مسائل میں گھری دنیا
دنیا کے مختلف خطوں میں موجود کشیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
KARACHI:
دنیا کے مختلف خطوں میں موجود کشیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک طرف کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم میں شدت آئی ہے، تو دوسری طرف یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے باوجود فلسطینیوں پراسرائیل کی چیرہ دستیوں میں اضافہ ہواہے۔ عراق وشام میں شدت پسند عناصر کی متشدد کاروائیوں نے ان دو ممالک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا ہے ۔وسطی افریقہ کے ملک نائیجریا میں بوکوحرام جیسی تنظیمیں سیاسی استحکام ، معاشی نمواور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔غرض پورے کرہ ارض پر ایک طرح کی افراتفری کا عالم ہے اور معاملات تیزی کے ساتھ دگرگوں ہورہے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ جب سے انسان نے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا ہے، اسے ان گنت مسائل کا سامنا رہا ہے جن کی نوعیت اور شدت زمان ومکاں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے ۔یعنی جیسے جیسے دنیا ارتقائی عمل سے گذرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھی ہے، نت نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ جن کی تعداد ، شدت اور نوعیت میں اضافہ ہوتاگیاہے ۔ مگر انسان اپنی فکری بالیدگی اور شعوری کاوشوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پاتے ہوئے مسلسل آگے کی جانب بڑھتارہاہے ۔آج کے انسان کو ماضی کے مقابلے کئی گنا زیادہ پیچیدہ اورسنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ مگر آج کے انسان کی ذہانت اوراہلیت میں بھی ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس لیے توقع ہے کہ وہ نئے ابھرنے والے مسائل کے گرداب سے کامیاب و کامران نکل جائے گا ۔
آج کی دنیا میں انسانی معاشروں کوجن مسائل کا سامناہے،ان میں سے کچھ عالمگیر(Global)نوعیت کے ہیں ، کچھ علاقائی اور بیشترمقامی نوعیت کے ہیں ۔ کچھ قدرت کی حشر سامانیوں کا نتیجہ ہیں تو کچھ خود انسان کے اپنے ہاتھوں پیدا کردہ ہیں ۔اس لیے ان کے حل کے لیے بھی کہیں انسانوں کوGlobally عمل کرنا پڑتا ہے، کہیں علاقائی بنیادوں پر تو کہیں مقامی یا قومی سطح پر حل تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ مگریہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسائل کے حل کے لیے انسانوں میں بصیرت کے علاوہ عزم وحوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاریخ کے ہر دور میں انسانوںمیں دو طرح کے فکری رجحانات پائے جاتے رہے ہیں ۔ایک وہ ہیں جو توکل من اللہ کیے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ہر مسئلہ اورہر مشکل کومقدر کا لکھا سمجھ کراپنی تقدیر کو کوسنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جب کہ دوسری قسم ان انسانوں کی ہے ، جو پیش آنے والے مسائل ومصائب کا عقل وشعورکی بنیاد پر جائزہ لیتے ہیں اور پھر ان کا فہم ودانش کے ذریعے ایسا حل تلاش کرتے ہیں، جس سے سارا عالم انسانیت استفادہ کرتا ہے ۔
آج عالمگیر سطح پر انسانیت کو کرہ ارض پرانسانی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی میں تیز رفتار اضافے، جوہری ہتھیاروںکی دوڑ، علاقائی تنازعات میں آنے والی شدت اور مذہبی شدت پسندی کے مظاہرکا سامنا ہے۔علاقائی سطح پر تیز رفتار ترقی کے لیے معاشی، سماجی اورثقافتی بنیادوں پر تال میل بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ قومی سطح پر شراکتی جمہوریت ، اقتدار واختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی اور تعلیم ، صحت اور سماجی ترقی کے لیے منصوبہ سازی اہم ہیں، جن پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ مگر پاکستان جیسے معاشروںکا المیہ یہ ہے ، یہاں سیاسی قیادتیں اوراہل دانش آج بھی 10ویں صدی کےMindset سے باہر نہیں نکل سکے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ بدلتی دنیا کے اہداف کو سمجھنے میں ناکام ہیں ۔لہٰذا اس اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں، جو اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔
اس وقت سب سے اہم عالمگیر مسئلہ کرہ ارض پر انسانی آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے، جس کی وجہ سے دنیا مختلف نوعیت کے نئے مسائل میں گھرنے والی ہے ۔ معروف ماہر مستقبلیات پال کینیڈی کی تحقیق کے مطابق 1825ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی ۔75برس بعد یعنی 1900ء میں انسانی آبادی دگنی یعنی2ارب ہوگئی ۔اکیسویں صدی کے آغاز پر2000ء میں آبادی 6ارب ہوگئی ۔جب کہ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں اور ان گنت علاقائی لڑائیوںمیں کڑوڑوں کی تعداد میں افراد لقمہ اجل ہوئے، مگر اس کے باوجود 100برسوں کے دوران کرہ ارض پر انسانی آبادی پھر بھی تین گنا ہوگئی ۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگرآبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر قابو نہ پایا گیا تو 2025ء میں اس کرہ پرانسانی آبادی 8.5بلین نفوس تک پہنچ چکی ہوگی، جب کہ 2050ء تک انسانی آبادی کے 14.5ارب ہوجانے کا خطرہ ہے ۔ آبادی میں اضافہ کی سب سے زیادہ شرح تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ہے ۔ ان ممالک میں کمتر خواندگی کی شرح، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور تفریح کے مختلف ذرایع کی عدم دستیابی آبادی میں اضافہ کا سبب ہیں ۔
آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور خراب ہوتی ماحولیاتی صورتحال کے نتیجے میں غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جونسل انسانی کے لیے ایک نیا اور پیچیدہ مسئلہ کی شکل اختیار کرنے جا رہا ہے ۔ لیکن سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی ۔ ماحولیاتی آلودگی کاسب سے بڑا سبب کیمیائی اور جوہری فضلہ اورصنعتوں سے خارج ہونے والادھواں ہے ۔
جس میںکاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ کاربن مونو آکسائیڈ اورگندھک کے بخارات موجود ہوتے ہیں ۔کاربن مونوآکسائڈ اور گندھک کے ذرات فضاء میں موجودآکسیجن کے ساتھ کیمیائی عمل کے ذریعے بالترتیب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ بنا کر کرہ ہوائی میں آکسیجن کی مقدار کو کم کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔اس کے علاوہ زمین کے گرد موجود ہوا کے غلاف کی اوپر سطح پر بھاری آکسیجن جواوزون کہلاتی ہے، وہ بھی Decompose ہو رہی ہے۔ اوزون زمین پر سورج سمیت مختلف سیاروں سے آنے والی زہریلی اشعاع کوفلٹرکرتی ہے ۔ اس کے کمزور پڑجانے سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جسے عرف عام میںGlobal Warmingکہا جاتا ہے ۔
درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے قطبین میں موجود بڑے بڑے گلیشیر پگھل کر سیلابوں کی شدت میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں ۔دوسری طرف درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث سمندروں میں عمل تبخیر تیز تر ہو رہا ہے ، جوبارشوں کی شدت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے ۔ قابل کاشت زمین اول تو انسانی آبادی میں اضافے کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے جو زمین دستیاب ہے، وہ موسمی حالات کے سبب بنجرہو رہی ہے ۔ پھر سیلاب کھڑی فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں ۔یوں کرہ ارض پر غذائی قلت پیداکونے کے خدشات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔اگر آنے والے20 برسوں کے دوران انسانی آبادی اور ماحولیاتی انحطاطdegenerationا پرقابو پانے کی کوشش نہیں کی گئی، تونسل انسانی ان گنت نئے مسائل کا شکار ہوجائے گی ۔
آج کی دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دنیا ہے۔ جسے بجا طور پرگلوبل ولیج کہا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کی ذمے داری صرف متحارب ممالک کو جنگ وجدل سے روکنا ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بقاء اور فلاح کا عالمگیر ایجنڈا تیار کرنا بھی ہے۔آج کوئی ملک اگر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اور بیماریوں کی روک تھام میں غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے تو عالمی برادری اس پر دباؤ ڈالنے کا حق رکھتی ہے ۔اسی طرح عالمی برادری کسی ملک کویہ اختیار دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ عقیدے ، نظریہ یا نسلی ولسانی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھے ۔اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر یہ اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی جانب سے جاری کردہ حقوق انسانی کے چارٹر پر عمل کریں ۔
آج دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے معاملات و مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔اسی طرح معاشی امور میں اسے دوسرے ممالک کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں علاقائی اتحاد قائم ہورہے ہیں، جو معاشی کے علاوہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی تعاون کا ذریعہ ہیں ۔کئی صدیوں تک ایک دوسرے سے نبردآزما رہنے والایورپ جس نے دو عالمی جنگیں بھی لڑیں ، آج یورپی یونین بناکر اپنے عوام کوبہتر زندگی دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
دوسرا بڑا اتحاد آسیان (ASEAN)ہے، یہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا اتحاد ہے ۔اس اتحاد میں شامل ممالک کے درمیان ان گنت سرحدی تنازعات تھے ، مگر انھوں نے اپنے عوام کی ترقی وکامرانی کے لیے ان اختلافات اور تنازعات کو پس پشت ڈال کر آسیان کے پلیٹ فارم سے باہمی تعاون اورمعاشی ترقی کے سفر کا آغاز کیا۔نتیجتاًاس اتحاد کے رکن ممالک کا آج دنیا کی خوشحال معیشتوں میں شمار ہوتا ہے ۔
مگر دنیا کے مختلف خطوں میں جنم لینے والی ان مثالوں سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیمSAARC تیس برس گذرجانے کے باوجود آج بھی ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ اس کی ذمے داری تنظیم کے دو بڑے ممالک بھارت اور پاکستان پر عائد ہوتی ہے ، جو اپنی ہٹ دھرمی سے اپنے عوام کو تو نقصان پہنچارہی رہے ہیں، لیکن خطے کے دیگر ممالک کے عوام کے ساتھ بھی زیادتیاں کر رہے ہیں ۔جنوبی ایشیائی ممالک کے حکمرانوں کی ذمے داری کہ وہ کرہ ارض پر بڑھتے ہوئے مسائل کو کم کرنے میں کم از کم اپنا کردار عالمی ویژن کے ساتھ تو ادا کریں ۔
دنیا کے مختلف خطوں میں موجود کشیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک طرف کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم میں شدت آئی ہے، تو دوسری طرف یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے باوجود فلسطینیوں پراسرائیل کی چیرہ دستیوں میں اضافہ ہواہے۔ عراق وشام میں شدت پسند عناصر کی متشدد کاروائیوں نے ان دو ممالک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا ہے ۔وسطی افریقہ کے ملک نائیجریا میں بوکوحرام جیسی تنظیمیں سیاسی استحکام ، معاشی نمواور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔غرض پورے کرہ ارض پر ایک طرح کی افراتفری کا عالم ہے اور معاملات تیزی کے ساتھ دگرگوں ہورہے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ جب سے انسان نے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا ہے، اسے ان گنت مسائل کا سامنا رہا ہے جن کی نوعیت اور شدت زمان ومکاں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے ۔یعنی جیسے جیسے دنیا ارتقائی عمل سے گذرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھی ہے، نت نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ جن کی تعداد ، شدت اور نوعیت میں اضافہ ہوتاگیاہے ۔ مگر انسان اپنی فکری بالیدگی اور شعوری کاوشوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پاتے ہوئے مسلسل آگے کی جانب بڑھتارہاہے ۔آج کے انسان کو ماضی کے مقابلے کئی گنا زیادہ پیچیدہ اورسنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ مگر آج کے انسان کی ذہانت اوراہلیت میں بھی ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس لیے توقع ہے کہ وہ نئے ابھرنے والے مسائل کے گرداب سے کامیاب و کامران نکل جائے گا ۔
آج کی دنیا میں انسانی معاشروں کوجن مسائل کا سامناہے،ان میں سے کچھ عالمگیر(Global)نوعیت کے ہیں ، کچھ علاقائی اور بیشترمقامی نوعیت کے ہیں ۔ کچھ قدرت کی حشر سامانیوں کا نتیجہ ہیں تو کچھ خود انسان کے اپنے ہاتھوں پیدا کردہ ہیں ۔اس لیے ان کے حل کے لیے بھی کہیں انسانوں کوGlobally عمل کرنا پڑتا ہے، کہیں علاقائی بنیادوں پر تو کہیں مقامی یا قومی سطح پر حل تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ مگریہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسائل کے حل کے لیے انسانوں میں بصیرت کے علاوہ عزم وحوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاریخ کے ہر دور میں انسانوںمیں دو طرح کے فکری رجحانات پائے جاتے رہے ہیں ۔ایک وہ ہیں جو توکل من اللہ کیے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ہر مسئلہ اورہر مشکل کومقدر کا لکھا سمجھ کراپنی تقدیر کو کوسنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جب کہ دوسری قسم ان انسانوں کی ہے ، جو پیش آنے والے مسائل ومصائب کا عقل وشعورکی بنیاد پر جائزہ لیتے ہیں اور پھر ان کا فہم ودانش کے ذریعے ایسا حل تلاش کرتے ہیں، جس سے سارا عالم انسانیت استفادہ کرتا ہے ۔
آج عالمگیر سطح پر انسانیت کو کرہ ارض پرانسانی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی میں تیز رفتار اضافے، جوہری ہتھیاروںکی دوڑ، علاقائی تنازعات میں آنے والی شدت اور مذہبی شدت پسندی کے مظاہرکا سامنا ہے۔علاقائی سطح پر تیز رفتار ترقی کے لیے معاشی، سماجی اورثقافتی بنیادوں پر تال میل بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ قومی سطح پر شراکتی جمہوریت ، اقتدار واختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی اور تعلیم ، صحت اور سماجی ترقی کے لیے منصوبہ سازی اہم ہیں، جن پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ مگر پاکستان جیسے معاشروںکا المیہ یہ ہے ، یہاں سیاسی قیادتیں اوراہل دانش آج بھی 10ویں صدی کےMindset سے باہر نہیں نکل سکے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ بدلتی دنیا کے اہداف کو سمجھنے میں ناکام ہیں ۔لہٰذا اس اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں، جو اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔
اس وقت سب سے اہم عالمگیر مسئلہ کرہ ارض پر انسانی آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے، جس کی وجہ سے دنیا مختلف نوعیت کے نئے مسائل میں گھرنے والی ہے ۔ معروف ماہر مستقبلیات پال کینیڈی کی تحقیق کے مطابق 1825ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی ۔75برس بعد یعنی 1900ء میں انسانی آبادی دگنی یعنی2ارب ہوگئی ۔اکیسویں صدی کے آغاز پر2000ء میں آبادی 6ارب ہوگئی ۔جب کہ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں اور ان گنت علاقائی لڑائیوںمیں کڑوڑوں کی تعداد میں افراد لقمہ اجل ہوئے، مگر اس کے باوجود 100برسوں کے دوران کرہ ارض پر انسانی آبادی پھر بھی تین گنا ہوگئی ۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگرآبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر قابو نہ پایا گیا تو 2025ء میں اس کرہ پرانسانی آبادی 8.5بلین نفوس تک پہنچ چکی ہوگی، جب کہ 2050ء تک انسانی آبادی کے 14.5ارب ہوجانے کا خطرہ ہے ۔ آبادی میں اضافہ کی سب سے زیادہ شرح تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ہے ۔ ان ممالک میں کمتر خواندگی کی شرح، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور تفریح کے مختلف ذرایع کی عدم دستیابی آبادی میں اضافہ کا سبب ہیں ۔
آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور خراب ہوتی ماحولیاتی صورتحال کے نتیجے میں غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جونسل انسانی کے لیے ایک نیا اور پیچیدہ مسئلہ کی شکل اختیار کرنے جا رہا ہے ۔ لیکن سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی ۔ ماحولیاتی آلودگی کاسب سے بڑا سبب کیمیائی اور جوہری فضلہ اورصنعتوں سے خارج ہونے والادھواں ہے ۔
جس میںکاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ کاربن مونو آکسائیڈ اورگندھک کے بخارات موجود ہوتے ہیں ۔کاربن مونوآکسائڈ اور گندھک کے ذرات فضاء میں موجودآکسیجن کے ساتھ کیمیائی عمل کے ذریعے بالترتیب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ بنا کر کرہ ہوائی میں آکسیجن کی مقدار کو کم کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔اس کے علاوہ زمین کے گرد موجود ہوا کے غلاف کی اوپر سطح پر بھاری آکسیجن جواوزون کہلاتی ہے، وہ بھی Decompose ہو رہی ہے۔ اوزون زمین پر سورج سمیت مختلف سیاروں سے آنے والی زہریلی اشعاع کوفلٹرکرتی ہے ۔ اس کے کمزور پڑجانے سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جسے عرف عام میںGlobal Warmingکہا جاتا ہے ۔
درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے قطبین میں موجود بڑے بڑے گلیشیر پگھل کر سیلابوں کی شدت میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں ۔دوسری طرف درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث سمندروں میں عمل تبخیر تیز تر ہو رہا ہے ، جوبارشوں کی شدت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے ۔ قابل کاشت زمین اول تو انسانی آبادی میں اضافے کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے جو زمین دستیاب ہے، وہ موسمی حالات کے سبب بنجرہو رہی ہے ۔ پھر سیلاب کھڑی فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں ۔یوں کرہ ارض پر غذائی قلت پیداکونے کے خدشات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔اگر آنے والے20 برسوں کے دوران انسانی آبادی اور ماحولیاتی انحطاطdegenerationا پرقابو پانے کی کوشش نہیں کی گئی، تونسل انسانی ان گنت نئے مسائل کا شکار ہوجائے گی ۔
آج کی دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دنیا ہے۔ جسے بجا طور پرگلوبل ولیج کہا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کی ذمے داری صرف متحارب ممالک کو جنگ وجدل سے روکنا ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بقاء اور فلاح کا عالمگیر ایجنڈا تیار کرنا بھی ہے۔آج کوئی ملک اگر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اور بیماریوں کی روک تھام میں غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے تو عالمی برادری اس پر دباؤ ڈالنے کا حق رکھتی ہے ۔اسی طرح عالمی برادری کسی ملک کویہ اختیار دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ عقیدے ، نظریہ یا نسلی ولسانی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھے ۔اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر یہ اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی جانب سے جاری کردہ حقوق انسانی کے چارٹر پر عمل کریں ۔
آج دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے معاملات و مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔اسی طرح معاشی امور میں اسے دوسرے ممالک کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں علاقائی اتحاد قائم ہورہے ہیں، جو معاشی کے علاوہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی تعاون کا ذریعہ ہیں ۔کئی صدیوں تک ایک دوسرے سے نبردآزما رہنے والایورپ جس نے دو عالمی جنگیں بھی لڑیں ، آج یورپی یونین بناکر اپنے عوام کوبہتر زندگی دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
دوسرا بڑا اتحاد آسیان (ASEAN)ہے، یہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا اتحاد ہے ۔اس اتحاد میں شامل ممالک کے درمیان ان گنت سرحدی تنازعات تھے ، مگر انھوں نے اپنے عوام کی ترقی وکامرانی کے لیے ان اختلافات اور تنازعات کو پس پشت ڈال کر آسیان کے پلیٹ فارم سے باہمی تعاون اورمعاشی ترقی کے سفر کا آغاز کیا۔نتیجتاًاس اتحاد کے رکن ممالک کا آج دنیا کی خوشحال معیشتوں میں شمار ہوتا ہے ۔
مگر دنیا کے مختلف خطوں میں جنم لینے والی ان مثالوں سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیمSAARC تیس برس گذرجانے کے باوجود آج بھی ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ اس کی ذمے داری تنظیم کے دو بڑے ممالک بھارت اور پاکستان پر عائد ہوتی ہے ، جو اپنی ہٹ دھرمی سے اپنے عوام کو تو نقصان پہنچارہی رہے ہیں، لیکن خطے کے دیگر ممالک کے عوام کے ساتھ بھی زیادتیاں کر رہے ہیں ۔جنوبی ایشیائی ممالک کے حکمرانوں کی ذمے داری کہ وہ کرہ ارض پر بڑھتے ہوئے مسائل کو کم کرنے میں کم از کم اپنا کردار عالمی ویژن کے ساتھ تو ادا کریں ۔