سابق چیئرمین نیب سیف الرحمٰن کی دبئی میں انٹرپول کے ہاتھوں گرفتاری اور رہائی
وزیراعظم نوازشریف اور اسحق ڈارنے اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں رہا کروایا، ذرائع
احتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمن کو انٹرپول نے گرفتارکیا لیکن اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کرادیا۔
ذرائع کے مطابق جب سیف الرحمن د بئی کی جیل میں تھے توحکومت پاکستان بالخصوص وزیراعظم نوازشریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈارنے دبئی کے حکمرانوں کے ساتھ رابط کیا اور اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں رہا کرانے میں کردار بھی ادا کیا۔
واضح رہے سیف الرحمن نے بطور چیئرمین نیب سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو مرحومہ پر مختلف کیسز بنوائے اور انھوں نے اپنے مخالفین کو بھی کیسز میں ملوث کیے رکھا جن میں سابق صدرزرداری سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف ابھی تک کیس چل رہے ہیں جب کہ خودسیف الرحمٰن کے خلاف کرپشن اورمنی لانڈرنگ کے الزامات عائد ہوئے جس پر انٹرپول نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے، اس بنا پر انھیں ایک روزقبل دبئی میں گرفتار کیا گیا۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سیف الرحمن نے اپنی گرفتاری کی تردید کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انکی گرفتاری سے متعلق اطلاعات بے بنیاد ہیں، ان کے خلاف انٹرپول کا کوئی وارنٹ موجود نہیں ہے، وہ قطر میں 35 سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے صنعتی یونٹ میں 3 ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جب سیف الرحمن د بئی کی جیل میں تھے توحکومت پاکستان بالخصوص وزیراعظم نوازشریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈارنے دبئی کے حکمرانوں کے ساتھ رابط کیا اور اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں رہا کرانے میں کردار بھی ادا کیا۔
واضح رہے سیف الرحمن نے بطور چیئرمین نیب سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو مرحومہ پر مختلف کیسز بنوائے اور انھوں نے اپنے مخالفین کو بھی کیسز میں ملوث کیے رکھا جن میں سابق صدرزرداری سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف ابھی تک کیس چل رہے ہیں جب کہ خودسیف الرحمٰن کے خلاف کرپشن اورمنی لانڈرنگ کے الزامات عائد ہوئے جس پر انٹرپول نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے، اس بنا پر انھیں ایک روزقبل دبئی میں گرفتار کیا گیا۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سیف الرحمن نے اپنی گرفتاری کی تردید کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انکی گرفتاری سے متعلق اطلاعات بے بنیاد ہیں، ان کے خلاف انٹرپول کا کوئی وارنٹ موجود نہیں ہے، وہ قطر میں 35 سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے صنعتی یونٹ میں 3 ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں۔