الیکشن
ہمارے پاس سیاسی قیادت کا تقریباًعدم وجودرہاہے۔اس کی وجوہات بھی سیکڑوں ہیں۔
ہم نے قسم کھارکھی ہے کہ کسی بھی سطح پرترقی کاسفرشروع نہیں کرنا'جب قافلے نے پہلی منزل ہی طے نہیں کی توگلہ کس چیزکا۔ملک کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں تو فہرست بنانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔صاحبان!انتہائی آسان۔ کسی عرق ریزی کی ضرورت نہیں۔ملکی مسائل کی لسٹ آپ ایک ریٹرھی بان سے بنوالیجیے یاہارورڈیونیورسٹی کے کسی پروفیسر سے، معاملہ تقریباًایک جیساہی ہوگا۔بلکہ ہوسکتاہے کہ ایک اَن پڑھ شخص قومی مسائل کی گرہوں کی نشاندہی بہترطریقے سے کرے۔ مجھے اپنے ملک کے عمومی شعورکی پختگی پرمکمل یقین ہے۔
ہرحکومت صرف ایک وصف مانگتی ہے اوروہ ہے اندھی اورشخصی وفاداری۔اگرآپ اس شرط پرپورے اترتے ہیں تو تمام گناہ معاف ہیں بلکہ لوٹ مارکرنے کی آزادی دیجائے گی۔میںان افسروںپرحیران ہوں جوہرحکومت کے دست وبازوبننے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔بلکہ اگر آپ ان سے بات کریں تووہ پرانی حکومت سے اپنی وابستگی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہرسیاسی رہنماکوچرب زبانی سے شیشے میں اتارنے کافن خوب جانتے ہیں۔ملک کوبربادکرنے میں ان لوگوں کاکردارکلیدی ہے۔
اس خراب صورتحال سے نکلاجاسکتاہے۔ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہاں، ہم خرابی سے تعمیراور ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔چین،ترکی اورویت نام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ان تمام ممالک میں ترقی کی حیرت انگیزمثال بننے کے لیے ایک عنصریکساں نوعیت کاہے۔وہ ہے" بے لوث سیاسی قیادت" ۔ چین چالیس برس پہلے کیاتھا۔ مگر ایک لیڈر "ڈنگ زیاوپنگ"نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قبلہ کوتبدیل کردیا۔ اس نے فیصلہ کیاکہ چین کونجی تجارت اورکاروبارکے لیے پوری دنیا کے لیے کھول دیا جائیگا۔ صرف تیس سال میں چین نے فقید المثال ترقی کی ہے۔ یہ ایک سیاستدان کادوررس فیصلہ تھا۔
آپ پاکستان کی گزشتہ چاردہائیوں پرتنقیدی نظر دوڑائیے۔آپکوایک چیزکااحساس بڑی شدت سے ہوگا۔ ہمارے پاس سیاسی قیادت کا تقریباًعدم وجودرہاہے۔اس کی وجوہات بھی سیکڑوں ہیں۔ سیاسی نظام کو پنپنے کے مواقع بھی بہت کم دیے گئے۔مگریہ صرف ایک وجہ ہے۔قیادت کس چھلنی سے نکل کرسامنے آسکتی ہے،وہ ہے صرف ایک مستنداورشفاف الیکشن'بدقسمتی سے ہم آج تک کوئی ایساقومی ادارہ تشکیل نہیں دے سکے جو مکمل غیر جانبداری سے الیکشن کرانے کی استطاعت رکھتاہو۔
ہماری کسی بھی ملکی قیادت نے جاندار الیکشن کمیشن بننے ہی نہیں دیا۔اس کی وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ ہر حکومت نے اس ادارہ کواستعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اکثراوقات اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیے۔ یہ وہ بنیادہے جس نے ہمارے سیاسی نظام کوایک انتہائی کمزوراورجھکے ہوئے درخت میں تبدیل کردیا۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے،ہم ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف سفرکرتے رہتے ہیں۔
آپ کسی کوموردالزام ٹھہرانے سے قبل حقیقت پسندی سے کام لیجیے۔آپ ہمسایہ ملک کی ترقی اورسیاسی پختگی کی جانب نظر دوڑائیے۔ آپ کوصاف نظر آجائیگا کہ سیاسی حکومتوں نے تمام ترخرابیوں کے باوجوداپنے الیکشن کروانے والے ادارے کواپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام ترکرپشن اورمسائل کے باوجود آج ہماراہمسایہ ملک اس سطح پرپہنچ چکاہے کہ وہاں الیکشن کو متنازعہ بناناناممکن ہے۔آپ جومرضی کرلیجیے،ہندوستان کا الیکشن کمیشن اتنامضبوط اور طاقتور ہے کہ ہرسیاسی پارٹی اس کے سامنے جھکنے پرمجبورہے۔مگریہ سفر کیسے ہوااورکن کن لوگوں نے اس میں حصہ ڈالا،یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے!
ٹی این سیشن(T.N.Seshan)ہندوستان کی انتظامی سروس(I.A.S)کاافسرتھا۔اسکاتعلق تامل ناڈوسے تھا۔ 1953ء میں اس نے مقابلے کاامتحان دیااور ہندوستان کی پولیس سروس کے لیے اہل قراردیاگیا۔مگروہ پولیس کی نوکری کرنے پرآمادہ نہیں تھا۔اس نے دوبارہ امتحان دیا اور انتظامی سروس میں شامل ہوگیا۔وہ ایک ذہین شخص تھااورپوری سروس کے دورانیے میں اپنی بذلہ سنجی اورحسِ ظرافت سے بھرپور جملوں کے لیے مشہورتھا۔ ٹی این سیشن کا اصل کام اوراصل امتحان بالکل مختلف تھا۔زندگی کے سب سے بڑے کارنامے کی اسکو کوئی تربیت نہیں تھی۔اس نے سوچاتک نہیں تھاکہ وہ ہندوستان کے الیکشن کے نظام کواس حددرجہ بدل دیگاکہ اس کا نام ایک دیومالائی کرداربن جائیگا۔
تھوڑاساذکراس کے کیرئیرکاصرف اس لیے کرناچاہتا ہوں کہ آپکواندازہ ہوجائے کہ سیشن کیساآدمی تھا۔اسے مدراس میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کاانچارج بنایاگیا۔اس کے پاس تین ہزارسرکاری بسیں اورچالیس ہزارکاعملہ تھا۔سیشن نے حیرت انگیزطریقے سے کام کرناشروع کردیا۔وہ ہفتوں سرکاری ورکشاپ میں کام کرتارہا۔اس نے بسوں کے انجن کوٹھیک کرنااوراسے بس میں فٹ کرنے کاکام سیکھ لیا۔وہ ایک ماہرمکینک بن چکاتھا۔وہ اپنے عملہ کوحیران کردیتاتھا۔وہ کئی بارسڑک پرکھڑاہوجاتاتھا۔جیسے ہی کوئی سرکاری بس آتی تھی وہ اسے روک کرچلاناشروع کردیتا تھا۔ سواریاں اسے ڈرائیونگ کرتے دیکھ کرتالیاں بجاناشروع کردیتی تھیں۔وہ ایک بہترین ڈرائیوربھی بن چکاتھا۔
نوے کی دہائی میں چندرشیکھرہندوستان کے وزیراعظم تھے۔انھوں نے سیشن کی اہلیت کودیکھتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن کاسربراہ مقررکردیا۔سیشن چھ سال مسلسل ہندوستان کے اس ادارہ کاسربراہ رہا۔اس نے الیکشن کمیشن کواتنا بااختیار اورفعال بناڈالا،جسکی مثال آج تک کہیں نہیں ملتی۔ جب وہ پہلی باراپنے دفترآیاتواس نے ایک دلچسپ بات کہی۔ ماتحت عملہ کوبلایااوربتایاکہ اسے الیکشن کروانے کے قوانین کابالکل کوئی علم نہیں اورنہ ہی اسے الیکشن کمیشن کے کام کرنے کے طریقہ کارسے کسی قسم کی کوئی واقفیت ہے۔مگراس نے پہلے دن اپنے انتظامی اصول سب کے سامنے رکھ دیے۔وہ تھے"کسی قسم کی کوتاہی اور تاخیرکے بغیرکام کرنا"۔
ہندوستان کے الیکشن میں وہ تمام خرابیاں موجودتھیں جوہمارے نظام میں آج بھی موجودہیں۔سیشن نے سوایسی خرابیوں کی فہرست بنائی جس سے الیکشن پرسیاسی پارٹیاں اثراندازہوتی تھیں۔اس نے محسوس کیاکہ ووٹروں کی فہرستوں میں بہت تضادات ہیں،پولنگ اسٹیشن بھی طاقتورلوگوں نے اپنی مرضی سے بنوارکھے ہیں،الیکشن لڑنے کی مہم میں کوئی بھی امیدوارحکومت کی طرف سے لگائی گئی مالی قدغن پرعمل نہیں کرتااورپولنگ اسٹیشنوں پرمضبوط امیدواراپنے غنڈوں کے ذریعے مرضی سے ووٹنگ کرواتے ہیں۔اس نے یہ بھی دیکھا کہ وزراء اعلیٰ اوروزراء اپنی سرکاری طاقت کوالیکشن جیتنے کے لیے استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ان تمام خرابیوں کو پہچاننے کے بعدجب سیشن نے الیکشن کے قوانین کامطالعہ کیا توحیران رہ گیا۔ان تمام خرابیوں کاعلاج درج شدہ قوانین میں موجودتھا۔سیشن کواندازہ ہوگیاکہ اسے اپنے کام کوموثرطریقے سے اداکرنے کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔اس نے انتہائی دلیرانہ فیصلہ کیا۔اس نے الیکشن کے موجودہ تمام قوانین کوسختی سے نافذکرڈالا۔
اس نے لوک سبھاکے ممبران سے الیکشن کے دوران اخراجات کی تفصیل طلب کرلی۔ہماری طرح لے کرممبران نے لاپرواہی سے اخراجات کی تفصیل جمع کروادی۔سیشن نے ان ممبران کوبلاکران کے سامنے گوشواروں کاجائزہ لیناشروع کردیا۔ لوک سبھاکے کئی ممبران کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں شرکت سے مستقل بنیادوں پرروک دیاگیاکہ ان کے گوشوارے درست نہیںتھے۔ چالیس ہزار گوشوارے جعلی قراردے ڈالے۔ چودہ ہزارلوگوں کوالیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیدیا۔ لوک سبھاکے1488ممبران اور امیدواروں پرتین سال کے لیے الیکشن لڑنے پرپابندی لگا دی۔
جیسے ہی اس نے الیکشن کی فہرستوں کی درستگی کاقدم اٹھایا تو کانگریس سمیت تمام بڑی پارٹیوں نے سیشن پرکڑی تنقیدکرنی شروع کردی۔ سیشن نے حکومت کوحکم دیاکہ مکمل شناختی کارڈ کے بغیرکوئی بندہ حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتا۔اس فیصلہ سے کہرام مچ گیا۔اس نے حکم دیاکہ اگرحکومت تمام ووٹروں کو شناختی کارڈمہیا نہیں کرسکتی،توپورے ہندوستان میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔حکومت کواسکایہ حکم مانناپڑااورہرووٹرکوشناختی کارڈ بناکر دیاگیا۔
سیشن سے پہلے وی ایس رامادیواالیکشن کمیشن کے سربراہ تھے۔وہ ایک نہایت شریف النفس انسان تھے اور جزئیات پربہت زوردیتے تھے۔مگر بروقت فیصلہ نہیں کرپاتے تھے۔انھوں نے ایک اہم کیس میں مہینوں سماعت کی اور 1600صفحات کے نوٹس لیے مگرفیصلہ نہ کرپائے۔ ٹی این سیشن نے وہ کیس ایک دن میں سنااورفیصلہ کرڈالا۔اس نے یہ بھی حکم دیاکہ الیکشن کے دوران پوراریاستی ڈھانچہ کمیشن کے ماتحت ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکارکرڈالا۔
سیشن سپریم کورٹ چلاگیااوروہاں خودپیش ہوکر دلائل دیے۔سپریم کورٹ نے سیشن کے حق میں فیصلہ کردیا۔ وہ پورے ہندوستان میں سب سے مضبوط منتظم بن گیا تھا۔ مگراسکاکوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔وہ سیاست میں بہتری لانے کے لیے سردھڑکی بازی لگانے کے لیے تیارتھا۔آپ اندازہ کیجیے کہ اس نے شکایت ملنے پردوصوبوں میں الیکشن ہی کینسل کردیا۔
سیشن نے اپنے چھ سالہ دورمیں پورے ملک کاالیکشن کانظام انتہائی شفاف بناڈالا۔سیشن آج تقریباًاسی برس کا ہے۔وہ چنائی میں ایک ادارہ میں قیادت پرلیکچر دیتا ہے۔ اس کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔آپ سیشن کی مرتب شدہ مسائل کی فہرست دیکھ لیجیے۔آپ حیران رہ جائینگے کہ ہمارے مسائل اورمشکلات بالکل وہی ہیں۔ ہمارے قوانین میںان تمام مسائل کاحل بھی موجودہے۔مگرکمی ہے تواس جرات مندی کی،جوقوانین کوہرخاص وعام پرلاگو کردے۔
ہمارے پاس کوئی ایساشخص نہیں جومقتدرحلقوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرانھیں بتاسکے کہ وہ غلط فیصلے کررہے ہیں۔ان کے فیصلوں کی بدولت جمہوریت کمزورسے کمزورترہورہی ہے!ہمارے مقتدرحلقے الیکشن کمیشن کوکبھی اتنا مضبوط نہیں بننے دیتے کہ وہ بے لاگ فیصلے کرسکے!اسکانتیجہ بڑاواضح ہے۔ہمارے ملک میں جمہوریت کے پودے کوخودسیاستدان تن آوردرخت بننے سے روک دیتے ہیں۔یہ ایک کمزورساپودابن چکاہے جوچھوٹے سے چھوٹے طوفان کابھی مقابلہ کرنے سے قاصرنظرآتاہے!بلکہ یہ کہنادرست ہوگاکہ ہماری جمہوری نظام کی بیل تو ہوا کے ایک جھونکے سے ہی جڑسے اکھڑتی ہوئی نظرآتی ہے!
ہرحکومت صرف ایک وصف مانگتی ہے اوروہ ہے اندھی اورشخصی وفاداری۔اگرآپ اس شرط پرپورے اترتے ہیں تو تمام گناہ معاف ہیں بلکہ لوٹ مارکرنے کی آزادی دیجائے گی۔میںان افسروںپرحیران ہوں جوہرحکومت کے دست وبازوبننے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔بلکہ اگر آپ ان سے بات کریں تووہ پرانی حکومت سے اپنی وابستگی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہرسیاسی رہنماکوچرب زبانی سے شیشے میں اتارنے کافن خوب جانتے ہیں۔ملک کوبربادکرنے میں ان لوگوں کاکردارکلیدی ہے۔
اس خراب صورتحال سے نکلاجاسکتاہے۔ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہاں، ہم خرابی سے تعمیراور ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔چین،ترکی اورویت نام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ان تمام ممالک میں ترقی کی حیرت انگیزمثال بننے کے لیے ایک عنصریکساں نوعیت کاہے۔وہ ہے" بے لوث سیاسی قیادت" ۔ چین چالیس برس پہلے کیاتھا۔ مگر ایک لیڈر "ڈنگ زیاوپنگ"نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قبلہ کوتبدیل کردیا۔ اس نے فیصلہ کیاکہ چین کونجی تجارت اورکاروبارکے لیے پوری دنیا کے لیے کھول دیا جائیگا۔ صرف تیس سال میں چین نے فقید المثال ترقی کی ہے۔ یہ ایک سیاستدان کادوررس فیصلہ تھا۔
آپ پاکستان کی گزشتہ چاردہائیوں پرتنقیدی نظر دوڑائیے۔آپکوایک چیزکااحساس بڑی شدت سے ہوگا۔ ہمارے پاس سیاسی قیادت کا تقریباًعدم وجودرہاہے۔اس کی وجوہات بھی سیکڑوں ہیں۔ سیاسی نظام کو پنپنے کے مواقع بھی بہت کم دیے گئے۔مگریہ صرف ایک وجہ ہے۔قیادت کس چھلنی سے نکل کرسامنے آسکتی ہے،وہ ہے صرف ایک مستنداورشفاف الیکشن'بدقسمتی سے ہم آج تک کوئی ایساقومی ادارہ تشکیل نہیں دے سکے جو مکمل غیر جانبداری سے الیکشن کرانے کی استطاعت رکھتاہو۔
ہماری کسی بھی ملکی قیادت نے جاندار الیکشن کمیشن بننے ہی نہیں دیا۔اس کی وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ ہر حکومت نے اس ادارہ کواستعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اکثراوقات اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیے۔ یہ وہ بنیادہے جس نے ہمارے سیاسی نظام کوایک انتہائی کمزوراورجھکے ہوئے درخت میں تبدیل کردیا۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے،ہم ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف سفرکرتے رہتے ہیں۔
آپ کسی کوموردالزام ٹھہرانے سے قبل حقیقت پسندی سے کام لیجیے۔آپ ہمسایہ ملک کی ترقی اورسیاسی پختگی کی جانب نظر دوڑائیے۔ آپ کوصاف نظر آجائیگا کہ سیاسی حکومتوں نے تمام ترخرابیوں کے باوجوداپنے الیکشن کروانے والے ادارے کواپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام ترکرپشن اورمسائل کے باوجود آج ہماراہمسایہ ملک اس سطح پرپہنچ چکاہے کہ وہاں الیکشن کو متنازعہ بناناناممکن ہے۔آپ جومرضی کرلیجیے،ہندوستان کا الیکشن کمیشن اتنامضبوط اور طاقتور ہے کہ ہرسیاسی پارٹی اس کے سامنے جھکنے پرمجبورہے۔مگریہ سفر کیسے ہوااورکن کن لوگوں نے اس میں حصہ ڈالا،یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے!
ٹی این سیشن(T.N.Seshan)ہندوستان کی انتظامی سروس(I.A.S)کاافسرتھا۔اسکاتعلق تامل ناڈوسے تھا۔ 1953ء میں اس نے مقابلے کاامتحان دیااور ہندوستان کی پولیس سروس کے لیے اہل قراردیاگیا۔مگروہ پولیس کی نوکری کرنے پرآمادہ نہیں تھا۔اس نے دوبارہ امتحان دیا اور انتظامی سروس میں شامل ہوگیا۔وہ ایک ذہین شخص تھااورپوری سروس کے دورانیے میں اپنی بذلہ سنجی اورحسِ ظرافت سے بھرپور جملوں کے لیے مشہورتھا۔ ٹی این سیشن کا اصل کام اوراصل امتحان بالکل مختلف تھا۔زندگی کے سب سے بڑے کارنامے کی اسکو کوئی تربیت نہیں تھی۔اس نے سوچاتک نہیں تھاکہ وہ ہندوستان کے الیکشن کے نظام کواس حددرجہ بدل دیگاکہ اس کا نام ایک دیومالائی کرداربن جائیگا۔
تھوڑاساذکراس کے کیرئیرکاصرف اس لیے کرناچاہتا ہوں کہ آپکواندازہ ہوجائے کہ سیشن کیساآدمی تھا۔اسے مدراس میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کاانچارج بنایاگیا۔اس کے پاس تین ہزارسرکاری بسیں اورچالیس ہزارکاعملہ تھا۔سیشن نے حیرت انگیزطریقے سے کام کرناشروع کردیا۔وہ ہفتوں سرکاری ورکشاپ میں کام کرتارہا۔اس نے بسوں کے انجن کوٹھیک کرنااوراسے بس میں فٹ کرنے کاکام سیکھ لیا۔وہ ایک ماہرمکینک بن چکاتھا۔وہ اپنے عملہ کوحیران کردیتاتھا۔وہ کئی بارسڑک پرکھڑاہوجاتاتھا۔جیسے ہی کوئی سرکاری بس آتی تھی وہ اسے روک کرچلاناشروع کردیتا تھا۔ سواریاں اسے ڈرائیونگ کرتے دیکھ کرتالیاں بجاناشروع کردیتی تھیں۔وہ ایک بہترین ڈرائیوربھی بن چکاتھا۔
نوے کی دہائی میں چندرشیکھرہندوستان کے وزیراعظم تھے۔انھوں نے سیشن کی اہلیت کودیکھتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن کاسربراہ مقررکردیا۔سیشن چھ سال مسلسل ہندوستان کے اس ادارہ کاسربراہ رہا۔اس نے الیکشن کمیشن کواتنا بااختیار اورفعال بناڈالا،جسکی مثال آج تک کہیں نہیں ملتی۔ جب وہ پہلی باراپنے دفترآیاتواس نے ایک دلچسپ بات کہی۔ ماتحت عملہ کوبلایااوربتایاکہ اسے الیکشن کروانے کے قوانین کابالکل کوئی علم نہیں اورنہ ہی اسے الیکشن کمیشن کے کام کرنے کے طریقہ کارسے کسی قسم کی کوئی واقفیت ہے۔مگراس نے پہلے دن اپنے انتظامی اصول سب کے سامنے رکھ دیے۔وہ تھے"کسی قسم کی کوتاہی اور تاخیرکے بغیرکام کرنا"۔
ہندوستان کے الیکشن میں وہ تمام خرابیاں موجودتھیں جوہمارے نظام میں آج بھی موجودہیں۔سیشن نے سوایسی خرابیوں کی فہرست بنائی جس سے الیکشن پرسیاسی پارٹیاں اثراندازہوتی تھیں۔اس نے محسوس کیاکہ ووٹروں کی فہرستوں میں بہت تضادات ہیں،پولنگ اسٹیشن بھی طاقتورلوگوں نے اپنی مرضی سے بنوارکھے ہیں،الیکشن لڑنے کی مہم میں کوئی بھی امیدوارحکومت کی طرف سے لگائی گئی مالی قدغن پرعمل نہیں کرتااورپولنگ اسٹیشنوں پرمضبوط امیدواراپنے غنڈوں کے ذریعے مرضی سے ووٹنگ کرواتے ہیں۔اس نے یہ بھی دیکھا کہ وزراء اعلیٰ اوروزراء اپنی سرکاری طاقت کوالیکشن جیتنے کے لیے استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ان تمام خرابیوں کو پہچاننے کے بعدجب سیشن نے الیکشن کے قوانین کامطالعہ کیا توحیران رہ گیا۔ان تمام خرابیوں کاعلاج درج شدہ قوانین میں موجودتھا۔سیشن کواندازہ ہوگیاکہ اسے اپنے کام کوموثرطریقے سے اداکرنے کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔اس نے انتہائی دلیرانہ فیصلہ کیا۔اس نے الیکشن کے موجودہ تمام قوانین کوسختی سے نافذکرڈالا۔
اس نے لوک سبھاکے ممبران سے الیکشن کے دوران اخراجات کی تفصیل طلب کرلی۔ہماری طرح لے کرممبران نے لاپرواہی سے اخراجات کی تفصیل جمع کروادی۔سیشن نے ان ممبران کوبلاکران کے سامنے گوشواروں کاجائزہ لیناشروع کردیا۔ لوک سبھاکے کئی ممبران کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں شرکت سے مستقل بنیادوں پرروک دیاگیاکہ ان کے گوشوارے درست نہیںتھے۔ چالیس ہزار گوشوارے جعلی قراردے ڈالے۔ چودہ ہزارلوگوں کوالیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیدیا۔ لوک سبھاکے1488ممبران اور امیدواروں پرتین سال کے لیے الیکشن لڑنے پرپابندی لگا دی۔
جیسے ہی اس نے الیکشن کی فہرستوں کی درستگی کاقدم اٹھایا تو کانگریس سمیت تمام بڑی پارٹیوں نے سیشن پرکڑی تنقیدکرنی شروع کردی۔ سیشن نے حکومت کوحکم دیاکہ مکمل شناختی کارڈ کے بغیرکوئی بندہ حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتا۔اس فیصلہ سے کہرام مچ گیا۔اس نے حکم دیاکہ اگرحکومت تمام ووٹروں کو شناختی کارڈمہیا نہیں کرسکتی،توپورے ہندوستان میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔حکومت کواسکایہ حکم مانناپڑااورہرووٹرکوشناختی کارڈ بناکر دیاگیا۔
سیشن سے پہلے وی ایس رامادیواالیکشن کمیشن کے سربراہ تھے۔وہ ایک نہایت شریف النفس انسان تھے اور جزئیات پربہت زوردیتے تھے۔مگر بروقت فیصلہ نہیں کرپاتے تھے۔انھوں نے ایک اہم کیس میں مہینوں سماعت کی اور 1600صفحات کے نوٹس لیے مگرفیصلہ نہ کرپائے۔ ٹی این سیشن نے وہ کیس ایک دن میں سنااورفیصلہ کرڈالا۔اس نے یہ بھی حکم دیاکہ الیکشن کے دوران پوراریاستی ڈھانچہ کمیشن کے ماتحت ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکارکرڈالا۔
سیشن سپریم کورٹ چلاگیااوروہاں خودپیش ہوکر دلائل دیے۔سپریم کورٹ نے سیشن کے حق میں فیصلہ کردیا۔ وہ پورے ہندوستان میں سب سے مضبوط منتظم بن گیا تھا۔ مگراسکاکوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔وہ سیاست میں بہتری لانے کے لیے سردھڑکی بازی لگانے کے لیے تیارتھا۔آپ اندازہ کیجیے کہ اس نے شکایت ملنے پردوصوبوں میں الیکشن ہی کینسل کردیا۔
سیشن نے اپنے چھ سالہ دورمیں پورے ملک کاالیکشن کانظام انتہائی شفاف بناڈالا۔سیشن آج تقریباًاسی برس کا ہے۔وہ چنائی میں ایک ادارہ میں قیادت پرلیکچر دیتا ہے۔ اس کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔آپ سیشن کی مرتب شدہ مسائل کی فہرست دیکھ لیجیے۔آپ حیران رہ جائینگے کہ ہمارے مسائل اورمشکلات بالکل وہی ہیں۔ ہمارے قوانین میںان تمام مسائل کاحل بھی موجودہے۔مگرکمی ہے تواس جرات مندی کی،جوقوانین کوہرخاص وعام پرلاگو کردے۔
ہمارے پاس کوئی ایساشخص نہیں جومقتدرحلقوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرانھیں بتاسکے کہ وہ غلط فیصلے کررہے ہیں۔ان کے فیصلوں کی بدولت جمہوریت کمزورسے کمزورترہورہی ہے!ہمارے مقتدرحلقے الیکشن کمیشن کوکبھی اتنا مضبوط نہیں بننے دیتے کہ وہ بے لاگ فیصلے کرسکے!اسکانتیجہ بڑاواضح ہے۔ہمارے ملک میں جمہوریت کے پودے کوخودسیاستدان تن آوردرخت بننے سے روک دیتے ہیں۔یہ ایک کمزورساپودابن چکاہے جوچھوٹے سے چھوٹے طوفان کابھی مقابلہ کرنے سے قاصرنظرآتاہے!بلکہ یہ کہنادرست ہوگاکہ ہماری جمہوری نظام کی بیل تو ہوا کے ایک جھونکے سے ہی جڑسے اکھڑتی ہوئی نظرآتی ہے!