کرپشن کے مقدمات اور حکمرانوں کی خاموشی
ابھی کچھ سال پہلے ہی کی بات ہے جب ہر طرف مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کا بڑا چرچا تھا
ابھی کچھ سال پہلے ہی کی بات ہے جب ہر طرف مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کا بڑا چرچا تھا۔ حج کرپشن، ای او بی آئی، این آئی سی ایل، او جی ڈی سی اور رینٹل پاور پروجیکٹس میں بدعنوانیوں کے قصے اور اسٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا سمیت ہر ادارے میں لوٹ مار عام تھی اور ہماری عدالتیں اپنی دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف اِنہی کیسوں کو سنا کرتی تھیں۔ میاں صاحب اور اُن کی چھوٹے بھائی ہر محفل اور ہر میٹنگ میں اِنہی کرپشن کی وارداتوں کو اپنی تقاریر کا موضوع بنایا کرتے تھے۔
جذبات کی رو میں بہہ کر جوشِ خطابت میں وہ بہت کچھ کہہ جایا کرتے تھے۔ مگر اب جب سے اُنہیں اقتدار ملا ہے یہ ساری باتیں اور کہانیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ زرداری کے خلاف اب نہ وہ زبان استعمال ہو رہی ہے اور نہ کوئی کرپشن کے قصے یاد کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ اب تو زرداری صاحب سے اُن کے تعلقات بہت ہی دوستانہ اور مفاہمانہ ہیں۔ اُس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں سیاسی فریقوں نے آپس کی محاذ آرائی کا ایک طویل دور گزارا ہے اور اِس سے اُنہوں نے ایک نہ بُھولنے والا سبق بھی حاصل کر لیا ہے۔
اِن دونوں کی آپس کی لڑائی کا نُقصان بھی صرف اِن دونوں فریقوں ہی کو ہوا کرتا تھا جب کہ وصول کنندہ کوئی اور ہو ا کرتا تھا۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور بیچینی کی وجہ سے حکومت میں اُن کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی تھی اور اِسی کو بہانہ بنا کر کوئی طالع آزما انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کر کے گھر کی راہ دِکھا دیا کرتا تھا۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد اب فریقین نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ ایک دوسرے کو زیر کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ حکمراں اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلیں گے اور اپوزیشن بھی کسی غیر آئینی طریقے سے حکومت کو معزول کرنے کی کسی کوشش میں حصہ دار نہیں بنے گی۔
الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کو آئین میں درج مدت کے مطابق حکومت کرنے کا بھرپور موقعہ دیا جائے گا اور قبل از وقت حکومت گرانے کا سلسلہ ختم بھی کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے تمام اشتعال انگیزیوں اور اپنے اُوپر تنقید کے باوجود زرداری صاحب کی سابقہ حکومت کو گرانے کی کسی بھی کوشش اور عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور پی پی پی حکومت نے اپنی انتہائی خراب کارکردگی اور کرپشن کے لاتعداد الزامات کے باوجود اپنے پانچ سال پورے کر لیے۔
اب میاں صاحب کو تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا موقعہ ملا ہے۔ اِس سے پہلے اُنہیں دونوں مرتبہ ڈھائی سال سے زیادہ حکمرانی کرنے کا موقعہ میسر نہیں آیا۔ بلکہ دوسری بار تو اُنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیا گیا۔ جہاں اُنہیں تا حیات زندگی گزارنے کا عدالتی فرمانِ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے فرمانرواؤں کی مہربانیوں کے سبب وہ جبراً جلا وطن کر دیے گئے اور اِس طرح اُن کی جان بخشی ممکن ہو سکی۔
جب کہ زرداری صاحب کو تو کسی ایسے مہربان کی شفقت بھی حاصل نہ تھی اور وہ اقتدار کے ایوانوں سے سیدھے جیل اور جیل ہی سے سیدھے اقتدار میں آتے رہے۔ ہاں البتہ بی بی اور پرویز مشرف کے درمیان طے پانے والے کرشماتی معاہدے این آر اُو کی کرامات کے سبب وہ ملک کے سب سے محترم اور مقدس عہدے پر براجمان بھی ہو ئے۔ سیاست کی اِن تلخ حقیقتوں اور تجربوں کے بعد اب اِن دونوں سیاسی پارٹیوں کو یہ سوجھ بوجھ آچکی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ کسی کی اشتعال انگیزیوں میں آ کر ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہوں گے۔
ہمارے ملک کے کئی دانشور، نقاد اور تبصرہ نگار میاں صاحب کی اِس حکمت ِعملی پر حیران و پریشان ہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق زرداری صاحب کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کر رہے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں مالی بدعنوانیوں اور کرپشن سے متعلق کوئی بھی قانونی کارروائی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ زرداری صاحب بی بی کے دونوں اقتدار کے بعد کئی کئی سال تک جیل کی صعوبتیں تو جھیلتے رہے لیکن ہماری کوئی بھی عدالت اُنہیں قرار واقعی سزا نہیں دے سکی اور نہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے اربوں ڈالرز واپس ہوئے۔ ہماری اعلیٰ عدالت اِس سلسلے میں چند سال پہلے اپنا سارا زور لگا چکی لیکن وہ یہ پیسہ واپس نہ لا سکی۔ اب تو اُسے واپس لانے کا مقررہ وقت بھی گزر چکا ہے۔
اِس لیے اِس معاملے میں ہاتھ ڈالنے کا مطلب ایک بار پھر سے پُرانی چپقلش اور محاذآرائی کو ہوا دینا ہے۔ میاں صاحب کو ابھی عمران خان ہی مصیبت ڈالے ہوئے ہیں وہ بیک وقت دو محاذوں پر لڑائی کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اِسی لیے وہ سابقہ کرپشن کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ویسے بھی زرداری صاحب یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب اگر گئے تو ہماری مرضی سے جائیں گے کسی اور کی مرضی سے نہیں۔ یعنی وہ میاں صاحب کی جانب سے محاذ آرائی میں پہل کرنے کے منتظر ہیں جس کے بعد ہی اصل معرکا آرائی شروع ہو گی۔ ایسی صورتحال میں دانشمندی اور سیاسی ہنر مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اپنا وقت گزارا جائے او ر جلے پھپولے نہ پھوڑے جائیں۔ ترقی و خوشحالی کے اپنے منصوبوں کو پورا کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور دوستی اور مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھایا جائے۔
ورنہ اُن پر پہلے ہی یہ الزام رہا ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ہر ایک سے لڑائی مول لیتے ہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اندر جن سیاسی قوتوں نے حالیہ بحران میں اُن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اُنہیں ناراض نہ کیا جائے اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ مفاہمت، دوستی اور ہم آہنگی کی پالیسی کو اپنایا جائے۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے مقدمات کو فی الحال نہ چھیڑا جائے۔ ویسے بھی اِن مقدمات کا بروقت فیصلہ ہونا تقریباً ناممکن ہے اور اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اُن پر عمل درآمد جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
اگر یہ مقدمات ایک بار پھر اُنکی جانب سے شروع کر دیے گئے تو میاں صاحب یقینا ایسی مشکل میں پھنس جائیں گے جن سے نکلنا اُن کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ سابق چیف جسٹس نے اِس سلسلے میں اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی تھی لیکن اُس کا نتیجہ کیا نکلا وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ بڑے بڑے ملزموں کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ چیف جسٹس صاحب کو اپنی عزت بچانی مشکل ہو گئی۔
ادھر عمران خان بھی اِس انتظار میں ہیں کہ میاں صاحب کوئی غلطی کر بیٹھیں اور پیپلز پارٹی سے دشمنی مول لیں تا کہ وہ اپنا ہدف باآسانی پورا کر پائیں۔ حکومت نے جلد بازی اور جوش میں آ کریا دوسروں کے اُکسانے پر اگر سابقہ دور کی کرپشن کے معاملات کو چھیڑا تو اِس کارِ خیر میں کوئی بھی اُن کے ہم نوا نہ ہو گا اور نہ کوئی اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرے گا۔ البتہ اُن کی اِس حرکت کو سیاسی دشمنی کے زمرے میں ضرور گردانہ جائے گا۔ سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کا وہ کھیل ایک بار پھر سے شروع ہو جائے گا جو اِس سے پہلے ہمارے یہاں باقاعدگی کے ساتھ کھیلا جاتا رہا ہے۔ اِن دونوں کی لڑائی میں نقصان سراسر میاں صاحب ہی کا ہو گا جب کہ تیسرا فریق یقینا تماشا بھی دیکھے گا اور ثمرات بھی وصول کرے گا۔ معاملہ فہمی، دانشمندی اور دوراندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ابھی صرف ایک ہی محاذ پر لڑا جائے اور شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
ویسے بھی پرویز مشرف کے کیسوں میں انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ بلا وجہ کی قانونی چارہ جوئی کا اور ہٹ دھرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ عدالتیں اوّل تو ایسے حساس معاملوں میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں یا پھر وہ ایسا فیصلہ لکھ دیتی ہیں جن پر عملدرآمد ہی ممکن نہ ہو۔ میاں صاحب کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ اپنے موجودہ دورِ اقتدار کو موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اپنے طے شدہ ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں اور ایسی کارکردگی دکھائیں کہ عوام کے سارے پُرانے گلے شکوے دور ہو جائیں ۔
جذبات کی رو میں بہہ کر جوشِ خطابت میں وہ بہت کچھ کہہ جایا کرتے تھے۔ مگر اب جب سے اُنہیں اقتدار ملا ہے یہ ساری باتیں اور کہانیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ زرداری کے خلاف اب نہ وہ زبان استعمال ہو رہی ہے اور نہ کوئی کرپشن کے قصے یاد کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ اب تو زرداری صاحب سے اُن کے تعلقات بہت ہی دوستانہ اور مفاہمانہ ہیں۔ اُس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں سیاسی فریقوں نے آپس کی محاذ آرائی کا ایک طویل دور گزارا ہے اور اِس سے اُنہوں نے ایک نہ بُھولنے والا سبق بھی حاصل کر لیا ہے۔
اِن دونوں کی آپس کی لڑائی کا نُقصان بھی صرف اِن دونوں فریقوں ہی کو ہوا کرتا تھا جب کہ وصول کنندہ کوئی اور ہو ا کرتا تھا۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور بیچینی کی وجہ سے حکومت میں اُن کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی تھی اور اِسی کو بہانہ بنا کر کوئی طالع آزما انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کر کے گھر کی راہ دِکھا دیا کرتا تھا۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد اب فریقین نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ ایک دوسرے کو زیر کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ حکمراں اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلیں گے اور اپوزیشن بھی کسی غیر آئینی طریقے سے حکومت کو معزول کرنے کی کسی کوشش میں حصہ دار نہیں بنے گی۔
الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کو آئین میں درج مدت کے مطابق حکومت کرنے کا بھرپور موقعہ دیا جائے گا اور قبل از وقت حکومت گرانے کا سلسلہ ختم بھی کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے تمام اشتعال انگیزیوں اور اپنے اُوپر تنقید کے باوجود زرداری صاحب کی سابقہ حکومت کو گرانے کی کسی بھی کوشش اور عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور پی پی پی حکومت نے اپنی انتہائی خراب کارکردگی اور کرپشن کے لاتعداد الزامات کے باوجود اپنے پانچ سال پورے کر لیے۔
اب میاں صاحب کو تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا موقعہ ملا ہے۔ اِس سے پہلے اُنہیں دونوں مرتبہ ڈھائی سال سے زیادہ حکمرانی کرنے کا موقعہ میسر نہیں آیا۔ بلکہ دوسری بار تو اُنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیا گیا۔ جہاں اُنہیں تا حیات زندگی گزارنے کا عدالتی فرمانِ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے فرمانرواؤں کی مہربانیوں کے سبب وہ جبراً جلا وطن کر دیے گئے اور اِس طرح اُن کی جان بخشی ممکن ہو سکی۔
جب کہ زرداری صاحب کو تو کسی ایسے مہربان کی شفقت بھی حاصل نہ تھی اور وہ اقتدار کے ایوانوں سے سیدھے جیل اور جیل ہی سے سیدھے اقتدار میں آتے رہے۔ ہاں البتہ بی بی اور پرویز مشرف کے درمیان طے پانے والے کرشماتی معاہدے این آر اُو کی کرامات کے سبب وہ ملک کے سب سے محترم اور مقدس عہدے پر براجمان بھی ہو ئے۔ سیاست کی اِن تلخ حقیقتوں اور تجربوں کے بعد اب اِن دونوں سیاسی پارٹیوں کو یہ سوجھ بوجھ آچکی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ کسی کی اشتعال انگیزیوں میں آ کر ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہوں گے۔
ہمارے ملک کے کئی دانشور، نقاد اور تبصرہ نگار میاں صاحب کی اِس حکمت ِعملی پر حیران و پریشان ہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق زرداری صاحب کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کر رہے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں مالی بدعنوانیوں اور کرپشن سے متعلق کوئی بھی قانونی کارروائی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ زرداری صاحب بی بی کے دونوں اقتدار کے بعد کئی کئی سال تک جیل کی صعوبتیں تو جھیلتے رہے لیکن ہماری کوئی بھی عدالت اُنہیں قرار واقعی سزا نہیں دے سکی اور نہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے اربوں ڈالرز واپس ہوئے۔ ہماری اعلیٰ عدالت اِس سلسلے میں چند سال پہلے اپنا سارا زور لگا چکی لیکن وہ یہ پیسہ واپس نہ لا سکی۔ اب تو اُسے واپس لانے کا مقررہ وقت بھی گزر چکا ہے۔
اِس لیے اِس معاملے میں ہاتھ ڈالنے کا مطلب ایک بار پھر سے پُرانی چپقلش اور محاذآرائی کو ہوا دینا ہے۔ میاں صاحب کو ابھی عمران خان ہی مصیبت ڈالے ہوئے ہیں وہ بیک وقت دو محاذوں پر لڑائی کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اِسی لیے وہ سابقہ کرپشن کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ویسے بھی زرداری صاحب یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب اگر گئے تو ہماری مرضی سے جائیں گے کسی اور کی مرضی سے نہیں۔ یعنی وہ میاں صاحب کی جانب سے محاذ آرائی میں پہل کرنے کے منتظر ہیں جس کے بعد ہی اصل معرکا آرائی شروع ہو گی۔ ایسی صورتحال میں دانشمندی اور سیاسی ہنر مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اپنا وقت گزارا جائے او ر جلے پھپولے نہ پھوڑے جائیں۔ ترقی و خوشحالی کے اپنے منصوبوں کو پورا کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور دوستی اور مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھایا جائے۔
ورنہ اُن پر پہلے ہی یہ الزام رہا ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ہر ایک سے لڑائی مول لیتے ہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اندر جن سیاسی قوتوں نے حالیہ بحران میں اُن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اُنہیں ناراض نہ کیا جائے اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ مفاہمت، دوستی اور ہم آہنگی کی پالیسی کو اپنایا جائے۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے مقدمات کو فی الحال نہ چھیڑا جائے۔ ویسے بھی اِن مقدمات کا بروقت فیصلہ ہونا تقریباً ناممکن ہے اور اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اُن پر عمل درآمد جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
اگر یہ مقدمات ایک بار پھر اُنکی جانب سے شروع کر دیے گئے تو میاں صاحب یقینا ایسی مشکل میں پھنس جائیں گے جن سے نکلنا اُن کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ سابق چیف جسٹس نے اِس سلسلے میں اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی تھی لیکن اُس کا نتیجہ کیا نکلا وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ بڑے بڑے ملزموں کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ چیف جسٹس صاحب کو اپنی عزت بچانی مشکل ہو گئی۔
ادھر عمران خان بھی اِس انتظار میں ہیں کہ میاں صاحب کوئی غلطی کر بیٹھیں اور پیپلز پارٹی سے دشمنی مول لیں تا کہ وہ اپنا ہدف باآسانی پورا کر پائیں۔ حکومت نے جلد بازی اور جوش میں آ کریا دوسروں کے اُکسانے پر اگر سابقہ دور کی کرپشن کے معاملات کو چھیڑا تو اِس کارِ خیر میں کوئی بھی اُن کے ہم نوا نہ ہو گا اور نہ کوئی اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرے گا۔ البتہ اُن کی اِس حرکت کو سیاسی دشمنی کے زمرے میں ضرور گردانہ جائے گا۔ سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کا وہ کھیل ایک بار پھر سے شروع ہو جائے گا جو اِس سے پہلے ہمارے یہاں باقاعدگی کے ساتھ کھیلا جاتا رہا ہے۔ اِن دونوں کی لڑائی میں نقصان سراسر میاں صاحب ہی کا ہو گا جب کہ تیسرا فریق یقینا تماشا بھی دیکھے گا اور ثمرات بھی وصول کرے گا۔ معاملہ فہمی، دانشمندی اور دوراندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ابھی صرف ایک ہی محاذ پر لڑا جائے اور شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
ویسے بھی پرویز مشرف کے کیسوں میں انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ بلا وجہ کی قانونی چارہ جوئی کا اور ہٹ دھرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ عدالتیں اوّل تو ایسے حساس معاملوں میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں یا پھر وہ ایسا فیصلہ لکھ دیتی ہیں جن پر عملدرآمد ہی ممکن نہ ہو۔ میاں صاحب کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ اپنے موجودہ دورِ اقتدار کو موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اپنے طے شدہ ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں اور ایسی کارکردگی دکھائیں کہ عوام کے سارے پُرانے گلے شکوے دور ہو جائیں ۔