پاکستان ایک نظر میں حکومتی سنجیدگی یا نااہلی

حکومت اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ بحران ٹل گیا ہے تواس کو جلد دور کر لے کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

حکومت اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ بحران ٹل گیا ہے تواس کو جلد دور کر لے کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

گزشتہ تحریر ''دھرنے سے اختلاف کیوں'' میں، میں نے تحریک انصاف کی دھرنا پالیسی سے اپنے اختلافات کو ثبت تحریر کیا تھا۔ میرے خدشات آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں لیکن اس کے باوجود میں صحافی ہوں اور صحافتی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے آج میں تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر رہا ہوں کہ حکومت نے اس معاملے میں کیا غلطیاں کی ہیں اور کس حد تک نا اہلی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے حکومتی زعماء پر لازم ہے کہ تحریک انصاف کو ایک حقیقی قوت تسلیم کریں ۔ عمران خان صاحب نے الیکشن کے بعد چار حلقوں کو کھلوانے کا مطالبہ کیا جو کہ اُن کا حق تھا اوردرست بھی تھا ۔ایک بڑی پارٹی کا سربراہ ،جو پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے ، کو خدشہ تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے جس کی بنیاد پر سربراہ نے اپنا حق مانگنے کیلئے صرف چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ موجود الیکشن صاف اور شفاف تھے تو میں یہ یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اُ س شخص کا ذہن عقل سے پیدل ہے کیونکہ الیکشن میں دھاندلی کے تصاویری اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔

خان صاحب اپنے حق کیلئے ہر فورم پر گئے لیکن اُ ن کی شنوائی نہ ہوئی ۔حکومتی وزرا نے خان صاحب کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور ان کو مختلف قسم کے طعنے بھی دیے گئے ۔ حکومت کا طرز عمل جمہوری کی بجائے آمرانہ رہا اور میاں صاحبان کا غرور اپنی جگہ پر موجود رہا۔ حکومت کی طرف سے خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف ، پرویز رشید اور عابد شیر علی ، رانا ثنا اللہ، حنیف عباسی اور دیگر نے احمقانہ قسم کے بیانات دے کر تحریک انصاف کے غصے کو ہوا دی۔ دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ حکومت اس مسئلے کو سنتی اور اس میں اپنا کردار ادا کرتی لیکن حکومت کو شاید کسی دشمن کی ضرورت نہیں کہ یہ خود اپنے لئے کافی ہے ۔ تحریک انصاف کے مطالبے سے لے کر احتجاج تک اور احتجاج سے لے کر آج تک، حکومت نے نا دانیوں اور بے وقوفیوں کے ریکارڈز قائم کئے ہیں۔ اسی دوران میں ماڈل ٹاؤن میں ذاتی انا کی تسکین کیلئے چودہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یہاں بھی حکومتی جاہلیت، بربریت اور نا اہلی کھل کر سامنے آ گئی۔ بجائے اس کے ذمہ داران کا تعین کرکے ان کو قرار واقعی سزا دی جاتی، حکومت نے گلو بٹ اور اس جیسوں کو پکڑ کر کارروائی کی رسم ادا کردی جب کہ اصل ذمہ داران آج بھی مزے میں ہیں۔ آپ اُن دنوں کے خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید وٖغیرہ کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا۔

پھر تحریک انصاف اپنے مطالبے کیلئے لامحالہ سڑکو ں پر آگئی لیکن تب بھی حکومت سنجیدہ رویہ نہ اختیار کر سکی۔خدا جانے میاں صاحب کو کون لوگ پٹیاں پڑھاتے ہیں ۔سنا ہے میاں صاحب کو انٹرنیٹ کا استعمال آتاہے تو خدارا صبح کے ناشتے کے ساتھ آن لائن اخبار ہی پڑھ لیا کریں تاکہ درست حقیقت آپ کے سامنے آ سکے،وہی لوگ جنہوں نے معاملات کو مس ہینڈل کیا تھا اُن ہی لوگوں کو مزید اختیارات دیے گئے ۔ کیا یہ درست نہیں تھا کہ نواز شریف خود چل کر عمران خان کو منا لیتے؟ اگر حکومت کو اپنی کارکردگی پر اتناہی یقین ہے اور اس کو یہ بھی یقین ہے کہ الیکشن دودھ کے دھلے ہوئے تھے تو یہ بہتر تھا کہ حکومت ایک کمیشن تشکیل دیتی اور تحریک انصاف کا مطالبہ پورا کر دیتی۔ حکومت نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے باقی کے مطالبات پورے کر دیتی تو تب بھی دباؤ خان صاحب کی طرف ہوتا لیکن حکومت کے کسی بھی عمل سے اس کی سنجیدگی واضح نہیں ہوئی۔


واضح رہے کہ خان صاحب نے صرف چار حلقوں کی بات کی تھی اور لانگ مارچ کہ اعلان سے پہلے تک چار حلقوں کی بات پر قائم تھے جو کہ اُن کا حق تھا۔ اب جب کسی کا حق مارا جائے گا تو پھولوں کے ہار تو پڑنے سے رہے۔ رہی سہی کسر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے مختلف قسم کے جاہلانہ، متعصبانہ، بھونڈے بیانات دے کر پوری کر دی ۔حکومت کی اپنی کارکردگی اس سارے دورانئے میں صفر رہی بلکہ منفی صفر کہنا زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ الیکشن میں کئے گئے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے ہیں،جن سے حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی انحراف شروع کر دیا۔ اسلام آباد کے پر امن دھرنے پر بھی حکومتی شیلنگ نے معاملات اور مزید خراب کیا۔ اگر مظاہرین وزیر اعظم ہاوس کی طرف جا رہے تھے تو ان کو جانے دیتے،اُن کی طرف سے پہلے توڑ پھوڑ تو نہیں ہوئی تھی ۔ بجائے اس کے کہ تمام اہم عمارتوں کی سکیورٹی فوج سے مزید سخت کروا لی جاتی،الٹا مظاہرین پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کر دی گئی، جس کے نتیجے میں افسوسناک واقعات بھی ہوئے۔

اب خان صاحب اپنے تمام تر سخت مطالبات سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ لہذ حکومت کو چاہئے کہ اپنی طاقت کو اندھوں پر لاٹھی چارج کرنے اور فیصل آباد میں معصوم لوگوں پر استعمال کرنے کی بجائے اس معاملے کو حل کرنے میں استعمال کرے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ سنجیدہ وزراء جیسا کہ راجہ ظفر الحق وغیرہ کو معاملات سونپے جائیں اور مسخرے وزرا ء کو لگام ڈالی جائے جوجلتی پر تیلی کا کام کر رہے ہیں۔ خان صاحب کے مطالبات غلط نہیں ہیں،طریقہ کار پر اختلاف اپنی جگہ ہے ۔ لیکن حکومت کو چاہیئے کہ مطالبات پر کان دھرتے ہوئے مذاکرات کی نئی راہیں ہموار کرے، وگرنہ جس تیزی سے حکومت اپنا تابوت تیار کر رہی ہے اور جس تیزی سے اِس کے وزرا ء اس میں کیلیں ٹھونک رہے ہیں، اس کے بعد دھرن تختے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے ۔ ساتھ ہی میاں صاحب 93ء کو نہ بھولیں ، حکومت اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ بحران ٹل گیا ہے تواس کو جلد دور کر لے کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

آخر میں عرض کرتا چلوں کہ میرا شکوہ حکمرانوں اور لیڈران کے ساتھ ہے۔ اس ملک کے وہ لاکھوں ،کروڑوں لوگ جو کسی بھی پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر نکلے ہیں ،ان کا تعلق چاہے عمران خان سے ہو یا پھر پیپلز پارٹی سے، وہ جماعت اسلامی سے ہوں یا منہاج القرآن سے، چاہے وہ کسی بھی صوبے سے ہوں بے قصور اور معصوم ہیں۔ میری نظر میں یہ وہ سچے محب وطن لوگ ہیں جو ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں اور جو دل میں قوم کا درد رکھتے ہیں،اسی لئے وہ اپنا لیڈر منتخب کر کے اُس کے دکھائے گئے خوابوں کی منزل پانے چل پڑے۔ اب یہ لیڈران کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خوابوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story