ہمارے لال قلندر کو سرخ سلام
یہ کامریڈ سوبھو اور ان کےساتھی تھےجنہوں نے پاکستان بننےسے پہلے سندھ میں18جنوری 1946 کوپہلا ’’یوم پاکستان‘‘ منایا تھا۔
آج ہمارے درمیان سے وہ شخص اٹھا لیا گیا جس کے دم سے سندھ کی شان تھی۔ تقسیم سے پہلے کے مشترک سماج کا عظیم دانشور جو ادیب، قانون دان اور سیاست دان تھا ۔ اس کے خیالات نے ہزاروں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کوروشن خیالی، روا داری اور ایکتا کے پانیوں سے سیراب کیا ۔ ان کے چاہنے والے، ان سے علم اور عمل کی دکشنا لینے والے ہزاروں تھے ۔ آج وہ سب لوگ سوبھوگیان چندانی کے سائے سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ڈھائی برس پہلے ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز نے ان کی زندگی کے 92 برس پورے ہونے پر ان کی سالگرہ منائی تھی ۔ انھیں نشان سپاس پیش کیا گیا تھا اور انھوں نے ہم سب کی تالیوں میں اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا تھا ۔ یہ مجھ ایسے تمام لوگوں کے لیے ایک اعزاز تھا کہ اس شام ہم نے کامریڈ کی سالگرہ کی مٹھاس چکھی تھی ۔
کامریڈ سوبھو کی سالگرہ کے موقعے پر جو تقریب ہوئی اس میں کئی دانشوروں نے ان کی سیاسی، سماجی اور ادبی خدمات کا احاطہ کیا ۔ اس روز سوبھو صاحب کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں شرمسار ہی رہی ۔ اپنی جنم بھومی نہ چھوڑنے پر انھوں نے اور ان کے خاندان نے کتنے ستم سہے لیکن افسوس کہ ہم ان کے اور ان جیسے دوسروں کے حق کے لیے آواز بلند کرنے سے بھی کتراتے رہے۔ ہم نے یہ بھی یاد نہیں رکھا کہ یہ کامریڈ سوبھو اور ان کے ساتھی تھے جنہوں نے پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں 18 جنوری 1946 کو پہلا ''یوم پاکستان'' منایا تھا۔ ایک عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن شریک تھے۔ سعید ہارون کے ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم تھا۔ کیرت بابا نے کمیونسٹ پارٹی کا سرخ پرچم اٹھا رکھا تھا اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جھنڈا سوبھوگیان چندانی کے شانے پر لہرا رہا تھا۔
اس روز میں نے یہ کہا تھا کہ میں آج سوبھو صاحب اور دوسرے دوستوں کے سامنے شرم ساری کا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ ہم نے ان کی تعلیمات اور ان کے آدرش سے اپنا رشتہ نہ جوڑا ۔ ہم نے اپنے لوگوں سے دکھ درد کی ساجھے داری نہ کی اور یہ ان ہی خود غرضیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری مثال اس نابینا کی سی ہے جو آئینوں کے بازار میں خریدار بن کر نکلا ہے ۔ اس کے چند دنوں بعد میں نے ''ایکسپریس'' کے کالم میں سوبھو صاحب کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : وہ ایک ایسے گاؤں میں پیدا ہوئے جو سندھ کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے ۔ ہمالہ سے نکلنے والے شاندار اور پُرشور سندھوکی خنکی اور مٹھاس کو اپنے لبوں سے چومتی ہوئی ہوا، پانچ ہزار برس قدیم موئن جوڈرو کی گلیوں میں پھیرے ڈالتی ہے ۔ اور پھر ''بندی'' کی طرف نکل جاتی ہے جس کی مٹی پر بالک سوبھو نے گھٹنوں چلنا سیکھا ۔
وہ ان نادرِ روزگار لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بدترین حالات میں بھی اپنی دھرتی نہیں چھوڑی ، جنہوں نے سائیں جی ایم سید کا یہ کہنا نہیں مانا کہ یہاں کی زمین تم لوگوں پر تنگ ہورہی ہے ۔ تم یہاں سے ترک وطن کرو ۔ ان کا دھرتی سے یہ پیمان وفا اس لیے تھا کہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنی زندگی کو استوار نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ایک ایسے دادا کے پوتے ہیں جو اپنی دعاؤں میں آس پاس کے ڈھائی گھروں کے سکھ چین کی دعا کرتا تھا ۔ ان ڈھائی گھروں میں سے ایک گھر ہندو، ایک گھر مسلمان کا ہوتا اور آدھے گھر میں تمام مذہبوں کے ماننے والے شامل ہوتے ۔ ان کے دادا پڑدادا جو دعا کرتے اس میں یہ جملہ بھی شامل ہوتا کہ پربھو میری اولاد کے خون میں اپنی دھرتی ، اپنی جنم بھومی کی محبت یوں شامل کردے کہ وہ اس دھرتی کی موہ سے کبھی نکل نہ پائیں ۔
یہ ایسی دعا تھی جو آج تک سوبھو صاحب کے وجود سے لپٹی ہوئی ہے ۔وہ اس دعا کے حصار میں رہے اور سندھ اور سندھو کے سحر سے کبھی آزاد نہیں ہوئے۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو سوبھونے یہ طے کیا کہ فرقہ واریت کا خنجر انھیں اپنے لوگوں سے نہیں کاٹ سکے گا ۔ تب ہی انھوں نے لکھا کہ ''میرا ماضی، میرا حال اور میرا مستقبل اسی دھرتی سے وابستہ ہے اور یہی دھرتی اور اس دھرتی پر آباد لوگوں کی بہبود میرا آدرش ہے جسے ترک کرنے کا خیال بھی اذیت ناک ہے ۔''
وہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی طلبہ تحریک میں سرگرم رہے ۔ اگست 1942ء میں ''ہندوستان چھوڑ دو '' کا نعرہ بلند ہوا تو سندھ میں سوبھوگیان چندانی اور ان کے رفقاء نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، شکارپور اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں یہ تحریک ایک آگ کی طرح پھیل گئی اور تحریک کے لیڈر ایک ایک کرکے گرفتارہوئے ۔ تحریک کس قدر توانا تھی کہ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کی جیلیں کم وبیش چار پانچ ہزار طالب علموں سے بھر گئیں ۔ سوبھو گیان چندانی طلباء تحریک کی قیادت کے سلسلے میں کبھی یہاں ہوتے ، کبھی وہاں، پولیس جگہ جگہ ان کی بو سونگھتی پھرتی تھی لیکن یہ کوئی نہ کوئی بھیس بدل کر بچ کر نکل جانے میںکامیاب ہوجاتے تھے، لیکن جب طلباء پر پولیس تشدد انتہا کو پہنچ گیا تو سوبھو نے 25 جنوری 1943 کی صبح میٹھا رام ہوسٹل کراچی کے ٹینس کورٹ میں تقریر کی اور گرفتاری دے دی ۔ ان کے ساتھ طلباء کے ایک بڑے جتھے نے بھی اپنی گرفتاریاں پیش کیں۔ سوبھو کی یہ پہلی جیل یاترا جولائی 1944 تک جاری رہی ۔
میں نے لکھا تھا کہ سوبھو صاحب ہمارے ان بڑے دانشوروں میں ہیںجنہوں نے جذباتیت پر عقل اور شعور کو ترجیح دی اور ہمیشہ یہ کہا کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنایا جائے اور استحصال سے پا ک منصفانہ معاشی نظام قائم کیا جائے ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو 64 برسوں کے دوران مسلسل یہ کہتے رہے کہ پاکستان کو ایک جدید وفاقی جمہوری ریاست بنایا جائے، مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے، وفاقی اکائیوں کو وسائل اور حقوق دیے جائیں ۔ تمام زبانوں کو برابری کا یعنی قومی زبان کا درجہ دیا جائے ۔ آئین اور قانون سے ایسی شقیں نکال دی جائیں جو امتیازی ہوں ۔ یہ فکر رکھنے والے مسلمان ہوں یا ہندو ہمارے یہاں انھیں غدار، ملک دشمن اور ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیاجاتا ہے۔
سوبھو صاحب تو خیرسے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے وہ کیسے غدار نہ ٹھہرائے جاتے۔ان 64 برسوںمیں مسلمانوں نے خود لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا ۔ متحدہ اور آزاد ہندوستان کی پوری تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات میں جتنے لوگ ہلاک ہوئے اس سے کہیں زیادہ بے گناہ لوگوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ نسلی، لسانی یا مذہبی فرقہ واریت کے خلاف سوبھو صاحب ہمیشہ آواز بلند کرتے اور جیل جاتے رہے ۔ انھیں حسن ناصر کے ساتھ شاہی قلعے میں قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے کی ''سعادت'' بھی نصیب ہوئی ۔ اپنے خیالات کے سبب سوبھو صاحب ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھ کا تارا نہ بن سکے ۔ بڑے بڑے اعزازات ان کے حصے میں نہ آئے، ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا ۔
شاہ لطیف کے بعد بیسویں صدی میں سندھ نے شیخ ایاز کو پیدا کیا ۔ افسوس کہ وہ ہمارے درمیان سے بہت جلد اٹھا لیے گئے ۔ انھوں نے کامریڈ سوبھو کے بارے میں لکھا تھا : ''سوبھوگیان چندانی جیسی آزاد طبیعت اور گہری صداقت کی حامل کوئی دوسری شخصیت میں نے نہیں دیکھی ہے۔ وہ ایک پہاڑ کی طرح اٹل شخص ہے جسے کوئی آندھی، کوئی طوفان ڈانوا ڈول نہیں کرسکتا ۔ نہ جانے ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی چھاتی کے زخموں کی بہار سجا کر سر کو بلند رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور طرح طرح کے مظالم سے دلیرانہ طور پر نبردآزما چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس جنگ میں دشمنوں سے لڑتے لڑتے لہولہان ہوکر اس مٹی کا رزق بن جاتے ہیں جس کے وقار کے تحفظ کے لیے انھیں اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہوتی ۔
''کچھ مدت ہوئی پاکستان کے ایک معروف سیاست دان سے جنھیں برٹینڈرسل اور سارتر جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوچکا تھا، میری ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ لاڑکانہ جارہے ہیں ۔ سکھر میں کسی نے ان سے پوچھا، کیا وہ موہنجودڑو دیکھنے لاڑکانہ جارہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ میں موہنجودڑو سے بھی زیادہ عظیم زندہ حقیقت سے ملنے لاڑکانہ جا رہا ہوں جس کا نام سوبھوگیان چندانی ہے ۔''
شیخ ایاز نے ابراہیم جویو کے نام اپنے خطوط کے مجموعے '' رنگا ہوا سنیاسی'' کو سوبھوگیان چندانی کے نام سے معنون کیا ہے اور انتساب کرتے ہوئے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک مصرعہ استعمال کیا ہے: عاشق زہر پینے کے عادی ہیں اور زہرپی پی کے مسرور ہیں۔
اس انتساب میں شیخ ایاز نے لکھا ہے کہ: ''سوبھو ہمارا لال قلندر ہے ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی سمادھی پر میلہ لگے گا ۔''
شیخ ایاز گئے اور اب کامریڈ سوبھو چلے گئے ۔ ہمارا لال قلندر چلا گیا ۔ ہمارے لال قلندر کو اس کے چاہنے والوں کا سرخ سلام ۔
کامریڈ سوبھو کی سالگرہ کے موقعے پر جو تقریب ہوئی اس میں کئی دانشوروں نے ان کی سیاسی، سماجی اور ادبی خدمات کا احاطہ کیا ۔ اس روز سوبھو صاحب کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں شرمسار ہی رہی ۔ اپنی جنم بھومی نہ چھوڑنے پر انھوں نے اور ان کے خاندان نے کتنے ستم سہے لیکن افسوس کہ ہم ان کے اور ان جیسے دوسروں کے حق کے لیے آواز بلند کرنے سے بھی کتراتے رہے۔ ہم نے یہ بھی یاد نہیں رکھا کہ یہ کامریڈ سوبھو اور ان کے ساتھی تھے جنہوں نے پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں 18 جنوری 1946 کو پہلا ''یوم پاکستان'' منایا تھا۔ ایک عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن شریک تھے۔ سعید ہارون کے ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم تھا۔ کیرت بابا نے کمیونسٹ پارٹی کا سرخ پرچم اٹھا رکھا تھا اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جھنڈا سوبھوگیان چندانی کے شانے پر لہرا رہا تھا۔
اس روز میں نے یہ کہا تھا کہ میں آج سوبھو صاحب اور دوسرے دوستوں کے سامنے شرم ساری کا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ ہم نے ان کی تعلیمات اور ان کے آدرش سے اپنا رشتہ نہ جوڑا ۔ ہم نے اپنے لوگوں سے دکھ درد کی ساجھے داری نہ کی اور یہ ان ہی خود غرضیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری مثال اس نابینا کی سی ہے جو آئینوں کے بازار میں خریدار بن کر نکلا ہے ۔ اس کے چند دنوں بعد میں نے ''ایکسپریس'' کے کالم میں سوبھو صاحب کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : وہ ایک ایسے گاؤں میں پیدا ہوئے جو سندھ کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے ۔ ہمالہ سے نکلنے والے شاندار اور پُرشور سندھوکی خنکی اور مٹھاس کو اپنے لبوں سے چومتی ہوئی ہوا، پانچ ہزار برس قدیم موئن جوڈرو کی گلیوں میں پھیرے ڈالتی ہے ۔ اور پھر ''بندی'' کی طرف نکل جاتی ہے جس کی مٹی پر بالک سوبھو نے گھٹنوں چلنا سیکھا ۔
وہ ان نادرِ روزگار لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بدترین حالات میں بھی اپنی دھرتی نہیں چھوڑی ، جنہوں نے سائیں جی ایم سید کا یہ کہنا نہیں مانا کہ یہاں کی زمین تم لوگوں پر تنگ ہورہی ہے ۔ تم یہاں سے ترک وطن کرو ۔ ان کا دھرتی سے یہ پیمان وفا اس لیے تھا کہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنی زندگی کو استوار نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ایک ایسے دادا کے پوتے ہیں جو اپنی دعاؤں میں آس پاس کے ڈھائی گھروں کے سکھ چین کی دعا کرتا تھا ۔ ان ڈھائی گھروں میں سے ایک گھر ہندو، ایک گھر مسلمان کا ہوتا اور آدھے گھر میں تمام مذہبوں کے ماننے والے شامل ہوتے ۔ ان کے دادا پڑدادا جو دعا کرتے اس میں یہ جملہ بھی شامل ہوتا کہ پربھو میری اولاد کے خون میں اپنی دھرتی ، اپنی جنم بھومی کی محبت یوں شامل کردے کہ وہ اس دھرتی کی موہ سے کبھی نکل نہ پائیں ۔
یہ ایسی دعا تھی جو آج تک سوبھو صاحب کے وجود سے لپٹی ہوئی ہے ۔وہ اس دعا کے حصار میں رہے اور سندھ اور سندھو کے سحر سے کبھی آزاد نہیں ہوئے۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو سوبھونے یہ طے کیا کہ فرقہ واریت کا خنجر انھیں اپنے لوگوں سے نہیں کاٹ سکے گا ۔ تب ہی انھوں نے لکھا کہ ''میرا ماضی، میرا حال اور میرا مستقبل اسی دھرتی سے وابستہ ہے اور یہی دھرتی اور اس دھرتی پر آباد لوگوں کی بہبود میرا آدرش ہے جسے ترک کرنے کا خیال بھی اذیت ناک ہے ۔''
وہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی طلبہ تحریک میں سرگرم رہے ۔ اگست 1942ء میں ''ہندوستان چھوڑ دو '' کا نعرہ بلند ہوا تو سندھ میں سوبھوگیان چندانی اور ان کے رفقاء نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، شکارپور اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں یہ تحریک ایک آگ کی طرح پھیل گئی اور تحریک کے لیڈر ایک ایک کرکے گرفتارہوئے ۔ تحریک کس قدر توانا تھی کہ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کی جیلیں کم وبیش چار پانچ ہزار طالب علموں سے بھر گئیں ۔ سوبھو گیان چندانی طلباء تحریک کی قیادت کے سلسلے میں کبھی یہاں ہوتے ، کبھی وہاں، پولیس جگہ جگہ ان کی بو سونگھتی پھرتی تھی لیکن یہ کوئی نہ کوئی بھیس بدل کر بچ کر نکل جانے میںکامیاب ہوجاتے تھے، لیکن جب طلباء پر پولیس تشدد انتہا کو پہنچ گیا تو سوبھو نے 25 جنوری 1943 کی صبح میٹھا رام ہوسٹل کراچی کے ٹینس کورٹ میں تقریر کی اور گرفتاری دے دی ۔ ان کے ساتھ طلباء کے ایک بڑے جتھے نے بھی اپنی گرفتاریاں پیش کیں۔ سوبھو کی یہ پہلی جیل یاترا جولائی 1944 تک جاری رہی ۔
میں نے لکھا تھا کہ سوبھو صاحب ہمارے ان بڑے دانشوروں میں ہیںجنہوں نے جذباتیت پر عقل اور شعور کو ترجیح دی اور ہمیشہ یہ کہا کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنایا جائے اور استحصال سے پا ک منصفانہ معاشی نظام قائم کیا جائے ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو 64 برسوں کے دوران مسلسل یہ کہتے رہے کہ پاکستان کو ایک جدید وفاقی جمہوری ریاست بنایا جائے، مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے، وفاقی اکائیوں کو وسائل اور حقوق دیے جائیں ۔ تمام زبانوں کو برابری کا یعنی قومی زبان کا درجہ دیا جائے ۔ آئین اور قانون سے ایسی شقیں نکال دی جائیں جو امتیازی ہوں ۔ یہ فکر رکھنے والے مسلمان ہوں یا ہندو ہمارے یہاں انھیں غدار، ملک دشمن اور ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیاجاتا ہے۔
سوبھو صاحب تو خیرسے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے وہ کیسے غدار نہ ٹھہرائے جاتے۔ان 64 برسوںمیں مسلمانوں نے خود لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا ۔ متحدہ اور آزاد ہندوستان کی پوری تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات میں جتنے لوگ ہلاک ہوئے اس سے کہیں زیادہ بے گناہ لوگوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ نسلی، لسانی یا مذہبی فرقہ واریت کے خلاف سوبھو صاحب ہمیشہ آواز بلند کرتے اور جیل جاتے رہے ۔ انھیں حسن ناصر کے ساتھ شاہی قلعے میں قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے کی ''سعادت'' بھی نصیب ہوئی ۔ اپنے خیالات کے سبب سوبھو صاحب ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھ کا تارا نہ بن سکے ۔ بڑے بڑے اعزازات ان کے حصے میں نہ آئے، ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا ۔
شاہ لطیف کے بعد بیسویں صدی میں سندھ نے شیخ ایاز کو پیدا کیا ۔ افسوس کہ وہ ہمارے درمیان سے بہت جلد اٹھا لیے گئے ۔ انھوں نے کامریڈ سوبھو کے بارے میں لکھا تھا : ''سوبھوگیان چندانی جیسی آزاد طبیعت اور گہری صداقت کی حامل کوئی دوسری شخصیت میں نے نہیں دیکھی ہے۔ وہ ایک پہاڑ کی طرح اٹل شخص ہے جسے کوئی آندھی، کوئی طوفان ڈانوا ڈول نہیں کرسکتا ۔ نہ جانے ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی چھاتی کے زخموں کی بہار سجا کر سر کو بلند رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور طرح طرح کے مظالم سے دلیرانہ طور پر نبردآزما چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس جنگ میں دشمنوں سے لڑتے لڑتے لہولہان ہوکر اس مٹی کا رزق بن جاتے ہیں جس کے وقار کے تحفظ کے لیے انھیں اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہوتی ۔
''کچھ مدت ہوئی پاکستان کے ایک معروف سیاست دان سے جنھیں برٹینڈرسل اور سارتر جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوچکا تھا، میری ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ لاڑکانہ جارہے ہیں ۔ سکھر میں کسی نے ان سے پوچھا، کیا وہ موہنجودڑو دیکھنے لاڑکانہ جارہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ میں موہنجودڑو سے بھی زیادہ عظیم زندہ حقیقت سے ملنے لاڑکانہ جا رہا ہوں جس کا نام سوبھوگیان چندانی ہے ۔''
شیخ ایاز نے ابراہیم جویو کے نام اپنے خطوط کے مجموعے '' رنگا ہوا سنیاسی'' کو سوبھوگیان چندانی کے نام سے معنون کیا ہے اور انتساب کرتے ہوئے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک مصرعہ استعمال کیا ہے: عاشق زہر پینے کے عادی ہیں اور زہرپی پی کے مسرور ہیں۔
اس انتساب میں شیخ ایاز نے لکھا ہے کہ: ''سوبھو ہمارا لال قلندر ہے ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی سمادھی پر میلہ لگے گا ۔''
شیخ ایاز گئے اور اب کامریڈ سوبھو چلے گئے ۔ ہمارا لال قلندر چلا گیا ۔ ہمارے لال قلندر کو اس کے چاہنے والوں کا سرخ سلام ۔