ہمارے ہاںبائیں بازو کے لوگوں نے باتیں زیادہ کام کم کیا

ضیاء دور میں سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے چار صحافیوںکو کوڑے مارنے کا فرمان جاری کیا۔

ضیاء دور میں سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے چار صحافیوںکو کوڑے مارنے کا فرمان جاری کیا۔ فوٹو : فائل

QUETTA:
ضیاء دور میں سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے چار صحافیوں کو کوڑے مارنے کا فرمان جاری کیا۔

13مئی1978ء کوخاور نعیم ہاشمی،ناصر زیدی اور اقبال جعفری نے سزابھگت لی۔مسعود اللہ خاں کی باری آئی تو طبی معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے بتادیا،ان کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ مارشل لاء حکام کوسزا دینے پر مصردیکھ کر جرات مند ڈاکٹر نے صاف صاف کہہ دیا ' آپ نے جو کرنا ہے، اپنی ذمہ داری پر کریں، میں احکامات پر دست خط نہیں کروںگا۔'یوں جری اور دلیر مسعوداللہ خاں کوڑے لگنے سے بچے، لیکن یہی مشہور رہا کہ انہیں کوڑے لگے۔اس پر وہ کہتے ہیں''ہمیں اپنی تاریخ کا پتا نہیں۔

مجھے کوڑے نہیں لگے، لیکن ہر سال 13مئی کو یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ مجھے کوڑے لگائے گئے۔سزامجھے ضرور سنائی گئی۔''سزا سنائے جانے پر وہ گھبرائے نہ ہی انہیں کوئی خوف محسوس ہوا۔ان کے بقول''اس زمانے کے صحافیوں میںایک جذبہ تھا، وقت آنے پر وہ نوکری کی پرواہ کئے بغیر ڈٹ جاتے ،اب تو کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ ویج بورڈ کے لیے بھی بات نہیں کی جاتی۔بڑی بڑی تنخواہیں پانے والے اپنی نوکری کیوں خطرے میں ڈالیں گے؟ ہمارے زمانے میں یونین بہت زیادہ مضبوط تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔''

مارشل لاء دور میںصحافی قیدرہے ، ان پر تشدد بھی ہوا لیکن کوڑوں کے '' اعزاز'' کے لیے چار صحافیوںکو چنا گیا۔ مسعود اللہ خاں اس زمانے میں راولپنڈی میں پاکستان ٹائمز کے لیے کام کررہے تھے۔ ان کے بقول '' ہم روز احتجاج کرتے۔ گرفتاریاں پیش کرتے۔تقریریں کرتے۔ فوجی حکومت نے جان لیا کہ یہ توٹھیک نہیں ہوں گے ،اس لیے ہمیں پکڑ لیا گیا۔''اس زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس گرم وسرد چشیدہ صحافی نے بتایا '' ہم خالصتاً آزادی صحافت کے لیے لڑ رہے تھے لیکن حکومت ہماری سرگرمیوں کو پیپلز پارٹی سے ہمدردی کے کھاتے میں ڈال رہی تھی۔بھٹو گرفتار تھے، اس لیے سمجھا جارہا تھا، ہم ان کے لیے مہم چلارہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا ہماری تحریک سے تعلق نہیں تھا۔پیپلز پارٹی کے لوگ تو اس زمانے میں گھروں میں دبک کربیٹھ گئے تھے ۔حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو وغیرہ سب غائب ہوگئے تھے۔صحافیوں نے ضیاء آمریت کامقابلہ کیا۔'' ضیاء دور سے قبل وہ ''مساوات''سے نکالے جانے والے صحافیوں کے حق میں احتجاج پر بھی جیل یاترا کرچکے تھے۔وہ اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح اب جرات مند صحافی نظر نہیں آتے۔بتاتے ہیں''کسی زمانے میںایسے صحافی بھی تھے، جو حکمرانوں کے منہ پر تنقید کرتے تھے۔پنجاب یونیورسٹی میں اس تقریب میں موجود تھا،جس میں حسین نقی کی تنقید سے زچ ہو کر بھٹو نے شٹ اپ بولا تو حسین نقی نے فوراً''یوشٹ اپ'' کہہ دیا۔اب ایسے صحافی کہیں نظر نہیں آتے۔''

باکردار اور اصول پسند صحافیوںکے بارے میں بات ہورہی تھی تو انہوں نے ''ڈان'' کے سابق ایڈیٹر مرحوم احمد علی خان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ''احمد علی خان جو بہت نفیس انسان اور بڑے صحافی تھے ان سے ایک بار ملنا ہوا تو وہ بتانے لگے کہ ایوب دور میں پاکستان ٹائمز حکومتی قبضے میں آیا توایڈیٹر مظہر علی خان نے فوراً استعفا دے دیا۔اس پر انہیں بھی استعفا دینے کا خیال آیا۔گھر گئے تو جانا کہ کل جمع پونجی پانچ چھ سو روپیہ ہے ، اور گھر میں بچے کی پیدائش بھی ہونے والی ہے تو پھر احمد علی خان نے سوچا کہ فی الحال تو وہ استعفا دینے کے قابل نہیں۔ ایسا اعتراف کرنا بھی بڑی ایمانداری کی بات ہے ۔چند دن بعد زیڈ اے سلیری کو ایڈیٹر بنایاگیا تو انہوں نے استعفا دے دیا۔

مارشل لاء جب بھی آتا،زیڈ اے سلیری ایڈیٹر بن جاتا۔ ''سالہا سال آزادیٔ صحافت کے لیے جدوجہد کرنے والے مسعود اللہ خاں،آزادیٔ صحافت کے اعتبار سے یحییٰ خان کے دور کو سب سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں سب سے شفاف الیکشن بھی اسی آمر نے کرائے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ادبی وعلمی حلقوں میں خاصے سرگرم تھے۔بحث اور تقریر بازی کا انہیں خاصا شوق تھا، ایک اجلاس میں ان کی طویل گفتگو سے تنگ ایک صاحب نے انہیں کہا کہ بھئی!باتیں بہت بناتے ہو، لکھتے کچھ نہیں تو انہیں نے ترنت سے جواب دیا ''بس میں تمھارے جیسے کسی منشی کی تلاش میں ہوں۔'' بتاتے ہیں '' ساٹھ اور ستر کے عشروں میں لوگوں میں ایک امیدتھی۔ انقلاب کی آس تھی۔یہ معاملہ ہمارے ہاں کا نہیں بلکہ ساری دنیا میں ایسی صورتحال تھی۔ ایسے لگتا، جیسے کچھ ہونے والا ہے۔بعد کے زمانے میں مایوسی اتنی بڑھی کہ لوگوں کا تبدیلی کے بارے میں اعتبار جاتا رہا۔''

الیکٹرانک میڈیا سے وہ خاصے نالاں ہیں ، جہاں ان کی دانست میں اصل موضوعات پر بات کے بجائے، نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ من پسند افراد میں سرکاری ایوارڈ بانٹے جانے پر ان کا موقف ہے''ایوارڈ دینے میں میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔انہیں بتاشوں کی طرح بانٹا جارہاہے ۔ایوارڈ کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے مخلص کارکنوں کو کسی نے نہیں پوچھا ، کیونکہ اس وقت جو عجیب وغریب ٹولامسلط ہے ، وہ ایسے لوگوں کو جانتا ہی نہیں۔''انتہا پسندی کو معاشرے کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔اقلیتوں سے ناانصافی بھی انہیں دکھ دیتی ہے۔

حالات سے مایوسی کا یہ عالم ہے کہ اگر پوچھا جائے''آپ کہاں کے ہیں ؟تو جواب دیں گے''اب ہم کہیں کے نہیں رہے۔''ان کے خیال میں حالات اس قدر خراب ہوجائیں گے، یہ کبھی انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ایسے واقعات جن کے وہ عینی شاہد رہے ، ان کی بابت جھوٹ اور غلط بیانی سن اور پڑھ کر انہیں بہت زیادہ ذہنی کوفت ہوتی ہے۔وہ اس دور کو یاد کرتے ہیں، جب لاہور میں بہت سی ایسی باوقار علمی ہستیاں موجود تھیں، جن کے پاس بیٹھنے سے ذہنی افق وسیع ہوتا۔مسعود اللہ خان کی دانست میں زندگی بھر انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، جس کا ضمیر پر کوئی بوجھ ہو۔ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ ازدواجی زندگی بہت اچھی گزری۔ نیک خصلت بیوی نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا۔بہت سے موضوعات پر وہ لکھنا چاہتے ہیں لیکن طبعیت میں جو تساہل ہے ،وہ آڑے آجاتا ہے۔

مسعود اللہ خاں1936ء میں پیدا ہوئے۔ والد، سعد اللہ خاں محکمہ جنگلات میں تھے۔تقسیم کے ہنگام ان کا خاندان دھرم شالہ سے ہجرت کرکے پاکستان آن بسا۔ وزیر آبادسے میٹرک کیا۔مرے کالج سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی کی۔اسی تعلیمی ادارے سے ایم اے انگریزی کیا۔دوسال ایم اے او کالج اور تقریباً اتنا ہی عرصہ اسلامیہ کالج میں تدریس سے متعلق رہے۔اس زمانے میںبائیں بازو سے وابستہ افراد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا، اس لیے انہیں سرکاری نوکری میں زیادہ طمانیت محسوس نہ ہوتی۔

ویت نام جنگ کے دوران ویت نام سوسائٹی بنی تو وہ کنوینر مقررہوئے۔ پی پی آئی میں خبر دینے گئے تو ادھر منیجر بشیر قریشی نے ان سے کہا کہ جب تک کرنے کو کچھ نہیں، نیوزایجنسی سے جڑ جائیں۔یہ مان گئے اور پی پی آئی سے صحافت کاآغازکردیا۔ صحافت سے وابستہ ہونے کے بعد جس ہستی نے سب سے زیادہ حوصلہ بڑھایا، وہ صفدر میرتھے۔پی پی آئی میں ہڑتال کے باعث جو صحافی نکالے گئے ، ان میں مسعوداللہ بھی شامل تھے۔اگلا صحافتی پڑائو '' سن'' اخبار بنا۔ بھٹو دور میں پاکستان ٹائمز میں رہے ۔ حسین نقی کے ''پنجاب پنچ'' میں بھی لکھا۔ 80 کی دہائی میں کویت گئے تو ادھر بھی صحافت کرتے رہے۔''کویت ٹائمز'' کے مدیر رہے۔ کچھ عرصہ ''دی نیوز'' میں کام کیا۔تقریباً دس سال تک وہ ''ڈان'' سے منسلک رہے۔

اے !انقلاب تو کب آئے گا؟
''ہمارے ہاں لیفٹ کبھی ابھرا ہی نہیں۔یہ لوگ باتیں زیادہ اور کام کم کرتے تھے۔ایرک سپرین آکسفرڈ سے آئے تو فیصل آباد میں کسانوں کے ساتھ کام کرنے لگے۔ایسا جذبہ اوراخلاص زیادہ لوگوں میں نہیں تھا۔آپس میں اختلاف بھی اثر انداز ہوئے، کوئی چین نوازہوگیا تو کوئی ماسکونواز۔ریاستی جبربھی رہا، جس سے حسن ناصر جیسے لوگ مارے گئے۔

لیفٹ گروہوں میں بٹا رہااورجم کر کام نہیں ہوا۔جو بندہ پارٹی میں کچھ بن گیا،وہ اپنے آپ کو خاص چیز سمجھنے لگا۔ہر کوئی مارکس ازم کی تعبیر اپنے انداز سے کرنے لگا، بالکل مولویانہ طرزفکر اختیار کیا گیا۔ ایک زمانہ میںمذاق میں کہا جاتا تھا کہ ایک کامریڈ نے آزاد پاکستان پارٹی کے دفتر میں دیوار پر یہ نعرہ، 'اے! انقلاب تو کب آئے گا'،لکھ کر لگا دیا ہے لیکن وہ خود روزانہ دفتر آکرسوجاتا۔سب یہی کہتے رہے کہ انقلاب آنے والا ہے لیکن انقلاب ہمارے لیے بیکٹ کا ڈراما ''ویٹنگ فار گوڈو'' بن کر رہ گیا۔''

بھٹو کیوں ناکام رہے؟
''بھٹو لیفٹ سے نہیں تھے لیکن ان کی کچھ باتیں لیفٹ سے ملتی تھیں، اسی بنیاد پر انہیں سپورٹ ملی۔ناکام وہ اس لیے ہوئے کہ جن لوگوں کو ہرا کر وہ آگے آئے ، آہستہ آہستہ انہیں اپنے ساتھ ملالیا۔مولویوں کو خوش کرنے کے لیے اقدامات کئے، جس سے انہوں نے قوت پکڑی، جو بعد میںبھٹو کے خلاف استعمال ہوئی۔77ء کے الیکشن میں گڑبڑ ہوئی لیکن پیپلز پارٹی شفاف الیکشن ہوتے تب بھی جیت جاتی۔


پی این اے کی تحریک کو ضیاء الحق سپورٹ کررہے تھے۔بھٹو پر برا وقت آیا توان کے قریبی ساتھی ادھر ادھر ہوگئے۔جیل گئے تو بڑے پیمانے پر احتجاج نہیں ہوا۔خود سوزی کی مہم چلی ، جو ایسے ہی تھی، اصل بات گھروں سے نکلنے اور بھرپور احتجاج کرنے کی تھی۔کارکن نکلنا چاہتے تھے، ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بھٹو گرفتار ہوئے تو میرا خیال تھا کہ انہیں پھانسی نہیں ہوگی اور باہر کے دبائو پر انہیں چھوڑ دیا جائے ، دوسرے امکان تھا کہ انہیں سیاست چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ ''

کویت پر عراقی حملہ...''ہم بھی وہیں موجود تھے''

''میں نے ایک ملک پر قبضہ ہوتے اور پھر اسے آزاد ہوتے دیکھا۔میں بچوں کو کبھی کویت لیکر نہیں گیا تھا، جب ایک بار لے کر گیا تواس دوران عراق نے حملہ کر دیا اور انہیں دو تین ماہ کویت میں رہنا پڑا۔میں بچوں کو ایک دن لے کر نکلا اور دکھایا کہ جنگ زدہ علاقے میں کیسے بھیانک صورت حال ہوتی ہے۔فوجی تو ہیں ، جن کے ہاتھوں میں ہتھیار ہیں لیکن وہ اس سے سیوریج سسٹم ٹھیک نہیں کرسکتے۔مجھے پہلے روز سے یقین تھا کہ صدام کو قبضہ چھوڑنا پڑے گا۔یاسر عرفات نے صدام کی حمایت کرکے بڑی بھیانک غلطی کی،اور اس پالیسی کی وجہ سے فلسطینیوں کا کویت میں برا حال ہواکیونکہ سب سے زیادہ فلسطینی تو کویت میں تھے۔صدام ایک حصے پر قبضہ کرلیتا، آئل فیلڈ پر قبضہ کرلیتا۔

لیکن پورے ملک پر قبضہ تو حماقت تھی،یہاں میں آیا تو میری فکر سے متاثر ہوکر مظہر علی خان نے مجھے کویت کی صورت حال پر ''ویوپوائنٹ'' میں مضامین لکھنے پر آمادہ کیا۔اس جنگ میں مغربی میڈیا سے کوئی نمائندہ ادھر نہیں گیا، سب قیاس آرائیوں پر مبنی باتیں ہوتی رہیں لیکن میں نے اس ساری صورت حال کو قریب سے دیکھااور اتفاق سے جب صدام کو امریکا نے نکالا تو اس وقت بھی میں کویت میں تھا، یوں دونوں جنگوں کے وقت میں اس خطے میں موجود تھا۔ ''

یہ تو رہا مسعود اللہ خاں کا نقطۂ نظر۔مظہر علی خان نے جہاںصدام کے حملے کے مخالف مسعوداللہ خاں سے ''ویوپوائنٹ ''میں مضامین لکھوائے ، ادھراس نقطۂ نظر کے حامل ایک اور صحافی خالد احمد کی دل جوئی بھی کی،جو اس وقت فرنٹیئرپوسٹ میںاسلم بیگ کے بجائے' نواز شریف کے موقف کی حمایت پر ساتھیوں کے غیظ کانشانہ بن رہے تھے۔اپنے ایک مضمون میں خالد احمدلکھتے ہیں ''فرنٹیئر پوسٹ میں صدام کے حمایتی اسلم بیگ کے بجائے میں نے نواز شریف کی حمایت کی تو میرے ساتھی بھی میرے خلاف ہوگئے ۔ان دنوں مظہر علی خان واحد صحافی تھے، جنھوں نے میری حمایت کی اور میری ڈھارس بندھانے کے لیے مجھے اپنے گھربلایا۔میں اس نرم خو شخص کو کبھی نہیں بھول سکتا، جو میری زندگی میں آنے والامضبوط ترین صحافی تھا۔''

ٹانگ کا زخم ٹھیک کرنے میں ڈاکٹر ناکام ،گھریلو خاتون کامیاب

'' تقسیم سے دو ماہ قبل جب ہم دھرم شالہ میں مقیم تھے، میرے ایک ہم جماعت نے وہ قلم جس سے تختی لکھی جاتی ہے، اس کی نوک میرے بائیں گھٹنے پر ماری تو اس سے زخم ہوگیا،میں نے توجہ کی نہ ہی گھر میں بتایا ۔ اس زمانے میں مجھے نہر میں نہانے کا شوق بھی تھا، تو اس بے پرواہی سے زخم بگڑ گیا۔ پاکستان پہنچ کر لاہور میں ڈاکٹروں سے علاج کرایا لیکن زخم ٹھیک نہیں ہوا اور ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنا تجویزکیا لیکن گھر والے مانے نہیں۔اس زمانے میں ایک خاتون ملی، جس نے دیسی طریقے سے میرا علاج کیا۔

وہ گھر آتی اور زخم پر کبھی مٹی، کبھی راکھ، کبھی آٹا لگاجاتی۔ نیم کے پتوں سے زخموں کو دھوتی ۔ان ٹوٹکوںکا یہ اثر ہوا کہ مہینے بھر میں زخم ٹھیک ہوگیا۔ میں ایک سائنسی طرز فکر رکھنے والا آدمی ہوں لیکن یہ سب میرے ساتھ ہوا اور اس کو میں جھٹلا نہیں سکتا۔بچپن میں ہڈیاں بڑھتی ہیں، گھٹنا جام ہونے سے وہ آپس میں غلط طریقے سے جڑ گئیں تو ٹانگ تھوڑی ٹیڑھی ہوگئی،جس کے ساتھ میں نے ساری عمر گزاری۔کسی قسم کا احساس کمتری کبھی نہیں ہوا۔کچھ عرصہ قبل گرنے سے بائیں ٹانگ ہی پر چوٹ لگی۔اور اب مئی میں کراچی گیا تو زیادہ چلنے سے ٹانگ میں تکلیف زیادہ ہوگئی لیکن اب پہلے سے بہتر ہوں۔''

پھانسی سے بہت پہلے،بھٹو کی غیرفطری موت کی پیش گوئی
ایرک سپرین سے پڑھنے کا موقع سیالکوٹ میںبھی ملا اور لاہور میں بھی۔میں سائنس کا طالب علم تھا، اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کی۔لیکن سپرین صاحب کی تحریک پرایم اے انگریزی کیا۔دیانتداری سے ادب پڑھاتے تھے۔اپنا نظریہ زبردستی نہیں ٹھونستے تھے۔ بڑے مدلل انداز میں موقف بیان کرتے۔حس مزاح بہت اچھی تھی۔فی البدیہہ گفتگو کا ملکہ تھا۔اپنے ساتھیوں اور شاگردوں میں بہت مقبول تھے۔سیاسی بصیرت ان میں بہت تھی۔اس کی مثال میں آپ کودیتا ہوں۔

بھٹونے پارٹی بنائی تواسلامیہ کالج میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف بڑی دھواں دھار تقریر کی۔ادھر بھٹو کی مقبولیت دیکھ کر سپرین صاحب نے کہا کہ یہ بندہ کبھی فطری موت نہیں مرے گا، اس کو مار دیا جائے گا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے ، جب انہوں نے ایوب خان کے خلاف مہم شروع کی تھی۔یہ انہوں نے کہا اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔اس بات کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے خیال میں جتنے بڑی تعداد میں لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں، اتنے لوگوں کو کنٹرول کرنا اور وہ جو مانگ رہے ہیں، وہ انہیں دینا ، اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

دوسرے اس کے مخالفین اسے برداشت نہیں کریں گے اور مروادیں گے۔ مخالفین نے بھٹو کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑا۔ان پر ہمیشہ دبائو رہا۔وہ لوگ جو انہیں چاہتے نہیں تھے، انہوں نے آخر کار فوجی حکومت اور عدالت کے ذریعے مروادیا۔ایرک سپرین کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوگئی۔ایرک سپرین کے جس بیان کا آپ حوالہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا ، پاکستان تالے توڑنے سے بنا ، اس کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ ہمارے ہاں لوٹ مار تقسیم کے وقت ہی شروع ہوگئی تھی،جو بعد میں جاری رہی۔ان کا اشارہ جعلی کلیم داخل کرنے اور ناجائز قبضوں کی طرف تھا۔

صحافی برادری کا احمد مشتاق
جب صحافیوں کا جلوس پنجاب یونیورسٹی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو ایک طالبعلم نے جلوس میں شامل ایک صحافی کو تعجب سے دیکھا اور کہا کہ یہ تو ہمارے کالج میں استاد تھا' صحافی کیسے ہو گیا؟یہ صحافی مسعود اللہ تھے' جن کے متعلق کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ وہ صحافی برادری کا احمد مشتاق (اردو کے ممتاز شاعر، جو تقریباً تیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں) ہے۔ مسعود اللہ نے طالبعلم کا فقرہ سنا اور اپنے ساتھ چلتے ہوئے صحافی سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بارے میں یہ Confusion قائم رہے۔

چنانچہ اس صحافی کے بارے میں یہ Confusion بعد میں بھی قائم رہا۔ اسی راہ سے دو گھنٹے بعد جب ادیبوں کا جلوس نکلا تو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک کباڑی نے اسے حیرت سے دیکھا اور کہا کہ عجب بات ہے' دو گھنٹے پہلے یہ شخص اس راستہ سے گزرا تھا۔ اس وقت وہ صحافی تھا۔ اب ادیب ہے۔ویسے کباڑی کے اس اعتراض کا اطلاق اس روز اور بہت سے دانشوروں پر بھی ہو سکتا تھا۔ صحافیوں کے جلوس میں ادیب اور ادیبوں کے جلوس میں صحافی بالعموم رلے ملے نظر آئے۔ پاکستانی ادب کی تاریخ میں صحافت اور ادب آپس میں اس عوامی شان کے ساتھ گڈمڈ پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔

پریس کلب کی چھت پرجہاں بلی کا بچہ سو رہا تھا' وہاں ایک ادیب کھڑا بڑے جوش میں کہہ رہا تھا کہ ادب کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہے جس کے تحت میں اور مسعود اللہ بیک وقت ادیب قرار دیئے جا سکیں۔ اس اعلان نفاق کے باوجود دونوں شخص بیک وقت صحافیوں کے جلوس میں بھی موجود پائے گئے اور ادیبوں کے جلوس میں بھی دیکھے گئے۔

(13دسمبر1968ء کو ''مشرق''میں چھپے انتظار حسین کے کالم سے اقتباس)
Load Next Story