بات کچھ اِدھر اُدھر کی ایک گھناونا فعل
شاید وہ دن دور نہیں جب ہم جرائم میں خود کفیل ہوجائیں گے اور ہمارا بچہ بچہ جرم کرنا اور اس سے بچنا جانتا ہوگا۔
PESHAWAR:
یہ ہماراہی المیہ ہے کہ پاکستان میں سنگین نوعیت کے جرم ہوتے ہیں اور اس کے بعد مجرم بچ نکلتا ہے ۔ پہلے تو کیس ہی درج نہیں ہوتا ہے اور اگر کسی طرح ،ایڑھیاں رگر کر ، عزت نفس کی قربانی دے کر، تھانے میں انسانیت کے آخری درجے سے بھی کم درجے کی حد تک ذلیل ہو کر کوئی کیس درج ہو بھی جائے تو ایک نئی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ پہلے پولیس کا عملہ مکمل تعاون نہیں کرتا ہے ، پھر نا مکمل تفتیش سے پورے کیس کی شکل بدل دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد عدالتوں کے لمبے چکر۔ ۔۔میں نے ایک جج صاحب سے نجی محفل میں پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ مجرم عدالتوں سے صاف بچ نکل جاتے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے؟ جج صاحب کے چہرے کی مسکراہٹ لمحہ بھر میں غائب ہو گئی ،انہوں نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام بہت پرانا ہے اور ہم تفتیش کے نئے زاویوں اور ٹیکنالوجی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں،زمانہ اکیسوی صدی میں داخل ہو چکا ہے لیکن ہم آج بھی انیسوی صدی کے پیمانے پر تفتیش کرتے ہیں۔ اُن سے ہونے والی دو گھنٹے کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جب تک ہم نئی ٹیکنالوجی کو قانون کا حصہ نہیں بنائیں گے اور جب تک ہم اپنی نیتیں درست نہیں کریں گے تب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کرائم کی شرح میں اضافہ ہو گا اور وہ دن پھر شاید دور نہ ہو کہ ہم جرائم میں خود کفیل ہوجائیں اور ہمارا بچہ بچہ جرم کرنا اور اس سے بچنا جانتا ہوگا۔
ہمارے اخبارات آئے دن ریپ کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں، شاز ونادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس گھناونے جرم میں ملوث کسی مجرم کی سزا کی داستان میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئی ہو۔ لاہور کی ایک بستی میں چندماہ ہوئے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ نا جانے کن مجبوریوں کے باعث وہ لڑکی گھر سے باہر نوکری کی تلاش میں نکلی۔ اُ س کا خیال تھا کہ گریجویشن کے بعد شاید اس کو اچھی نوکری مل جائے گی لیکن ایسا ہو نہ سکا اور وہ کئی دن دفاتر کے چکر کاٹنے کے بعد گھر بیٹھ گئی۔ اس کو کسی کی توسط سے ایک مقامی اسکول میں ٹیچر کی جاب مل گئی ، آٹھ ہزار روپے ماہوار اس لڑکی کیلئے کم تو نہ تھے ۔اسکول سے واپسی پر اوباشوں کا ایک ٹولہ عموماً اس کا پیچھا کیا کرتا تھا ، لڑکی کے منع کرنے کے باوجود بھی انہوں نے اس کا پیچھا کرنا نہ چھوڑا۔ انیس سالہ اس لڑکی کی زندگی میں مشکلات پہلے بھی کم نہ تھی کہ ان میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان لڑکوں میں سے ایک نے اس لڑکی کی مکمل ریکی کی اور ایک دن اس کو اغوا کر لیا اور اُ س لڑکی کی عزت پامال کر دی۔ صرف یہی نہیں، اُ س کی حالت غیر ہونے پر اُس کو بند روڈ کے کنارے پھینک کر ٹولہ فرار ہو گیا۔
اس سے آگے کی داستان اور بھی لرزہ خیز ہے کہ کیسے اُ س غریب کو تھانے میں ذلت کا سامنا کرنا پڑا،کس طرح سے اُ س لڑکی کو میڈیکل کروانے کے نا م پر اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ کیسے اُس لڑکی کو وکیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کس طرح سے اُس کو مقامی دباؤ اور معاشرتی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔جب کسی طرف سے کوئی شنوائی نہ ہوئی تو لڑکی کے غریب گھر والوں نے اونے پونے داموں گھر فروخت کیا، اپنی جمع پونجی اکھٹی کی اور کسی نہ معلوم مقام کی جانب عازم سفر ہو گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟یہ ابھی تک کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اختصار سے بیان کیا گیا یہ واقعہ حقیقتاً ہمارے چہروں پر آہنی طمانچہ ہے۔ بالخصوص قانون کے ٹھیکے داروں پر اور مذہب کی دکان چلانے والوں پر ۔
زنا بالجبر ایک ایسا گھنا ونا فعل ہے جس کی ہمار ے اسلام نے سخت ترین سزا مقرر کی ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کسی پر زنا ثابت ہو جائے تو اس کو سز ا دینا بنتی ہے ۔ شادی شدہ کو تو پتھر مار کر ہلاک اور بیچ چوراہے میں یہ سزا دینے کا حکم ہے ۔جب کہ غیر شادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم نے ابھی تک اسلام کی نیم پلیٹ والے اس ملک میں ان قوانین کا نفاذ کیو ں نہیں کیا ہے؟ کیا بیرونی دباؤ اللہ کے احکام سے زیادہ ہے؟ جب شریعت کہتی ہے کہ خون کا بدلہ خون ہے تو وہ تمام قتل کے قیدی جن کی پھانسی کی تاریخیں آ چکی ہیں اُن کو ریاستی مہمان کیوں بنایا ہوا ہے؟ کس لئے ان کو ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی ہے؟ اگر اُ ن کے لواحقین نے سمجھوتہ سے انکار کر دیا ہے تو پھر کاروائی مکمل کی جائے ۔آخر کس لئے ہم ایسا کر رہے ہیں؟ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارے ملک میں قوانین بہت ہی فرسودہ ہیں اور پھر نا مکمل تفتیش، دباؤ اور دیگر ہتھکنڈوں سے مجرم بچ جاتا ہے ۔ مختاراں مائی کیس سے لے کر سنبل کیس تک سب ایک ہی جھول کی نشان دہی کر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی کی گئی ہو۔
زنا بالجبرکے حوالے سے گزشتہ پانچ سالوں میں کل 14583 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے صرف 1041یعنی کے کل تعداد میں سے صرف 7فیصد کو سزا ہوئی۔ باقی کے 93فیصد کے ساتھ کیا ہوا ؟اس بارے میں حقائق اور کتابیں خاموش ہیں۔ صرف پنجاب میں 12796 کیس رپورٹ ہوئے تھے یعنی 88فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا ، وہ پنجاب جو ہماری حکمران جماعت کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ اسی طرح سندھ میں 1077کیس رپورٹ ہوئے، خیبر پختونخواہ میں 458کیس رجسٹرڈ ہوئے، بلوچستان میں 92کیس رپورٹ ہوئے ، آزاد جموں و کشمیر میں 60اور گلگت بلتستان میں 11کیس رپورٹ ہوئے ۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 90کیس رپورٹ کئے گئے۔ یہاں یہ بھی عرض کر دیں کہ اعداد و شمار کے مطابق 2012ء کے مقابلے میں 2013ء میں ریپ کے کیس زیادہ رجسٹرڈ ہوئے ہیں، یعنی کہ اس گھناونے فعل میں بہت سے لوگ شامل ہو رہے ہیں ،وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قانون کی کمزوری ان کو بچا لے گی۔ ان اعداد و شمار میں ابھی وہ کیس شامل نہیں ہیں جو کہ دباؤ، خوف یا کسی اور وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ گزشتہ سال سندھ میں دو سو سے زائد ریپ کے کیس رجسٹرڈ ہوئے لیکن صرف اور صرف تین کو سزا ملی تھی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں 108 کیس فائل ہوئے تھے جس میں سے صرف 54 کیس رپورٹ ہوئے لیکن کسی بھی ایک کو سزا نہیں ملی ہے ۔ آزاد جمو ں و کشمیر میں 3اور گلگت بلتستان میں 5کیس کے مجرمان کو گزشتہ پانچ سال میں سزا ملی تھی۔
یہ ہے ہمارا المیہ۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون کا بول بالا ہو لیکن اس کے باوجود ہم قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اللہ نہ کرے ، ان کیسوں میں ہماری کسی بہن ،بیٹی کا کیس ہوتا تو کیا ہم رات کو سو سکتے تھے؟ اگر نہیں تو پھر اتنی بھی کیا بے حسی کہ ہم نے اُن کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کیا؟ عورتوں کے حقوق پر بننے والی این جی اوز کو ڈالرز، پاؤنڈ ، یورو اور ریال کمانے سے فرصت ملے تو وہ ریپ جیسے مسائل کے حل کیلئے نمائشی آوازوں کی بجائے حقیقی آوازیں اٹھائیں۔ درہم و دینار کمانے والوں پر لازم ہے کہ جن کے مسائل وہ بیچ رہے ہیں کم از کم ان کیلئے کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں۔ اس کے ساتھ معاشرے میں آگاہی لانا ہوگی اور حکومت پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ اس قسم کے مسائل کیلئے موثر قانون سازی کرے۔ہر قسم سے دباؤ سے آزاد ہو کر ان دونو ں کو ڈی این اے کروایا جائے۔ تمام تر ٹیکنیکل اور قانونی عملہ حلف لے کہ سب کچھ میرٹ پر ہوگا اور اس کے بعد چند دنوں میں عدالت میں رپورٹ جمع کروا دی جائے۔ پھر جو بھی مجرم ہو ، اُس کو نشان عبرت بنایا جائے۔ بیچ چوراہے میں منہ کالا کر کے اس کو نو گھنٹے بٹھا دیں ، اسکے بعد اس کی سزا پر عمل کریں، میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں پاکستان کرائم فری ہو سکتاہے ۔ کیا ہے جو ہم کر نہیں سکتے ہیں؟ صرف نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ ہماراہی المیہ ہے کہ پاکستان میں سنگین نوعیت کے جرم ہوتے ہیں اور اس کے بعد مجرم بچ نکلتا ہے ۔ پہلے تو کیس ہی درج نہیں ہوتا ہے اور اگر کسی طرح ،ایڑھیاں رگر کر ، عزت نفس کی قربانی دے کر، تھانے میں انسانیت کے آخری درجے سے بھی کم درجے کی حد تک ذلیل ہو کر کوئی کیس درج ہو بھی جائے تو ایک نئی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ پہلے پولیس کا عملہ مکمل تعاون نہیں کرتا ہے ، پھر نا مکمل تفتیش سے پورے کیس کی شکل بدل دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد عدالتوں کے لمبے چکر۔ ۔۔میں نے ایک جج صاحب سے نجی محفل میں پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ مجرم عدالتوں سے صاف بچ نکل جاتے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے؟ جج صاحب کے چہرے کی مسکراہٹ لمحہ بھر میں غائب ہو گئی ،انہوں نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام بہت پرانا ہے اور ہم تفتیش کے نئے زاویوں اور ٹیکنالوجی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں،زمانہ اکیسوی صدی میں داخل ہو چکا ہے لیکن ہم آج بھی انیسوی صدی کے پیمانے پر تفتیش کرتے ہیں۔ اُن سے ہونے والی دو گھنٹے کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جب تک ہم نئی ٹیکنالوجی کو قانون کا حصہ نہیں بنائیں گے اور جب تک ہم اپنی نیتیں درست نہیں کریں گے تب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کرائم کی شرح میں اضافہ ہو گا اور وہ دن پھر شاید دور نہ ہو کہ ہم جرائم میں خود کفیل ہوجائیں اور ہمارا بچہ بچہ جرم کرنا اور اس سے بچنا جانتا ہوگا۔
ہمارے اخبارات آئے دن ریپ کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں، شاز ونادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس گھناونے جرم میں ملوث کسی مجرم کی سزا کی داستان میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئی ہو۔ لاہور کی ایک بستی میں چندماہ ہوئے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ نا جانے کن مجبوریوں کے باعث وہ لڑکی گھر سے باہر نوکری کی تلاش میں نکلی۔ اُ س کا خیال تھا کہ گریجویشن کے بعد شاید اس کو اچھی نوکری مل جائے گی لیکن ایسا ہو نہ سکا اور وہ کئی دن دفاتر کے چکر کاٹنے کے بعد گھر بیٹھ گئی۔ اس کو کسی کی توسط سے ایک مقامی اسکول میں ٹیچر کی جاب مل گئی ، آٹھ ہزار روپے ماہوار اس لڑکی کیلئے کم تو نہ تھے ۔اسکول سے واپسی پر اوباشوں کا ایک ٹولہ عموماً اس کا پیچھا کیا کرتا تھا ، لڑکی کے منع کرنے کے باوجود بھی انہوں نے اس کا پیچھا کرنا نہ چھوڑا۔ انیس سالہ اس لڑکی کی زندگی میں مشکلات پہلے بھی کم نہ تھی کہ ان میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان لڑکوں میں سے ایک نے اس لڑکی کی مکمل ریکی کی اور ایک دن اس کو اغوا کر لیا اور اُ س لڑکی کی عزت پامال کر دی۔ صرف یہی نہیں، اُ س کی حالت غیر ہونے پر اُس کو بند روڈ کے کنارے پھینک کر ٹولہ فرار ہو گیا۔
اس سے آگے کی داستان اور بھی لرزہ خیز ہے کہ کیسے اُ س غریب کو تھانے میں ذلت کا سامنا کرنا پڑا،کس طرح سے اُ س لڑکی کو میڈیکل کروانے کے نا م پر اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ کیسے اُس لڑکی کو وکیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کس طرح سے اُس کو مقامی دباؤ اور معاشرتی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔جب کسی طرف سے کوئی شنوائی نہ ہوئی تو لڑکی کے غریب گھر والوں نے اونے پونے داموں گھر فروخت کیا، اپنی جمع پونجی اکھٹی کی اور کسی نہ معلوم مقام کی جانب عازم سفر ہو گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟یہ ابھی تک کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اختصار سے بیان کیا گیا یہ واقعہ حقیقتاً ہمارے چہروں پر آہنی طمانچہ ہے۔ بالخصوص قانون کے ٹھیکے داروں پر اور مذہب کی دکان چلانے والوں پر ۔
زنا بالجبر ایک ایسا گھنا ونا فعل ہے جس کی ہمار ے اسلام نے سخت ترین سزا مقرر کی ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کسی پر زنا ثابت ہو جائے تو اس کو سز ا دینا بنتی ہے ۔ شادی شدہ کو تو پتھر مار کر ہلاک اور بیچ چوراہے میں یہ سزا دینے کا حکم ہے ۔جب کہ غیر شادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم نے ابھی تک اسلام کی نیم پلیٹ والے اس ملک میں ان قوانین کا نفاذ کیو ں نہیں کیا ہے؟ کیا بیرونی دباؤ اللہ کے احکام سے زیادہ ہے؟ جب شریعت کہتی ہے کہ خون کا بدلہ خون ہے تو وہ تمام قتل کے قیدی جن کی پھانسی کی تاریخیں آ چکی ہیں اُن کو ریاستی مہمان کیوں بنایا ہوا ہے؟ کس لئے ان کو ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی ہے؟ اگر اُ ن کے لواحقین نے سمجھوتہ سے انکار کر دیا ہے تو پھر کاروائی مکمل کی جائے ۔آخر کس لئے ہم ایسا کر رہے ہیں؟ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارے ملک میں قوانین بہت ہی فرسودہ ہیں اور پھر نا مکمل تفتیش، دباؤ اور دیگر ہتھکنڈوں سے مجرم بچ جاتا ہے ۔ مختاراں مائی کیس سے لے کر سنبل کیس تک سب ایک ہی جھول کی نشان دہی کر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی کی گئی ہو۔
زنا بالجبرکے حوالے سے گزشتہ پانچ سالوں میں کل 14583 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے صرف 1041یعنی کے کل تعداد میں سے صرف 7فیصد کو سزا ہوئی۔ باقی کے 93فیصد کے ساتھ کیا ہوا ؟اس بارے میں حقائق اور کتابیں خاموش ہیں۔ صرف پنجاب میں 12796 کیس رپورٹ ہوئے تھے یعنی 88فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا ، وہ پنجاب جو ہماری حکمران جماعت کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ اسی طرح سندھ میں 1077کیس رپورٹ ہوئے، خیبر پختونخواہ میں 458کیس رجسٹرڈ ہوئے، بلوچستان میں 92کیس رپورٹ ہوئے ، آزاد جموں و کشمیر میں 60اور گلگت بلتستان میں 11کیس رپورٹ ہوئے ۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 90کیس رپورٹ کئے گئے۔ یہاں یہ بھی عرض کر دیں کہ اعداد و شمار کے مطابق 2012ء کے مقابلے میں 2013ء میں ریپ کے کیس زیادہ رجسٹرڈ ہوئے ہیں، یعنی کہ اس گھناونے فعل میں بہت سے لوگ شامل ہو رہے ہیں ،وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قانون کی کمزوری ان کو بچا لے گی۔ ان اعداد و شمار میں ابھی وہ کیس شامل نہیں ہیں جو کہ دباؤ، خوف یا کسی اور وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ گزشتہ سال سندھ میں دو سو سے زائد ریپ کے کیس رجسٹرڈ ہوئے لیکن صرف اور صرف تین کو سزا ملی تھی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں 108 کیس فائل ہوئے تھے جس میں سے صرف 54 کیس رپورٹ ہوئے لیکن کسی بھی ایک کو سزا نہیں ملی ہے ۔ آزاد جمو ں و کشمیر میں 3اور گلگت بلتستان میں 5کیس کے مجرمان کو گزشتہ پانچ سال میں سزا ملی تھی۔
یہ ہے ہمارا المیہ۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون کا بول بالا ہو لیکن اس کے باوجود ہم قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اللہ نہ کرے ، ان کیسوں میں ہماری کسی بہن ،بیٹی کا کیس ہوتا تو کیا ہم رات کو سو سکتے تھے؟ اگر نہیں تو پھر اتنی بھی کیا بے حسی کہ ہم نے اُن کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کیا؟ عورتوں کے حقوق پر بننے والی این جی اوز کو ڈالرز، پاؤنڈ ، یورو اور ریال کمانے سے فرصت ملے تو وہ ریپ جیسے مسائل کے حل کیلئے نمائشی آوازوں کی بجائے حقیقی آوازیں اٹھائیں۔ درہم و دینار کمانے والوں پر لازم ہے کہ جن کے مسائل وہ بیچ رہے ہیں کم از کم ان کیلئے کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں۔ اس کے ساتھ معاشرے میں آگاہی لانا ہوگی اور حکومت پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ اس قسم کے مسائل کیلئے موثر قانون سازی کرے۔ہر قسم سے دباؤ سے آزاد ہو کر ان دونو ں کو ڈی این اے کروایا جائے۔ تمام تر ٹیکنیکل اور قانونی عملہ حلف لے کہ سب کچھ میرٹ پر ہوگا اور اس کے بعد چند دنوں میں عدالت میں رپورٹ جمع کروا دی جائے۔ پھر جو بھی مجرم ہو ، اُس کو نشان عبرت بنایا جائے۔ بیچ چوراہے میں منہ کالا کر کے اس کو نو گھنٹے بٹھا دیں ، اسکے بعد اس کی سزا پر عمل کریں، میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں پاکستان کرائم فری ہو سکتاہے ۔ کیا ہے جو ہم کر نہیں سکتے ہیں؟ صرف نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔