برداشت اور رواداری کا خوش آئند مظاہرہ
بلاشبہ پاکستان اپنی تاریخ کے نہایت چونکا دینے والے سیاسی دورانئے کے سبق آموز اور فیصلہ کن موڑ پرآ گیا ہے۔
لاہور:
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کے خلاف جوڈیشل کمیشن تحقیقات کرے گا، دھاندلی میں ملوث افراد کو سزائیں دلوائیں گے، ملک میں نیا الیکشن ہو گا اور اس الیکشن کے نتیجے میں انھیں نیا پاکستان بنتا نظر آ رہا ہے، لاہور والے تیار ہو جائیں،15 دسمبر کوآ رہا ہوں، حکومت کے خلاف تاریخی احتجاج کریں گے۔ وہ جمعہ کو نرسری شاہراہ فیصل پر تحریک انصاف کے مرکزی دھرنے کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ کل 15 دسمبر کو لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
معروضی سچائی یہ ہے کہ ملک کے فرسودہ اور اشرافیائی نظام کے خاتمے پر کوئی دو رائے نہیں جب کہ عوامی امنگوں اور گراں بار مسائل کے حل کی ٹھوس ضمانتوں سے ہم آہنگ ایک ایسے شفاف، منصفانہ اور انصاف و مساوات سے مشروط سیاسی، سماجی و معاشی نظام کی ضرورت ہے جسے عوام کی اکثریت اپنی محرومیوں اور جمہوری ثمرات کا ناگزیر نتیجہ اور متبادل قرار دے۔ اس تناظر میں بلاشبہ پاکستان اپنی تاریخ کے نہایت چونکا دینے والے سیاسی دورانئے کے سبق آموز اور فیصلہ کن موڑ پرآ گیا ہے۔
اس لیے سیاست دانوں کے جو سیاسی اقدامات اور پروگرام ہیں وہ زمینی حقائق اور ملکی سماجی و معاشی ضروریات سے منسلک ہونے لازمی ہیں۔ بعض مبصرین جو سیاسی، معاشی اور داخلی استحکام و مذاکراتی عمل کے میکنزم پر یقین رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عمران کی جگہ کوئی دوسرا بھی ملکی حالات کی سنگینی کا چرچا کرتا تو اس کے طریقہ کار سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ کسی خیالی پلاؤ، کھل جا سم سم یا لب بستگی سے ممکن نہیں، ان کے بقول شور ہونا چاہیے، چاہے دار و رسن کی زنجیروں کا ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جمعے کو پلان سی کے تحت کراچی میں 28 سے زائد مقامات اور شاہراہیں بند اور بعض پر احتجاجی دھرنے دیے گئے جس کے باعث کراچی میں معمولات زندگی بری طرح متاثر رہے، احتجاج کے باعث بیشتر مارکیٹیں بند رہیں، ٹرانسپورٹ بند رکھی گئی، ٹریفک معمول سے انتہائی کم رہا، شہری اپنے دفاتر اور فیکٹریوں کو نہیں پہنچ سکے، صنعتی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو گئیں، تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام نے کامیاب ہڑتال کر کے اس بات کا فیصلہ دے دیا کہ کراچی عمران خان کے ساتھ ہے۔ دریں اثنا وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے بتایا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ ایسے مذاکرات کی امید کر رہی ہے جو سب کے لیے مثبت نتائج دے۔
تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف میں باقاعدہ مذاکراتی عمل کی کامیابی کا انحصار حکومتی رویہ پر ہے۔ اگر حکومت جوڈیشل کمیشن قائم کر دیتی ہے تو تحریک انصاف ملک گیر احتجاج کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد روک دے گی، جمعہ کو کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا مذاکرات کریں گے لیکن عوام کے حقوق کا سودا نہیں کرینگے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ آج (اتوار کو) اسد عمر حکومتی نمائندوں سے ملاقات کرینگے جس میں مذاکراتی عمل آگے بڑھانے پر غور کیا جائیگا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عوام اس وقت جج کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو شہر بند کرنے سے نقصان ہوا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات جلد ہوں، سپریم کورٹ خود اپنے ٹی او آر بنائے اور یہ بات بھی سامنے آئے کہ دھاندلی کیسے ہوئی اس سے کہیں انتخابی مینڈیٹ پر فرق پڑا ہے کہ نہیں۔ ادھر وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں پولیس نے کسی جگہ تشدد نہیں کیا، کراچی میں احتجاج کے دوران پولیس اور حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ مکمل تعاون کیا، تحریک انصاف نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، 9 مقامات کا کہہ کر 25 سے زائد مقامات پر احتجاج کر کے روڈ بلاک کیا، احتجاج کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بعض مقامات پر مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تاہم یہ مسلمہ امر ہے کہ آئینی و جمہوری احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور سیاسی و معاشی مسائل کے حل کے لیے کسی کو تو طبل جنگ بجانا ہی پڑے گا۔ مگر یہ فیصلہ کی سنجیدہ گھڑی بھی ہے، چنانچہ وہ سیاسی قوتیں جو انقلاب و آزادی اور سیاسی نظام کی جگہ نئے پاکستان کی بشارت دے رہی ہیں وہ قوم کو اس کے جمہوری خوابوں کی حقیقی تعبیر دلائیں۔ انقلابی تبدیلی جوئے شیر لانے کے برابر ہے، پاکستان ایک کثیر قومی اور وسیع المشرب سماجی نظام سے مشروط ہے، اس لیے قوم پر واضح ہونا چاہیے کہ اس کے نصیب میں کون سا انقلاب لکھا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت، اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی سب مل کر وقت کی نزاکت کا ادراک کریں۔ مذاکرات کا نتیجہ خیز سیاسی مفاہمت تک پہنچنا ضروری ہے۔
بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے، جس کا فیصلہ وقت نہیں بلکہ قومی ایشوز پر درد مند دل رکھنے والے سیاسی قائدین اور اس ساری معروضی صورتحال کے ذمے دار شراکت دار ہی کریں گے۔ مبصرین کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا اس حوالے سے ایک نئی روایت بن گیا کہ پورے دن سڑکیں اور کاروبار کی بندش کے باوجود نہ کوئی گاڑی جلی، نہ کہیں فائرنگ ہوئی اور نہ کوئی زخمی ہوا، ساتھ ہی سندھ حکومت کا طرز عمل بھی زیر بحث آیا۔
اگرچہ کراچی کی حساس صورتحال اور فیصل آباد میں گھیراؤ جلاؤ کے تناظر میں خدشہ تھا کہ کراچی میں حالات مزید کشیدہ نہ ہو جائیں لیکن سندھ حکومت کی بہترین حکمت عملی سے حالات کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت کی حکمت عملی یہ رہی کہ اس نے تحریک انصاف کے احتجاج کو کہیں بھی روکنے کی کوشش نہیں کی اور پولیس نے صرف حفاظتی اقدامات پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ پیپلز پارٹی سندھ کے عہدیداروں نے بھی کسی قسم کا کوئی جذباتی یا اشتعال انگیز بیان نہیں دیا جس وجہ سے سیاسی فضاء کشیدہ نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کی طرف سے بھی اسے خاموش گرین سگنل مل چکا تھا۔ یہ ایک نئے روادارانہ سیاسی ارتقا کی نشانی اور علامت ہے۔ قوم سیاست دانوں سے اسی سیاسی بلوغت اور فکری سنجیدگی کی توقع رکھتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کے خلاف جوڈیشل کمیشن تحقیقات کرے گا، دھاندلی میں ملوث افراد کو سزائیں دلوائیں گے، ملک میں نیا الیکشن ہو گا اور اس الیکشن کے نتیجے میں انھیں نیا پاکستان بنتا نظر آ رہا ہے، لاہور والے تیار ہو جائیں،15 دسمبر کوآ رہا ہوں، حکومت کے خلاف تاریخی احتجاج کریں گے۔ وہ جمعہ کو نرسری شاہراہ فیصل پر تحریک انصاف کے مرکزی دھرنے کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ کل 15 دسمبر کو لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
معروضی سچائی یہ ہے کہ ملک کے فرسودہ اور اشرافیائی نظام کے خاتمے پر کوئی دو رائے نہیں جب کہ عوامی امنگوں اور گراں بار مسائل کے حل کی ٹھوس ضمانتوں سے ہم آہنگ ایک ایسے شفاف، منصفانہ اور انصاف و مساوات سے مشروط سیاسی، سماجی و معاشی نظام کی ضرورت ہے جسے عوام کی اکثریت اپنی محرومیوں اور جمہوری ثمرات کا ناگزیر نتیجہ اور متبادل قرار دے۔ اس تناظر میں بلاشبہ پاکستان اپنی تاریخ کے نہایت چونکا دینے والے سیاسی دورانئے کے سبق آموز اور فیصلہ کن موڑ پرآ گیا ہے۔
اس لیے سیاست دانوں کے جو سیاسی اقدامات اور پروگرام ہیں وہ زمینی حقائق اور ملکی سماجی و معاشی ضروریات سے منسلک ہونے لازمی ہیں۔ بعض مبصرین جو سیاسی، معاشی اور داخلی استحکام و مذاکراتی عمل کے میکنزم پر یقین رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عمران کی جگہ کوئی دوسرا بھی ملکی حالات کی سنگینی کا چرچا کرتا تو اس کے طریقہ کار سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ کسی خیالی پلاؤ، کھل جا سم سم یا لب بستگی سے ممکن نہیں، ان کے بقول شور ہونا چاہیے، چاہے دار و رسن کی زنجیروں کا ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جمعے کو پلان سی کے تحت کراچی میں 28 سے زائد مقامات اور شاہراہیں بند اور بعض پر احتجاجی دھرنے دیے گئے جس کے باعث کراچی میں معمولات زندگی بری طرح متاثر رہے، احتجاج کے باعث بیشتر مارکیٹیں بند رہیں، ٹرانسپورٹ بند رکھی گئی، ٹریفک معمول سے انتہائی کم رہا، شہری اپنے دفاتر اور فیکٹریوں کو نہیں پہنچ سکے، صنعتی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو گئیں، تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام نے کامیاب ہڑتال کر کے اس بات کا فیصلہ دے دیا کہ کراچی عمران خان کے ساتھ ہے۔ دریں اثنا وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے بتایا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ ایسے مذاکرات کی امید کر رہی ہے جو سب کے لیے مثبت نتائج دے۔
تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف میں باقاعدہ مذاکراتی عمل کی کامیابی کا انحصار حکومتی رویہ پر ہے۔ اگر حکومت جوڈیشل کمیشن قائم کر دیتی ہے تو تحریک انصاف ملک گیر احتجاج کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد روک دے گی، جمعہ کو کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا مذاکرات کریں گے لیکن عوام کے حقوق کا سودا نہیں کرینگے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ آج (اتوار کو) اسد عمر حکومتی نمائندوں سے ملاقات کرینگے جس میں مذاکراتی عمل آگے بڑھانے پر غور کیا جائیگا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عوام اس وقت جج کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو شہر بند کرنے سے نقصان ہوا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات جلد ہوں، سپریم کورٹ خود اپنے ٹی او آر بنائے اور یہ بات بھی سامنے آئے کہ دھاندلی کیسے ہوئی اس سے کہیں انتخابی مینڈیٹ پر فرق پڑا ہے کہ نہیں۔ ادھر وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں پولیس نے کسی جگہ تشدد نہیں کیا، کراچی میں احتجاج کے دوران پولیس اور حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ مکمل تعاون کیا، تحریک انصاف نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، 9 مقامات کا کہہ کر 25 سے زائد مقامات پر احتجاج کر کے روڈ بلاک کیا، احتجاج کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بعض مقامات پر مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تاہم یہ مسلمہ امر ہے کہ آئینی و جمہوری احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور سیاسی و معاشی مسائل کے حل کے لیے کسی کو تو طبل جنگ بجانا ہی پڑے گا۔ مگر یہ فیصلہ کی سنجیدہ گھڑی بھی ہے، چنانچہ وہ سیاسی قوتیں جو انقلاب و آزادی اور سیاسی نظام کی جگہ نئے پاکستان کی بشارت دے رہی ہیں وہ قوم کو اس کے جمہوری خوابوں کی حقیقی تعبیر دلائیں۔ انقلابی تبدیلی جوئے شیر لانے کے برابر ہے، پاکستان ایک کثیر قومی اور وسیع المشرب سماجی نظام سے مشروط ہے، اس لیے قوم پر واضح ہونا چاہیے کہ اس کے نصیب میں کون سا انقلاب لکھا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت، اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی سب مل کر وقت کی نزاکت کا ادراک کریں۔ مذاکرات کا نتیجہ خیز سیاسی مفاہمت تک پہنچنا ضروری ہے۔
بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے، جس کا فیصلہ وقت نہیں بلکہ قومی ایشوز پر درد مند دل رکھنے والے سیاسی قائدین اور اس ساری معروضی صورتحال کے ذمے دار شراکت دار ہی کریں گے۔ مبصرین کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا اس حوالے سے ایک نئی روایت بن گیا کہ پورے دن سڑکیں اور کاروبار کی بندش کے باوجود نہ کوئی گاڑی جلی، نہ کہیں فائرنگ ہوئی اور نہ کوئی زخمی ہوا، ساتھ ہی سندھ حکومت کا طرز عمل بھی زیر بحث آیا۔
اگرچہ کراچی کی حساس صورتحال اور فیصل آباد میں گھیراؤ جلاؤ کے تناظر میں خدشہ تھا کہ کراچی میں حالات مزید کشیدہ نہ ہو جائیں لیکن سندھ حکومت کی بہترین حکمت عملی سے حالات کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت کی حکمت عملی یہ رہی کہ اس نے تحریک انصاف کے احتجاج کو کہیں بھی روکنے کی کوشش نہیں کی اور پولیس نے صرف حفاظتی اقدامات پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ پیپلز پارٹی سندھ کے عہدیداروں نے بھی کسی قسم کا کوئی جذباتی یا اشتعال انگیز بیان نہیں دیا جس وجہ سے سیاسی فضاء کشیدہ نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کی طرف سے بھی اسے خاموش گرین سگنل مل چکا تھا۔ یہ ایک نئے روادارانہ سیاسی ارتقا کی نشانی اور علامت ہے۔ قوم سیاست دانوں سے اسی سیاسی بلوغت اور فکری سنجیدگی کی توقع رکھتی ہے۔