ابدی حقیقت

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہماری یہ عارضی و فانی زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہماری یہ عارضی و فانی زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے، ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں،گردش لیل ونہار عمر عزیزکو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، عمر عزیز روز بروز گھٹ رہی ہے اور بالآخر ختم ہوجائے گی، جو لمحہ گزرجاتا ہے، کبھی واپس نہیں آتا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بتایے آپ کا لڑکپن کدھرگیا؟جوانی کہاں گئی؟ عمر رفتہ کتنی تیزی سے بیت گئی،کچھ پتا بھی چلا؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن اور لڑکپن ابھی کل ہی کی بات ہے، اسی حقیقت کی جانب قرآن حکیم نے سورۃ الروم میں اس طرح توجہ دلائی ہے کہ ''قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پل کے لیے دنیا میں آئے تھے۔''

کیا ہم شب و روز مشاہدہ نہیں کرتے کہ موت کس طرح ہم سے ہمارے دوست و احباب، عزیز و اقارب اور آل اولاد کو چھین کر لے جاتی ہے، جب مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر موت نہ بچوں کی کم عمری، نہ والدین کا بڑھاپا، نہ کسی کی جوانی اور نہ ہی خانہ ویرانی دیکھتی ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں؟ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ ''ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کیے کا پورا پورا اجر پاؤ گے۔ پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچادیا گیا، وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔'' (سورہ آل عمران: 185)

اس جہان فانی میں بندہ خاکی کو نصیب ہونے والا سامان زندگی اور مال و اسباب کی حقیقت بھلا اور کیا ہے کہ یہ مال آج تمہارا تو کل کسی اور کا ہے، ہمارے آباؤ اجداد کی موت کے بعد یہ متاع الغرور ہمارے پاس آگیا اور جب ہم مرجائیں گے تو ہماری تمام چیزیں پیچھے والوں میں تقسیم ہوجائیں گی۔ پھر وہ بھی مرجائیں گے، مکانات کی دیواریں ہر کچھ عرصے بعد نئے لوگوں کی شکلیں دیکھتی ہیں، اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے بنانے والے کہاں گئے؟ ان کا کیا بنا؟ اب تو قبروں کے نشانات بھی جلدی مٹ جاتے ہیں۔ زمینوں کے کاروبار نے زمین کو ظلم اور فساد سے بھردیا ہے۔ لوگ قبرستانوں پر تیزی سے قبضے کر رہے ہیں۔ آہ! قبریں تک بک رہی ہیں اور ان پر پلازے کھڑے ہو رہے ہیں۔ دھوکے باز شیطان نے ہم سب کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔

انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے مستقبل حقیقی کے بارے میں آگاہی حاصل کریں تاکہ صراط مستقیم پر چلیں اور اپنے حقیقی مستقبل کی بھرپور تیاری کرسکیں، ہم اپنے دنیوی مستقبل کے لیے بہت منصوبے بناتے ہیں، حالانکہ اس دنیا کی حقیقت حقیقی زندگی اور حقیقی مستقبل کے مقابلے میں ایک لمحے کے برابر بھی نہیں ہے۔ چنانچہ دانش مند مومن کو اپنی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے منصوبہ سازی کرنی چاہیے۔ ایک شخص نے حضرت سفیان ثوریؒ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے تو حضرت نے فرمایا کہ دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا تم کو اس میں رہنا ہے اور آخرت اور جنت کے لیے اتنی محنت کرو، جتنا اس میں رہنا ہے (وفیات الاعیان لابنی خلکان، جلد دوم) ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہی تھا، حضرت کعبؓ نے فرمایا ''جو شخص آخرت کا بلند مرتبہ چاہتا ہو اس کو چاہیے کہ خوب غور و فکر کیا کرے، اس سے وہ اس کے احوال سے بھی باخبر رہے گا۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا ''آخرت کے متعلق ایک لمحے کا غور وفکر پوری رات نفل پڑھنے سے افضل ہے۔'' (مفتاح دارالسعادۃ، جلد اوّل)۔


ہم میں سے جو موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہوجاتی ہے، چھوٹا حساب کتاب تو قبر میں ہو جائے گا اور قبر سے ہی راحت یا عذاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جیساکہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔'' ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ''جسے آخرت کی فکر نصیب ہوجائے اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی فکروں سے خلاصی عطا فرمادیتا ہے۔'' اسی طرح نبی کریمؐ نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ''موت کو یاد کیا کرو'' آپؐ نے موت کی یاد کے لیے قبرستانوں کا رخ کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔

آج انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ بیش بہا چیزوں کو کم بہا اور کم قدر چیزوں کو بیش قدر تصور کرتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس حقیقت پر بھی غورکیا کہ ہمارے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ حقیقی دولت کون سی ہے؟ ہماری حقیقی فکر کیا ہونی چاہیے؟ ہم سب کی حقیقی زندگی کون سی ہے؟ ہم سب کا حقیقی مستقبل کیا ہے؟ آج ہم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بیٹے کی نوکری، اچھے مکان، روپیہ پیسہ اور دیگر دنیاوی حرص و ہوس سے لبالب دعائیں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی۔ جب کہ ان دعاؤں کا نمبر تو آخر میں آنا چاہیے۔ ہماری دعاؤں کا اصل محور، ایمان کامل، جہنم اور قبرکے عذاب سے حفاظت، جنت میں دخول اولیٰ اخلاص اور عمدہ اخلاق کی چاہت، فکر آخرت سے مزین سوچ، رسول اللہؐ کی اتباع، سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کی آرزو ہونا چاہیے، یہ ہیں ہمارے حقیقی مسائل یہ ہے حقیقی دولت اور یہ ہے وہ حقیقی فکر جس میں درحقیقت ہمارے مستقبل کی اصل بھلائی پوشیدہ اور ہر طرح کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔

دنیا میں تو شاید چند دن، چند مہینے یا چند سال رہنا ہے، مگر آخرت تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ قابل رحم ہیں وہ لوگ جو صبح سے شام تک پیسہ کماتے ہیں اور جب کچھ کما لیتے ہیں تو فوراً ان کا یہ مال کوئی دوسرا کاروبار کھا جاتا ہے، یوں بلڈنگیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور ان کی ہڈیاں کمزور ہوتی جاتی ہیں اور بالآخر موت کا بلاوا آجاتا ہے۔ دنیاوی دولت کی یہ ہوس، نعمت نہیں عذاب ہے، درد ہے، مصیبت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ''دہن'' سے بچائے، ''دہن'' کے معنی نبی کریمؐ نے ''حب دنیا'' یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کے بیان فرمائے ہیں، پس! ذرا اس مشکل وقت کو یاد کیجیے جو ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا، جب دوست و احباب، عزیز و اقارب اور آل و اولاد وغیرہ آپ کے گرد جمع ہوں گے اور آپ اشکوں سے بھیگی ہوئی، حسرت بھری نگاہوں سے انھیں ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ رہے ہوں گے اور یہ دولت دنیا، رشتے ناتے اور امنگیں اور آرزوئیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، سورہ ق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''اور موت کی بے ہوشی برحق خبر لے کر آئی، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔''

اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے کہ ہم اللہ کے دین کی جانب، رجوع کرتے ہوئے اپنے حقیقی مسائل، حقیقی دولت، حقیقی فکر، حقیقی زندگی اور حقیقی مستقبل کا حقیقی فہم و ادراک کرسکیں، آخر میں اس دعا کے ساتھ کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ''اے اللہ جو حق ہے ہمیں اسے حق کرکے دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور جو باطل ہے اسے باطل کرکے دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق دے۔'' (آمین)
Load Next Story