بلوچستان یا چیستان
اگر جنرل اعظم خان جیسے حکمراں کو ذمے داری سونپی گئی ہوتی تو شاید سانحۂ سقوطِ پاکستان رونما نہ ہوا ہوتا
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت غیر معمولی ہے کیونکہ شمال میں اس کی سرحدیں افغانستان سے اور مغرب میں ایران سے ملی ہوئی ہیں۔ اگرچہ اپنی سرزمین میں دفن قدرت کے عطا کیے ہوئے بے تحاشا خزانوں کی بدولت یہ وسیع و عریض خطہ انتہائی مالا مال ہے لیکن ہمارے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور وطنِ عزیز کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں یہ صوبہ مدت دراز سے بدحالی اور سنگین اندرونی وبیرونی سازشوں کی آماج گاہ ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے معاملے میں محض زبانی جمع خرچ (Lip service) کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، جس کے نتیجے میں ملک کا یہ اہم ترین صوبہ ایک چیستان بنا ہوا ہے۔
قارئین کرام! بلوچستان کی تین ریاستوں بشمول مکران، لسبیلہ اور خاران نے بہ رضا و رغبت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا جب کہ اس کی چوتھی ریاست قلات کے فرماں روا میر احمد یار خان نے قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد 1948 میں خودمختاری کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد وہ اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی ہوگئے تھے۔ پھر فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں (1958-59) نواب نوروز خان نے ون یونٹ کے خلاف بغاوت کردی جسے بزورِ شمشیر نہایت بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ اس کے بعد 1963 میں، بیرونی طاقتوں کی شہ پر بعض بلوچ رہنمائوں نے ایک مرتبہ پھر سرکشی اختیار کی جو جنرل یحییٰ خان کی جانب سے ون یونٹ کے خاتمے پر تمام ہوئی۔
اس وقت یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ دسمبر 1971 میں فوج بیرکوں میں واپس چلی گئی اور منتخب حکومتوں کا قیام عمل میں آگیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جمہوری حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو برطرف کرکے پرانے زخموں کو ہرا کردیا، جس کے بعد بلوچ قوم پرستوں نے زیادہ شدّت کے ساتھ وسیع تر پیمانے پر مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا جسے افغان حکمرانوں اور بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
طاقت کے نشے میں سرشار بھٹو صاحب نے سابقہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کی سب سے بڑی سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ قائم کردیا۔ اس کے بعد فوجی حکمراں جنرل محمد ضیاء الحق کا دور آیا جو نہ صرف نسبتاً پرامن رہا بلکہ فوجی گورنر جنرل رحیم الدین خان کی نگرانی میں بلوچستان میں بہت سے ترقیاتی کام بھی تکمیل پذیر ہوئے اور جنرل رحیم کو کم و بیش وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو سابق مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے مقرر کردہ فوجی گورنر جنرل اعظم خان کو عوام کی خدمت اور عوام دوستی کی بِنا پر حاصل ہوئی تھی۔
اپنے ہم عمر قارئین کی یاددہانی اور نئی نسل کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جنرل اعظم خان کی عوامی مقبولیت سے خائف ہونے کی وجہ سے ہی ایوب خان نے جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان سے واپس بلالیا تھا۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جنرل اعظم خان کی واپسی کا منظر بڑا ہی رقت آمیز تھا۔ ان کی رخصتی پر بچّے اور بوڑھے، عورتیں اور مرد سب کے سب دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے اور لوگ چیخ چیخ کر یہ دہائی دے رہے تھے ''مت جائو اعظم خان! لوٹ آئو اعظم خان۔''
جب وہ باری سال اور چاند پور کے دورے پر تھے تو مشرقی پاکستان کے عوام ان کی واپسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اس کے بعد جب وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے طلباء سے آخری خطاب کے لیے ڈھاکا پہنچے تو ان کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا دے دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مشرقی پاکستان سے واپس نہ جائیں۔ وہ وہاں سے اس وقت تک ٹس سے مس نہیں ہوئے جب تک جنرل اعظم خان نے انھیں گلے لگا کر چمکارا نہیں۔ یہ ہوتی ہے عوام دوست حکمرانوں کی شان۔ اقبال نے اسی لیے تو محبت کو فاتحِ عالم کہا ہے۔ دینِ اسلام نے بھی دنیا پر بزورِ شمشیر نہیں بلکہ محبت کے زور پر فتح حاصل کی تھی۔ سچ مچ عوام دوست حکمراں اپنے عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ مشہور ادیب وکٹر ہیوگو کے الفاظ یاد آرہے ہیں:
To the world you may be one person.
But to the person you may be the world
What a grand thing to be lored!
What a grand thing still, to love!
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر جنرل اعظم خان جیسے حکمراں کو ذمے داری سونپی گئی ہوتی تو شاید سانحۂ سقوطِ پاکستان رونما نہ ہوا ہوتا اور ہمارے ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کو جنرل ٹکا خان کے حوالے کردیا گیا اور نتیجتاً پاکستان دولخت ہوگیا۔
بلوچستان کی شورش نے 2004 میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کی سفّاکانہ ہلاکت نے اسے اپنے نقطۂ عروج پر پہنچادیا۔ سیدھی اور کھری بات یہ ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو عرصۂ دراز سے Mishandle کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت اور مخالفت کے شعلے سرد ہونے کے بجائے مزید بھڑک رہے ہیں۔ بلوچستان کو ہم نے اپنی تقریباً دو سالہ پوسٹنگ کے دوران بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ بلاشبہ وہاں پس ماندگی، غربت اور محرومی کی انتہا ہے۔
ہم ایسے کئی لوگوں سے بھی ملے جنھوں نے ریل گاڑی کا صرف ذکر سنا تھا اور بعض ایسے دور افتادہ اور پس ماندہ لوگوں سے بھی ہمیں ملنے کا اتفاق ہوا جو لفظِ پاکستان سے بھی ناآشنا تھے اور جن کے نزدیک سردار کا حکم نعوذ باﷲ خدائی حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ دوسری جانب ہمارا ملنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو جنرل رحیم الدین اور ان کی گورنری کے دور کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ قیادت دیانت دار اور مخلص ہو اور عوام کی خدمت کا بے لوث جذبہ رکھتی ہو۔ یہ ضرورت محض بلوچستان کے عوام کی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی بھی ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے عوام کا سوال ہے تو وہ ملک کے دیگر صوبوں کے عوام سے کچھ کم محب وطن نہیں ہیں۔ البتہ اگر وہ ناراض یا ناخوش ہیں تو اس کی بڑی معقول وجوہات ہیں جن کا ازالہ جلد از جلد ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ بے توجہی اور مغائرت کا سلوک ترک کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں ترجیحی بنیاد پر شامل کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو ہر صورت میں بحال کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک میل ملاپ کی کوئی تدبیر یا کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت کے بیشتر ارکان سر تا پا کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں بری طرح دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ارکان حکومت کو بلوچ عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ قانون شہادت میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس طرح کا انتظامی بندوبست کیا جائے کہ فتنہ و فساد برپا کرنے والے عناصر قانون کے شکنجے سے بچ کر نکلنے نہ پائیں۔ اس کے علاوہ صدر اور وزیراعظم سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت بلوچستان کے مسائل اور معاملات کی خود بھی نگرانی کرے اور وقتاً فوقتاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں طویل عرصہ قیام کرکے حالات کا جائزہ بھی لے۔
ایک اور اچھی اور کارگر تجویز یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس صوبے کی راجدھانی کوئٹہ میں منعقد کیا جائے اور موسم گرما کے لیے کوئٹہ کو ملک کا دارالخلافہ قرار دیا جائے۔ کالم کے اختتام پر حکومت وقت سے ہمارا سوال یہ ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ آغاز حقوق بلوچستان کے پیکیج کا کیا بنا اور اربوں روپے کی خطیر رقم آخر کہاں گئی؟ دریں اثناء یہ خبر خوش کن ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل، میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسے بالغ النظر قوم پرست رہنما ایک مشترکہ جماعت کے جھنڈے تلے متحد ہورہے ہیں۔
تاہم حال ہی میں اقوام متحدہ کے جائزہ کمیشن کی اچانک پاکستان آمد باعثِ تشویش ہے اور اس سے اس خیال کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ یہ اقدام وطن عزیز کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کا حصّہ بھی ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے کمیشن آسام یا مقبوضہ کشمیر کیوں نہیں جارہے جہاں مسلمانوں پر کھلم کھلا مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور جہاں انسانی حقوق کو بری طرح سے پامال کیا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب افتخار چوہدری صاحب کا یہ اقدام انتہائی لائق تحسین و ستایش ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کے مذکورہ کمیشن یا مشن سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس بارے میں وزارتِ خارجہ کو باقاعدہ آگاہ بھی کردیا۔ بلاشبہ بلوچستان کے حوالہ سے ہماری عدالتِ عظمیٰ اور سپریم کورٹ بار کا کردار بجاطور پر مثالی ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت غیر معمولی ہے کیونکہ شمال میں اس کی سرحدیں افغانستان سے اور مغرب میں ایران سے ملی ہوئی ہیں۔ اگرچہ اپنی سرزمین میں دفن قدرت کے عطا کیے ہوئے بے تحاشا خزانوں کی بدولت یہ وسیع و عریض خطہ انتہائی مالا مال ہے لیکن ہمارے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور وطنِ عزیز کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں یہ صوبہ مدت دراز سے بدحالی اور سنگین اندرونی وبیرونی سازشوں کی آماج گاہ ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے معاملے میں محض زبانی جمع خرچ (Lip service) کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، جس کے نتیجے میں ملک کا یہ اہم ترین صوبہ ایک چیستان بنا ہوا ہے۔
قارئین کرام! بلوچستان کی تین ریاستوں بشمول مکران، لسبیلہ اور خاران نے بہ رضا و رغبت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا جب کہ اس کی چوتھی ریاست قلات کے فرماں روا میر احمد یار خان نے قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد 1948 میں خودمختاری کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد وہ اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی ہوگئے تھے۔ پھر فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں (1958-59) نواب نوروز خان نے ون یونٹ کے خلاف بغاوت کردی جسے بزورِ شمشیر نہایت بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ اس کے بعد 1963 میں، بیرونی طاقتوں کی شہ پر بعض بلوچ رہنمائوں نے ایک مرتبہ پھر سرکشی اختیار کی جو جنرل یحییٰ خان کی جانب سے ون یونٹ کے خاتمے پر تمام ہوئی۔
اس وقت یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ دسمبر 1971 میں فوج بیرکوں میں واپس چلی گئی اور منتخب حکومتوں کا قیام عمل میں آگیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جمہوری حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو برطرف کرکے پرانے زخموں کو ہرا کردیا، جس کے بعد بلوچ قوم پرستوں نے زیادہ شدّت کے ساتھ وسیع تر پیمانے پر مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا جسے افغان حکمرانوں اور بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
طاقت کے نشے میں سرشار بھٹو صاحب نے سابقہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کی سب سے بڑی سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ قائم کردیا۔ اس کے بعد فوجی حکمراں جنرل محمد ضیاء الحق کا دور آیا جو نہ صرف نسبتاً پرامن رہا بلکہ فوجی گورنر جنرل رحیم الدین خان کی نگرانی میں بلوچستان میں بہت سے ترقیاتی کام بھی تکمیل پذیر ہوئے اور جنرل رحیم کو کم و بیش وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو سابق مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے مقرر کردہ فوجی گورنر جنرل اعظم خان کو عوام کی خدمت اور عوام دوستی کی بِنا پر حاصل ہوئی تھی۔
اپنے ہم عمر قارئین کی یاددہانی اور نئی نسل کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جنرل اعظم خان کی عوامی مقبولیت سے خائف ہونے کی وجہ سے ہی ایوب خان نے جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان سے واپس بلالیا تھا۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جنرل اعظم خان کی واپسی کا منظر بڑا ہی رقت آمیز تھا۔ ان کی رخصتی پر بچّے اور بوڑھے، عورتیں اور مرد سب کے سب دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے اور لوگ چیخ چیخ کر یہ دہائی دے رہے تھے ''مت جائو اعظم خان! لوٹ آئو اعظم خان۔''
جب وہ باری سال اور چاند پور کے دورے پر تھے تو مشرقی پاکستان کے عوام ان کی واپسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اس کے بعد جب وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے طلباء سے آخری خطاب کے لیے ڈھاکا پہنچے تو ان کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا دے دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مشرقی پاکستان سے واپس نہ جائیں۔ وہ وہاں سے اس وقت تک ٹس سے مس نہیں ہوئے جب تک جنرل اعظم خان نے انھیں گلے لگا کر چمکارا نہیں۔ یہ ہوتی ہے عوام دوست حکمرانوں کی شان۔ اقبال نے اسی لیے تو محبت کو فاتحِ عالم کہا ہے۔ دینِ اسلام نے بھی دنیا پر بزورِ شمشیر نہیں بلکہ محبت کے زور پر فتح حاصل کی تھی۔ سچ مچ عوام دوست حکمراں اپنے عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ مشہور ادیب وکٹر ہیوگو کے الفاظ یاد آرہے ہیں:
To the world you may be one person.
But to the person you may be the world
What a grand thing to be lored!
What a grand thing still, to love!
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر جنرل اعظم خان جیسے حکمراں کو ذمے داری سونپی گئی ہوتی تو شاید سانحۂ سقوطِ پاکستان رونما نہ ہوا ہوتا اور ہمارے ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کو جنرل ٹکا خان کے حوالے کردیا گیا اور نتیجتاً پاکستان دولخت ہوگیا۔
بلوچستان کی شورش نے 2004 میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کی سفّاکانہ ہلاکت نے اسے اپنے نقطۂ عروج پر پہنچادیا۔ سیدھی اور کھری بات یہ ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو عرصۂ دراز سے Mishandle کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت اور مخالفت کے شعلے سرد ہونے کے بجائے مزید بھڑک رہے ہیں۔ بلوچستان کو ہم نے اپنی تقریباً دو سالہ پوسٹنگ کے دوران بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ بلاشبہ وہاں پس ماندگی، غربت اور محرومی کی انتہا ہے۔
ہم ایسے کئی لوگوں سے بھی ملے جنھوں نے ریل گاڑی کا صرف ذکر سنا تھا اور بعض ایسے دور افتادہ اور پس ماندہ لوگوں سے بھی ہمیں ملنے کا اتفاق ہوا جو لفظِ پاکستان سے بھی ناآشنا تھے اور جن کے نزدیک سردار کا حکم نعوذ باﷲ خدائی حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ دوسری جانب ہمارا ملنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو جنرل رحیم الدین اور ان کی گورنری کے دور کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ قیادت دیانت دار اور مخلص ہو اور عوام کی خدمت کا بے لوث جذبہ رکھتی ہو۔ یہ ضرورت محض بلوچستان کے عوام کی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی بھی ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے عوام کا سوال ہے تو وہ ملک کے دیگر صوبوں کے عوام سے کچھ کم محب وطن نہیں ہیں۔ البتہ اگر وہ ناراض یا ناخوش ہیں تو اس کی بڑی معقول وجوہات ہیں جن کا ازالہ جلد از جلد ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ بے توجہی اور مغائرت کا سلوک ترک کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں ترجیحی بنیاد پر شامل کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو ہر صورت میں بحال کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک میل ملاپ کی کوئی تدبیر یا کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت کے بیشتر ارکان سر تا پا کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں بری طرح دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ارکان حکومت کو بلوچ عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ قانون شہادت میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس طرح کا انتظامی بندوبست کیا جائے کہ فتنہ و فساد برپا کرنے والے عناصر قانون کے شکنجے سے بچ کر نکلنے نہ پائیں۔ اس کے علاوہ صدر اور وزیراعظم سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت بلوچستان کے مسائل اور معاملات کی خود بھی نگرانی کرے اور وقتاً فوقتاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں طویل عرصہ قیام کرکے حالات کا جائزہ بھی لے۔
ایک اور اچھی اور کارگر تجویز یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس صوبے کی راجدھانی کوئٹہ میں منعقد کیا جائے اور موسم گرما کے لیے کوئٹہ کو ملک کا دارالخلافہ قرار دیا جائے۔ کالم کے اختتام پر حکومت وقت سے ہمارا سوال یہ ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ آغاز حقوق بلوچستان کے پیکیج کا کیا بنا اور اربوں روپے کی خطیر رقم آخر کہاں گئی؟ دریں اثناء یہ خبر خوش کن ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل، میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسے بالغ النظر قوم پرست رہنما ایک مشترکہ جماعت کے جھنڈے تلے متحد ہورہے ہیں۔
تاہم حال ہی میں اقوام متحدہ کے جائزہ کمیشن کی اچانک پاکستان آمد باعثِ تشویش ہے اور اس سے اس خیال کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ یہ اقدام وطن عزیز کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کا حصّہ بھی ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے کمیشن آسام یا مقبوضہ کشمیر کیوں نہیں جارہے جہاں مسلمانوں پر کھلم کھلا مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور جہاں انسانی حقوق کو بری طرح سے پامال کیا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب افتخار چوہدری صاحب کا یہ اقدام انتہائی لائق تحسین و ستایش ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کے مذکورہ کمیشن یا مشن سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس بارے میں وزارتِ خارجہ کو باقاعدہ آگاہ بھی کردیا۔ بلاشبہ بلوچستان کے حوالہ سے ہماری عدالتِ عظمیٰ اور سپریم کورٹ بار کا کردار بجاطور پر مثالی ہے۔