دھرنے اور سرکار
عمران خان کا اصل ٹارگٹ شریف برادران و رشتہ داران ہیں جن کا اس وقت ملک اور پنجاب میں سکہ چل رہا ہے۔
عمران خان کے پانچویں مہینے میں داخل ہونے والے سیاسی دھرنوں اور جلسوں کی ہٹ دھرمی اور شریف فیملی کی ڈھٹائی سے لبریز بے رخی کا میڈیا کے ذریعے نظارہ و مطالعہ کرتے ہوئے مجھے چند اشعار بار بار قلم کاغذ اٹھانے کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ عمران خان کے خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں؎
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اور احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں؎
میرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں، تیری سیاست
فن میں زہر کیوں گھولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا اپنے پر
کھولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے
اب تحریک انصاف یعنی PTI جلسوں اور دھرنوں کے بعد جلوسوں کے ذریعے شہر بند کرنے نکل پڑی ہے اور فیصل آباد میں دو پارٹی ورکر شہید کروانے اور نواز لیگ کے سابق وزیر رانا ثنا اللہ کے گرد ایف آئی آرز کے ذریعے مشکلات کا گھیرا تنگ کرنے کے بعد دوسرے شہروں کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔
فیصل آباد بند کرنے کے پروگرام میں جہاں عمران خان کا مظاہرہ پر امن ہونا تھا مقامی نواز لیگ کا اپنے کارکن لے کر مقابلے پر آ جانا ایک غیر ضروری ہی نہیں احمقانہ اقدام تھا۔ پھر وہی ہوا جو ایسی سچویشن میں لازمی ہے۔ یعنی ہنگامہ اور قتل و غارت جس کے ذمے دار منظر عام پر لائے جانے سے بچ نہیں سکیں گے۔ دراصل یہ دوستی یا نوکری نہیں چاکری ہے جس کے مظاہر فیصل آباد میں دیکھے گئے۔
مورخہ 12 دسمبر کو فیصل آباد جیسا مظاہرہ کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے پروگرام میں شامل تھا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اسے خوش آمدید کہا بشرطیکہ PTI پُر امن رہے۔ عمران خان کا اعلان تھا کہ اس کے ساتھی مظاہرین پُر امن رہیں گے۔ 12 دسمبر کا PTI کا مظاہرہ جو کئی مقامات پر تھا اس کے مقابلے پر کوئی سیاسی جماعت حسب وعدہ نہ آئی اور یہ دن مکمل امن کے ساتھ گزر گیا۔ مظاہرین اپنی شو آف پاور کے بعد پر امن منتشر ہو گئے۔ جس نے دکان کھولنی تھی کھولی، جو اسکول بند ہونا تھا ہوا جس کی ٹرانسپورٹ نے چلنا تھا چلی۔ ایک ناخوشگوار واقعہ میڈیا کے خلاف ہو گیا۔
عمران خان کا اصل ٹارگٹ شریف برادران و رشتہ داران ہیں جن کا اس وقت ملک اور پنجاب میں سکہ چل رہا ہے لیکن وہ بھی حبیب جالب کا غلط استعمال کر کے نغمہ خواں ہیں کہ؎
جس کو دیکھو مجھ کو آ کر تختۂ مشق بناتا ہے
الٹی سیدھی تقریروں سے لوگوں کو بہکاتا ہے
دے کے درس بیداری خود کوٹھی میں سو جاتا ہے
میری خاک اڑاتا ہے
کوئی یہاں آ کر کہتا ہے میں کشمیر دلاؤں گا
میں جب کرسی پر بیٹھوں گا سوئے بھاگ جگاؤں گا
اے پٹری پر سونے والو تم کو محل بنوا دوں گا
عمران تو سب لوگوں کو سبز باغ دکھلاتا ہے
میری خاک اڑاتا ہے
دوسری طرف سے عمران خان کا حبیب جالب کی زبان ہی میں جواب آتا ہے؎
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اسی اثنا میں چند دانشوروں نے ماضی کو یاد کر کے بوٹوں والی سرکار کے خدشہ کے پیش نظر ایک قطعہ کہہ ڈالا وہ بھی پنجابی میں بزبان جالب؎
ڈاکواں دا جے ساتھ نہ دیندا پِنڈ دا پہریدار
اج پیریں زنجیر نہ ہندی جِت نہ ہندی ہار
پگاں اپنے گل وچ پالو ٹرو پیٹ دے بھار
چڑھ جائے تے مشکل لہندی بوٹا دی سرکار
ادھر شعر جالب کے اور ادائیگی نواز شریف کی؎
ہمارے سر پہ مسلط ہے مستقل ایک شخص
ازل سے لوٹ رہا ہے سکون دل اک شخص
ہلے وہ اپنی جگہ سے تو ہم کو چین آئے
ہمارے سینے پہ بیٹھا ہے بن کے سل ایک شخص
اسی کا ہاتھ ہے بربادیٔ گلستاں میں
کہو تو اور بھی ہوتا ہے مشتعل اک شخص
دوسری طرف عمران خان کے خیالات کلام حبیب جالب میں یوں پڑھئے
ہر شخص مرے دیس کا قرضے میں ہے جکڑا
مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کو ہے پکڑا
صوبے بھی ہیں بپھرے ہوئے مرکز بھی ہے اکڑا
اللہ ہی چلاتا ہے مرے دیس کا چھکڑا
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اور احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں؎
میرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں، تیری سیاست
فن میں زہر کیوں گھولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا اپنے پر
کھولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے
اب تحریک انصاف یعنی PTI جلسوں اور دھرنوں کے بعد جلوسوں کے ذریعے شہر بند کرنے نکل پڑی ہے اور فیصل آباد میں دو پارٹی ورکر شہید کروانے اور نواز لیگ کے سابق وزیر رانا ثنا اللہ کے گرد ایف آئی آرز کے ذریعے مشکلات کا گھیرا تنگ کرنے کے بعد دوسرے شہروں کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔
فیصل آباد بند کرنے کے پروگرام میں جہاں عمران خان کا مظاہرہ پر امن ہونا تھا مقامی نواز لیگ کا اپنے کارکن لے کر مقابلے پر آ جانا ایک غیر ضروری ہی نہیں احمقانہ اقدام تھا۔ پھر وہی ہوا جو ایسی سچویشن میں لازمی ہے۔ یعنی ہنگامہ اور قتل و غارت جس کے ذمے دار منظر عام پر لائے جانے سے بچ نہیں سکیں گے۔ دراصل یہ دوستی یا نوکری نہیں چاکری ہے جس کے مظاہر فیصل آباد میں دیکھے گئے۔
مورخہ 12 دسمبر کو فیصل آباد جیسا مظاہرہ کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے پروگرام میں شامل تھا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اسے خوش آمدید کہا بشرطیکہ PTI پُر امن رہے۔ عمران خان کا اعلان تھا کہ اس کے ساتھی مظاہرین پُر امن رہیں گے۔ 12 دسمبر کا PTI کا مظاہرہ جو کئی مقامات پر تھا اس کے مقابلے پر کوئی سیاسی جماعت حسب وعدہ نہ آئی اور یہ دن مکمل امن کے ساتھ گزر گیا۔ مظاہرین اپنی شو آف پاور کے بعد پر امن منتشر ہو گئے۔ جس نے دکان کھولنی تھی کھولی، جو اسکول بند ہونا تھا ہوا جس کی ٹرانسپورٹ نے چلنا تھا چلی۔ ایک ناخوشگوار واقعہ میڈیا کے خلاف ہو گیا۔
عمران خان کا اصل ٹارگٹ شریف برادران و رشتہ داران ہیں جن کا اس وقت ملک اور پنجاب میں سکہ چل رہا ہے لیکن وہ بھی حبیب جالب کا غلط استعمال کر کے نغمہ خواں ہیں کہ؎
جس کو دیکھو مجھ کو آ کر تختۂ مشق بناتا ہے
الٹی سیدھی تقریروں سے لوگوں کو بہکاتا ہے
دے کے درس بیداری خود کوٹھی میں سو جاتا ہے
میری خاک اڑاتا ہے
کوئی یہاں آ کر کہتا ہے میں کشمیر دلاؤں گا
میں جب کرسی پر بیٹھوں گا سوئے بھاگ جگاؤں گا
اے پٹری پر سونے والو تم کو محل بنوا دوں گا
عمران تو سب لوگوں کو سبز باغ دکھلاتا ہے
میری خاک اڑاتا ہے
دوسری طرف سے عمران خان کا حبیب جالب کی زبان ہی میں جواب آتا ہے؎
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اسی اثنا میں چند دانشوروں نے ماضی کو یاد کر کے بوٹوں والی سرکار کے خدشہ کے پیش نظر ایک قطعہ کہہ ڈالا وہ بھی پنجابی میں بزبان جالب؎
ڈاکواں دا جے ساتھ نہ دیندا پِنڈ دا پہریدار
اج پیریں زنجیر نہ ہندی جِت نہ ہندی ہار
پگاں اپنے گل وچ پالو ٹرو پیٹ دے بھار
چڑھ جائے تے مشکل لہندی بوٹا دی سرکار
ادھر شعر جالب کے اور ادائیگی نواز شریف کی؎
ہمارے سر پہ مسلط ہے مستقل ایک شخص
ازل سے لوٹ رہا ہے سکون دل اک شخص
ہلے وہ اپنی جگہ سے تو ہم کو چین آئے
ہمارے سینے پہ بیٹھا ہے بن کے سل ایک شخص
اسی کا ہاتھ ہے بربادیٔ گلستاں میں
کہو تو اور بھی ہوتا ہے مشتعل اک شخص
دوسری طرف عمران خان کے خیالات کلام حبیب جالب میں یوں پڑھئے
ہر شخص مرے دیس کا قرضے میں ہے جکڑا
مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کو ہے پکڑا
صوبے بھی ہیں بپھرے ہوئے مرکز بھی ہے اکڑا
اللہ ہی چلاتا ہے مرے دیس کا چھکڑا