خیالی پلاو شام کے بعد

اس نے اپنی شاعری کی ابتدا اسکول سے پہاڑے پڑھتے ہوئی کی اور وہیں سے ردیف، قافیہ سیدھا کیا

مشاعروں میں عموماً جو شاعر کلام سنا رہے ہوتے ہیں وہ تازہ دم ہوتے ہیں ناقی یا تو اونگھ رہے ہوتے ہیں یا پھر سو رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کے مشاعروں میں نہ کوئی اونگھتا ہے اور نہ کوئی سوتا ہے کمال شائد صرف اسکی شاعری کا ہے جو وہ گا کر سناتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جھنگ کی سوغات ہے اسے شاعری، اداکاری، گلوکاری اور اپنے ساتھی طالب علموں کو پھینٹنے کابچپن سے ہی شوق تھا۔ جھنگ کے بیلوں میں جب اس کی کوک گونجتی تو نہ جانے کہاں سے بہت سے پہاڑی کوے کیوں اکھٹے ہو جاتے تھے اتنے سارے کوے دیکھ کر وہ گھبرا جاتا اور اپنا اسکول کا تھیلا اٹھا کر بھاگ نکلتا چونکہ گاتے ہوئے وہ آنکھیں بند رکھتا تھا اس لئے اکثر دوست اسے اسکول میں گانا شروع کروا کر خودرفو چکر ہو جاتے تھے اور وہ گاتا رہتا اور جب کوئی استاد اسے چپ کروا کر اس کے اکیلے گانے کی وجہ پوچھتا تو وہ سادگی سے جواب دیتا ریاض کر رہا تھا تو استاد صاحب بھی سادگی سے فرماتے تم نہ بھی کرو تو کوئی فرق تو نہیں پڑنے والا۔

اس نے اپنی شاعری کی ابتدا اسکول سے پہاڑے پڑھتے ہوئی کی اور وہیں سے ردیف، قافیہ سیدھا کیا ماڑے اسکولوں میں چونکہ لڑائیاں لڑنے کے لئے کوئی وجہ درکار نہیں ہوتی اس لئے ساتھیوں سے لڑنا معمول کا کام تھا لیکن وہ اندھا دھند لڑنے کی بجائے سٹائل سے لڑنے کی کوشش کرتا کیوں کہ اس نے کچی ٹاکی میں ایک دو ٹوٹے بروس لی کے دیکھ رکھے تھے اور یہی شوق اسے ننجا ماسٹر تک لے گیا۔ جھنگ سے لاہور تک کا تین گھنٹے کا سفر نہ جانے اس نے کتنے برسوں میں طے کیا لیکن لاہور پہنچ کر اس نے صدیوں کا سفر برسوں بلکہ مہینوں میں طے کر لیا اس نے رنگیلا کی طرح یک مشت ہر فیلڈ میں قسمت آزمائی شروع کر دی اس کے حد درجہ مخالف بھی اسے ایک جینوئن شاعر مانتے ہیں اس کی مارکیٹ میں دستاب کتابوں میں 46 شعری مجموعے اور21 متقرق کتابیں ہیں ''بونگے بغلول'' کے خیال میں اتنی کتابوں کے مالک شاعر مصنف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ پڑھا بہت جاتا ہے یا پھر وہ کسی اشاعتی گھر کا مالک ہے۔

مشاعروں میں عموماً جو شاعر کلام سنا رہے ہوتے ہیں وہ تازہ دم ہوتے ہیں جو ابھی سنانے والے ہوں وہ اونگھ رہے ہوتے ہیں جبکہ جو سنا چکے ہوں وہ سو رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کے مشاعروں میں نہ کوئی اونگھتا ہے اور نہ کوئی سوتا ہے کمال شائد صرف اسکی شاعری کا ہے جو وہ گا کر سناتا ہے جبکہ بونگے بغلول کا کہنا ہے جب ''شیری'' گا سکتا ہے تو کیا اس کا حق نہیں بنتا فرق تو انیس بیس کا ہی ہے ۔اس کے ''ظالم '' اور ''وریام '' جیسے پروگراموں میں طنز میں تووہ کمال فن پر نظر آیا لیکن مزاح ندارد اور شائد یہی وجہ ہے کہ وہ بہت سارے چینلز پر اس کے پروگرام آن ائیر ہونے کہ باوجود وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے جبکہ سارے مزاح نگاروں کا یہ ماننا ہے کہ جب تک طنز کے ساتھ مزاح کی آمیزیش نہ کی جائے وہ پر لطف نہیں ہو سکتا اور یہ مزاح ڈائریکٹ اپنی طرف سے شامل کرنے کی بجائے کسی دوسرے فریق سے کروایا جائے اس کی بہترین مثال ہماری شادی بیاہ میں شغل میلہ لگانے والے بھانڈ ہیں ۔کوئی اپنے کتھارسس کے لئے بھانڈوں کے ہاتھوں آپ کی مٹی پلید کروا دے اور آپ سوائے پیچ و تاب کھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔


اب وہ ایک ماسٹر کے روپ میں مسکین سی صورت کے ساتھ ایک بڑے چینل کے پروگرام میں بیٹھتا ہے جب اسکی پروگرا م میں شمولیت کی خبریں میڈیا میں آئیں تو لوگوں کا خیال تھا کہ شائد وہ اینکر کے طور پر کام کرئے گا لیکن تیرہ گھنٹے کی ریکارڈنگ میں اس کے حصے میں چند لائنیں ہی آتی ہیں وہ بھی صرف ''چغل جیا نہ ہووے تے '' جیسے چند الفاظ سمجھ آتے ہیں دوسری اس کے لئے اہم باتیں تو اس سے تیز طرار بھانڈ چھین لیتے ہیں اس نے میڈیا میں چھپنے والے کالموں کے جواب میں ننجا ماسٹر ہونے کے باوجود چپ سادھ لی ہے لیکن شائد برسوں پہلے اس کا پنا کہا جانے والے شعر اس کے دل کی عکاسی کرتا ہو۔
تو ہے سورج،تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد

لیکن ''باباجی'' اس پروگرام میں اس کی شمولیت اور کامیڈینز کے ہاتھوں ''تھاپوں'' کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں انہوں نے گیان کی آنکھ سے فرما یا ''پتر ۔۔! میں اسے ششت باندھے دیکھ رہاہوں''۔ انہوں نے میرے چہرے پر نہ سمجھنے والی لہر دیکھ کر ہولے سے کہا '' صدر پاکستان غلام اسحاق خان کو تو ،تو جانتا ہے ناں''۔جی ،جی ۔''بس سمجھو کبھی کبھی نازک ذمہ داریاں کمزور کندھوں پر بھی آ پڑتی ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story