مودی کو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے

حقیقت میں کشمیر کی نئی ریاست کو اپنی دولت ہتھیاروں کے بجائے تعمیر و ترقی پر خرچ کرنی چاہیے۔

سری نگر میں عوامی جلسوں کے ہجوم کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس کبھی حوصلہ افزا نہیں ہوتیں لہذا وزیر اعظم مودی کے جلسے کے بارے میں یہ تنقید کہ اس میں صرف چار ہزار کے لگ بھگ لوگ جمع تھے درست نہیں۔ مودی یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ایک بھارتی ہونے کے ناتے وہ جب چاہیں اس ریاست میں آ سکتے ہیں۔ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے مودی کو دھمکی دی تھی کہ وہ وادی میں قدم رکھنے کی جرات تک نہیں کر سکتے لیکن مودی نے قدم رکھا بھی تو سری نگر شہر کے عین مرکز یعنی لال چوک میں مگر انھیں کسی نام نہاد علیحدگی پسندوں یا ان جیسے دیگر لوگوں کی طرف سے کوئی چیلنج نہ کیا گیا۔

یہ بات کہ وادی کے لوگ خود کو نئی دہلی سے بہت دوری پر محسوس کرتے ہیں کوئی نئی بات نہیں۔ حقیقت میں وہ بھارتی حکومت سے دور نہیں ہیں اور اگر بھارت چاہے تو وہ حق خود ارادیت میں بھی بہ آسانی جیت سکتا ہے۔ انھیں دوری اس وقت محسوس ہوتی ہے جب نئی دہلی کی سوچ سے عاری حکومت ریاست کے ان اختیارات کو بھی واپس لینے کی کوشش کرتی ہے جو کہ ریاست کو ''اکسیشن ایکٹ'' (الحاق کے قانون) کے تحت حاصل ہیں جو کہ ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق پر ریاست کو دیے گئے تھے۔

شیخ عبداللہ ریاست کے سب سے مقبول لیڈر تھے جنہوں نے ریاست کی آزادی کا معیار بلند کرنے کی خاطر ناقابل بیان مصائب برداشت کیے تھے۔ جب برطانوی اقتدار متزلزل ہو گیا تو اس بات کا فیصلہ ریاست پر چھوڑ دیا گیا کہ چاہے وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے اور چاہے تو آزاد حیثیت اختیار کر لے۔ جموں کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے آزاد رہنے کو ترجیح دی لیکن جب پاکستان کے غیر فوجی دستوں نے ریاست پر چڑہائی کر دی تو مہاراجہ کو بھارت کی مدد لینا پڑی۔

اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقف کو تسلیم نہ کیا کہ وہ ریاست کی آزاد حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور جب مہاراجہ نے بالآخر بھارت سے الحاق کی درخواست کر دی تب بھی نہرو نے اسے قبول نہ کیا بلکہ تمام اختیارات شیخ عبداللہ کو دیدیے گئے۔

مودی کو عمر عبداللہ کے پاس جانا چاہیے کیونکہ وہ ریاست کے عوام کے منتخب لیڈر ہیں۔ بی جے پی کا ایجنڈا مختلف ہے اور مودی کا تاثر بھی وہاں اچھا نہیں ہے لیکن ان دونوں (مودی اور عمر عبداللہ) کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرنا ہو گی تا کہ وہ سلسلہ جنبانی کا آغاز کر سکیں۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنی انتخابی مہم میں مودی نے پاکستان کا ذکر کرنے سے اجتناب کیا۔ کیا وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ مودی کی اس معاملے میں ہم آہنگی کے بغیر مسئلے کا کوئی طویل المدتی حل ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام آباد پورا کشمیر حاصل کرنا چاہتا ہے حتیٰ کہ اس کا وہ حصہ بھی جو نئی دہلی حکومت کے تحت ہے لیکن یہ نہ تو قرین قیاس ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔

عملی صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کنٹرول لائن سے دو حصوں میں منقسم ہے جو کہ ایک اعتبار سے سرحد کا کام کرتی ہے۔ دوسری طرف کشمیری اب اپنی الگ شناخت پر اصرار کر رہے ہیں اور وہ وادی کو ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں۔موجودہ حالات میں اس مسئلہ پر قابو نہیں پایا جا سکتا تاہم اس کو لٹکتا ہوا بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ اس طرح حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ چونکہ دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں لہذا ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید خرابی نہ صرف بھارت اور پاکستان کے لیے بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

میں جو تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس سے نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کی عزت بچ سکتی ہے بلکہ یہ مشکل بھی حل ہو سکتی ہے۔ یہ تجویز کہ کشمیر کو پاکستان سے جوڑ دیا جائے بھارت کے لیے ہر گز قابل قبول نہ ہو گی اور نہ ہی پاکستان ریاست کا بھارت سے منسلک ہونا قبول کرے گا۔ لیکن کشمیریوں کا کیا بنے گا؟


میری تجویز یہ ہے کہ پورے کشمیر کو وہ بھی جو بھارت کے پاس ہے اور وہ جو پاکستان کے پاس ہے آپس میں جوڑ دیا جائے۔ نئی دہلی حکومت کے پاس دفاع اور امور خارجہ کے محکمے رہیں اسی طرح آزاد کشمیر کا دفاع اور امور خارجہ بھی اسلام آباد کے پاس رہے۔

ایسا کرنے سے جنگ بندی لائن بے معنی ہو جائے گی۔ اور دونوں اطراف کے کشمیری دفاع اور امور خارجہ کے علاوہ باقی تمام اختیارات خود استعمال کریں۔ ویسے بھی ایک چھوٹی ریاست کے لیے اپنے دفاع اور امور خارجہ کی حفاظت بہت مشکل ہے۔ ان کے ذمے سیکیورٹی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

حقیقت میں کشمیر کی نئی ریاست کو اپنی دولت ہتھیاروں کے بجائے تعمیر و ترقی پر خرچ کرنی چاہیے۔ کشمیریوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہندو اکثریت والا جموں اور بدھ اکثریت والا لداخ وادی کے تحت رہنا پسند نہیں کریں گے جس کی %95 آبادی مسلمانوں کی ہے۔ بہت سال پہلے جب فوجی ڈکٹیٹر پاکستان پر حکمران تھے آگرہ سربراہ کانفرنس میں ایک فارمولا تلاش کیا گیا تھا تو مشرف نے بھارتی سرزمین پر کشمیر کے بارے میں پہلا بیان یہ دیا تھا کہ اگر کوئی لیڈر کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کر لے گا تو وہ واپس اپنے ملک نہیں جا سکے گا۔

ہم اس بیان کی پاکستان میں حمایت کا اندازہ لگا سکتے ہیں بالخصوص ان بنیاد پرست عناصر کی طرف سے جو 1980ء کی دہائی میں ضیاء الحق کے آمرانہ دور حکومت میں سیاست میں دخل انداز ہو چکے تھے۔ لیکن مشرف کو بھی احساس ہو گیا کہ اگر کوئی بھارتی حکومت کنٹرول لائن کو تبدیل کرنے کی اجازت دے گی تو وہ حکومت بھی اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے حل کو فوجی اقتدار والا ملک تو قبول کر سکتا ہے لیکن جمہوری ملک میں اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی حکومت کا انحصار عوام کے ووٹوں پر ہوتا ہے۔

اگست 1947ء میں اگر جموں و کشمیر پاکستان کے پاس چلے جاتے تو بھارت میں تھوڑی بہت سی مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ہونا تھا۔ بھارتی عوام میں ریاست کشمیر کے پاکستان میں چلے جانے سے زیادہ مسئلہ کھڑا نہیں ہونا تھا۔ لیکن اب 67 سالوں کے بعد آخر بھارت اپنی سرحدوں اور آئین کو بھلا کس طرح تبدیل کر سکتا ہے۔ اس سے اس کی سیاست کو بڑا سخت نقصان پہنچے گا۔ اس سے ممکن ہے کہ بعض ایسے مسائل دوبارہ سر اٹھا لیں جن کو بھارت خون خرابے اور قربانیوں کے ایک طویل عرصے کے بعد طے کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

کنٹرول لائن میں تبدیلی کا مطلب یہ ہو گا کہ جموں اور کشمیر کے علاقے میں دوبارہ تبدیلی کی جائے۔ یعنی مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والی وادی' ہندو اکثریت والا جموں اور بدھسٹوں کی اکثریت والے لداخ میں تبدیلی۔ برصغیر کی تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خراب کر دیے۔ ایک اور تقسیم سے تو گویا قیامت ہی آ جائے گی۔ برصغیر کے عوام کے مفاد میں یہی بہتر ہو گا کہ اس سوال کو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ اس سوال کو دوبارہ کھولنا اور زیادہ مشکلات کھڑی کر دے گا۔ بدقسمتی سے دونوں جانب سیاسی پارٹیوں میں اہل بصیرت نظر نہیں آتے۔

ان کے لیے تو اپنا اقتدار اور ذاتی مفادات ہی فوقیت رکھتے ہیں۔ اور وہ میز پر بیٹھ کر بات کرنے پر بھی تیار نہیں جب کہ دھواں اگلنے والی بندوق کھلی چھوڑ رکھی ہے۔نئی دہلی اور اسلام آباد کو آگرہ فارمولے پر ازسرنو غور کرنا چاہیے اور اس کو قابل عمل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے گو کہ گزشتہ چند سالوں میں اس کی شکل کافی بگڑ چکی ہے۔ یہ کشمیر کے عوام کے لیے مناسب نہیں۔ وزیر اعظم مودی اگر اس مسئلے کا کوئی ممکنہ حل تلاش کر لیتے ہیں تو وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔ کیونکہ ان کی پارٹی بی جے پی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ملک کی اکثریت کے لیے قابل قبول ہو گا۔ خوش قسمتی سے مودی کی ابھی بھی ایک حیثیت ہے۔ انھیں اپنی حیثیت کا استعمال کرنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story