جناب اختر مینگل سے چند سوالات
جناب اختر مینگل کیا آئے، ’’حقائق‘‘ کے نام پر دفتروں کے دفتر کُھل گئے
گزشتہ ہفتے بلوچستان کے معروف سیاستدان، جو خود بھی وزیراعلیٰ رہے اور اُن کے والدِ گرامی بھی وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے، جناب اختر مینگل اسلام آباد تشریف لائے تھے۔
سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں خوب رونق رہی لیکن اختر مینگل کو اپنے اپنے ٹاک شوز میں بطور مہمان بٹھا کر تقریباً ہر اینکر پرسن نے یہ میلہ لُوٹنے کی کوشش کی۔ یوں جنابِ مینگل کو اِن ٹاک شوز کے توسط سے یہ پروپیگنڈہ کرنے کا سنہری موقع مل گیا کہ ''پاکستان'' بلوچوں پر بہت ظلم ڈھا رہا ہے، اِس لیے ناراض ہونے اور گلے شکوے کرنے سے بہتر ہے کہ جپھی ڈال کر علیحدہ ہو جائیں۔ اُن کی زبان سے بار بار اور تواتر و تسلسل سے ''علیحدگی علیحدگی'' کے الفاظ سُن کر ہماری نوجوان نسل کو پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ ایک اور بنگلہ دیش سانحہ بھی وقوع پذیر ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
اِس حوالے سے، اِس ''عظیم خدمت'' پر ہم سب نجی ٹی ویز کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے ''ایک شاندار اور قابلِ فخر قومی فریضہ'' انجام دیا ہے۔ اﷲ کرے زورِ زباں اور زیادہ۔ اِس ''عظیم قومی خدمت'' کے بجا لانے کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ حقائق سب پر منکشف ہونے چاہئیں۔ ماشاء اﷲ۔ اگر ''حقائق'' ہی کو فروغ دینے اور لاعلموں کو علم سے مالا مال کرنے کی بات ہے تو اِن حضرات پر لازم ہے کہ اِسی ''بے مثال'' جذبے کے تحت وہ ''حقائق، حقائق ہیں'' نامی کتاب کی بھی تشہیر کرنا شروع کر دیں جس کے مصنف و مؤلّف جناب خان عبدالولی خان صاحب مرحوم و مغفور تھے تاکہ نئی نسل پر ''حقائق'' کی بنیاد پر عیاں ہو سکے کہ یہ پاکستان تو محض ایک مصنوعی ملک ہے اور اِسے بنانے میں (خاکم بدہن) دراصل قائداعظم نے انگریزوں کی معاونت کی تھی۔ ''حقائق شناسی'' کے نام پر ہمیں کن کن مدارج و مسائل سے گزرنا پڑے گا، یہ ہمیں آج سے پہلے معلوم ہی نہ تھا۔
جناب اختر مینگل کیا آئے، ''حقائق'' کے نام پر دفتروں کے دفتر کُھل گئے۔ ہم سب نے اُن کی باتیں دل تھام کرسُنیں اور صبر کر لیا۔ موصوف، جنھیں ہمارے ایک دوست کالم نگار نے معصوم چہرے والا سیاستدان بھی کہا ہے، نے بعض مقامات پر اپنی گفتگو میں مبالغہ آرائی سے کام بھی لیا ہے۔ سُننے والوں نے اِسے بھی صبر اور تحمل سے سُنا ہے کیونکہ وہ میڈیا مارکیٹ میں خاصے ''اِن'' تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان کے ''مظالم'' کی داستانیں تو کلکتہ پریس سے بھارتی اخبارات میں شایع ہوتی تھیں اور اب یہ کام خود ہمارا اپنا میڈیا انجام دینے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کئی باتیں ایسی ہیں جو آنجناب اختر مینگل صاحب سے پوچھنی چاہئیں تھیں لیکن نہ جانے کیوں اِن سے اغماض برتا گیا۔ مثال کے طور پر موصوف نے فرمایا کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کی تعداد سترہ ہزار ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے دنیا میں بھارت سرفہرست ہے، اِس کے بعد ہمارے ایک اسلامی ملک کا نام آتا ہے اور پھر پاکستان کا لیکن جناب مینگل نے اِس ضمن میں اُلٹی گنگا بہا دی ہے۔ اُن سے گزارش ہے کہ وہ میڈیا کو اِن سترہ ہزار لاپتہ افراد کی فہرست اور اُن کے ایڈریس فراہم کریں تاکہ تحقیق و تفتیش کرنے والا کوئی ادارہ، خواہ وہ کوئی مغربی ملک کا ہی کیوں نہ ہو، اِس سنگین الزام کی چھان پھٹک کر سکے۔ اگرچہ لاپتہ افراد کے سانحہ کا سِرے ہی سے انکاربھی نہیں کیا جا سکتا۔
اختر مینگل کے سُلگتے اور سنگین الزامات کے حوالے سے ایک نکتہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بھی اُٹھایا ہے۔ مبینہ طور پر مینگل صاحب کے ایک بھائی کئی برس قبل اغوا کرکے قتل کر دیے گئے تھے۔ اگر یہ سانحہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ اِس کے ذمے دار بڑے طاقتور اور باوسائل لوگ ہوں گے۔ اب اِس ضمن میں رحمان ملک صاحب استفسار کرتے ہیں کہ جب اختر مینگل بذاتِ خود بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے تو اُنہوں نے اپنے بھائی کے قاتلوں تک پہنچنے، اُن کا کُھرا ناپنے اور اُنہیں کیفرکردار تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہ کی؟ کیا وہ ایسا کرنے میں مطلق بے بس تھے؟
کیا اُن کے راستے میں بھی ایسی ہی بھاری بھر کم رکاوٹیں حائل تھیں جیسا کہ موجودہ حکومت تمام وسائل اور اختیارات رکھنے کے باوجود اپنی قائد کے قاتلوں کو پہچاننے اور اُنہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے؟ تقریباً پانچ برس گزر گئے ہیں لیکن شومئی قسمت سے ہم قاتلوں کے نام جانتے ہیں نہ بی بی کو قتل کرنے کی منصوبہ سازی کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہو سکے ہیں۔ رحمان ملک صاحب نے اگر اختر مینگل کے مبینہ مغوی و مقتول بھائی کے بارے میں ''نکتہ'' اٹھایا ہے تو اُن کے بیانات سے بھی ایک نکتہ از خود اُٹھتا ہے۔
ملک صاحب بار بار بیان دے چکے ہیں کہ بلوچستان میں بدامنی، خونریزی اور فساد پیدا کرنے والے غیر ملکی ہاتھوں کو سامنے لا رہے ہیں لیکن فی الحال وہ اِس ضمن میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔ آخر وجوہ کیا ہیں؟ یا ایسے بیانات محض گپ ہیں، جس طرح اُنہوں نے یہ بیان داغ دیا تھا کہ وہ دہری شہریت رکھنے والے دیگر کئی افراد کو جانتے ہیں، اگر عدالت موقع فراہم کرے تو وہ نام پیش کرسکتے ہیں۔ اور جب عدالت نے موقع فراہم کیا تو وہ اپنے اعلان پر پورا اُترنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
اختر مینگل صاحب بہت تیقن کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ مذکورہ ادارے سے اُن کی ناراضگیاں اور شکوے بجا ہو سکتے ہیں لیکن بلوچستان میں ملٹری آپریشنز کا ذکر؟ بلوچستان ماشاء اﷲ وسیع و عریض علاقہ ہے اور وہ پہاڑوں کا بیٹا ہونے کے ناتے اِس کے چپے چپے سے ذاتی طور پر آگاہ و آشنا بھی ہوں گے۔ کیا وہ بلوچستان کے اُن علاقوں کا نام لے کر بتا سکتے ہیں کہ کہاں کہاں یہ فوجی آپریشن ہو رہے ہیں، کب سے جاری ہیں اور وہاں فوج کی کتنی نفری بروئے کار ہے؟ اگر وہ اپنے ''حقائق'' میں اِن کا ذکر بھی کر دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ ہم ایسے لوگ بے خبری میں نہ مارے جاتے۔ ہم اُن سے گلہ کر رہے ہیں نہ اُنہیں آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اُنہیں اور اُن سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کو ہماری باتیں محض ہمارا ذاتی نکتۂ نظر سمجھ کر غور ضرور کرنا چاہیے۔ یہ تصویر کادوسرا رُخ بھی ہو سکتا ہے۔
ہم تسلیم کیے لیتے ہیں کہ جناب اختر مینگل اپنی گفتگوئوں میں حقیقت اور صرف حقیقت بیان کر رہے ہیں مگر اُن کی حقیقت بیانی میں اگر بلوچستان میں بسنے والے پنجابیوں کا ذکر بھی آ جاتا تو کتنا بہتر ہوتا۔ افسوس اُنہوں نے اِس طرف جھانکنا بھی گوارا نہ کیا اور نہ ہی کسی اینکر پرسن کو اِس بارے میں کوئی سوال اُٹھانے کی توفیق ہی ہو سکی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے پنجابیوں کی تعداد سترہ سو ہو چکی ہے۔ اِن میں زیادہ تر پنجابی مزدور،چھوٹے بزنس مین ، اساتذہ کرام اور حجام تھے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اُنہیں خدانخواستہ بلوچوں نے قتل کیا یا کسی اور نے لیکن ''حقیقت شناسی'' کا تقاضا تھا کہ مینگل صاحب اُن کا ذکر بھی کرتے۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کے آس پاس سیکڑوں ہزارہ مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا لیکن اُن کا ذکر بھی مینگل صاحب کے لبوں پر نہ آیا۔ یہ سب مقتولین، جنھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، اگر نسلی اعتبار سے بلوچ نہ تھے لیکن انسان اور مسلمان تو تھے۔ پھر اُن کا ذکر کرنے سے دانستہ گریز کیوں؟ ہم یقین کر لیتے ہیں کہ اختر مینگل صاحب انصاف پسند طبیعت کے مالک اور وہ خود بھی انصاف ہی کے متمنی ہیں، تو کیا اِس انصاف کا تقاضا نہ تھا کہ آپ اِن مقتولوں کا ذکر بھی اپنی کسی گفتگو میں کرتے۔ یہ اُن کی طرف سے مارے جانے والے پنجابیوں اور ہزارہ مسلمانوںکے پسماندگان کے زخموں پر یقیناً مرہم ثابت ہوتا۔
سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں خوب رونق رہی لیکن اختر مینگل کو اپنے اپنے ٹاک شوز میں بطور مہمان بٹھا کر تقریباً ہر اینکر پرسن نے یہ میلہ لُوٹنے کی کوشش کی۔ یوں جنابِ مینگل کو اِن ٹاک شوز کے توسط سے یہ پروپیگنڈہ کرنے کا سنہری موقع مل گیا کہ ''پاکستان'' بلوچوں پر بہت ظلم ڈھا رہا ہے، اِس لیے ناراض ہونے اور گلے شکوے کرنے سے بہتر ہے کہ جپھی ڈال کر علیحدہ ہو جائیں۔ اُن کی زبان سے بار بار اور تواتر و تسلسل سے ''علیحدگی علیحدگی'' کے الفاظ سُن کر ہماری نوجوان نسل کو پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ ایک اور بنگلہ دیش سانحہ بھی وقوع پذیر ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
اِس حوالے سے، اِس ''عظیم خدمت'' پر ہم سب نجی ٹی ویز کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے ''ایک شاندار اور قابلِ فخر قومی فریضہ'' انجام دیا ہے۔ اﷲ کرے زورِ زباں اور زیادہ۔ اِس ''عظیم قومی خدمت'' کے بجا لانے کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ حقائق سب پر منکشف ہونے چاہئیں۔ ماشاء اﷲ۔ اگر ''حقائق'' ہی کو فروغ دینے اور لاعلموں کو علم سے مالا مال کرنے کی بات ہے تو اِن حضرات پر لازم ہے کہ اِسی ''بے مثال'' جذبے کے تحت وہ ''حقائق، حقائق ہیں'' نامی کتاب کی بھی تشہیر کرنا شروع کر دیں جس کے مصنف و مؤلّف جناب خان عبدالولی خان صاحب مرحوم و مغفور تھے تاکہ نئی نسل پر ''حقائق'' کی بنیاد پر عیاں ہو سکے کہ یہ پاکستان تو محض ایک مصنوعی ملک ہے اور اِسے بنانے میں (خاکم بدہن) دراصل قائداعظم نے انگریزوں کی معاونت کی تھی۔ ''حقائق شناسی'' کے نام پر ہمیں کن کن مدارج و مسائل سے گزرنا پڑے گا، یہ ہمیں آج سے پہلے معلوم ہی نہ تھا۔
جناب اختر مینگل کیا آئے، ''حقائق'' کے نام پر دفتروں کے دفتر کُھل گئے۔ ہم سب نے اُن کی باتیں دل تھام کرسُنیں اور صبر کر لیا۔ موصوف، جنھیں ہمارے ایک دوست کالم نگار نے معصوم چہرے والا سیاستدان بھی کہا ہے، نے بعض مقامات پر اپنی گفتگو میں مبالغہ آرائی سے کام بھی لیا ہے۔ سُننے والوں نے اِسے بھی صبر اور تحمل سے سُنا ہے کیونکہ وہ میڈیا مارکیٹ میں خاصے ''اِن'' تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان کے ''مظالم'' کی داستانیں تو کلکتہ پریس سے بھارتی اخبارات میں شایع ہوتی تھیں اور اب یہ کام خود ہمارا اپنا میڈیا انجام دینے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کئی باتیں ایسی ہیں جو آنجناب اختر مینگل صاحب سے پوچھنی چاہئیں تھیں لیکن نہ جانے کیوں اِن سے اغماض برتا گیا۔ مثال کے طور پر موصوف نے فرمایا کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کی تعداد سترہ ہزار ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے دنیا میں بھارت سرفہرست ہے، اِس کے بعد ہمارے ایک اسلامی ملک کا نام آتا ہے اور پھر پاکستان کا لیکن جناب مینگل نے اِس ضمن میں اُلٹی گنگا بہا دی ہے۔ اُن سے گزارش ہے کہ وہ میڈیا کو اِن سترہ ہزار لاپتہ افراد کی فہرست اور اُن کے ایڈریس فراہم کریں تاکہ تحقیق و تفتیش کرنے والا کوئی ادارہ، خواہ وہ کوئی مغربی ملک کا ہی کیوں نہ ہو، اِس سنگین الزام کی چھان پھٹک کر سکے۔ اگرچہ لاپتہ افراد کے سانحہ کا سِرے ہی سے انکاربھی نہیں کیا جا سکتا۔
اختر مینگل کے سُلگتے اور سنگین الزامات کے حوالے سے ایک نکتہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بھی اُٹھایا ہے۔ مبینہ طور پر مینگل صاحب کے ایک بھائی کئی برس قبل اغوا کرکے قتل کر دیے گئے تھے۔ اگر یہ سانحہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ اِس کے ذمے دار بڑے طاقتور اور باوسائل لوگ ہوں گے۔ اب اِس ضمن میں رحمان ملک صاحب استفسار کرتے ہیں کہ جب اختر مینگل بذاتِ خود بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے تو اُنہوں نے اپنے بھائی کے قاتلوں تک پہنچنے، اُن کا کُھرا ناپنے اور اُنہیں کیفرکردار تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہ کی؟ کیا وہ ایسا کرنے میں مطلق بے بس تھے؟
کیا اُن کے راستے میں بھی ایسی ہی بھاری بھر کم رکاوٹیں حائل تھیں جیسا کہ موجودہ حکومت تمام وسائل اور اختیارات رکھنے کے باوجود اپنی قائد کے قاتلوں کو پہچاننے اور اُنہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے؟ تقریباً پانچ برس گزر گئے ہیں لیکن شومئی قسمت سے ہم قاتلوں کے نام جانتے ہیں نہ بی بی کو قتل کرنے کی منصوبہ سازی کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہو سکے ہیں۔ رحمان ملک صاحب نے اگر اختر مینگل کے مبینہ مغوی و مقتول بھائی کے بارے میں ''نکتہ'' اٹھایا ہے تو اُن کے بیانات سے بھی ایک نکتہ از خود اُٹھتا ہے۔
ملک صاحب بار بار بیان دے چکے ہیں کہ بلوچستان میں بدامنی، خونریزی اور فساد پیدا کرنے والے غیر ملکی ہاتھوں کو سامنے لا رہے ہیں لیکن فی الحال وہ اِس ضمن میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔ آخر وجوہ کیا ہیں؟ یا ایسے بیانات محض گپ ہیں، جس طرح اُنہوں نے یہ بیان داغ دیا تھا کہ وہ دہری شہریت رکھنے والے دیگر کئی افراد کو جانتے ہیں، اگر عدالت موقع فراہم کرے تو وہ نام پیش کرسکتے ہیں۔ اور جب عدالت نے موقع فراہم کیا تو وہ اپنے اعلان پر پورا اُترنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
اختر مینگل صاحب بہت تیقن کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ مذکورہ ادارے سے اُن کی ناراضگیاں اور شکوے بجا ہو سکتے ہیں لیکن بلوچستان میں ملٹری آپریشنز کا ذکر؟ بلوچستان ماشاء اﷲ وسیع و عریض علاقہ ہے اور وہ پہاڑوں کا بیٹا ہونے کے ناتے اِس کے چپے چپے سے ذاتی طور پر آگاہ و آشنا بھی ہوں گے۔ کیا وہ بلوچستان کے اُن علاقوں کا نام لے کر بتا سکتے ہیں کہ کہاں کہاں یہ فوجی آپریشن ہو رہے ہیں، کب سے جاری ہیں اور وہاں فوج کی کتنی نفری بروئے کار ہے؟ اگر وہ اپنے ''حقائق'' میں اِن کا ذکر بھی کر دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ ہم ایسے لوگ بے خبری میں نہ مارے جاتے۔ ہم اُن سے گلہ کر رہے ہیں نہ اُنہیں آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اُنہیں اور اُن سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کو ہماری باتیں محض ہمارا ذاتی نکتۂ نظر سمجھ کر غور ضرور کرنا چاہیے۔ یہ تصویر کادوسرا رُخ بھی ہو سکتا ہے۔
ہم تسلیم کیے لیتے ہیں کہ جناب اختر مینگل اپنی گفتگوئوں میں حقیقت اور صرف حقیقت بیان کر رہے ہیں مگر اُن کی حقیقت بیانی میں اگر بلوچستان میں بسنے والے پنجابیوں کا ذکر بھی آ جاتا تو کتنا بہتر ہوتا۔ افسوس اُنہوں نے اِس طرف جھانکنا بھی گوارا نہ کیا اور نہ ہی کسی اینکر پرسن کو اِس بارے میں کوئی سوال اُٹھانے کی توفیق ہی ہو سکی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے پنجابیوں کی تعداد سترہ سو ہو چکی ہے۔ اِن میں زیادہ تر پنجابی مزدور،چھوٹے بزنس مین ، اساتذہ کرام اور حجام تھے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اُنہیں خدانخواستہ بلوچوں نے قتل کیا یا کسی اور نے لیکن ''حقیقت شناسی'' کا تقاضا تھا کہ مینگل صاحب اُن کا ذکر بھی کرتے۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کے آس پاس سیکڑوں ہزارہ مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا لیکن اُن کا ذکر بھی مینگل صاحب کے لبوں پر نہ آیا۔ یہ سب مقتولین، جنھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، اگر نسلی اعتبار سے بلوچ نہ تھے لیکن انسان اور مسلمان تو تھے۔ پھر اُن کا ذکر کرنے سے دانستہ گریز کیوں؟ ہم یقین کر لیتے ہیں کہ اختر مینگل صاحب انصاف پسند طبیعت کے مالک اور وہ خود بھی انصاف ہی کے متمنی ہیں، تو کیا اِس انصاف کا تقاضا نہ تھا کہ آپ اِن مقتولوں کا ذکر بھی اپنی کسی گفتگو میں کرتے۔ یہ اُن کی طرف سے مارے جانے والے پنجابیوں اور ہزارہ مسلمانوںکے پسماندگان کے زخموں پر یقیناً مرہم ثابت ہوتا۔