سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

بظاہر کسی جماعت کا جامع انتخابی منشور قوم کے سامنے نہیں ہے،صرف چند جذباتی نعرے یا نئے صوبوں کی تشکیل کے دعوے ہیں

میاں نواز شریف نے غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کی بات کی ہے ، اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان میں اس وقت سیاسی منظرنامے میں خاصی ہلچل نظر آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ن' متحدہ قومی موومنٹ' جے یو آئی' اے این پی' مسلم لیگ ق' جماعت اسلامی اور تحریک انصاف خاصی متحرک نظر آ رہی ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پہلے اسلام آباد میں بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل سے ملاقات کی ، پھر وہ سندھ میں بارش سے متاثرہ لوگوں میں سامان تقسیم کرنے کے لیے جیکب آباد کے گائوں پنہور گئے ۔ وہ ڈیرہ اللہ یار' ڈیرہ مراد جمالی اور جعفر آباد بھی پہنچے۔ انھوں نے وہاں صحافیوں سے گفتگو میں سیاسی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے کہا کہ سندھ میں ایک اتحادی جماعت کو خوش کرنے کے لیے دہرا بلدیاتی نظام نافذ کرکے عوام کی دلآزاری کی گئی۔ احتجاج میں قوم پرست جماعتوں کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں' ایسا نہیں ہوا تو انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

ان بیانات کے بعد میاں صاحب لاہور آئے جہاں انھوں نے نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادہ طلال اکبر بگٹی سے ملاقات کی اور دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ ادھر صدر مملکت آصف علی زرداری کی بہن اور ایم این اے محترمہ فریال تالپور لاہور آئی ہوئی ہیں۔ انھوں نے گورنر ہائوس لاہور میں متاثرین بند روڈ لاہور میں 2,2 لاکھ روپے کے امدادی چیک تقسیم کیے' لاہور میں ہی پیپلز پارٹی نے بلدیاتی کنونشن منعقد کیا۔وہاں دھواں دھار تقریریں ہوئی۔کچھ عرصہ قبل صدر آصف علی زرداری بھی لاہور آئے تھے۔

اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا جیالا ہوگا، یہ باتیں صدر زرداری نے گورنر ہائوس لاہور میں پیپلزپارٹی کے ارکان سے ملاقات کے موقع پر کہی تھیں۔جب صدر زرداری لاہور میں یہ باتیں کررہے تھے ،مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف بھی کراچی میں تھے۔وہاں انھوں نے اس وقت بھی سندھ میں بلدیاتی نظام پر تنقید کی تھی۔ یہ تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں ہیں، ادھر مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کراچی میں نائن زیرو کا دورہ کیا اور ایم کیو ایم کے لیڈروں سے بات چیت کی۔انھوں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے بھی ملاقات کی۔

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں کے بیانات اور ملاقاتوں سے پیغام مل رہا ہے کہ نئے انتخابا ت کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوگیا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی اسٹرٹیجی اور انتخابی لائحہ عمل کے مطابق خاموش انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ کے رہنما چوہدری نثار علی خان نے تو اگلے روزیہ اعلان کر دیا ہے کہ سندھ میں بڑا انتخابی اتحاد سامنے آنے والا ہے ۔ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کی تیاری کررہی ہے ، اسے کاونٹر کرنے کے لیے مسلم لیگ ن سندھ میں کوئی سیاسی اتحاد بنائے گی ۔


متحدہ قومی موومنٹ ،جے یو آئی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی اپنے اپنے انداز سے صف بندی میں مصروف ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوریت کا حسن انتخابات ہوتے ہیں اور انتخابات کی رونق انتخابی مہم ہوتی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں انتخابات کا انتخابی مہم کے بغیر تو تصور بھی محال ہے۔ پاکستان میں پر شورانتخابی سرگرمیوں پر مبنی کلچر کی نئی ایک شکل سامنے ابھری ہے ۔ اس وقت تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور کی کوئی جھلک نہیں دکھائی ۔

بظاہر کسی جماعت کا جامع انتخابی منشور قوم کے سامنے نہیں ہے،صرف چند جذباتی نعرے یا نئے صوبوں کی تشکیل کے دعوے ہیں۔عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔ ادھر میڈیا پر حساس امور پر قوم کو مثبت پیغام دینے کے بجائے ذہنی انتشار کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ،ہر سیاسی جماعت کا رہنما اپنے اپنے نمبر اسکور کرنے کے لیے بیانات جاری کررہا ہے ۔الیکشن قومی مفاہمت ، سماجی و پارلیمانی روایات اور انسانی اقدار کے نظام کو استحکام اور تہذیبی تشخص عطا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔انتخابات کے ذریعے قوم اپنے منتخب نمایندوں کو حکومت چلانے کا مینڈیٹ دیتی ہے۔

حقیقت میں تو ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے جو عام انتخابات کے شفاف اور پر امن اختتام پر قوم کو خوش حالی اور اتفاق رائے کی ایک عظیم خوشخبری دے ۔عام انتخابات پر قوم کے اعتماد کے لیے ضروری ہوتاہے کہ غیر جانبدار سیٹ اپ اس کی نگرانی کرے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ چیف الیکشن کمشنر پر سب جماعتوں کا اتفاق ہے، یوں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی طرف پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ غیرجانبدار نگران حکومت کے قیام کا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں جوسیاسی افراط وتفریط جاری رہی،محاذ آرائی ،الزام تراشی اور طعن و دشنام کے تیروں سے میدان سیاست میں گھمسان کا جو رن پڑتا دکھائی دیا، اس سے عوام کے دکھوں کا تو کسی طور ازالہ نہیں ہورہا ،نہ مہنگائی کم ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔

نہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹنے کی کوئی نوید ملی ہے اور نہ قومی اداروں کے مابین تعلقات کار اور اشتراک عمل کی کوئی مثالی صورت نظر آتی ہے ۔اس لیے تمام سیاست دانوں کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان کے نعرے قومی مفادات سے ہم آہنگ اور زمینی حقائق سے جڑے رہنے چاہییں۔ کم از کم عوام کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کی ٹھوس کوشش ہونی چاہیے۔مسلمہ جمہوری اصول ہے کہ انتخابی منشور اور انتخابی مہم اخلاقی عوام کی خواہشات کے مطابق ہونی چاہیے۔ موجودہ اتحادی حکومت کو حکمرانی کا دورانیہ مکمل کرتے ہوئے پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں۔

یوں حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے جا رہی ہے ۔ میاں نواز شریف نے غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کی بات کی ہے ، اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے، اپوزیشن کو جہاں خود احتسابی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہاںتمام اتحادی جماعتوں کواپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالنی چاہیے کہ قوم ان سے کیا توقع رکھتی ہے۔اب الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کرنے کا وقت ہے نہ کوئی ایسا کام کرنے کا جس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے۔ جس طرح چیف الیکشن کمشنر پر سب جماعتوں نے اعتماد کیا اسی طرح حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ نگران سیٹ اپ بھی ایسا سامنے لائے جس سے سب جماعتوں کو تسلی ہو جائے کہ الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گے۔
Load Next Story