نئی حج پالیسی کے لیے چند تجاویز
ایک اہم بات حاجیوں کی تربیت کا مسئلہ بھی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لاعلم حاجی طواف کا آغاز حجر اسود سے نہیں کرتے ہیں۔
یکم نومبر کو وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں حج انتظامات پر اظہار اطمینان کیا، چند تجاویز وزارت حج کے لیے پیش خدمت ہیں تاکہ جج 1436ھ کے بعد صحیح معنوں میں اظہار اطمینان کیا جاسکے۔ وزارت حج نے کم و بیش چھ ماہ پہلے باسٹھ ہزار دو سو اکتیس روپے وصول کیے تھے۔ جس میں رہائش، کھانا اور آنا جانا شامل تھا۔ رہائش چارکلو میٹر دور تھی اور بس اڈے سے کعبۃ اﷲ کا فاصلہ تقریباً 3 کلو میٹر تھا۔ حج کی پرواز سے دو دن پہلے انتیس ہزار نو سو روپے واپس دیے گئے۔ آیندہ حج کے لیے واپس دی جانے والی رقم پہلے ہی نہ لی جائے تاکہ وہ عازمین حج جو پچیس تیس ہزار کم ہونے کی وجہ سے درخواست نہ دے سکتے ہوں وہ بھی درخواست دے دیں۔
ایک اور مسئلہ جس کا ایئرپورٹ پر عام مشاہدہ ہوتا ہے وہ محرم کا سوال ہے۔ 45 سال سے زیادہ کی خواتین کے لیے ایک نوٹیفکیشن، اعلان، اشتہار، اطلاع جاری کردی جائے تاکہ ایئرپورٹ کا عملہ 45 سال کی خواتین کو جہاز پر سوار ہونے کے لمحوں میں ہراساں نہ کرے، جب پاسپورٹ میں ویزہ پر ''اسم المحرم'' نہیں لکھا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خاتون پر محرم کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جیسے دوسری دستاویزات حج کے لیے دی جاتی ہیں اسی طرح کا ایک نوٹیفکیشن بھی دیاجائے۔
کیوں کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ پرائیویٹ حج آپریٹر سزا یافتہ مجرم اور ناشائستہ شخص کو کسی خاتون کا محرم بنادیتے ہیں جو ان کے لیے سخت دکھ اور شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔ مصر اور دوسرے ممالک کی خواتین 45 کی عمر کے بعد ہر سال تنہا حج کررہی ہیں۔ پاکستان سے اگر کوئی خاتون گروپ کے ساتھ حج کررہی ہے اور اس کی عمر 45 سال سے زیادہ ہے تو اس کو ایئرپورٹ پر ہراساں نہ کیاجائے، پرائیویٹ حج آپریٹرز کو اتنی چھوٹ نہ دی جائے کہ وہ چور ڈاکو اور جرائم پیشہ کو ان کا محرم بنادیں اور خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوں۔ 1435ھ یعنی پچھلے حج میں (کچھ حج آپریٹرز) ان کا سنگین جرم یہ ہے کہ دس ہزار سے پچیس ہزار روپے میں حاجیوں کو بیچ دیتے ہیں اس طرح بغیر کسی محنت کے 25 ہزار روپے تک کمالیتے ہیں۔
اس قابل مذمت کام میں بات مکتب نمبر 102 تک پہنچ جاتی ہے جس کی درد ناک آپ بیتی فاطمہ طالب نے بتائی۔ ان کے شوہر طالب عباسی نے فاطمہ عباسی کے لیے چار لاکھ چالیس ہزار روپے ایک ٹریول ایجنسی اسلام آباد کو ادا کیے۔ اس ایجنسی نے ان دونوں اور ان کی طرح بے شمار عازمین حج کو محب حرمین شریفین کو بیچ دیا۔ تفصیلات تو حاجی طالب عباسی اور ان کی بیگم ہی بہتر طور پر بیان کرسکتے ہیں۔ مکتب نمبر 101 اور 102 منیٰ کی حدود میں نہیں تھے۔ جب حاجیوں کو دور ٹھہرایا جاتا تو ٹرین کی سہولت دی جاتی ہے۔ مکتب نمبر 102 سے جمرات تک کا فاصلہ 7 کلومیٹر ہے آنا جانا تقریباً 15 کلومیٹر جو گھریلو خواتین کے لیے بے حد مشکل ہے۔ مکتب نمبر 102 سے دو کلومیٹر پر ٹرین کا اسٹیشن تھا وہیں سے ٹرین کی سہولت فراہم کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ کعبۃ اﷲ سے ان کی روزانہ آنے جانے کے لیے رہائش بھی بے حد دور دی گئی چار لاکھ چالیس ہزار میں کم از کم کھانا تو دیا ہی جاسکتا ہے۔
مجرم پرائیویٹ حج آپریٹر پر بھی سزا کا اطلاق ہونا چاہیے تاکہ یہ بھی گورنمنٹ حج اسکیم کے کرتا دھرتا کی طرح سدھر جائیں۔ پچھلے کئی سالوں کی حاجیوں کی بد دعائیں رنگ لائیں، اس بار سرکاری حج انتظامات کو اﷲ نظر بد سے بچائے بہترین کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانی خدام حجاج بہت نیک اور شریف تھے۔ یقینا سفارشی نہیں تھے۔ کیوں کہ عزہ کے بس کے اڈے پر نہ صرف پاکستانیوں بلکہ ترکی اور دوسرے ممالک کے حاجیوں کی بھی رہنمائی کررہے تھے۔ شیشہ بلڈنگ نمبر 113 تو تمام پانچ سو حاجیوں کو ایک جائے نماز اور ایک بہترین چادر 120X 220دی گئی۔ جس پر میڈ ان پاکستان پڑھ کر دل خوش ہوگیا جو شرکۃ مصنع مدینۃ المنورہ سے تیار کی گئی تھی۔
جسے دیکھ کر دل کی گہرائیوں سے پاکستان زندہ باد نکلا اور جائے نماز پر بھی حج مبارک 2014 ۔ 113 پاکستان شیشہ میں استقبالیہ پر کھجوروں کے کارٹن بھرے رہتے تھے اکثر۔ جب اور جتنا چاہیں کھائیں اور کمرے میں لے جائیں۔ مذکورہ حج کاروان کی طرح کوئی بھوکا نہیں رہا۔ گورنمنٹ میں Rs 26231/= میں کھانا بھی ٹھیک دیا گیا۔ صرف پانچ چھ دن بند کیا گیا کسی ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے جو بلڈنگ نمبر 106 شیشہ میں پیش آیا۔ اگر آیندہ حج پر یعنی 1436ھ میں کھانے کا انتظام سعودی وزارت حج یا مکتب کے سپرد کردیاجائے تو اس طرح کی بدمزگی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ منیٰ یہاں تک کہ عرفات میں بھی بہترین کھانا اور پینا دیا گیا، مکتب کی طرف سے باقی تمام کے دوران بھی مکتب یا وزارت حج کی طرف سے انتظام ہوسکتا ہے۔ در اصل صدیوں سے ضیوف الرحمن(اﷲ کے مہمان) کی خدمت کی انھیں عادت پڑچکی ہے۔ اس لیے وہ بہترین انتظام کرتے ہیں۔
پرائیویٹ حج آپریٹر کو پابند کیاجائے، اتنا ہی معاوضہ لیں جتنا حکومت پاکستان سرکاری حج میں لیتی ہے۔ یہ V.I.P کی اصطلاح ختم کی جائے۔ ''تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے'' پھر V.I.P حج کیا ہے جب کہ ''ایک ہی صف میں کھڑے ہوںگے محمود و ایاز'' اس سال سرکاری حج کی ایک بڑی خوبی بلکہ سب سے بڑی خوبی رات دو بجے سے حرم کی طرف بسوں کی روانگی تھی اور حرم سے جس وقت چاہیں واپسی ممکن تھی۔ جب کہ پرائیویٹ حج میں آمد و رفت کے مراحل بھی بڑے درد ناک تھے۔ ایک حاجی کا بیان تھا کہ تین بسیں بدل کر بھی بہت چلنا پڑتا ہے جو پرائیویٹ حج آپریٹر سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں کچھ سزا ان کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ کم از کم سرکاری حج اسکیم کی سہولت تو دیں جب کہ پیسے دو حج کے وصول کررہے ہیں۔
ایک اہم بات حاجیوں کی تربیت کا مسئلہ بھی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لاعلم حاجی طواف کا آغاز حجر اسود سے نہیں کرتے ہیں۔ انھیں اس کا علم ہی نہیں ہے کہ طواف کا آغاز حجر اسود سے کیا جاتا ہے اور سات چکر ایک طواف کو کہتے ہیں۔ بے شمار غلطیاں مناسک حج کے حوالے سے مشاہدے میں آتی ہیں حج کی تربیت رمضان کے بعد ہی مختلف مساجد اور فلاحی اداروں کی جانب سے شروع ہوجاتی ہے لیکن حاجیوں کی خرید و فروخت یہ سنہری موقع کھودیتی ہے۔ یوں لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی درست طریقے سے حج نہیں کرپاتے۔
بے ترتیب، بکھرے گروپ کے ساتھ کوئی عالم دین بھی نہیں ہوتا جو انھیں مناسب حج کے طریقے بتادے۔ عازمین حج کو بھی چاہیے کہ جب حج کا ارادہ کرلیں تو پانچ وقت نماز اور قرآن پابندی کے ساتھ پڑھیں تاکہ لاکھوں روپے جس مقصد کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ مقصد پورا کریں۔ ہوٹل کے کمرے میں سونے میں، شاپنگ میں وقت ضایع نہ کریں۔ حرم کو حرم سمجھیں کچھ کھاکر اس کا کچرا حرمین شریفین میں نہ پھینکیں۔ بے شمار ڈسٹ بن رکھے ہیں اگر کہیں کچرا نظر آئے تو اس میں ڈال دیں۔ ایک شاپر ہمیشہ چپلوں کے لیے ساتھ رکھیں۔ بہت سے دروازوں پر شاپر رول چپلوں کے لیے رکھے ہیں وہ ایک بار لے لیں پورے سفر حج میں ایک ہی شاپر کافی ہے۔
ایک دفعہ کے استعمال کے بعد اس کو حرم کے راستوں پر اڑنے کے لیے نہ پھینکیں، اب حاجیوں کے لیے بے حساب سہولتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ صرف وضو جن کو کرنا ہو وہ باب عبدالعزیز اور باب نمبر 88 کے سامنے وضو خانے اور مرد و خواتین کے لیے الگ الگ بنے ہیں۔ لیکن مرد حضرات خواتین کے وضو خانے میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ وضو کے لیے احرام یا چادر سر سے اتارنا پڑتی ہے جو کسی مرد کی موجودگی میں خواتین کے لیے دقت کا باعث ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حرم کے ساتھ منیٰ اور عرفات میں بھی خواتین وضو کو طول دیتی ہیں۔ حج میں کوشش کریں کہ ہمارے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔
ایک ضروری گزارش خواتین سے ہے۔ حج سے چند مہینوں پہلے ریڈیو اور ٹی وی سے خواتین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ''حج کے چالیس دنوں کے قیام میں عبایہ ضرور پہنیں'' لیکن میری رائے میں جو خواتین اس ہدایت کی پابندی نہیں کرنا چاہتی ہیں وہ ایسی قمیض پہنیں جن کے چاک 30 انچ کی بجائے 3 انچ کے ہوں ورنہ عبایہ ضرور پہنیں۔ پاک جگہ کا ماحول بھی پاکیزہ ہو تو اچھا لگتا ہے۔
ایک اور مسئلہ جس کا ایئرپورٹ پر عام مشاہدہ ہوتا ہے وہ محرم کا سوال ہے۔ 45 سال سے زیادہ کی خواتین کے لیے ایک نوٹیفکیشن، اعلان، اشتہار، اطلاع جاری کردی جائے تاکہ ایئرپورٹ کا عملہ 45 سال کی خواتین کو جہاز پر سوار ہونے کے لمحوں میں ہراساں نہ کرے، جب پاسپورٹ میں ویزہ پر ''اسم المحرم'' نہیں لکھا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خاتون پر محرم کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جیسے دوسری دستاویزات حج کے لیے دی جاتی ہیں اسی طرح کا ایک نوٹیفکیشن بھی دیاجائے۔
کیوں کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ پرائیویٹ حج آپریٹر سزا یافتہ مجرم اور ناشائستہ شخص کو کسی خاتون کا محرم بنادیتے ہیں جو ان کے لیے سخت دکھ اور شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔ مصر اور دوسرے ممالک کی خواتین 45 کی عمر کے بعد ہر سال تنہا حج کررہی ہیں۔ پاکستان سے اگر کوئی خاتون گروپ کے ساتھ حج کررہی ہے اور اس کی عمر 45 سال سے زیادہ ہے تو اس کو ایئرپورٹ پر ہراساں نہ کیاجائے، پرائیویٹ حج آپریٹرز کو اتنی چھوٹ نہ دی جائے کہ وہ چور ڈاکو اور جرائم پیشہ کو ان کا محرم بنادیں اور خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوں۔ 1435ھ یعنی پچھلے حج میں (کچھ حج آپریٹرز) ان کا سنگین جرم یہ ہے کہ دس ہزار سے پچیس ہزار روپے میں حاجیوں کو بیچ دیتے ہیں اس طرح بغیر کسی محنت کے 25 ہزار روپے تک کمالیتے ہیں۔
اس قابل مذمت کام میں بات مکتب نمبر 102 تک پہنچ جاتی ہے جس کی درد ناک آپ بیتی فاطمہ طالب نے بتائی۔ ان کے شوہر طالب عباسی نے فاطمہ عباسی کے لیے چار لاکھ چالیس ہزار روپے ایک ٹریول ایجنسی اسلام آباد کو ادا کیے۔ اس ایجنسی نے ان دونوں اور ان کی طرح بے شمار عازمین حج کو محب حرمین شریفین کو بیچ دیا۔ تفصیلات تو حاجی طالب عباسی اور ان کی بیگم ہی بہتر طور پر بیان کرسکتے ہیں۔ مکتب نمبر 101 اور 102 منیٰ کی حدود میں نہیں تھے۔ جب حاجیوں کو دور ٹھہرایا جاتا تو ٹرین کی سہولت دی جاتی ہے۔ مکتب نمبر 102 سے جمرات تک کا فاصلہ 7 کلومیٹر ہے آنا جانا تقریباً 15 کلومیٹر جو گھریلو خواتین کے لیے بے حد مشکل ہے۔ مکتب نمبر 102 سے دو کلومیٹر پر ٹرین کا اسٹیشن تھا وہیں سے ٹرین کی سہولت فراہم کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ کعبۃ اﷲ سے ان کی روزانہ آنے جانے کے لیے رہائش بھی بے حد دور دی گئی چار لاکھ چالیس ہزار میں کم از کم کھانا تو دیا ہی جاسکتا ہے۔
مجرم پرائیویٹ حج آپریٹر پر بھی سزا کا اطلاق ہونا چاہیے تاکہ یہ بھی گورنمنٹ حج اسکیم کے کرتا دھرتا کی طرح سدھر جائیں۔ پچھلے کئی سالوں کی حاجیوں کی بد دعائیں رنگ لائیں، اس بار سرکاری حج انتظامات کو اﷲ نظر بد سے بچائے بہترین کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانی خدام حجاج بہت نیک اور شریف تھے۔ یقینا سفارشی نہیں تھے۔ کیوں کہ عزہ کے بس کے اڈے پر نہ صرف پاکستانیوں بلکہ ترکی اور دوسرے ممالک کے حاجیوں کی بھی رہنمائی کررہے تھے۔ شیشہ بلڈنگ نمبر 113 تو تمام پانچ سو حاجیوں کو ایک جائے نماز اور ایک بہترین چادر 120X 220دی گئی۔ جس پر میڈ ان پاکستان پڑھ کر دل خوش ہوگیا جو شرکۃ مصنع مدینۃ المنورہ سے تیار کی گئی تھی۔
جسے دیکھ کر دل کی گہرائیوں سے پاکستان زندہ باد نکلا اور جائے نماز پر بھی حج مبارک 2014 ۔ 113 پاکستان شیشہ میں استقبالیہ پر کھجوروں کے کارٹن بھرے رہتے تھے اکثر۔ جب اور جتنا چاہیں کھائیں اور کمرے میں لے جائیں۔ مذکورہ حج کاروان کی طرح کوئی بھوکا نہیں رہا۔ گورنمنٹ میں Rs 26231/= میں کھانا بھی ٹھیک دیا گیا۔ صرف پانچ چھ دن بند کیا گیا کسی ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے جو بلڈنگ نمبر 106 شیشہ میں پیش آیا۔ اگر آیندہ حج پر یعنی 1436ھ میں کھانے کا انتظام سعودی وزارت حج یا مکتب کے سپرد کردیاجائے تو اس طرح کی بدمزگی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ منیٰ یہاں تک کہ عرفات میں بھی بہترین کھانا اور پینا دیا گیا، مکتب کی طرف سے باقی تمام کے دوران بھی مکتب یا وزارت حج کی طرف سے انتظام ہوسکتا ہے۔ در اصل صدیوں سے ضیوف الرحمن(اﷲ کے مہمان) کی خدمت کی انھیں عادت پڑچکی ہے۔ اس لیے وہ بہترین انتظام کرتے ہیں۔
پرائیویٹ حج آپریٹر کو پابند کیاجائے، اتنا ہی معاوضہ لیں جتنا حکومت پاکستان سرکاری حج میں لیتی ہے۔ یہ V.I.P کی اصطلاح ختم کی جائے۔ ''تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے'' پھر V.I.P حج کیا ہے جب کہ ''ایک ہی صف میں کھڑے ہوںگے محمود و ایاز'' اس سال سرکاری حج کی ایک بڑی خوبی بلکہ سب سے بڑی خوبی رات دو بجے سے حرم کی طرف بسوں کی روانگی تھی اور حرم سے جس وقت چاہیں واپسی ممکن تھی۔ جب کہ پرائیویٹ حج میں آمد و رفت کے مراحل بھی بڑے درد ناک تھے۔ ایک حاجی کا بیان تھا کہ تین بسیں بدل کر بھی بہت چلنا پڑتا ہے جو پرائیویٹ حج آپریٹر سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں کچھ سزا ان کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ کم از کم سرکاری حج اسکیم کی سہولت تو دیں جب کہ پیسے دو حج کے وصول کررہے ہیں۔
ایک اہم بات حاجیوں کی تربیت کا مسئلہ بھی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لاعلم حاجی طواف کا آغاز حجر اسود سے نہیں کرتے ہیں۔ انھیں اس کا علم ہی نہیں ہے کہ طواف کا آغاز حجر اسود سے کیا جاتا ہے اور سات چکر ایک طواف کو کہتے ہیں۔ بے شمار غلطیاں مناسک حج کے حوالے سے مشاہدے میں آتی ہیں حج کی تربیت رمضان کے بعد ہی مختلف مساجد اور فلاحی اداروں کی جانب سے شروع ہوجاتی ہے لیکن حاجیوں کی خرید و فروخت یہ سنہری موقع کھودیتی ہے۔ یوں لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی درست طریقے سے حج نہیں کرپاتے۔
بے ترتیب، بکھرے گروپ کے ساتھ کوئی عالم دین بھی نہیں ہوتا جو انھیں مناسب حج کے طریقے بتادے۔ عازمین حج کو بھی چاہیے کہ جب حج کا ارادہ کرلیں تو پانچ وقت نماز اور قرآن پابندی کے ساتھ پڑھیں تاکہ لاکھوں روپے جس مقصد کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ مقصد پورا کریں۔ ہوٹل کے کمرے میں سونے میں، شاپنگ میں وقت ضایع نہ کریں۔ حرم کو حرم سمجھیں کچھ کھاکر اس کا کچرا حرمین شریفین میں نہ پھینکیں۔ بے شمار ڈسٹ بن رکھے ہیں اگر کہیں کچرا نظر آئے تو اس میں ڈال دیں۔ ایک شاپر ہمیشہ چپلوں کے لیے ساتھ رکھیں۔ بہت سے دروازوں پر شاپر رول چپلوں کے لیے رکھے ہیں وہ ایک بار لے لیں پورے سفر حج میں ایک ہی شاپر کافی ہے۔
ایک دفعہ کے استعمال کے بعد اس کو حرم کے راستوں پر اڑنے کے لیے نہ پھینکیں، اب حاجیوں کے لیے بے حساب سہولتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ صرف وضو جن کو کرنا ہو وہ باب عبدالعزیز اور باب نمبر 88 کے سامنے وضو خانے اور مرد و خواتین کے لیے الگ الگ بنے ہیں۔ لیکن مرد حضرات خواتین کے وضو خانے میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ وضو کے لیے احرام یا چادر سر سے اتارنا پڑتی ہے جو کسی مرد کی موجودگی میں خواتین کے لیے دقت کا باعث ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حرم کے ساتھ منیٰ اور عرفات میں بھی خواتین وضو کو طول دیتی ہیں۔ حج میں کوشش کریں کہ ہمارے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔
ایک ضروری گزارش خواتین سے ہے۔ حج سے چند مہینوں پہلے ریڈیو اور ٹی وی سے خواتین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ''حج کے چالیس دنوں کے قیام میں عبایہ ضرور پہنیں'' لیکن میری رائے میں جو خواتین اس ہدایت کی پابندی نہیں کرنا چاہتی ہیں وہ ایسی قمیض پہنیں جن کے چاک 30 انچ کی بجائے 3 انچ کے ہوں ورنہ عبایہ ضرور پہنیں۔ پاک جگہ کا ماحول بھی پاکیزہ ہو تو اچھا لگتا ہے۔