ہمیں اپنے بیٹے واپس چاہئیں
تعلیمی اداروں میں سیاست کا عمل دخل کوئی نیا نہیں طلبا سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان ہی اداروں سے ملکوں کو لیڈر ملتے ہیں۔
''منجھو بچڑو ویو ھلیو'' میرا بیٹا چلا گیا، میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے؟ بس! ایک بار صرف ایک بار وہ اسے واپس بھیج دیں۔ میں کبھی اس کو پڑھنے یونیورسٹی نہیں بھیجوں گی۔ میں انجینئرنگ کی ڈگری کو گود میں تو نہیں بٹھاسکتی ناں۔ ہمیں نہیں چاہیے ڈگری۔ بس میرا سب سے چھوٹا بیٹا کملیش واپس آئے میں اسے بکریاں دوں گی وہ چرا لے، لیکن پڑھنا چھوڑ دے۔''
مسلسل آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ کہے گئے یہ الفاظ کسی بھی ہوشمند کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ الفاظ نہیں آتش فشاں سے ابلتا ہوا لاوا ہیں جو خرمن دل و جاں جلاتے جاتے ہیں۔
یہ الفاظ مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کے انوائرمنٹل ڈپارٹمنٹ میں تھرڈ ایئر کا طالب علم کملیش کی ماں جمنا کے ہیں جوکہ بچے کی گمشدگی کا سن کر ہوش و حواس گنوا بیٹھی تھی۔
اغوا اور گمشدگی کی خبر جتنی چھوٹی ہوتی ہے اتنی زیادہ تباہ کن ہوتی ہے اور آج کل تو یہ لفظ صرف کملیش کی ماں جمنا نہیں کہہ رہی بلکہ سندھ کی ہر ماں یہی کہتی ہے کہ ہمیں ڈگریاں نہیں چاہئیں، ہمیں اپنے بیٹے واپس چاہئیں۔ 3 دنوں کے اندر 8 جوان لڑکوں کے دریدہ بدن سندھ دھرتی کے سینے کا ناسور بن چکے ہیں جو مل گئے ان پر ماتم جاری ہے جو کھو چکے ہیں والدین ان کے لیے پریشان ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سیاست کا عمل دخل کوئی نیا نہیں طلبا سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان ہی اداروں سے ملکوں کو لیڈر ملتے ہیں۔ تعلیمی ادارے شعور کی آبیاری کرکے ملک کو باشعور قوم دیتے ہیں لیکن وطن کے گلستان میں یہ کیسی دہشت کی ہوا چلی ہے جوکہ ہر ادارے کو خزاں کے پتوں کی طرح جھاڑتی چلی جا رہی ہے۔
کملیش تھر کا رہنے والا تھا، تھر کے لوگ جن کی نظریں ہمیشہ آسمان پر رہتی ہیں، جن کا رزق پانی کی دو بوندوں سے منسلک ہے۔ ریگستان میں بھوک سے مرتے بچوں کو دفن کرتے ہیں، اب اپنی جوان نسل پر پڑھنا ان کا مقدر بنتا جاتا ہے۔ غریب لوگ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلا کر کسی مقام پر پہنچانا چاہتے تھے اب ان کی خواہش ہی نہیں رہی۔ ساجن داس اسکول ٹیچر ہے جس کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پڑھنے، پڑھانے والا خاندان، محنت کرکے دو وقت کی روٹی کمانے والے لوگ جو جینے کی خواہش میں مرنے لگے ہیں۔
تھر کا نام لیتے ہی پیاس سے حلق سوکھ جاتا ہے تھر کا نام اب موت اور بدحالی کا نام بن چکا ہے۔ تھر کی زرخیز زمین جوکہ سالوں سوکھی رہتی ہے لیکن اس کی مٹی دو بوند پانی برستے ہی مہکنے لگتی ہے محبت کی مٹی سرسبز ہوتی ہے تو ہزاروں لوگ قدرتی نظاروں اور کارونجھر کے سرخ پہاڑوں اور شفاف پانیوں کو دیکھنے دور دراز سے آجاتے ہیں۔ لیکن اب ماتم کرتی تھر کوئی نہیں دیکھتا۔ کملیش کی گمشدگی اور یونیورسٹی کے دوسرے طلبا کی گمشدگی نے سندھ میں خوف طاری کردیا ہے ۔نوجوانوں کے زخم زخم دریدہ بدن انسانی حقوق کے لیے سوال ہیں۔
انسانی حقوق کی بات کرنے والے تو کہتے ہیں کہ پھانسی کی سزا بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس پر جرم ثابت ہو اس کے لیے بھی انسانی ہمدردی کے جذبات موجود ہوتے ہیں تو پھر کیا یہ 19-18 سال کے بچے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟ وہ جو کسی عدالت میں پیش نہیں کیے، وہ جن پر کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا؟ وہ جرم کی پاداش میں یوں بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں؟ ریاستی ادارے عوام کے تحفظ کے ذمے دارہیں اس قتل عام کا ذمے دار کون ہے؟
آج سندھ میں سندھ کا کلچر اور تہذیب بھی زیر بحث ہے۔ تمدن اور تہذیب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ تمدن ہی سے تہذیب جنم لیتی ہے اور لوگوں کی پہچان بنتی ہے۔ سندھ کی پہچان محبت ہے۔ سندھ کے خطے سے ہمیشہ محبت نے جنم لیا ہے۔ سندھو دریا کی تہذیب جس کا ذکر رگ وید میں بھی موجود ہے۔سندھو دریاکے گیت لکھے گئے ہیں جوکہ مذہبی حیثیت حاصل کرگئے اور سندھ دھرتی سے محبت لوگوں کی فطرت میں شامل ہوتی گئی۔ اپنی دھرتی کی عزت کرنے والی قوم نے کبھی کسی قوم پر حملہ نہیں کیا۔
سندھ کی قدیم تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ سندھ دھرتی کی زرخیزی اور جغرافیائی حدود و اربع کی وجہ سے سندھ کے لوگ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور وہ صرف اپنی دھرتی کو اپنی ماں سمجھ کر اس کی خاطر قربان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ آج کی جو سیاسی صورتحال ہے اس میں بہت سے چیلنجز ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں قومی شعور کی علامت ہیں۔ جمہوری طرز حکومت میں حقوق کی برابری کی بات کی جاتی ہے۔
حق سب کو ہے کہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لیکن سیاسی تجزیے میں جو اہم بات نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ سیاسی دھارا کسی ایک سمت میں نہیں جا رہا ہے۔ انتشار ملک کے اندر بھی ہے۔ افراتفری سیاسی جماعتوں میں بھی پائی جا رہی ہے۔ اختلاف برائے اختلاف زور پکڑتا جا رہا ہے۔ دھرنوں کی سیاست کا رخ الگ ہے اور سیاسی جماعتوں کے اندر انتشار الگ رخ اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال ہے جس میں ہر طرف مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ جب تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں تو جواب سوائے تباہی اور موت کے اور کچھ بھی نہیں ملتا۔
ملک میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ ملکی معاشی مسائل کے رخ الگ ہیں ۔ سیاسی مسائل کے رخ الگ ہیں لیکن نتیجہ ایک نکلتا ہے اور اثر صرف عوام پر ہوتا ہے۔ عوام جوکہ ریاست کا پہلا ستون ہیں ۔ سب مل کر اس ایک ستون کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ آج سب سے غیر محفوظ عام انسان ہے۔ عام انسان جوکہ تحفظ اور خوراک کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا۔ آج وہ بھوک سے بھی مر رہا ہے اور اسے سیاست کے نام پر، مذہب کے نام پر، دہشت کے نام پر بھی مارا جا رہا ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے بچوں کے مقتل بن گئے ہیں جہاں موجود سیکیورٹی اہلکار بھی ان کو بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ آخر اس نظام کی ڈور کہاں سے ہل رہی ہے؟ یہ سوال آج سب باشعور لوگوں کے ذہن میں ہے۔ سندھ کے باشعور نوجوان کی زندگی تعلیم سے جڑی ہوئی ہے، ان کو ہتھیار بند جدوجہد کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ سندھ میں کہیں بھی دہشت گردی کا نیٹ ورک نہیں ہے نہ سندھی طالبان ہیں نہ کسی اور دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہیں ۔ اگر ہے تو صرف محبت اور حقوق کے پرامن مطالبے ہیں ۔ اپنی دھرتی ، اپنا رزق اپنے وسائل ان کو استعمال کرنے کا حق تو ہر قوم کو حاصل ہے ۔
ہمارے سماج میں اب انسانی حقوق متروک ہوتے جا رہے ہیں ۔ انسانی حقوق اب ایک نعرے کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ حقوق کی پامالی ہر آواز اٹھانے والے، اٹھاتے جا رہے ہیں ہم ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جہاں سانسوں کی ڈور کب ٹوٹ جائے کچھ پتا نہیں ۔ قلم کار اور باشعور لوگ آج کل کی ڈکشنری میں غدار قرار دیے جا رہے ہیں جو بولے وہ مجرم جو لکھے وہ غدار ہے ۔ لیکن جو سرعام جلسوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے ایک دوسرے کے سیاسی راز ظاہر کرنے کے دعوے کرے اور امن اور انصاف کی ایک بات بھی نہ کرے وہ ہمارے لیڈر کہلاتے ہیں ۔
جو گمشدہ ہیں وہ اور جو بے موت مارے گئے۔ وہ طالب علم، وہ نوجوان جو ہمارا روشن مستقبل ہیں ۔ ان کے حقوق ان کا تحفظ آج کا ایک جلتا ہوا سوال ہے ۔ ہزاروں لوگ سراپا سوال ہیں؟ سندھ کا احتجاج ماتم ہے، گولی لاٹھی نہیں ہے، یہ نوحے یہ ماتم یہ ماؤں کی آہیں سوال ہیں کہ ان کے بیٹوں کا جرم کیا ہے؟ ان کو عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟ عدالتوں سے طاقتور عدالت کس کی ہے؟ انسانی حق اور انسان آج کل کہاں کھڑے ہیں؟
مسلسل آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ کہے گئے یہ الفاظ کسی بھی ہوشمند کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ الفاظ نہیں آتش فشاں سے ابلتا ہوا لاوا ہیں جو خرمن دل و جاں جلاتے جاتے ہیں۔
یہ الفاظ مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کے انوائرمنٹل ڈپارٹمنٹ میں تھرڈ ایئر کا طالب علم کملیش کی ماں جمنا کے ہیں جوکہ بچے کی گمشدگی کا سن کر ہوش و حواس گنوا بیٹھی تھی۔
اغوا اور گمشدگی کی خبر جتنی چھوٹی ہوتی ہے اتنی زیادہ تباہ کن ہوتی ہے اور آج کل تو یہ لفظ صرف کملیش کی ماں جمنا نہیں کہہ رہی بلکہ سندھ کی ہر ماں یہی کہتی ہے کہ ہمیں ڈگریاں نہیں چاہئیں، ہمیں اپنے بیٹے واپس چاہئیں۔ 3 دنوں کے اندر 8 جوان لڑکوں کے دریدہ بدن سندھ دھرتی کے سینے کا ناسور بن چکے ہیں جو مل گئے ان پر ماتم جاری ہے جو کھو چکے ہیں والدین ان کے لیے پریشان ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سیاست کا عمل دخل کوئی نیا نہیں طلبا سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان ہی اداروں سے ملکوں کو لیڈر ملتے ہیں۔ تعلیمی ادارے شعور کی آبیاری کرکے ملک کو باشعور قوم دیتے ہیں لیکن وطن کے گلستان میں یہ کیسی دہشت کی ہوا چلی ہے جوکہ ہر ادارے کو خزاں کے پتوں کی طرح جھاڑتی چلی جا رہی ہے۔
کملیش تھر کا رہنے والا تھا، تھر کے لوگ جن کی نظریں ہمیشہ آسمان پر رہتی ہیں، جن کا رزق پانی کی دو بوندوں سے منسلک ہے۔ ریگستان میں بھوک سے مرتے بچوں کو دفن کرتے ہیں، اب اپنی جوان نسل پر پڑھنا ان کا مقدر بنتا جاتا ہے۔ غریب لوگ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلا کر کسی مقام پر پہنچانا چاہتے تھے اب ان کی خواہش ہی نہیں رہی۔ ساجن داس اسکول ٹیچر ہے جس کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پڑھنے، پڑھانے والا خاندان، محنت کرکے دو وقت کی روٹی کمانے والے لوگ جو جینے کی خواہش میں مرنے لگے ہیں۔
تھر کا نام لیتے ہی پیاس سے حلق سوکھ جاتا ہے تھر کا نام اب موت اور بدحالی کا نام بن چکا ہے۔ تھر کی زرخیز زمین جوکہ سالوں سوکھی رہتی ہے لیکن اس کی مٹی دو بوند پانی برستے ہی مہکنے لگتی ہے محبت کی مٹی سرسبز ہوتی ہے تو ہزاروں لوگ قدرتی نظاروں اور کارونجھر کے سرخ پہاڑوں اور شفاف پانیوں کو دیکھنے دور دراز سے آجاتے ہیں۔ لیکن اب ماتم کرتی تھر کوئی نہیں دیکھتا۔ کملیش کی گمشدگی اور یونیورسٹی کے دوسرے طلبا کی گمشدگی نے سندھ میں خوف طاری کردیا ہے ۔نوجوانوں کے زخم زخم دریدہ بدن انسانی حقوق کے لیے سوال ہیں۔
انسانی حقوق کی بات کرنے والے تو کہتے ہیں کہ پھانسی کی سزا بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس پر جرم ثابت ہو اس کے لیے بھی انسانی ہمدردی کے جذبات موجود ہوتے ہیں تو پھر کیا یہ 19-18 سال کے بچے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟ وہ جو کسی عدالت میں پیش نہیں کیے، وہ جن پر کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا؟ وہ جرم کی پاداش میں یوں بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں؟ ریاستی ادارے عوام کے تحفظ کے ذمے دارہیں اس قتل عام کا ذمے دار کون ہے؟
آج سندھ میں سندھ کا کلچر اور تہذیب بھی زیر بحث ہے۔ تمدن اور تہذیب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ تمدن ہی سے تہذیب جنم لیتی ہے اور لوگوں کی پہچان بنتی ہے۔ سندھ کی پہچان محبت ہے۔ سندھ کے خطے سے ہمیشہ محبت نے جنم لیا ہے۔ سندھو دریا کی تہذیب جس کا ذکر رگ وید میں بھی موجود ہے۔سندھو دریاکے گیت لکھے گئے ہیں جوکہ مذہبی حیثیت حاصل کرگئے اور سندھ دھرتی سے محبت لوگوں کی فطرت میں شامل ہوتی گئی۔ اپنی دھرتی کی عزت کرنے والی قوم نے کبھی کسی قوم پر حملہ نہیں کیا۔
سندھ کی قدیم تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ سندھ دھرتی کی زرخیزی اور جغرافیائی حدود و اربع کی وجہ سے سندھ کے لوگ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور وہ صرف اپنی دھرتی کو اپنی ماں سمجھ کر اس کی خاطر قربان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ آج کی جو سیاسی صورتحال ہے اس میں بہت سے چیلنجز ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں قومی شعور کی علامت ہیں۔ جمہوری طرز حکومت میں حقوق کی برابری کی بات کی جاتی ہے۔
حق سب کو ہے کہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لیکن سیاسی تجزیے میں جو اہم بات نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ سیاسی دھارا کسی ایک سمت میں نہیں جا رہا ہے۔ انتشار ملک کے اندر بھی ہے۔ افراتفری سیاسی جماعتوں میں بھی پائی جا رہی ہے۔ اختلاف برائے اختلاف زور پکڑتا جا رہا ہے۔ دھرنوں کی سیاست کا رخ الگ ہے اور سیاسی جماعتوں کے اندر انتشار الگ رخ اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال ہے جس میں ہر طرف مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ جب تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں تو جواب سوائے تباہی اور موت کے اور کچھ بھی نہیں ملتا۔
ملک میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ ملکی معاشی مسائل کے رخ الگ ہیں ۔ سیاسی مسائل کے رخ الگ ہیں لیکن نتیجہ ایک نکلتا ہے اور اثر صرف عوام پر ہوتا ہے۔ عوام جوکہ ریاست کا پہلا ستون ہیں ۔ سب مل کر اس ایک ستون کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ آج سب سے غیر محفوظ عام انسان ہے۔ عام انسان جوکہ تحفظ اور خوراک کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا۔ آج وہ بھوک سے بھی مر رہا ہے اور اسے سیاست کے نام پر، مذہب کے نام پر، دہشت کے نام پر بھی مارا جا رہا ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے بچوں کے مقتل بن گئے ہیں جہاں موجود سیکیورٹی اہلکار بھی ان کو بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ آخر اس نظام کی ڈور کہاں سے ہل رہی ہے؟ یہ سوال آج سب باشعور لوگوں کے ذہن میں ہے۔ سندھ کے باشعور نوجوان کی زندگی تعلیم سے جڑی ہوئی ہے، ان کو ہتھیار بند جدوجہد کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ سندھ میں کہیں بھی دہشت گردی کا نیٹ ورک نہیں ہے نہ سندھی طالبان ہیں نہ کسی اور دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہیں ۔ اگر ہے تو صرف محبت اور حقوق کے پرامن مطالبے ہیں ۔ اپنی دھرتی ، اپنا رزق اپنے وسائل ان کو استعمال کرنے کا حق تو ہر قوم کو حاصل ہے ۔
ہمارے سماج میں اب انسانی حقوق متروک ہوتے جا رہے ہیں ۔ انسانی حقوق اب ایک نعرے کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ حقوق کی پامالی ہر آواز اٹھانے والے، اٹھاتے جا رہے ہیں ہم ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جہاں سانسوں کی ڈور کب ٹوٹ جائے کچھ پتا نہیں ۔ قلم کار اور باشعور لوگ آج کل کی ڈکشنری میں غدار قرار دیے جا رہے ہیں جو بولے وہ مجرم جو لکھے وہ غدار ہے ۔ لیکن جو سرعام جلسوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے ایک دوسرے کے سیاسی راز ظاہر کرنے کے دعوے کرے اور امن اور انصاف کی ایک بات بھی نہ کرے وہ ہمارے لیڈر کہلاتے ہیں ۔
جو گمشدہ ہیں وہ اور جو بے موت مارے گئے۔ وہ طالب علم، وہ نوجوان جو ہمارا روشن مستقبل ہیں ۔ ان کے حقوق ان کا تحفظ آج کا ایک جلتا ہوا سوال ہے ۔ ہزاروں لوگ سراپا سوال ہیں؟ سندھ کا احتجاج ماتم ہے، گولی لاٹھی نہیں ہے، یہ نوحے یہ ماتم یہ ماؤں کی آہیں سوال ہیں کہ ان کے بیٹوں کا جرم کیا ہے؟ ان کو عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟ عدالتوں سے طاقتور عدالت کس کی ہے؟ انسانی حق اور انسان آج کل کہاں کھڑے ہیں؟