خان خود اعتمادی اور خوش فہمی کے درمیان
حکومت کو، جس کے وزراء گذشتہ کئی ماہ سے ’’مٹھی بھر لوگ‘‘ کی گردان کر رہے ہیں، ذرا سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
یقین بڑی قوت ہے۔یقین کا عصا ہو، تو دریا دو پاٹوں میں بٹ جائے۔ اشارے ہو، اور پہاڑ چلنے لگیں۔ ممتاز امریکی ماہر نفسیات، ولیم جیمز کہا کرتا تھا: ''یقین معجزے رونما کرسکتا ہے۔'' یہ یقین ہی ہے، جو طوفانوں میں گِھرے ملاح کو تھامے رکھتا ہے، صحرا میں بھٹکتے مسافرکو سنبھالتا ہے، مایوسی کے کہر میں آگے بڑھنے، چلتے رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔
مگر یقین حد سے بڑھ جائے، تو انسان کو حقائق سے تخیل کی پُرپیچ دنیا میں لے جاتا ہے۔ سچائی سے ناتا توڑ دیتا ہے۔ رالف ایمرسن کے بہ قول؛ نظریات، حقیقت پر غالب آجاتے ہیں۔ عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
جس روز شہر قائد کے باسیوں نے کوئٹہ کی سرد ہوائوں کا اولین تحفہ قبول کیا، وہ اِس یقین کے ساتھ کراچی میں داخل ہوئے کہ اُن کے متوالے ڈیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل، کئی سو میل پر پھیلا یہ شہر بند کروا چکے ہیں۔ بے شک شہر کی خاموش فضائوں میں اُن کے حامیوں کا جوش تیر رہا تھا، مگر شاید یہ احتیاط کا عنصر تھا، جس نے اُس روز لاکھوں شہریوں کو گھروں تک محدود رکھا کہ اُن پر 12 مئی گزر چکا تھا، وہ 27 دسمبر سہہ چکے تھے۔ روشن شہر کے گلی کوچے ایسا کئی تاریک مناظر کے شاہد ہیں، جن کا تذکرہ ہی رونگٹے کھڑے کر دے۔ ایسے میں 12 دسمبر کے روز اُنھوں نے ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ایم کیو ایم نے اِس عمل سے لاتعلقی ظاہر کر کے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا۔
احتجاجی سرگرمی کو تشدد سے پاک رکھنے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کو جاتا ہے۔ ٹائر نذر آتش کرنے کے معاملے میں اُنھیں کچھ رعایت دی جاسکتی ہے۔ ویسے کپتان اس پر معافی بھی مانگ چکے ہیں۔
12 دسمبر کو پی پی حکومت نے بھرپور سیکیورٹی کے ساتھ تمام سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ کراچی میں جاری اس مشق سے ان کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہو رہا۔ شاہ صاحب کے عہد میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پھر سندھ اُن کا قلعہ۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معرکوں میں قلعے ہی فتح کیے جاتے ہیں۔ پی پی کے ناراض کارکنوں کا تذکرہ تو خود بلاول بھٹو کر چکے ہیں۔
دیگر قائدین بھی جیالوں کو منانے کی بات وقتاً فوقتاً دہراتے رہے۔ مگر کتنوں کو منانے میں کام یاب رہے؟ اِس کا فیصلہ تب ہوگا، جب عمران خان اپنے یقین کی ریل گاڑی میں سوار، تقریروں کا دھواں اڑاتے اندرون سندھ کے دورے پر نکلیں گے۔ گو اعتزاز احسن کے ہر بیان کو قابل اعتبار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر لاڑکانہ جلسے سے متعلق اُن کا بیان درست تھا۔ سندھ حکومت نے کراچی میں جو جلسہ کیا، اس کے اثرات اور حجم پر پہلے ہی خاصی بات ہوچکی ہے۔
عمران خان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کو خوش فہمی کہا جاسکتا ہے، مگر یہ سچ ہے کہ سول نافرمانی اور میاں صاحب کے استعفے جیسے لاحاصل بیانات کے باوجود وہ اپنی مقبولیت کے اوج پر ہیں۔ قومی لیڈر کا درجہ، مخالفین کو ''اوئے'' کہہ کر مخاطب کرنے کے باوجود، حاصل کر چکے ہیں۔ سب سے بڑی جیت تو یہی ہے کہ پی پی جیسی بڑی جماعت اُن کے اور سرکارکے جھگڑے میں غیرمتعلقہ ہوچکی ہے۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، ایک پُرجوش اینکر پرسن اُسے ایسے ٹی وی ریموٹ سے تشبیہ دیتے ہیں، جس کے سیل نکال لیے گئے ہوں۔ مثال کچھ ڈرامائی لگتی ہے۔ حکومت بے اختیار تو نہیں، لیکن وہ اپنے اختیارات اور توانائی مثبت شعبوں میں لگائے، تو بہتر۔ طاقت کے زور پر مخالفین سے نمٹنے کی کوششیں ماضی میں بھی ناکام ہوئیں، اور مستقبل میں بھی ہزیمت کا باعث بنیں گی۔ بڑا جنگجو تو وہی، جو اپنے دشمن کی پشت پناہی کرتی طاقتوں کا بھی اندازہ لگا لے۔
ویسے ''اندر کی خبر'' کا سنہری پانی چڑھا کر پرانی پیش گوئیاں بیچنے والے یہ تواترسے کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو علم ہے، پی ٹی آئی کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں۔ اسی آگہی نے تو حکومتی وزراء کے لہجے کا جوش چرا لیا۔ کھیل کھیلنے والی تھیوری کے بیوپاری بھی بغلیں بجا رہے ہیں کہ طاہر القادری کے ڈی چوک چھوڑنے کے بعد اُن کا پیش کردہ دعویٰ کہ ''پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!'' بالآخر دُرست ثابت ہوا۔
یہ باتیں کتنی ہی گھما پھرا کر کی جائیں، اشارہ ایک پس پردہ طاقتور ادارے کی جانب ہوتا ہے۔ یہ کوششیں مجرمانہ ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے بھی زیادتی ہوگی، جو قیادت کے متعدد غلط فیصلوں کے باوجود اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر تین ماہ گزر جانے کے باوجود ڈی چوک میں ہلا گلا ہورہا ہے، تو اُن کا جذبہ قابل تعریف ہے۔
البتہ ناقدین کا یہ شکوہ بجا کہ پی ٹی آئی قیادت اِس جذبے کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال کر سکتی تھی۔ احتجاج اُن کا حق، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبے بھی کرتے رہیں، مگر ساتھ ہی نعرے لگاتی اس قوت کو زندگی کے مثبت شعبوں میں بھی استعمال کرنا چاہیے۔ اگر خان کے لاکھوں چاہنے والے احتجاج کے ساتھ ساتھ صفائی مہم شروع کر دیں، درخت لگائیں؛ تو اِس عمل سے اُن کے لیڈر کی شہرت مہمیز ہوگی۔
حکومت کو، جس کے وزراء گذشتہ کئی ماہ سے ''مٹھی بھر لوگ'' کی گردان کر رہے ہیں، ذرا سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بڑھکیں مارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جس طوفان کے تھمنے کا آپ یقین کیے بیٹھے تھے، وہ پھر اٹھنے کو ہے۔ پانچ برس پورے کرنا ن لیگ کا آئینی حق، دھاندلی کی شفاف تحقیقات سے ممکن ہے کہ حکومت کو گزند پہنچے، مگر یہ حق تب بھی محفوظ رہے تھا۔ تو بہتر یہی ہے کہ الجھن کی بھول بھلیوں سے نکل کر ایک سلجھا ہوا طرز عمل اپنایا جائے۔ پی ٹی آئی والے ضدی، مگر آپ تو سمجھ دار ہیں۔ چینی کہاوت ہے؛ جو طاقت وَر ہوتا ہے، ذمے داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ اقتدار ن لیگ کے پاس، اور قوم کو احتجاجی جھنجھٹ سے نکالنے کا بوجھ ''شرپسندوں'' سے زیادہ اُس کے کاندھوں پر۔
یاد رکھیں، یقین بڑی قوت ہے۔ لیکن یہ خوش فہمی میں بدل جائے، تو تخریبی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کراچی کی پُرامن خاموشی نے عمران کے یقین کو مہمیز کیا ہے۔ جب یہ تحریر شایع ہو گی، اُن کے یقین کا ریلہ لاہور سے ٹکرا رہا ہوگا۔ اور صورت حال شہر قائد سے مختلف ہوگی۔ سندھ اُن کے لیے غیرملکی ٹور تھا، اور اپنی کارکردگی سے وہ مطمئن ہوں گے۔ مگر تخت لاہور کو وہ ہوم گرائونڈ سمجھنے لگے ہیں۔ اور اسٹڈیم پر دبیز بادل چھائے ہیں۔ اُن بادلوں میں یقین کی بارشیں پوشیدہ ہیں یا خوش فہمی کی گھن گرج؛ اِس کا فیصلہ جلد ہوجائے گا۔
مگر یقین حد سے بڑھ جائے، تو انسان کو حقائق سے تخیل کی پُرپیچ دنیا میں لے جاتا ہے۔ سچائی سے ناتا توڑ دیتا ہے۔ رالف ایمرسن کے بہ قول؛ نظریات، حقیقت پر غالب آجاتے ہیں۔ عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
جس روز شہر قائد کے باسیوں نے کوئٹہ کی سرد ہوائوں کا اولین تحفہ قبول کیا، وہ اِس یقین کے ساتھ کراچی میں داخل ہوئے کہ اُن کے متوالے ڈیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل، کئی سو میل پر پھیلا یہ شہر بند کروا چکے ہیں۔ بے شک شہر کی خاموش فضائوں میں اُن کے حامیوں کا جوش تیر رہا تھا، مگر شاید یہ احتیاط کا عنصر تھا، جس نے اُس روز لاکھوں شہریوں کو گھروں تک محدود رکھا کہ اُن پر 12 مئی گزر چکا تھا، وہ 27 دسمبر سہہ چکے تھے۔ روشن شہر کے گلی کوچے ایسا کئی تاریک مناظر کے شاہد ہیں، جن کا تذکرہ ہی رونگٹے کھڑے کر دے۔ ایسے میں 12 دسمبر کے روز اُنھوں نے ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ایم کیو ایم نے اِس عمل سے لاتعلقی ظاہر کر کے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا۔
احتجاجی سرگرمی کو تشدد سے پاک رکھنے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کو جاتا ہے۔ ٹائر نذر آتش کرنے کے معاملے میں اُنھیں کچھ رعایت دی جاسکتی ہے۔ ویسے کپتان اس پر معافی بھی مانگ چکے ہیں۔
12 دسمبر کو پی پی حکومت نے بھرپور سیکیورٹی کے ساتھ تمام سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ کراچی میں جاری اس مشق سے ان کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہو رہا۔ شاہ صاحب کے عہد میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پھر سندھ اُن کا قلعہ۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معرکوں میں قلعے ہی فتح کیے جاتے ہیں۔ پی پی کے ناراض کارکنوں کا تذکرہ تو خود بلاول بھٹو کر چکے ہیں۔
دیگر قائدین بھی جیالوں کو منانے کی بات وقتاً فوقتاً دہراتے رہے۔ مگر کتنوں کو منانے میں کام یاب رہے؟ اِس کا فیصلہ تب ہوگا، جب عمران خان اپنے یقین کی ریل گاڑی میں سوار، تقریروں کا دھواں اڑاتے اندرون سندھ کے دورے پر نکلیں گے۔ گو اعتزاز احسن کے ہر بیان کو قابل اعتبار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر لاڑکانہ جلسے سے متعلق اُن کا بیان درست تھا۔ سندھ حکومت نے کراچی میں جو جلسہ کیا، اس کے اثرات اور حجم پر پہلے ہی خاصی بات ہوچکی ہے۔
عمران خان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کو خوش فہمی کہا جاسکتا ہے، مگر یہ سچ ہے کہ سول نافرمانی اور میاں صاحب کے استعفے جیسے لاحاصل بیانات کے باوجود وہ اپنی مقبولیت کے اوج پر ہیں۔ قومی لیڈر کا درجہ، مخالفین کو ''اوئے'' کہہ کر مخاطب کرنے کے باوجود، حاصل کر چکے ہیں۔ سب سے بڑی جیت تو یہی ہے کہ پی پی جیسی بڑی جماعت اُن کے اور سرکارکے جھگڑے میں غیرمتعلقہ ہوچکی ہے۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، ایک پُرجوش اینکر پرسن اُسے ایسے ٹی وی ریموٹ سے تشبیہ دیتے ہیں، جس کے سیل نکال لیے گئے ہوں۔ مثال کچھ ڈرامائی لگتی ہے۔ حکومت بے اختیار تو نہیں، لیکن وہ اپنے اختیارات اور توانائی مثبت شعبوں میں لگائے، تو بہتر۔ طاقت کے زور پر مخالفین سے نمٹنے کی کوششیں ماضی میں بھی ناکام ہوئیں، اور مستقبل میں بھی ہزیمت کا باعث بنیں گی۔ بڑا جنگجو تو وہی، جو اپنے دشمن کی پشت پناہی کرتی طاقتوں کا بھی اندازہ لگا لے۔
ویسے ''اندر کی خبر'' کا سنہری پانی چڑھا کر پرانی پیش گوئیاں بیچنے والے یہ تواترسے کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو علم ہے، پی ٹی آئی کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں۔ اسی آگہی نے تو حکومتی وزراء کے لہجے کا جوش چرا لیا۔ کھیل کھیلنے والی تھیوری کے بیوپاری بھی بغلیں بجا رہے ہیں کہ طاہر القادری کے ڈی چوک چھوڑنے کے بعد اُن کا پیش کردہ دعویٰ کہ ''پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!'' بالآخر دُرست ثابت ہوا۔
یہ باتیں کتنی ہی گھما پھرا کر کی جائیں، اشارہ ایک پس پردہ طاقتور ادارے کی جانب ہوتا ہے۔ یہ کوششیں مجرمانہ ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے بھی زیادتی ہوگی، جو قیادت کے متعدد غلط فیصلوں کے باوجود اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر تین ماہ گزر جانے کے باوجود ڈی چوک میں ہلا گلا ہورہا ہے، تو اُن کا جذبہ قابل تعریف ہے۔
البتہ ناقدین کا یہ شکوہ بجا کہ پی ٹی آئی قیادت اِس جذبے کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال کر سکتی تھی۔ احتجاج اُن کا حق، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبے بھی کرتے رہیں، مگر ساتھ ہی نعرے لگاتی اس قوت کو زندگی کے مثبت شعبوں میں بھی استعمال کرنا چاہیے۔ اگر خان کے لاکھوں چاہنے والے احتجاج کے ساتھ ساتھ صفائی مہم شروع کر دیں، درخت لگائیں؛ تو اِس عمل سے اُن کے لیڈر کی شہرت مہمیز ہوگی۔
حکومت کو، جس کے وزراء گذشتہ کئی ماہ سے ''مٹھی بھر لوگ'' کی گردان کر رہے ہیں، ذرا سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بڑھکیں مارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جس طوفان کے تھمنے کا آپ یقین کیے بیٹھے تھے، وہ پھر اٹھنے کو ہے۔ پانچ برس پورے کرنا ن لیگ کا آئینی حق، دھاندلی کی شفاف تحقیقات سے ممکن ہے کہ حکومت کو گزند پہنچے، مگر یہ حق تب بھی محفوظ رہے تھا۔ تو بہتر یہی ہے کہ الجھن کی بھول بھلیوں سے نکل کر ایک سلجھا ہوا طرز عمل اپنایا جائے۔ پی ٹی آئی والے ضدی، مگر آپ تو سمجھ دار ہیں۔ چینی کہاوت ہے؛ جو طاقت وَر ہوتا ہے، ذمے داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ اقتدار ن لیگ کے پاس، اور قوم کو احتجاجی جھنجھٹ سے نکالنے کا بوجھ ''شرپسندوں'' سے زیادہ اُس کے کاندھوں پر۔
یاد رکھیں، یقین بڑی قوت ہے۔ لیکن یہ خوش فہمی میں بدل جائے، تو تخریبی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کراچی کی پُرامن خاموشی نے عمران کے یقین کو مہمیز کیا ہے۔ جب یہ تحریر شایع ہو گی، اُن کے یقین کا ریلہ لاہور سے ٹکرا رہا ہوگا۔ اور صورت حال شہر قائد سے مختلف ہوگی۔ سندھ اُن کے لیے غیرملکی ٹور تھا، اور اپنی کارکردگی سے وہ مطمئن ہوں گے۔ مگر تخت لاہور کو وہ ہوم گرائونڈ سمجھنے لگے ہیں۔ اور اسٹڈیم پر دبیز بادل چھائے ہیں۔ اُن بادلوں میں یقین کی بارشیں پوشیدہ ہیں یا خوش فہمی کی گھن گرج؛ اِس کا فیصلہ جلد ہوجائے گا۔