محبت کا موسم

وہ موسم کس قدر سخت ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ صرف وہ اہل مشرق کرسکتے ہیں جو پہاڑوں پر بستے ہیں۔

umerkazi555@yahoo.com

سرد موسم بے درد موسم ہوا کرتا ہے۔ اس بات کا احساس ہمیں وہ رشین ناول پڑھ کر ہوا جو ہمیں تصورات کے پروں پر بٹھا کر وہاں لے جاتے تھے جہاں برف گرتی ہے۔ جہاں برفانی طوفان میں ''ڈاکٹر زواگو'' کی ہیروئن ''لارا'' اپنے محبوب کے پاس آ جاتی ہے اور ناول کا ہیرو آتش دان کے پاس بیٹھ کر ایک نظم لکھتا ہے۔ وہ نظم جس میں محبت کی آگ کاتذکرہ ہے۔

بات صرف دوسری جنگ عظیم کے ان جنگی قیدیوں کی نہیں ہے جن کا خون سفید برف پر سرخ لکیر بن کر جم جاتا ہے۔ مگر وہ آنسو بھی تو اہم ہیں جو آنکھوں سے بہتے ہی سفید موتی بن جاتے تھے۔ کس قدر درد ہواکرتا تھا ان مناظر میں جو سرد موسم میں جدائی والے ہوا کرتے تھے۔ جن میں دو پیار کرنے والے ایک دوسرے کے سرد ہاتھوں کو تھام کر اس موسم میں ملنے کا وعدہ کرتے تھے جس موسم میں سورج کی کرنیں پیار کا پیغام بن کر آسمان سے اترا کرتی تھیں۔

اس برفاب ماحول میں رہنے والے لوگ اگر اپنے دل میں دہکتی ہوئی آگ لے کر نہ چلتے تو مغرب اس قدر ترقی نہیں کر پاتا۔ موسم سرما کی بے درد ہواؤں کے ساتھ اہل مغرب کی لڑائی صرف ماضی کا قصہ نہیں۔ وہ آج بھی اس موسم سے بھرپور مزاحمت کرتے ہیں جس موسم میں حد نظر تک صرف برف نظر آتی ہے۔ وہ موسم کس قدر سخت ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ صرف وہ اہل مشرق کرسکتے ہیں جو پہاڑوں پر بستے ہیں۔

ان کو معلوم ہے کہ جب برف سے راستے بند ہوجاتے ہیں تب انسان کس قدر تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ مگر مشرق کے ان علاقوں میں ترقی کا سفر گرم جوشی سے شروع کیوں نہیں ہوا؟ اس سوال پر ہم پھر کبھی سوچیں گے۔ اس وقت تو ہمیں ان لوگوں کا درد محسوس کریں جو لوگ اس موسم کی اذیت میں جیتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات صرف یہ نہیں کہ ان علاقوں میں سائنس نے ترقی نہیں کی۔

وہاں تو وہ ادب بھی پروان نہیں چڑھا جس ادب کا اظہار ہمیں یورپ میں نظر آتا ہے۔ وہاں پر ادب لکھنے والوں نے اپنے الفاظ سے جذبات کی آگ بڑھکانے کی کوشش کی اور اس آگ کو اہل علم نے سائنس میں منتقل کیا اور آج بھی وہاں موسم سرما کے خلاف ان لوگوں کی لڑائی جاری ہے جو لوگ محنت اور مشقت سے جیتے ہیں۔ مگر ان کے جینے کی توانائی وہ محبت ہوا کرتی ہے جس محبت کے لیے وہ سردی میں گرم ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اہل مغرب نے صرف خلا میں نئے سیارے اور ستارے تلاش نہیں کیے۔ انھوں نے صرف زمین سے تیل اور معدنیات کو دریافت نہیں کیا۔انھوں نے سردی میں کانپتے ہوئے انسانوں کے دلوں میں موجود محبت کی آگ کو اس قدر بھڑکایا کہ وہ آگ روشنی کا سفر بن گئی۔ اس آگ کا روشن سفر ہمیں ان کی زندگی کے رخ میں نظر آتا ہے۔ کیوں کہ برف میں گھرے ہوئے وہ لوگ اگر اپنے اندر جذبات کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے تو وہ کیسے جیتے؟

ان کے لیے موسم سرما محبت کا موسم نہیں تھا۔ یہ مایوسی اور اداسی کا موسم تھا۔ کیوں کہ وہ موسم آتے ہی درختوں سے پتے گرنے لگتے اور پھول بکھر جاتے ۔ پھر آہستہ آہستہ برفانی ہوائیں چلتی تو سارے چشمے اور آبشار سوکھ جاتے اور وہ صرف اپنے گھروں تک محدود ہوجاتے۔ یہی سبب ہے کہ موسم سرما کے حوالے سے لکھے ہوئے انگریزی کے پرانے اشعار بہت درد بھرے ہوتے تھے۔ اس درد کا اظہار کرتے ہوئے وہ لوگ امید کا دامن نہیں چھوڑتے۔میں اس ضمن میں صرف خوبصورت انگریز شاعر شیلے کی اس نظم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں اس نے لکھا ہے کہ:

If Winter comes, can Spring be far behind?

یعنی اگر موسم سرما آیا ہے تو موسم بہار دور نہیں!

مگر ہم اس مشرق کا کیا کریں جس کے زمینی علاقوں میں موسم سرما ہی بہار کا موسم ہوا کرتا ہے۔ اس وقت تو اہل سندھ کے لیے موسم سرما اس طرح نہیں جس طرح پہلے تھا۔ کیوں کہ دیہاتی سندھ میں کبھی گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔ اس لیے جب موسم سرما آنے والا ہوتا تھا تب وہ اپنے گھروں کے آنگن سوکھی لکڑیوں سے بھر دیا کرتے تھے اور جلتی ہوئی آگ کے الاؤ کس قدر خوبصورت لگتے تھے۔

وادی سندھ میں موسم سرما سخت ہوتا ہے مگر اس سردی کو اہل مغرب معمولی سردی کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس موسم میں رات تو سرد ہوتی ہے مگر جب صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے تو لوگ گلابی دھوپ میں بیٹھ کر اپنے آپ کو توانا کرتے ہیں۔ مگر بات صرف دن کی نہیں۔ سندھ میں موسم سرما کو ہمارے کلاسیکل شاعروں نے بھی ''محبت کا موسم'' قرار دیا ہے۔ کیوں کہ جب یہ موسم آتا ہے اور شمالی ہوا چلتی ہے تب وہ اس قدر سخت نہیں ہوتی کہ سارا سبزہ سوکھ جائے۔

نہیں سندھ میں سرد موسم سبز موسم ہوا کرتا ہے۔ اگر کسی کو سندھ کا حسن دیکھنا ہو تو اسے سردیوں میں سندھ کا سفر کرنا چاہیے۔ جب گاؤں میں موجود کھیت حد نظر تک سبز ہوتے ہیں۔ جب چنے کے کھیتوں پر صبح کو تتلیاں اڑتی ہیں توان کا منظر بہت دلکش ہوا کرتا ہے۔

اس موسم کو شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے اشعار میں محبت کا موسم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:


''باد شمال چل رہی ہے؛ مگر میرے پاس گرم کپڑے نہیں

نہ تو میرے پاس کچھ کھانے کو ہے اور نہ محبوب کا گرم ساتھ ہے

ان لوگوں کا حال کیا ہوگا؟ جن کے گھر اجڑے ہوئے ہوں''

اس شعر میں سندھ کی غربت کی تصویر تو ہے مگر مادی اور روحانی غربت کا احساس بھی تو اس موسم میں ہوتا ہے جس موسم میں غریب لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے پاس رضائی نہیں تو کم ازکم اس محبت کا ساتھ تو ہو !

اردو ادب کے بے باک ادیب اور شاعر جوش ملیح آبادی نے بھی سردیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سردی میں شدت آتی ہے تب صرف روئی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس موسم میں ''دوئی'' کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ دوئی شاہ لطیف کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ مگر اس موضوع کا موسم بھی وہ سرد موسم ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:

''ہم نے برتن پڑوس والوں سے ادھار لیے ہیں

اوراس موسم میں دوسری سہاگنوں کے ساتھی دیکھ کر

ہماری ہونٹوں سے سرد آہیں نکل رہی ہیں''

سندھ میں گرمی کا موسم ایک بیزاری کا موسم ہوتا ہے۔ اس موسم میں لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں۔ مگر جب باد شمال چلتی ہے اور سرد موسم چھا جاتا ہے تب لوگ محبت میں مست ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ موسم ہوا کرتا ہے جب دیہاتی جھیلوں میں کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ اس موسم میں انسان کا دل بھی کنول کے پھول کی طرح کھل جاتا ہے اور کسی ہرجائی بھنورے کی تمنا کرتا ہے۔

وادی سندھ میں یہ موسم سخت ہوتے بھی سخت نہیں ہوتا۔ اس موسم کی لوگ شکایات تو کرتے ہیں مگر اس موسم کے لیے وہ تمنا بھی کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ موسم ملاپ کا موسم ہے۔ اس موسم میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ گھاس بھی جوانی کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ اس لیے تو شاہ لطیف نے لکھا ہے کہ:

''شمال کی ہواؤں میں گھاس کے تنکے محبت سے پھوٹ رہے ہیں

مگر میرے پردیسی محبوب تم ملاقات کے یہ دن کیوں بھلا کر بیٹھ گئے ہو؟''

یہ محبت کا موسم وادی سندھ میں آہستہ آہستہ چھارہاہے۔ یہ موسم جو عاشقوں میں وصال کے جذبوںکی آگ بھڑکاتا ہے۔ مگر اس موسم میں اہل سندھ صرف گھروں میں آگ جلاتے ہیں۔ کاش! وہ اہل مغرب کی طرح اپنے دلوں میں بھی جذبات کی آگ جلاتے توہمارے لیے راہ زندگی کس قدر آسان اور خوبصورت ہوجاتی!!
Load Next Story