افغانستان سے رابطہ استوار کرنا
کسی بھی ملک کی آبادی کے لیے اقتصادی مواقع کی کمی اس کے امن و استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے
کسی بھی ملک کی آبادی کے لیے اقتصادی مواقع کی کمی اس کے امن و استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ فی الوقت افغانستان میں نہ تو مناسب صنعتی ڈھانچہ موجود ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی زرعی ترقی کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے جب کہ وہاں اسلحے کی بے حد فراوانی ہے جس پر کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی اس ملک کی آمدنی کے کوئی ذرایع ہیں اس وجہ سے نہ تو وہاں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) ہو سکتی ہے اور نہ ہی داخلی کاروبار کے امکانات ہیں۔
ایک ایسا ملک جو چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہو (لینڈ لاکڈ ہو) اس کے لیے لازمی ہے کہ اس کی سرزمین پر تجارت کی سہولتیں موجود ہوں۔ نیو یارک میں قائم ایک تھنک ٹینک ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ (ای ڈبلیو آئی) جس کی سربراہی راس پیروس جونئیر کر رہے ہیں انھوں نے سرحد پار تجارتی ڈائیلاگ شروع کیا ہے جس کا نام ''ابوظہبی پراسس'' رکھا گیا ہے اس کی بنیاد ابوظہبی اور جرمنی نے مشترکہ طور پر رکھی ہے تا کہ افغانستان اور اس جیسے دیگر ممالک کی مدد کی جا سکے۔ اس کی میزبانی ای ڈبلیو آئی کے ریجنل ڈائریکٹر مارٹن فلیسچر کر رہے ہیں جو برسلز کے سفیر ہیں۔
حالیہ استنبول کانفرنس جو ترکی کے ایوان صنعت و تجارت (ٹی او بی بی) میں منعقد ہوئی۔ یہ ایوان جنوبی اور مرکزی ایشیاء میں کاروباری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اب افغانستان کی جنگ سے تباہ شدہ معیشت کو تجارت کے ذریعے بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ (ا) ایک ذیلی کمیٹی نے جس میں ای ڈبلیو آئی کے چیف اپریٹنگ افیسر Jim Creighton بھی شامل تھے دن رات کام کر کے پیشرفت کے لیے چند کم مدت کے اقدامات کی سفارش کی۔ حتمی اجلاس میں شرکاء نے ایک علاقائی بزنس کونسل قائم کرنے کی تجویز دی۔
جس میں افغانستان' پاکستان' بھارت' ایران اور ترکی کے با اثر بزنس لیڈر شامل ہوں (ب) افغانستان تورغنڈی' حیرتان' طورخم' چمن' واہگہ اور شیر خان بندر اور بارڈر کے دیگر مقامات پر ون ونڈو کسٹم کلیئرنس کا نظام قائم کیا جائے تا کہ سرحد عبور کرنے کا وقت اور لاگت میں کمی واقع ہو۔ (ج) کاروباری نقل و حمل کو بآسانی آنے جانے کے لیے کُھلے ویزے کا نظام قائم کیا جائے۔ سارک اور اقتصادی تعاون کی تنظیم (ECO) کے ساتھ کم مدتی اور طویل المدتی معاہدے کیے جائیں۔
وسط مدتی سفارشات میں (ا) ترسیلات کا ایک یکساں نظام اور علاقائی بینکاری فریم ورک (ب) افغانستان کے ٹیکس کے ڈھانچے کو عالمی معیار کے مطابق بنانا تا کہ کاروبار اور سرمایہ کاری میں سہولت ہو اور (ج) آزاد تجارتی زون (ETZ) پاکستان کے فاٹا میں قائم کیا جائے۔ طویل المدتی سفارشات میں (ا) ایک علاقائی فنڈ کا ڈھانچہ قائم کیا جائے (جس میں مدد دینے والوں میں بھارت' ترکی' چین' روس' پاکستان اور افغانستان شامل ہوں)۔ مواصلات کے نظام کی ترقی اور توسیع کے لیے سرمایہ کاری جس میں ریلوے وغیرہ شامل ہوں (ب) توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کی کوشش کی جائے جیسے کہ ایران پاکستان اور بھارت (IPI) کی گیس پائپ لائن۔
اشرف غنی نے صدر کی حیثیت سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری پیدا کی ہے جس کی تصدیق حالیہ اہم اور علامتی واقعات سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے میں اپنے 20 نومبر2014ء کے مضمون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا عنوان تھا "The Making of History" یعنی تاریخ سازی کا عمل ''اشرف غنی نے سفارتی رسوم و قیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کی صدارت کا حلف اٹھا کر پاکستان کے پہلے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچتے ہی سب سے پہلے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کا سیدھے ملٹری ہیڈ کوارٹر میں چلے جانا ایک رسمی کارروائی کی نسبت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ افغان صدر کا مقصد اس بات سے عیاں ہے کہ انھیں پتہ تھا کہ قومی سلامتی کا اصل اختیار کہاں پر ہے۔
بعد ازاں پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ہمارا نکتہ نظر مشترک تھا کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کو گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے ملا کر توانائی کی ضرورت پوری کرنے کا خواب حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے نظر انداز کردہ عوام کو ترقی کرتی ہوئی معیشت میں سٹیک ہولڈر تسلیم کیا جائے تا کہ دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی استحکام اور امن کے لیے کام کیا جا سکے۔ ہماری قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے کیونکہ دہشت گردی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم نے 13 سال کی رکاوٹیں صرف 3 دن میں عبور کر لی ہیں۔ اب ہم ماضی کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے مستقبل کو تباہ کر دے۔
ہمارے مستقبل کو ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے جس طرح کہ امریکا نے لطیف محسود کو دو دیگر عسکریت پسند کمانڈروں سمیت بگرام سے رہا کر کے پاکستان کی تحویل میں دیدیا ہے۔ میرا ایک اور مضمون جس کا عنوان "Malala,s theme" تھا جو 31 اکتوبر 2013 کو شایع ہوا اس میں کہا گیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے سینئر لیڈر مرحوم حکیم اللہ محسود کے نائب کی امریکا کی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں گرفتاری ''دھواں اگلنے والی بندوق'' کے مترادف ہے جو کہ افغانستان کی سابقہ حکومت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ افغان قومی سلامتی کے ڈائریکٹوریٹ (NDS) کے ایجنٹ کی معیت میں جو اپنے اس قیمتی اثاثے کو اعلیٰ حکام سے ملاقات کرانے کے لیے کابل لے گئے حالانکہ لطیف محسود امریکا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا۔
اس کی گرفتاری پر سابق صدر کرزئی کو امریکا پر سخت غصہ آیا جس سے کہ اس الزام کی تصدیق ہوتی تھی کہ این ڈی ایس کے ساتھ بھارتی را (Research and Analysis Wing) کا ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کارروائیوں میں جو پاکستان میں کی جا رہی تھیں گٹھ جوڑ ہے۔ کرزئی کے سخت غصے کے باوجود (ڈیلی ٹیلی گراف نے 13 اکتوبر 2013ء کو لکھا) کہ امریکا نے بتایا ہے لطیف محسود امریکا کا دشمن ہے لہٰذا وہ انھی کی حراست میں رہے گا۔ امریکا نے اشارہ دیا کہ امریکی حکومت اور افغان صدر دونوں کو باہمی اعتماد کے فقدان کو دور کر کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ضروری ہے۔
سیاست کا حقیقی انحصار اقتصادیات پر ہوتا ہے۔ افغانستان گیس پائپ لائن کا بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور سڑکوں اور ریل کی آمد و رفت جو کہ وسطی ایشیاء سے اس کی سرزمین تک آئیں جائیں کروڑوں اربوں ڈالر کی رائلٹی حاصل کر سکتا ہے۔ گیس اور بجلی کی مسلسل ترسیل کے بغیر پاکستان کی اقتصادی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ای ڈبلیو آئی کا ابوظہبی پروسیس اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس طریقے سے اس پورے خطے کے لیے بے حد معاشی ترقی کے امکانات حقیقت بن سکتے ہیں جس کے لیے تعمیری تجارت اور کاروبار ناگزیر ہیں۔
افغانستان نے بالآخر اپنی قسمت کا دھنی اشرف غنی کی صورت میں تلاش کر لیا ہے۔ اب پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر کب اٹھے گا جو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر بے غرضی سے ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔
ایک ایسا ملک جو چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہو (لینڈ لاکڈ ہو) اس کے لیے لازمی ہے کہ اس کی سرزمین پر تجارت کی سہولتیں موجود ہوں۔ نیو یارک میں قائم ایک تھنک ٹینک ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ (ای ڈبلیو آئی) جس کی سربراہی راس پیروس جونئیر کر رہے ہیں انھوں نے سرحد پار تجارتی ڈائیلاگ شروع کیا ہے جس کا نام ''ابوظہبی پراسس'' رکھا گیا ہے اس کی بنیاد ابوظہبی اور جرمنی نے مشترکہ طور پر رکھی ہے تا کہ افغانستان اور اس جیسے دیگر ممالک کی مدد کی جا سکے۔ اس کی میزبانی ای ڈبلیو آئی کے ریجنل ڈائریکٹر مارٹن فلیسچر کر رہے ہیں جو برسلز کے سفیر ہیں۔
حالیہ استنبول کانفرنس جو ترکی کے ایوان صنعت و تجارت (ٹی او بی بی) میں منعقد ہوئی۔ یہ ایوان جنوبی اور مرکزی ایشیاء میں کاروباری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اب افغانستان کی جنگ سے تباہ شدہ معیشت کو تجارت کے ذریعے بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ (ا) ایک ذیلی کمیٹی نے جس میں ای ڈبلیو آئی کے چیف اپریٹنگ افیسر Jim Creighton بھی شامل تھے دن رات کام کر کے پیشرفت کے لیے چند کم مدت کے اقدامات کی سفارش کی۔ حتمی اجلاس میں شرکاء نے ایک علاقائی بزنس کونسل قائم کرنے کی تجویز دی۔
جس میں افغانستان' پاکستان' بھارت' ایران اور ترکی کے با اثر بزنس لیڈر شامل ہوں (ب) افغانستان تورغنڈی' حیرتان' طورخم' چمن' واہگہ اور شیر خان بندر اور بارڈر کے دیگر مقامات پر ون ونڈو کسٹم کلیئرنس کا نظام قائم کیا جائے تا کہ سرحد عبور کرنے کا وقت اور لاگت میں کمی واقع ہو۔ (ج) کاروباری نقل و حمل کو بآسانی آنے جانے کے لیے کُھلے ویزے کا نظام قائم کیا جائے۔ سارک اور اقتصادی تعاون کی تنظیم (ECO) کے ساتھ کم مدتی اور طویل المدتی معاہدے کیے جائیں۔
وسط مدتی سفارشات میں (ا) ترسیلات کا ایک یکساں نظام اور علاقائی بینکاری فریم ورک (ب) افغانستان کے ٹیکس کے ڈھانچے کو عالمی معیار کے مطابق بنانا تا کہ کاروبار اور سرمایہ کاری میں سہولت ہو اور (ج) آزاد تجارتی زون (ETZ) پاکستان کے فاٹا میں قائم کیا جائے۔ طویل المدتی سفارشات میں (ا) ایک علاقائی فنڈ کا ڈھانچہ قائم کیا جائے (جس میں مدد دینے والوں میں بھارت' ترکی' چین' روس' پاکستان اور افغانستان شامل ہوں)۔ مواصلات کے نظام کی ترقی اور توسیع کے لیے سرمایہ کاری جس میں ریلوے وغیرہ شامل ہوں (ب) توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کی کوشش کی جائے جیسے کہ ایران پاکستان اور بھارت (IPI) کی گیس پائپ لائن۔
اشرف غنی نے صدر کی حیثیت سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری پیدا کی ہے جس کی تصدیق حالیہ اہم اور علامتی واقعات سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے میں اپنے 20 نومبر2014ء کے مضمون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا عنوان تھا "The Making of History" یعنی تاریخ سازی کا عمل ''اشرف غنی نے سفارتی رسوم و قیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کی صدارت کا حلف اٹھا کر پاکستان کے پہلے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچتے ہی سب سے پہلے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کا سیدھے ملٹری ہیڈ کوارٹر میں چلے جانا ایک رسمی کارروائی کی نسبت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ افغان صدر کا مقصد اس بات سے عیاں ہے کہ انھیں پتہ تھا کہ قومی سلامتی کا اصل اختیار کہاں پر ہے۔
بعد ازاں پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ہمارا نکتہ نظر مشترک تھا کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کو گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے ملا کر توانائی کی ضرورت پوری کرنے کا خواب حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے نظر انداز کردہ عوام کو ترقی کرتی ہوئی معیشت میں سٹیک ہولڈر تسلیم کیا جائے تا کہ دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی استحکام اور امن کے لیے کام کیا جا سکے۔ ہماری قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے کیونکہ دہشت گردی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم نے 13 سال کی رکاوٹیں صرف 3 دن میں عبور کر لی ہیں۔ اب ہم ماضی کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے مستقبل کو تباہ کر دے۔
ہمارے مستقبل کو ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے جس طرح کہ امریکا نے لطیف محسود کو دو دیگر عسکریت پسند کمانڈروں سمیت بگرام سے رہا کر کے پاکستان کی تحویل میں دیدیا ہے۔ میرا ایک اور مضمون جس کا عنوان "Malala,s theme" تھا جو 31 اکتوبر 2013 کو شایع ہوا اس میں کہا گیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے سینئر لیڈر مرحوم حکیم اللہ محسود کے نائب کی امریکا کی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں گرفتاری ''دھواں اگلنے والی بندوق'' کے مترادف ہے جو کہ افغانستان کی سابقہ حکومت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ افغان قومی سلامتی کے ڈائریکٹوریٹ (NDS) کے ایجنٹ کی معیت میں جو اپنے اس قیمتی اثاثے کو اعلیٰ حکام سے ملاقات کرانے کے لیے کابل لے گئے حالانکہ لطیف محسود امریکا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا۔
اس کی گرفتاری پر سابق صدر کرزئی کو امریکا پر سخت غصہ آیا جس سے کہ اس الزام کی تصدیق ہوتی تھی کہ این ڈی ایس کے ساتھ بھارتی را (Research and Analysis Wing) کا ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کارروائیوں میں جو پاکستان میں کی جا رہی تھیں گٹھ جوڑ ہے۔ کرزئی کے سخت غصے کے باوجود (ڈیلی ٹیلی گراف نے 13 اکتوبر 2013ء کو لکھا) کہ امریکا نے بتایا ہے لطیف محسود امریکا کا دشمن ہے لہٰذا وہ انھی کی حراست میں رہے گا۔ امریکا نے اشارہ دیا کہ امریکی حکومت اور افغان صدر دونوں کو باہمی اعتماد کے فقدان کو دور کر کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ضروری ہے۔
سیاست کا حقیقی انحصار اقتصادیات پر ہوتا ہے۔ افغانستان گیس پائپ لائن کا بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور سڑکوں اور ریل کی آمد و رفت جو کہ وسطی ایشیاء سے اس کی سرزمین تک آئیں جائیں کروڑوں اربوں ڈالر کی رائلٹی حاصل کر سکتا ہے۔ گیس اور بجلی کی مسلسل ترسیل کے بغیر پاکستان کی اقتصادی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ای ڈبلیو آئی کا ابوظہبی پروسیس اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس طریقے سے اس پورے خطے کے لیے بے حد معاشی ترقی کے امکانات حقیقت بن سکتے ہیں جس کے لیے تعمیری تجارت اور کاروبار ناگزیر ہیں۔
افغانستان نے بالآخر اپنی قسمت کا دھنی اشرف غنی کی صورت میں تلاش کر لیا ہے۔ اب پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر کب اٹھے گا جو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر بے غرضی سے ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔