اینٹی کرپشن اور حقوق انسانی کے دن
پاکستان کرپشن کے حوالے سے اپنی تاریخ کے سب سے بہتر درجے پر آیا ہے جو یقینا ایک بہت خوش آئند بات ہے۔
9 دسمبر اینٹی کرپشن کے عالمی دن کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے لیکن سال کے باقی 364 دنوں میں کیا ہوتا ہے اس پر شاید ہی سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہو۔ اتفاق سے یہ صورتحال ان تمام دنوں کے بارے میں بھی ہے جنھیں ہم مقامی، قومی یا عالمی سطح پر مناتے ہیں۔ محترم بزرگ دوست سید ضمیر جعفری مرحوم نے یوم اقبال کے حوالے سے ہمارے اس رویے کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ
بپا ہم سال میں ایک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے وہ قوّال کرتے ہیں
قومی احتساب بیورو یعنی NAB نے اس ضمن میں اس بار ملک بھر میں بہت سی تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کیا ہے جو یقینا ایک خوش آئند بات ہے کہ اس کا سب سے زیادہ حق بھی اسی محکمے کو پہنچتا ہے۔ چند دن قبل مجھے لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی ایک ایسی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جس کا ایک حصہ NAB کی انسداد بدعنوانی مہم سے متعلق تھا لیکن جس سیمینار کا اہتمام واپڈا کے چیئرمین برادرم ظفر محمود نے کیا وہ ہر اعتبار سے انفرادیت اور اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں چیئرمین نیب قمرالزماں صاحب سمیت محکمے کے بیشتر اعلیٰ افسران شامل تھے جن کا اجتماعی نعرہ اور پیغام ہے کہ
Say No to Corruption
بلا شبہ یہ پیغام بہت بامقصد اور جلد زبان پر چڑھ جانے والا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا عملی طور پر بھی ہمارا معاشرہ اس پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ اس سوال کا ایک جواب انور مسعود کے اس مشہور قطعے میں مل سکتا ہے کہ
ایک ہی دن میں بارہ ارب کی
کوئی کرپشن کر کے دکھائے
اس دُنیا میں ہے کوئی ہم سا
ہم سا ہو تو سامنے آئے!
خطاب تو اس اجتماع سے مجھ سمیت تقریباً سات احباب نے کیا جن میں میزبان ظفر محمود اور مہمان خاص قمرالزماں صاحب بھی شامل تھے اور کم و بیش سب نے ہی بڑے مؤثر انداز میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی مگر محترمہ ناصرہ جاوید اقبال اور برادرم مجیب الرحمن شامی نے ذاتی تجربات اور تاثرات کے حوالے سے چند ایسی باتیں بھی کیں جن میں مسئلے اور اس کے حل دونوں کو موضوع بنایا تھا۔ شامی صاحب نے وطن عزیز کے پہلے پچیس تیس برسوں کو کرپشن کی کمی کے حوالے سے بہتر اور مثالی زمانہ قرار دیا جب کہ ناصرہ بی بی نے اس کا نقطۂ آغاز ایوب خان کے زمانے کو قرار دیا جس میں اقربا پروری کی لعنت نے کچھ اس طرح سے ہمارا گھر دیکھ لیا کہ اب یہ بلا جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
جب کہ اس ضمن میں 11 اگست 1947ء کے اس تاریخی خطاب کا ذکر بھی آیا جس میں قائداعظم نے کرپشن رشوت اور بدعنوانی کو اس طرح سے زہر قاتل سے تشبیہ دے کر ان سے بچنے کی تلقین کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 1995ء کے بعد سے یعنی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے قیام سے اب تک پہلی بار پاکستان کرپشن کے حوالے سے اپنی تاریخ کے سب سے بہتر درجے پر آیا ہے جو یقینا ایک بہت خوش آئند بات ہے لیکن جب اس تاریخی اعتبار سے مثالی نمبر پر نظرثانی کرنی پڑتی ہے تو کچھ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی سی صورتحال بن جاتی ہے کہ یہ نمبر 126 ہے یعنی تقریباً سوا سو ممالک بدعنوانی کی سطح کے حوالے سے ہم سے نیچے ہیں۔ اس طرح کے تقابل پر پتہ نہیں کیوں مجھے اپنے ایک دوست کا جملہ یاد آ رہا ہے۔ جب وہ پہلی بار نانا بنے تو مبارکیں وصول کرنے کے دوران ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ انھیں خود ''نانا'' بننا کیسا لگ رہا ہے۔ انھوں نے تھوڑی دیر سر کو کھجایا اور پھر مسکراتے ہوئے بولے ''یار نانا بننا تو بہت اچھا لگ رہا ہے مگر یہ سوچ کر پریشانی بھی ہو رہی ہے کہ میں ایک عدد ''نانی'' کا شوہر ہوں۔
ان تقریروں اور بعد میں کی جانے والی غیر رسمی باتوں سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ NAB کا نام اصل میں اسپتال کے سرجن کا سا ہے کہ مریض یعنی معاشرے کے جو حصے گل سڑ جائیں یا کسی ایسی انفیکشن اور بیماری کا شکار ہو جائیں جو اس کے وجود کو اندر سے کھاتی چلی جا رہی ہو تو معاشرہ مریض کے ساتھ ساتھ فزیشن کا رول بھی ادا کرتا ہے یعنی اس کے ذمے اس انفکیشن کی تشخیص اور اس کا علاج بھی لگ جاتے ہیں تا کہ وہ پھوڑے اور زخم کم سے کم بن پائیں جن کے آپریشن کے لیے نیب جیسے سرجن بنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اگر غور سے دیکھا جائے تو اس بیمار کرنے والی انفکیشن کی مندرجہ ذیل دس وجوہات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔
-1 جہالت
-2 لالچ
-3 بے محابا قسم کی خواہشات
-4 انصاف کی کمی
-5 ڈبل اسٹینڈرڈز یعنی زندگی کے دوہرے معیارات
-6 بھیڑچال
-7 خوف خدا کی کمی
-8 اخلاقی اقدار کا زوال
-9 طبقاتی تقسیم
-10 الیکٹرانک میڈیا کا منفی کردار
یہ دس کی دس وجوہات ایسی ہیں جن کا تعلق ہم سب سے، یعنی معاشرے سے ہے اس میں شک نہیں کہ بدعنوانی رشوت اور کرپشن، دنیا کے ہر معاشرے میں کسی نہ کسی شکل اور سطح پر پائی جاتی ہے اور تاریخ کے صفحات بھی اس سے بھرے پڑے ہیں مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ان برائیوں سے ایک طرح کا سمجھوتہ کر لیا ہے جس کی ایک صورت دلاور فگار مرحوم کے اس مصرعے میں دیکھی جا سکتی ہے کہ
''لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کر رشوت چھوٹ جا''
جہاں تک اس سرتاپا بدعنوانی زدہ ماحول کا تعلق ہے جس میں ہم سب سانس لے رہے ہیں تو بلاشبہ اسے راتوں رات بدلنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں عمومی سطح پر ہم مسلمانوں کے سات سو سالہ خواب غفلت کے اثرات کے ساتھ ساتھ انگریز کی دو سو سالہ غلامی کا وہ دور بھی شامل ہے جس نے ہمیں آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ہے کہ ہم نہ تو ان کی انداز حیات کو پورے طور پر اپنانے کے اہل اور خواہش مند ہیں اور نہ ہی ہمارے اپنے ماضی کی قدریں اور اصول عملی طور پر ہماری زندگیوں میں کہیں موجود ہیں۔
ہاں البتہ ان کی یاد اور ایک تصوراتی نوع کا تعلق ضرور ہے جس سے ہم عام طور پر صرف خود فریبی کا کام لیتے ہیں بقول شخصے ہم وہ بے اصول اور بے ٹھکانہ لوگ ہیں جن کے دل تو امام حسینؓ کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر تلواریں سپاہ یزید کی طرف ہیں۔ اس طویل غلامی اور غفلت کے دور نے ہم سے ہمارے آدرش اور خواب تک چھین لیے ہیں۔ سو ہم نے ماضی سے کٹ کر اور مستقبل سے بے نیاز ہو کر صرف ''آج'' کے دن ہی زندہ رہنا سیکھ لیا ہے اور آج میں زندہ رہنے والے نہ تو اپنے ضمیر کو جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس دنیا کے متلاشی، جہاں زندگی صرف سانسوں کی گنتی پوری کرنے کا نام نہ ہو۔
ہمارے اس ذہنی رویے نے مندرجہ بالا دس میں سے نو خرابیوں کے پودوں کی آبیاری کی ہے لیکن ان سب کو زیادہ منظم اور تباہ کن بنانے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا منفی کردار سب سے زیادہ اور فوری توجہ کا حامل ہے کہ پی ٹی وی کے زوال اور پرائیویٹ چینلز کے فروغ نے (نادانستہ طور پر ہی سہی) ان تمام معاشرتی برائیوں اور رویوں کو اس طرح سے تقویت دی ہے کہ ان کے پیدا کردہ گلیمر کی چکا چوند نے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا دی ہیں اور انھوں نے برائی کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
انسانی اور پیداواری رشتے ہوں یا نظام اقدار، اصولوں کا احترام ہو یا عمومی معاشرتی اخلاقیات سب کو لالچ، حسد، بے اصولی، سمجھوتے، طبقاتی اور مسلکی تفریق اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش کرنے اور صرف حاصل کردہ اشتہارات اور نام نہاد Rating پر توجہ رکھنے کی وجہ سے اب نہ ان کی پیش کردہ انفرمیشن اور ایجوکیشن بامقصد اور قابل اعتبار رہی ہے اور نہ ہی اینٹرٹینمنٹ کسی اخلاقی معیار کی پابند ہے کہ ٹاک شوز میں سرعام اور براہ راست گالیاں بکی جاتی ہیں اور مزاج کے نام پر ایسے پھکڑپن اور گھٹیا ترین جگت بازی کو فخر سے پیش کیا جاتا ہے کہ جس کی انتہائی بے تکلف اور مخصوص محفلوں میں بھی شاید ہی گنجائش نکل سکتی ہو۔
میری ذاتی رائے میں (جس کا اظہار میں نے چیئرمین واپڈا اور چیئرمین نیب دونوں سے باضابطہ طور پر بھی کیا) ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب اور معاشرتی استحکام سے متعلق تمام ادارے مل کر میڈیا مالکان سے گفتگو کریں اور انھیں ان کے معاشرتی فرائض یاد دلانے کے ساتھ اس بات پر بھی آمادہ کریں کہ وہ ممکنہ حد تک اپنے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی کو نہ صرف سامنے لائیں بلکہ ان تمام رویوں کو تسلسل سے بڑھاوا دیں جو معاشرے سے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔
بپا ہم سال میں ایک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے وہ قوّال کرتے ہیں
قومی احتساب بیورو یعنی NAB نے اس ضمن میں اس بار ملک بھر میں بہت سی تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کیا ہے جو یقینا ایک خوش آئند بات ہے کہ اس کا سب سے زیادہ حق بھی اسی محکمے کو پہنچتا ہے۔ چند دن قبل مجھے لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی ایک ایسی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جس کا ایک حصہ NAB کی انسداد بدعنوانی مہم سے متعلق تھا لیکن جس سیمینار کا اہتمام واپڈا کے چیئرمین برادرم ظفر محمود نے کیا وہ ہر اعتبار سے انفرادیت اور اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں چیئرمین نیب قمرالزماں صاحب سمیت محکمے کے بیشتر اعلیٰ افسران شامل تھے جن کا اجتماعی نعرہ اور پیغام ہے کہ
Say No to Corruption
بلا شبہ یہ پیغام بہت بامقصد اور جلد زبان پر چڑھ جانے والا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا عملی طور پر بھی ہمارا معاشرہ اس پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ اس سوال کا ایک جواب انور مسعود کے اس مشہور قطعے میں مل سکتا ہے کہ
ایک ہی دن میں بارہ ارب کی
کوئی کرپشن کر کے دکھائے
اس دُنیا میں ہے کوئی ہم سا
ہم سا ہو تو سامنے آئے!
خطاب تو اس اجتماع سے مجھ سمیت تقریباً سات احباب نے کیا جن میں میزبان ظفر محمود اور مہمان خاص قمرالزماں صاحب بھی شامل تھے اور کم و بیش سب نے ہی بڑے مؤثر انداز میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی مگر محترمہ ناصرہ جاوید اقبال اور برادرم مجیب الرحمن شامی نے ذاتی تجربات اور تاثرات کے حوالے سے چند ایسی باتیں بھی کیں جن میں مسئلے اور اس کے حل دونوں کو موضوع بنایا تھا۔ شامی صاحب نے وطن عزیز کے پہلے پچیس تیس برسوں کو کرپشن کی کمی کے حوالے سے بہتر اور مثالی زمانہ قرار دیا جب کہ ناصرہ بی بی نے اس کا نقطۂ آغاز ایوب خان کے زمانے کو قرار دیا جس میں اقربا پروری کی لعنت نے کچھ اس طرح سے ہمارا گھر دیکھ لیا کہ اب یہ بلا جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
جب کہ اس ضمن میں 11 اگست 1947ء کے اس تاریخی خطاب کا ذکر بھی آیا جس میں قائداعظم نے کرپشن رشوت اور بدعنوانی کو اس طرح سے زہر قاتل سے تشبیہ دے کر ان سے بچنے کی تلقین کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 1995ء کے بعد سے یعنی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے قیام سے اب تک پہلی بار پاکستان کرپشن کے حوالے سے اپنی تاریخ کے سب سے بہتر درجے پر آیا ہے جو یقینا ایک بہت خوش آئند بات ہے لیکن جب اس تاریخی اعتبار سے مثالی نمبر پر نظرثانی کرنی پڑتی ہے تو کچھ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی سی صورتحال بن جاتی ہے کہ یہ نمبر 126 ہے یعنی تقریباً سوا سو ممالک بدعنوانی کی سطح کے حوالے سے ہم سے نیچے ہیں۔ اس طرح کے تقابل پر پتہ نہیں کیوں مجھے اپنے ایک دوست کا جملہ یاد آ رہا ہے۔ جب وہ پہلی بار نانا بنے تو مبارکیں وصول کرنے کے دوران ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ انھیں خود ''نانا'' بننا کیسا لگ رہا ہے۔ انھوں نے تھوڑی دیر سر کو کھجایا اور پھر مسکراتے ہوئے بولے ''یار نانا بننا تو بہت اچھا لگ رہا ہے مگر یہ سوچ کر پریشانی بھی ہو رہی ہے کہ میں ایک عدد ''نانی'' کا شوہر ہوں۔
ان تقریروں اور بعد میں کی جانے والی غیر رسمی باتوں سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ NAB کا نام اصل میں اسپتال کے سرجن کا سا ہے کہ مریض یعنی معاشرے کے جو حصے گل سڑ جائیں یا کسی ایسی انفیکشن اور بیماری کا شکار ہو جائیں جو اس کے وجود کو اندر سے کھاتی چلی جا رہی ہو تو معاشرہ مریض کے ساتھ ساتھ فزیشن کا رول بھی ادا کرتا ہے یعنی اس کے ذمے اس انفکیشن کی تشخیص اور اس کا علاج بھی لگ جاتے ہیں تا کہ وہ پھوڑے اور زخم کم سے کم بن پائیں جن کے آپریشن کے لیے نیب جیسے سرجن بنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اگر غور سے دیکھا جائے تو اس بیمار کرنے والی انفکیشن کی مندرجہ ذیل دس وجوہات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔
-1 جہالت
-2 لالچ
-3 بے محابا قسم کی خواہشات
-4 انصاف کی کمی
-5 ڈبل اسٹینڈرڈز یعنی زندگی کے دوہرے معیارات
-6 بھیڑچال
-7 خوف خدا کی کمی
-8 اخلاقی اقدار کا زوال
-9 طبقاتی تقسیم
-10 الیکٹرانک میڈیا کا منفی کردار
یہ دس کی دس وجوہات ایسی ہیں جن کا تعلق ہم سب سے، یعنی معاشرے سے ہے اس میں شک نہیں کہ بدعنوانی رشوت اور کرپشن، دنیا کے ہر معاشرے میں کسی نہ کسی شکل اور سطح پر پائی جاتی ہے اور تاریخ کے صفحات بھی اس سے بھرے پڑے ہیں مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ان برائیوں سے ایک طرح کا سمجھوتہ کر لیا ہے جس کی ایک صورت دلاور فگار مرحوم کے اس مصرعے میں دیکھی جا سکتی ہے کہ
''لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کر رشوت چھوٹ جا''
جہاں تک اس سرتاپا بدعنوانی زدہ ماحول کا تعلق ہے جس میں ہم سب سانس لے رہے ہیں تو بلاشبہ اسے راتوں رات بدلنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں عمومی سطح پر ہم مسلمانوں کے سات سو سالہ خواب غفلت کے اثرات کے ساتھ ساتھ انگریز کی دو سو سالہ غلامی کا وہ دور بھی شامل ہے جس نے ہمیں آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ہے کہ ہم نہ تو ان کی انداز حیات کو پورے طور پر اپنانے کے اہل اور خواہش مند ہیں اور نہ ہی ہمارے اپنے ماضی کی قدریں اور اصول عملی طور پر ہماری زندگیوں میں کہیں موجود ہیں۔
ہاں البتہ ان کی یاد اور ایک تصوراتی نوع کا تعلق ضرور ہے جس سے ہم عام طور پر صرف خود فریبی کا کام لیتے ہیں بقول شخصے ہم وہ بے اصول اور بے ٹھکانہ لوگ ہیں جن کے دل تو امام حسینؓ کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر تلواریں سپاہ یزید کی طرف ہیں۔ اس طویل غلامی اور غفلت کے دور نے ہم سے ہمارے آدرش اور خواب تک چھین لیے ہیں۔ سو ہم نے ماضی سے کٹ کر اور مستقبل سے بے نیاز ہو کر صرف ''آج'' کے دن ہی زندہ رہنا سیکھ لیا ہے اور آج میں زندہ رہنے والے نہ تو اپنے ضمیر کو جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس دنیا کے متلاشی، جہاں زندگی صرف سانسوں کی گنتی پوری کرنے کا نام نہ ہو۔
ہمارے اس ذہنی رویے نے مندرجہ بالا دس میں سے نو خرابیوں کے پودوں کی آبیاری کی ہے لیکن ان سب کو زیادہ منظم اور تباہ کن بنانے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا منفی کردار سب سے زیادہ اور فوری توجہ کا حامل ہے کہ پی ٹی وی کے زوال اور پرائیویٹ چینلز کے فروغ نے (نادانستہ طور پر ہی سہی) ان تمام معاشرتی برائیوں اور رویوں کو اس طرح سے تقویت دی ہے کہ ان کے پیدا کردہ گلیمر کی چکا چوند نے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا دی ہیں اور انھوں نے برائی کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
انسانی اور پیداواری رشتے ہوں یا نظام اقدار، اصولوں کا احترام ہو یا عمومی معاشرتی اخلاقیات سب کو لالچ، حسد، بے اصولی، سمجھوتے، طبقاتی اور مسلکی تفریق اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش کرنے اور صرف حاصل کردہ اشتہارات اور نام نہاد Rating پر توجہ رکھنے کی وجہ سے اب نہ ان کی پیش کردہ انفرمیشن اور ایجوکیشن بامقصد اور قابل اعتبار رہی ہے اور نہ ہی اینٹرٹینمنٹ کسی اخلاقی معیار کی پابند ہے کہ ٹاک شوز میں سرعام اور براہ راست گالیاں بکی جاتی ہیں اور مزاج کے نام پر ایسے پھکڑپن اور گھٹیا ترین جگت بازی کو فخر سے پیش کیا جاتا ہے کہ جس کی انتہائی بے تکلف اور مخصوص محفلوں میں بھی شاید ہی گنجائش نکل سکتی ہو۔
میری ذاتی رائے میں (جس کا اظہار میں نے چیئرمین واپڈا اور چیئرمین نیب دونوں سے باضابطہ طور پر بھی کیا) ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب اور معاشرتی استحکام سے متعلق تمام ادارے مل کر میڈیا مالکان سے گفتگو کریں اور انھیں ان کے معاشرتی فرائض یاد دلانے کے ساتھ اس بات پر بھی آمادہ کریں کہ وہ ممکنہ حد تک اپنے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی کو نہ صرف سامنے لائیں بلکہ ان تمام رویوں کو تسلسل سے بڑھاوا دیں جو معاشرے سے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔