ملکی اقتصادی سرحدوں پرجارحیت

پاکستان بھی ان بدقسمت ملکوں میں سے ایک ہےجو سرمایہ دار ممالک اورعالمی مالیاتی اداروں کےچنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

لاہور:
کیا یہ ممکن ہے کہ کھیلوں کے کسی عالمی مقابلے میں لائٹ ویٹ پہلوان کا مقابلہ ہیوی ویٹ سے کرادیا جائے ؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ طے شدہ اصولوں کے مطابق پہلوان یا ایتھلیٹ اپنی کیٹگری کے کھلاڑی سے ہی مقابلہ کرتے ہیں۔

تو پھر دنیا کے معاشی میدان میں ان اخلاقی اصولوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیوں بڑے طاقتور ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے غریب ملکوں کو ان کے اثاثے بیچ کر آزاد منڈی میں ان سے مقابلے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ مشورہ کیا، پورا دباؤ ہی ڈالتے ہیں۔

اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں، گوری سرکار نے پوری دنیا کو غلام کیوں بنایا تھا؟ نوآبادیاتی نظام کے پیچھے اس وقت سوچ کیا کارفرما تھی ؟جی ہاں، ان ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرکے مال و زر مغربی ملکوں کو روانہ کرنا ، تاکہ وہاں خوشحالی کا دور دورہ رہے ، اور ان کے عوام عالمی سرمائے پر عیش کریں، یہی وہ سوچ تھی جو نوآبادیاتی نظام کے پیچھے کارفرما تھی ۔توکیا آج نوآبادیاتی دور ختم ہوچکا ہے؟ یا کسی شکل میں یہ آج بھی جاری ہے؟نہیں جناب صرف جغرافیائی قبضہ ہی ختم ہوسکا ہے۔ مالیاتی قبضہ چھوڑنے پر مغرب آج بھی تیار نہیں۔ اسی لیے آزاد منڈی کی معیشت کا نعرہ زوروشور سے لگایا جارہا ہے۔ اسٹیٹ کنٹرولڈ معیشت اپنانے کو آج دہشت گردی سے بھی بڑا جرم سمجھا جاتا ہے، کیا کسی کو چند سال پہلے کی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی وہ تقریر یاد ہے ، جس میں انھوں نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدہ کراتے وقت تقریر میں یاسر عرفات مرحوم کو مخاطب کیا اور کہا کہ ''انھیں سوشلزم کے بجائے آزاد منڈی نظام معیشت اپنانا ہوگا۔''

ذرا سوچیے... فلسطین جیسی چھوٹی سی مملکت جو اپنی قلیل آبادی کی بنا پر عالمی معاشی میدان میں کوئی کردار ادا کرنے کے لائق ہی نہیں تھی ، اس تک پر امریکا کا اس طرح زور ڈالنا کہ نظام معیشت فلسطین نے کون سا اپنانا ہے۔ یہ اصل میں اس سوچ کو ظاہر کرتا ہے ، جو مغرب نے سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے اپنائی ہوئی ہے ۔پاکستان بھی ان بدقسمت ملکوں میں سے ایک ہے جو سرمایہ دار ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔


بجلی کو مہنگا ترین بنائے جانا ، معیشت کو سنبھالنے کے لیے نئے قرضے لینا اوراضافی ٹیکس عائدکیے جانا اور ساتھ ہی سبسڈیز کا خاتمہ کرکے غریب طبقے کو حاصل معمولی ریلیف بھی واپس لینا وہ حکومتی کارنامے ہیں ، وہ سرمایہ دار ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے پر انجام دیتی ہے۔ذرا پرائیویٹائزیشن کے عمل کو ہی لے لیں ، پاکستانی حکومت قومی فضائی کمپنی پی آئی اے سمیت اہم اداروں کی نجکاری کی منظوری دے چکی ہے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، پاکستان اسٹیل ملز، آئیسکو، فیسکو، مظفرگڑھ تھرمل پاور اسٹیشن اور نیشنل پاورکنسٹرکشن کمپنی کے نصف جب کہ پی آئی اے اور پی آئی اے انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے 25 فیصد یا اس سے زیادہ شیئرز کی فروخت بھی کی جائے گی، جسے معاشی فوائد سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے 5 فیصد، او جی ڈی سی ایل اور بعض بینکوں کے 20 فیصد شیئرز کی فروخت سے 175 ارب روپے ملیں گے ۔

حکومت کا دعوی ہے کہ اس آمدنی سے معیشت بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ اس حوالے سے حکومتی دعوئوں کا بڑا عمدہ جواب سابقہ کریٹری پلاننگ، ڈاکٹر اختر حسن خان نے اپنی کتاب ''دی امپیکٹ آف پرائیویٹائزیشن'' میں تحریر کیا ۔مصنف ایشیائی ترقیاتی بینک کی 1998 کی رپورٹ کی بنیاد پرلکھتے ہیں کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں ان کی انتظامی کارکردگی بہتر نہیں ہوئی ، صرف 20 فی صد یونٹوں کی کارکردگی بہتر رہی، 44 فی صد کی کارکردگی ویسی ہی رہی جیسی نجکاری سے پہلے تھی، جب کہ 35 فی صد کی کارگردگی اور بھی بدتر ہوگئی ۔ نجکاری کے بعد خراب کارکردگی والے سرکاری مینیوفیکچرنگ اداروں کی تعداد بڑھ کر 42 فی صد ہوگئی ۔

نجکاری سے شہریوں کو فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ سات سے آٹھ برسوں کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں 100 فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔تاہم مزدوروں کو فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اس دوران روزگارکی شرح گھٹ گئی۔ کئی ایک یونٹوں کو توکوڑیوں کے دام فروخت کردیا گیا، بلکہ بعض کو تو ان لوگوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا جن کو اس کا تجربہ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اول الذکر نے ناجائز منافع کمایا جب کہ ناتجربہ کار لوگوں کی وجہ سے بہت سے اہم یونٹ بند ہوگئے۔

نجکاری کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری شعبہ خرابی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے، حکومت کاروباری اداروں کو چلانے کے قابل نہیں۔نج کاری کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ، تاہم کہیں اگر واقعی اس کے بغیر چارہ ہی نہ ہو تو پھر نجکاری سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسا ان کیسز میں ہونا چاہیے ، جو ادارے عملا بند ہوگئے ہوں۔مثال کے طور پر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن جب بیس سال پہلے بند ہوئی تو اسے پرائیویٹائز کردیا جانا چاہیے تھا۔ تاکہ اس کے اثاثے کم از کم کباڑ میں تبدیل نہ ہوں اور ادارہ بہرحال چلتا رہے ، اسی طرح ان پلانٹس کی نجکاری کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے ، جو بند ہوچکے ہیں۔ تاہم اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر ادارے جو اپنا آپریشن نقصانات کے باجودبہرحال انجام دے رہے ہیں۔ انھیں سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دینا ملکی مفاد کے خلاف ہوگا۔ اسی طرح کے ای ایس سی کی نجکاری تو ایسا فیصلہ تھا ، جس نے عوام کو براہ راست سرمایہ دار کا محتاج بنادیا۔

وطن کی معاشی خودمختاری کا سودا کئی دہائیوں سے جاری ہے۔عوام کی قسمت عالمی ساہوکاروں کے ہاتھ میں گروی رکھی جا چکی ہے ۔
Load Next Story