کراچی دنیا کا سب سے سستا شہر
تقریباً 2 کروڑ آبادی والے اس شہر کو مسلم دنیا کا سب سے بڑا شہر اور دنیا کے ساتویں بڑے شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا معاشی دارالحکومت، ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ، کئی وجوہات کی بنا پر دنیا میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ تقریباً 2 کروڑ آبادی والے اس شہر کو مسلم دنیا کا سب سے بڑا شہر اور دنیا کے ساتویں بڑے شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملک میں وصول ہونے والے Direct Taxes میں کراچی کا حصہ 46.75 فیصد، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 33.65 فیصد اور سیلز ٹیکس میں 23.38 فیصد ہے۔
جب کہ کسٹم ڈیوٹی میں اس کا حصہ 75.14 فیصد اور امپورٹ ڈیوٹی میں 75 فیصد ہے ملکی پیداواری صلاحیت کا 30 فیصد حصہ بھی یہ شہر فراہم کرتا ہے۔ کراچی اسٹاک مارکیٹ میں منافعے کی شرح 26.72 ہے جب کہ باقی ایشیا کی مارکیٹوں کا اوسط ریٹرن محض 11 فیصد ہے۔ یہ شہر طویل عرصے سے امن و امان کی بدتر صورتحال اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار رہا ہے۔ 2007ء میں دنیا کے معروف جریدے اکانومسٹ نے اس شہر کو دنیا کا سب سے خطرناک شہروں میں چوتھے نمبر پر قرار دیا جب کہ بزنس ویک نے 2007ء میں دنیا کے 215 شہروں میں اس شہر کو رہنے کی سہولتوں کے لحاظ سے 175 ویں نمبر پر رکھا۔ کچھ عرصے پہلے تک اوسطاً 5 سے 6 افراد روزانہ یہاں پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنتے رہے۔
اربوں روپے کی سرمایہ کاری اس شہر سے روٹھ گئی۔ سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش، زمینوں پر قبضے کی جنگ، اسلحہ مافیا اور شہری مسائل کی بھرمار کی وجہ سے یہ شہر مسائل کا گڑھ بنتا گیا۔ بہت سے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں نے اپنے خاندانوں کو یہاں سے منتقل کر دیا۔ کچھ نے تو اپنے کاروبار بیرون ملک اور کچھ نے اندرون ملک جانا غنیمت سمجھا۔ بھتہ مافیا، لوٹ مار اور امن و امان کے سنگین مسائل کی وجہ سے یہ شہر اپنے باسیوں کے لیے غم اور مایوسی کی تصویر بنتا گیا۔ ایک زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلانے کے بعد اس شہر میں دکانیں اور کاروبار رات 11 بجے ہی بند ہونے لگے۔ اس شہر کے باسیوں کو اب بھی شہری سہولتوں کے حوالے سے بے شمار شکایات ہیں۔ کیونکہ اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے یہاں پر حکومتی سطح پر کوئی مربوط منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔
حال ہی میں ایک امریکی کنسلٹنٹ فرم نے دنیا کے بڑے اور قابل ذکر شہروں کے بارے میں ایک سروے جاری کیا ہے، یہ سروے تقریباً ہر سال جاری کیا جاتا ہے جس کو مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے استعمال کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آنے والے اس سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی مسلسل دوسری دفعہ دنیا کا سب سے سستا شہر گردانا گیا ہے جو کہ ہم سب کے لیے اور پوری قوم کے لیے ایک باعث فخر بات ہے اس سروے میں ٹرانسپورٹ، خوراک، گھریلو اشیا، کپڑا، تفریح گاہوں کی لاگت کو مد نظر رکھا گیا ہے، تا کہ مجموعی خرچ کا اندازہ لگایا جا سکے اور اگر اس کو ایشیا کے قابل ذکر شہروں سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو کراچی مہنگائی کے رینک میں بہت پیچھے ہے۔
2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق ڈھاکا 17 ویں نمبر کے ساتھ سب سے مہنگا ایشیائی شہر ہے جب کہ ممبئی 140 ویں نمبر، دہلی 157 ویں نمبر، کولمبو 164 ویں نمبر، چنائی 135 ویں نمبر، بنگلور 196 ویں نمبر، کولکتہ205 ویں نمبر پر اور کراچی سب سے آخری 211 ویں نمبر پر ہے جب کہ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق ممبئی 18 ویں نمبر کے ساتھ اس خطے کے ممالک میں سب سے مہنگا شہر گردانا گیا۔ نئی دہلی کا نمبر 124 واں، ڈھاکہ کا نمبر 159 واں، کولمبو کا نمبر 167 واں، چنائی کا 179 واں، بنگلور کا 189 واں نمبر، کولکتہ کا 209 واں نمبر اور کراچی آخری نمبر یعنی 214 ویں نمبر پر رہا۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں زیادہ تر شہر بھارتی ہیں اور چونکہ بھارت میں افراط زر کی شرح 7 فیصد سے بھی کم ہے لہٰذا قدرتی طور پر اس کے زیادہ تر شہروں میں مہنگائی کم ہونے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے جب کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح بھارت سے کہیں زیادہ یعنی 8 فیصد کے قریب ہے چنانچہ کراچی کا اتنا سستا ہونا یقینا ایک اچنبھے کی بات لگتی ہے۔
جس کی وجوہات میں یہاں پائی جانے والی مسابقت ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو ہر چیز میں کثیر چوائس موجود ہے نتیجتاً قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس ریسرچ کے کچھ حیرت انگیز نتائج کے مطابق لوانڈا جو کہ انگولا کا ایک شہر ہے دوسری مرتبہ متواتر دنیا کا سب سے مہنگا شہر مانا گیا ہے جس کے بعد افریقی ملک چاڈ کا شہر ڈیامنا ہے۔ لوانڈا میں مہنگائی کراچی کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا ہے جس کی وجوہات وہاں رہنے والے لوگوں کو زندگی گزارنے کی سہولیات کا مشکل سے میسر آنا ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے پاس چند ہی مثبت خبریں ہیں جن کو ہم اپنے لیے باعث فخر سمجھ سکتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملنا اور پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف وائٹ واش (ٹیسٹ سیریز میں) حاصل کرنا ان چند مثبت خبروں میں ہیں، جو ہمارے لیے بحیثیت قوم اعزاز اور فخر کا باعث ہیں۔ کراچی کو اتنے مسائل جھیلنے کے بعد دنیا میں یہ اعزاز ملنا بھی کسی طور پر قومی اعزاز سے کم نہیں جس پر پوری قوم کو مبارکباد۔ کیونکہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی بڑی خوشیوں کو جنم دیتی ہیں۔
جب کہ کسٹم ڈیوٹی میں اس کا حصہ 75.14 فیصد اور امپورٹ ڈیوٹی میں 75 فیصد ہے ملکی پیداواری صلاحیت کا 30 فیصد حصہ بھی یہ شہر فراہم کرتا ہے۔ کراچی اسٹاک مارکیٹ میں منافعے کی شرح 26.72 ہے جب کہ باقی ایشیا کی مارکیٹوں کا اوسط ریٹرن محض 11 فیصد ہے۔ یہ شہر طویل عرصے سے امن و امان کی بدتر صورتحال اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار رہا ہے۔ 2007ء میں دنیا کے معروف جریدے اکانومسٹ نے اس شہر کو دنیا کا سب سے خطرناک شہروں میں چوتھے نمبر پر قرار دیا جب کہ بزنس ویک نے 2007ء میں دنیا کے 215 شہروں میں اس شہر کو رہنے کی سہولتوں کے لحاظ سے 175 ویں نمبر پر رکھا۔ کچھ عرصے پہلے تک اوسطاً 5 سے 6 افراد روزانہ یہاں پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنتے رہے۔
اربوں روپے کی سرمایہ کاری اس شہر سے روٹھ گئی۔ سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش، زمینوں پر قبضے کی جنگ، اسلحہ مافیا اور شہری مسائل کی بھرمار کی وجہ سے یہ شہر مسائل کا گڑھ بنتا گیا۔ بہت سے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں نے اپنے خاندانوں کو یہاں سے منتقل کر دیا۔ کچھ نے تو اپنے کاروبار بیرون ملک اور کچھ نے اندرون ملک جانا غنیمت سمجھا۔ بھتہ مافیا، لوٹ مار اور امن و امان کے سنگین مسائل کی وجہ سے یہ شہر اپنے باسیوں کے لیے غم اور مایوسی کی تصویر بنتا گیا۔ ایک زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلانے کے بعد اس شہر میں دکانیں اور کاروبار رات 11 بجے ہی بند ہونے لگے۔ اس شہر کے باسیوں کو اب بھی شہری سہولتوں کے حوالے سے بے شمار شکایات ہیں۔ کیونکہ اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے یہاں پر حکومتی سطح پر کوئی مربوط منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔
حال ہی میں ایک امریکی کنسلٹنٹ فرم نے دنیا کے بڑے اور قابل ذکر شہروں کے بارے میں ایک سروے جاری کیا ہے، یہ سروے تقریباً ہر سال جاری کیا جاتا ہے جس کو مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے استعمال کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آنے والے اس سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی مسلسل دوسری دفعہ دنیا کا سب سے سستا شہر گردانا گیا ہے جو کہ ہم سب کے لیے اور پوری قوم کے لیے ایک باعث فخر بات ہے اس سروے میں ٹرانسپورٹ، خوراک، گھریلو اشیا، کپڑا، تفریح گاہوں کی لاگت کو مد نظر رکھا گیا ہے، تا کہ مجموعی خرچ کا اندازہ لگایا جا سکے اور اگر اس کو ایشیا کے قابل ذکر شہروں سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو کراچی مہنگائی کے رینک میں بہت پیچھے ہے۔
2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق ڈھاکا 17 ویں نمبر کے ساتھ سب سے مہنگا ایشیائی شہر ہے جب کہ ممبئی 140 ویں نمبر، دہلی 157 ویں نمبر، کولمبو 164 ویں نمبر، چنائی 135 ویں نمبر، بنگلور 196 ویں نمبر، کولکتہ205 ویں نمبر پر اور کراچی سب سے آخری 211 ویں نمبر پر ہے جب کہ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق ممبئی 18 ویں نمبر کے ساتھ اس خطے کے ممالک میں سب سے مہنگا شہر گردانا گیا۔ نئی دہلی کا نمبر 124 واں، ڈھاکہ کا نمبر 159 واں، کولمبو کا نمبر 167 واں، چنائی کا 179 واں، بنگلور کا 189 واں نمبر، کولکتہ کا 209 واں نمبر اور کراچی آخری نمبر یعنی 214 ویں نمبر پر رہا۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں زیادہ تر شہر بھارتی ہیں اور چونکہ بھارت میں افراط زر کی شرح 7 فیصد سے بھی کم ہے لہٰذا قدرتی طور پر اس کے زیادہ تر شہروں میں مہنگائی کم ہونے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے جب کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح بھارت سے کہیں زیادہ یعنی 8 فیصد کے قریب ہے چنانچہ کراچی کا اتنا سستا ہونا یقینا ایک اچنبھے کی بات لگتی ہے۔
جس کی وجوہات میں یہاں پائی جانے والی مسابقت ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو ہر چیز میں کثیر چوائس موجود ہے نتیجتاً قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس ریسرچ کے کچھ حیرت انگیز نتائج کے مطابق لوانڈا جو کہ انگولا کا ایک شہر ہے دوسری مرتبہ متواتر دنیا کا سب سے مہنگا شہر مانا گیا ہے جس کے بعد افریقی ملک چاڈ کا شہر ڈیامنا ہے۔ لوانڈا میں مہنگائی کراچی کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا ہے جس کی وجوہات وہاں رہنے والے لوگوں کو زندگی گزارنے کی سہولیات کا مشکل سے میسر آنا ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے پاس چند ہی مثبت خبریں ہیں جن کو ہم اپنے لیے باعث فخر سمجھ سکتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملنا اور پاکستان کا آسٹریلیا کے خلاف وائٹ واش (ٹیسٹ سیریز میں) حاصل کرنا ان چند مثبت خبروں میں ہیں، جو ہمارے لیے بحیثیت قوم اعزاز اور فخر کا باعث ہیں۔ کراچی کو اتنے مسائل جھیلنے کے بعد دنیا میں یہ اعزاز ملنا بھی کسی طور پر قومی اعزاز سے کم نہیں جس پر پوری قوم کو مبارکباد۔ کیونکہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی بڑی خوشیوں کو جنم دیتی ہیں۔