن بھی ہے۔ بچپن میں ماں باپ کی لاڈلی ٹھہری، پیا گھر آئی تو لاڈلی کا منصب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا، اولاد نے اِس کو کندن کر دیا، اتنا لاڈ، اتنا پیار، میں اِس قابل کہاں، پھر ایک دن میرا 15 سالہ اکلوتا لاڈلا بیٹا پانی کی نذر ہو گیا۔
میں خود لاڈلی تھی، مجھے میرے ہی لاڈلے نے پانی میں ڈوب کر آگ میں جھونک دیا، منتوں مرادوں سے لیا ہوا ''فیضان'' مجھے ایک نئے رستے پر ڈال کر خود اُس راہ پر چل دیا جہاں سے میں نے لمحۂ موجود سے آشنائی حاصل کی۔ ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں، جو تھوڑا بہت بس میں تھا، جس کو میں ہوش سنبھالتے ہی جاننے لگی تھی، اب اُس میں خود کو ڈبو دیا، کتاب میرا سہارا بن گئی اور میں اِس سانحے سے نکل کر پھر سے جینے کی کوشش میں مصروف ہو گئی۔ اس مصروفیت نے مجھے ایم اے اردو کرنے کی ہمت دی اور اب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں لیکن ساتھ ہی اسسٹنٹ پروفیسر (فزکس) کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج فار وویمن مسلم ٹائون راول پنڈی میں درس و تدریس کا عمل بھی جاری ہے''۔
پروین طاہر کی شخصیت کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ وہ حقوقِ نسواں کو مسئلہ نہیں سمجھتیں۔ ''بہ حیثیتِ خاتون آج تک میرا حق سلب ہی نہیں ہوا، میرے ذاتی تجربے میں عورت کے حقوق کے لیے جدوجہد کا عمل دخل بہت ہی کم ہے، لیکن میں اپنی ہم جنس کے دکھ سے، تجربے سے آگاہ ہوں۔ عورت کا حق کیا ہے اور فرض کیا یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ عورت کے حقوق اور فرائض مرد کی نسبت فطرت کے زیادہ قریب ہیں، عورت میں یہ جوہر موجود ہے کہ مرد جو بات سننے، کہنے اور سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھ سکتا وہی بات اکثر و بیش تر عورت بنا کچھ کہے، سنے اور بولے جان جاتی ہے، اِسی لیے خاتون کو فطرت نے زیادہ برداشت سے نوازا ہے۔ لازمی بات ہے جو صبر کے مقام پر ہو گا، اُس کا خیال رکھنا زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔ اِس تناظر میں حقوقِ نسواں ایک خاص حیثیت اختیار کر جاتا ہے''۔
پروین طاہر نے انکار کر دیا کہ وہ کسب کی طاقت سے نظم لکھتی ہیں، میں قلبی واردات کے زور پر ہی کچھ لکھ یا کہ پاتی ہوں زیادہ نہ لکھنے کی بھی وجہ یہ ہی ہے۔ بہت کم کم نظم لکھتی ہوں، بعض اوقات پورا سال خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ میں زبردستی شاعری کی قائل نہیں ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ اصل شاعری اُسی وقت ہو سکتی ہے جب آمد اپنے عروج پر ہو اور لکھنے پر طبیعت پورے وفور کے ساتھ آمادہ ہو اگر اس کے بغیر شاعری کی جائے تو وہ تخلیق نہیں ہوسکتی میرے نزدیک کسب ہو گا۔
شاعر کی برداشت کا لیول عام لوگوں سے زیادہ بلند ہوتا ہے جو اُن کو انسان دوست بنا دیتا ہے، جو اِس جوہر کا حامل نہیں وہ معاشرے کی مزاج آشنائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ شاعری الہامی وصف ضرور ہے مگر اِس کی تربیت حاصل کیے بنا چارہ نہیں۔ علامت کو کردار بنانا، یا کردار کو تحلیل کرکے علامت کا روپ دینا تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کل شاعروں کو قاری نہیں ملتا، یہ عہد حاضر کا ایک المیّہ ہے، شاعروں کو شاعر ہی پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور ان پر تنقید کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں، شاید اس کی ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا بھی ہو، جس نے مطالعہ بینی کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہے، حال آں کہ کتاب کا نعم البدل ہے ہی نہیں۔
کتاب پڑھنے کے عمل میں خیال جہاں جہاں سے گزرتا ہے، وہاں پر کیمرے کی آنکھ، یا کوئی دوسرا الیکٹرانک آلہ نہیں گزر سکتا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ''Innovation'' (اختراع) کا عمل اکثر و بیش تر دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر ایک جملہ، ایک مصرع یا ایک لفظ انسانی سوچوں کو حیرت کے سمندر میں لے جاتا ہے جہاں سب کچھ خود بخود ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ قاری کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس قاری ایک خیال سے دوسرے، تیسرے اور نہ جانے کتنے خیالوں سے ہوتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں اُس کی روح ایک نئی سمت سے آشنا ہو جاتی ہے۔
یہ کتاب کا کمال ہے اسی لیے آج بھی مغرب میں کتاب کو الیکٹرانک میڈیا پر فوقیت حاصل ہے۔ وہاں آج بھی لوگ چلتے پھرتے سفر کرتے ہوئے کتاب کو ساتھ رکھتے ہیں، جوں ہی کوئی لمحہ فرصت کا ملتا ہے تو وہ فضول گوئی کے بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یورپ میں آج بھی کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی جب کہ ہمارے ہاں اِس کے بالکل برعکس ہو چکا ہے''۔
اپنے دل کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''افراتفری کے اِس دور میں علم و ادب کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ مطالعہ آج کی سب سے بڑی سرگرمی ہونی چاہیے تاکہ رِفعت خیال کی آب یاری ہو سکے۔ میں اپنے حکم رانوں کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ کتاب کو عزت دینے سے ہی پاکستانی قوم باعزت ہو سکے گی۔ نظام تعلیم میں تبدیلی عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ سمت بدلنے کا وقت آ چکا ہے، استاداور علم و ادب کا احترام لازم ہوگیا ہے، اِس چھوٹے سے عمل سے قوم دال روٹی کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ پر آ جائے گی۔ نظام معیشت سے قباحتیں دور ہونے لگیں گی، مجھے فلاحی ریاست کا تصور بہت اچھا لگتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ کتاب ہی فلاح کو ممکن کر سکتی ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ ہمارے معاشرے میں جیسے جیسے مطالعہ بینی کم ہو رہی ہے اُسی تناسب سے معاشرے میں صلہ رحمی بھی کم ہو رہا ہے''۔
پروین طاہر نے ملک کی موجود ابتر صورت حال کو وطن عزیز کی جغرافیائی پوزیشن سے تعبیر کیا۔ بعض اوقات حسن و جمال انسان کے لیے عذاب بن جاتا ہے، پاکستان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں، کچھ نظریں حاسدین کی ہیں تو کچھ مفاد پرستوں کی، اِس ملک کو ہر کوئی اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے، یہاں تک کہ وطن کے اندر رہنے والے بھی باہر والوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ خواہ مجبوری کے عالم میں ایسا کر رہے ہیں یا اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر، یہ پاکستان کے ساتھ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ ہم لاکھ آپس میں لڑیں، مریں، لیکن باہر والوں کے لیے ہمیں متحد ہو کر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم کشکول توڑ کر اُسے بہ وقت ضرورت پھر نظریہ ضرورت کی ''ایلفی'' سے جوڑ لیتے ہیں۔ کشکول اٹھانے والے ہاتھ کاٹنا ہوں گے، تب ہی جا کر وطن عزیز کی جغرافیائی حیثیت معتبر ہو سکے گی''۔
بطور نقاد پروین طاہر نے کہا ''مجھے شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ منصب بھی اچھا لگا۔ تنقید لکھنے سے پہلے میں بہت زیادہ مطالعہ کرتی ہوں، تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کچھ لکھتی ہوں، عملی تنقید مجھے پسند ہے، اس سے قاری کی تربیت ہوتی ہے، گزشتہ عہد میں نظم پر جو تنقید ہوئی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہوں، میرے لیے یہ کوئی خشک اور بور کام نہیں، یہ مجھے محبت کرنے جیسا عمل لگتا ہے''۔
پروین طاہر نے بڑے اعتماد سے کہا ''میں نے مستقبل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا، لمحہ موجود ہی میرا سب کچھ ہے، یہ تجربہ اتنا سنسنی خیز ہے کہ کئی برس گزرنے کے باوجود بیٹے کی جدائی اِس طرح تازہ ہو جاتی ہے جیسے یہ سانحہ ابھی ابھی گزرا ہو، وقت بہت بڑا مرہم ہے، لیکن بعض زخم اِس مرہم سے بھی نہیں بھرتے۔ پھر ایسے زخموں کو باقاعدہ تازہ رکھنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس طرح گل دان میں پھولوں کو رکھا جاتا ہے اِسی طرح بچھڑنے والوں کو دِل میں جگہ دینا پڑتی ہے، میں اپنے لمحۂ موجود میں خود فراموشی اور خود شناسی کے عمل سے بہ یک وقت گزرتی ہوں، یہ میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا مگر میں نے حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا، بس ارادہ نیک اور نیت صالح ہونی چاہیے، میں نے بیٹے کی موت کے بعد منصوبے بنانے تو چھوڑ دیے مگر خواب دیکھنا نہیں چھوڑے، وہ میری آنکھوں میں اب بھی رہتے ہیں''۔
نقد و نظر کے حوالے سے انہوں نے کہا ''آج کل مجلسی تنقید کا دور ہے، تاثراتی تنقید ہو رہی ہے، بے جا تعریف کا پہلو روشن اور تحقیق کا دیا بجھ چکا ہے، معیاری تنقید نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے نااہل لوگ خود رو پودوں کی طرح اُگ آئے ہیں، ذاتی تعلقات اور گروپ بندیوں سے بلند ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کبھی کبھی مجھے یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کو قاری سے اور قاری کو کتاب سے دور کرنے میں لکھنے والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وہ کچھ لکھتے ہیں تو وہ قاری کو درمیان سے نکال کر مسابقت اور مقابلے کے میدان میں اتر آتے ہیں، اکثر ایک دوسرے کی خاطر لکھتے ہیں، قاری جائے بھاڑ میں، اِس رویے کے باعث قارئین بھی اب چٹ پٹی تحریروں کے عادی ہو گئے ہیں۔
وہ بھی اب ''ریڈی میڈ'' تحریروں کو پذیرائی دیتے ہیں، اِس سارے عمل میں نقصان علم و ادب کا ہو رہا ہے، پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ادب جمود کا شکار ہے، یورپ کے حالیہ معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر جس بڑے پیمانے کے ساتھ کوششیں ہوئیں وہ ایک اچھا امر تھا۔ کاش اِس طرح کی ایک کوشش علم و ادب کے لیے بھی ہو تاکہ ہمارے آنے والے دِن، آج سے بہتر ہو جائیں، بہتری سے میری مراد آسائش و زیبائش ہرگز نہیں بل کہ امن، محبت، صبر و تحمل، بھائی چارہ اور رواداری ہے''۔
بحیثیت عورت پروین نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا ''باپ نے اگر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کی تو شوہر نے اپنی محبت میں مجھے ریزہ ریزہ کر دیا۔ طاہر کی محبت کا احسان میں قائم رکھنا چاہتی ہوں، آج میں جوکچھ بھی ہوں، اُسی کی حوصلہ افزائی سے ہوں، مردوں کو خواتین کی حوصلہ افزائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے، مرد کی محبت عورت کا راستہ آسان کر دیتی ہے جو عورت اِس نعمت سے سرفراز ہو جائے، اُس کے تخلیقی عمل کے سامنے کوئی شے ،کوئی دیوار حائل نہیں ہو سکتی''۔