اقبال اور تعقلی حقیقت
’’تنقید عقل محض‘‘ نے انسان کی عقلی حدود کو متعین کیا اور عقلیت کے تمام کارخانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
ماہرینِ اقبالیات اورطالبِ علم اس حقیقت سے یکساں طور پر آشنا ہیں کہ علامہ اقبال نے ہمیشہ وجدان کو عقلیت پر ترجیح دی ہے۔ ''فکر اسلامی کی نئی تشکیل'' میں بیشتر اہم مقامات پر وہ عقلیت کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں' اعلیٰ' سچائی کے حصول کے لیے اس تجربے کی ضرورت نہیں ہے جو خارج سے حسیات کے لیے دستیاب ہوتا ہے اور انسانی سرشت میں جس پر حکم لگانے والی سب سے فیصلہ کن قوت 'عقل' ہے۔'اعلیٰ' سچائی کو ان کے نزدیک بلاواسطہ وجدان کے ذریعے پایا جاسکتا ہے۔
اپنے اسی بنیادی مقدمے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ان مغربی فلسفیوں کے حوالے بھی قلمبند کرنے کے ساتھ ان کی تعریف وتحسین بھی کی ہے کہ جن کے نزدیک عقل 'شے فی الذات' تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ پہلے ہی خطبے میں جدید فلسفے کے اہم ترین فلسفی عمانوئیل کانٹ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''تنقید عقل محض'' نے انسان کی عقلی حدود کو متعین کیا اور عقلیت کے تمام کارخانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اسے بجا طور پر اپنے ملک کے لیے خدا کا عظیم ترین عطیہ کہا جاتا ہے۔'' آسان الفاظ میں یوں کہ کانٹ خدا کا 'عطیہ' محض اس لیے ٹھہرا کہ اس نے عقلیت پسندی کو منہدم کردیا۔
چوتھے خطبے میں اقبال اپنے اس بیان کی ان الفاظ میں نفی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ ''کانٹ کے عقلِ محض کے مغالطوں سے جدید فلسفے کے طلبا اچھی طرح آگاہ ہیں'' اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کانٹ کے عقل محض کے مغالطوں سے فلسفے کے طالبعلم بہت اچھی طرح واقف ہیں تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ 'مغالطے' دراصل ہیں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری یہ ہے کہ ان فلسفیوں کے فلسفے پر مختصر نظر ڈالی جائے جنہوں نے کانٹ کے فلسفے میں مضمر مغالطوں کو نشان زد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو درست بھی کیا۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم ترین نام بلاشبہ کانٹ کے شاگرد یوہان فختے کا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہی فختے ہے جس سے اقبال نے اپنا تمام فلسفہ مستعار لے لیا تھا۔ اہم ترین نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ اقبال عقل محض کی جس معذوری کی وجہ سے کانٹ کو بلند مقام پر فائز کرتے ہیں، فختے اسی کو کانٹ کے فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری خیال کرتا ہے۔منطقی اصولوں کی تشکیل کے دوران جس طریقے سے کانٹ نے انسان اور کائنات کو تقسیم کرتے ہوئے ثنویت کے فلسفے کا احیا کیا اور اس پر 'شے فی الذات' کے تصور کی بنیاد رکھی تھی، فختے اس کو یکسر مسترد کردیتا ہے۔ حقیقت صرف وحدانی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسے جانا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یعنی کیا موضوع (انسان) اور معروض( فطرت) کو جان سکتا ہے یا نہیں؟ کانٹ اپنی جدلیاتی منطق کے تحت موضوع (Subject) اور معروض(Object)کو دو مخالف حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔
وہ تعقلات (Concepts) اور مقولات (Categories) کو فہم محض میں تجریدی طور پر تصور کرلیتا ہے اور پھر حسیاتی ادراکات پر ان کا اطلاق کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ظاہر (Appearance) اور جوہر (Essence) کے درمیان تضادات موجود ہیں جن کی کسی بھی صورت میں تحلیل نہیں ہوسکتی ہے ۔ تحلیل کے بغیر دونوں میں تطابق ممکن نہیں ہے۔ ظاہر اور حقیقت کے اس ناقابلِ تحلیل تضاد سے ثنویت (Dualism) کے فلسفے کو تقویت ملتی ہے۔ اقبال ثنویت کے فلسفے کے مخالف تھے، کانٹ کے فلسفے میں 'شے فی الذات' کو نہ جاننے کا قضیہ اسی 'ثنویت' کی وجہ ہی سے جنم لیتا ہے۔ یہی اس کے فلسفے میں مضمر سب سے اہم مغالطہ تھا جس سے اقبال بے خبر رہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اقبال فلسفیانہ قضایا سے بہت جلدی میں نتائج اخذ کرنا چاہتے تھے۔
کانٹ کے بعد جرمن فلسفیوں کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ تھا کہ کیا کانٹ کے وضع کردہ دو مختلف فلسفیانہ حقائق یعنی موضوع اور معروض کو دو مختلف سچائیوں کے طور پر پیش کرنے اور بعد ازاں ان میں تطابق دکھانے کے تصور کا ابطال کرتے ہوئے انھیں ایک ایسے وحدانی منطقی نظام کے تحت تشکیل دیا جائے جو سائنسی اہمیت کا حامل ہو۔ وحدانی نظام کی تشکیل کے عناصر کانٹ کے فلسفے میں بھی موجود تھے۔ مثال کے طور پر کانٹ کے نزدیک 'شے فی الذات' جو کہ خارجی دنیا کا جوہر ہے، وہ اس'نومینا'(Noumenon) کے مترادف ہے جو فہم محض کے مقولات پر مشتمل ہے یعنی 'نومینا' بھی 'شے فی الذات' ہے۔
کانٹ کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا احساس تو ہمارے ساتھ رہتا ہے مگر اس کے بارے میں علم حاصل نہیں کیا جا سکتا لہٰذا 'شے فی الذات' کو خارجی دنیا میں تصور کرنے کی بجائے ضروری یہ ہے کہ اس نومینا سے آغاز کیا جائے جو کہ موضوع میں موجود ہے کیونکہ 'شے فی الذات کا وہ تصور جسے کانٹ تشکیل دیتا ہے وہ منطقی طور پر ناممکن ہے۔ منطق کو سائنس کے درجے پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ منطقی اصول و قواعد کوتجریدی تصورات پر قربان نہ کیا جائے۔ تعقلات اور معقولات کا معروض پر اطلاق کرنے کی بجائے 'وجود' سے ان کا عقلی استخراج (Deduction) کیا جائے۔ فختے کے سامنے یہی چیلنج تھا۔ اس نے اپنی کتاب 'علم کی سائنس' میں کانٹ کی موضوع اور معروض کی اصطلاحات کو 'ایگو' اور 'نان ایگو' جیسی اصطلاحات سے تبدیل کردیا۔
ایگو آغاز میں اپنے برابر ہوتی ہے، مگر جونہی اس کی عملی سرگرمی جنم لیتی ہے اور اس سرگرمی سے جو کچھ خلق ہوتا ہے وہ اس 'ایگو' سے متضاد اورمختلف ہوتا ہے یعنی خودی نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ خودی نہیں ہے بلکہ غیر خودی ہے، جو خودی کے منقلب ہونے کا عمل ہے لہٰذا غیر خودی کہیں خارج میں نہیں بلکہ خودی ہی کے اندر موجود ہوتی ہے۔'سیلف' خودی اور غیر خودی کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو شناخت کرتا ہے۔ اس طرح غیر خودی،جو خودی کے اندر ہی موجود ہوتی ہے وہ خودی کا معروض بن جاتی ہے اور خارج میں معروض کے کانٹین تصور سے نجات مل جاتی ہے۔ یوں ثنویت کے اس فلسفے کا خاتمہ ہوجاتا ہے جس کانٹ کی ''تنقید عقل محض'' میں موجود تھا۔
اقبال نے ثنویت کو تو مسترد کردیا مگر کانٹ کی تعریف و تحسین صرف اس وجہ سے کی کہ عقلیت کی معذوری سے وجدان کے لیے راستہ ہموار ہو رہا تھا۔اقبال یہ جاننے سے قاصر رہے کہ کانٹین فلسفے میں 'ثنویت' کے تصور کے بغیر 'شے فی الذات' کا قضیہ جنم ہی نہیں لے سکتا تھا۔ اقبال اس حقیقت سے بھی نابلد رہے کہ عقلیت اور شے فی الذات سے متعلق جو فلسفیانہ و منطقی پروجیکٹ کو کانٹ کے غلط منطقی آغاز سے مکمل نہ ہوسکا، اس کے نقائص کو فختے نے کمال ذہانت سے نہ صرف عیاں کردیا بلکہ 'شے فی الذات' کے قضیے کو بھی اپنے عقلی و منطقی فلسفے سے حل کرتے ہوئے ہیگل کی جدلیاتی منطق کے لیے راستہ آسان کردیا تھا۔
چوتھے خطبے میں اقبال ایک نہایت ہی دلچسپ نکتہ اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ''ہیگل کا نظریہ حقیقت، بطورِ عقل کی لامتناہیت جس سے حقیقی کی لازمی عقلیت جنم لیتی ہے، ایسا ہی اسلام میں بھی ہوا ہے۔'' اسلام میں ایسا ہوا ہے کہ نہیں، یہ نکتہ اس وقت زیرِ بحث نہیں ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اقبال کا یہ اقتباس ان کی گزشتہ فکر سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقبال کی فکر باطنی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ان کی سوچ میں موافقت اور مطابقت جیسے تصورات کا فقدان ہے۔ اگر اقبال کی ہیگل کے بارے میں اس رائے کو تسلیم کرلیا جائے تو ان کا وجدان کی بالادستی کا نظریہ از خود منہدم ہوجاتا ہے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اقبال ،ہیگل کی عقلیت پسندی کے حقیقی مفاہیم کو سمجھنے سے بھی عاری رہے ہیں اور اس کی یکطرفہ اور من مانی تشریح کرتے رہے ہیں۔ ہیگل کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کانٹ کے فلسفہ ثنویت سے جنم لینے والی 'شے فی الذات'کی تفہیم اور بعد ازاں اس پر فختے اور شیلنگ کے منطقی و عقلی اعتراضات کا صحیح ادراک نہ کر لیا جائے۔ ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' کا مقصد' عقل محض' کی رہنمائی میں 'شے فی الذات' کی تعریف اور اس کا انکشاف کرنا تھا۔ وہی عقل محض جسے اقبال تنقیص کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ہیگل کے نزدیک عقل محض کا مقصد'منطق کی سائنس' کے سیکشن 50 کے مطابق'' خدا کو اس کے ابدی جوہر میں فطرت اور متناہی ذہن کی تخلیق سے پہلے کی حالت میں منکشف کرنا ہے''
یعنی مطلق خیال یا مطلق حقیقت ایک منطقی تشکیل ہے،وجود کی تخلیق وجدان کی سرگرمی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انتہائی محتاط انداز میں مطلق خیال کے اندر سے استخراج شدہ تعقلات اور معقولات کا منطقی اظہار ہے، جو بالآخر ''مطلق حقیقت'' تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک ایسا منطقی نظام جس میں تعقلات و مقولات کسی خارجی ہاتھ کی وساطت سے نہیں از خود سائنسی انداز میں منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ فلسفیانہ طریقہ کار یہ ہے کہ عقلیت کی مطلق حقیقت تک رسائی کو اسی عقلی و منطقی انداز میں روکا جائے جو انداز کسی فلسفی نے اپنے فلسفیانہ و منطقی نظام کی تشکیل کے لیے اختیار کررکھا ہوتا ہے تاہم اقبال کی فکر منطقی سطح پر مربوط نہیں بلکہ کیفیات سے عبارت ہے۔
اپنے اسی بنیادی مقدمے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ان مغربی فلسفیوں کے حوالے بھی قلمبند کرنے کے ساتھ ان کی تعریف وتحسین بھی کی ہے کہ جن کے نزدیک عقل 'شے فی الذات' تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ پہلے ہی خطبے میں جدید فلسفے کے اہم ترین فلسفی عمانوئیل کانٹ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''تنقید عقل محض'' نے انسان کی عقلی حدود کو متعین کیا اور عقلیت کے تمام کارخانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اسے بجا طور پر اپنے ملک کے لیے خدا کا عظیم ترین عطیہ کہا جاتا ہے۔'' آسان الفاظ میں یوں کہ کانٹ خدا کا 'عطیہ' محض اس لیے ٹھہرا کہ اس نے عقلیت پسندی کو منہدم کردیا۔
چوتھے خطبے میں اقبال اپنے اس بیان کی ان الفاظ میں نفی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ ''کانٹ کے عقلِ محض کے مغالطوں سے جدید فلسفے کے طلبا اچھی طرح آگاہ ہیں'' اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کانٹ کے عقل محض کے مغالطوں سے فلسفے کے طالبعلم بہت اچھی طرح واقف ہیں تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ 'مغالطے' دراصل ہیں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری یہ ہے کہ ان فلسفیوں کے فلسفے پر مختصر نظر ڈالی جائے جنہوں نے کانٹ کے فلسفے میں مضمر مغالطوں کو نشان زد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو درست بھی کیا۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم ترین نام بلاشبہ کانٹ کے شاگرد یوہان فختے کا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہی فختے ہے جس سے اقبال نے اپنا تمام فلسفہ مستعار لے لیا تھا۔ اہم ترین نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ اقبال عقل محض کی جس معذوری کی وجہ سے کانٹ کو بلند مقام پر فائز کرتے ہیں، فختے اسی کو کانٹ کے فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری خیال کرتا ہے۔منطقی اصولوں کی تشکیل کے دوران جس طریقے سے کانٹ نے انسان اور کائنات کو تقسیم کرتے ہوئے ثنویت کے فلسفے کا احیا کیا اور اس پر 'شے فی الذات' کے تصور کی بنیاد رکھی تھی، فختے اس کو یکسر مسترد کردیتا ہے۔ حقیقت صرف وحدانی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسے جانا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یعنی کیا موضوع (انسان) اور معروض( فطرت) کو جان سکتا ہے یا نہیں؟ کانٹ اپنی جدلیاتی منطق کے تحت موضوع (Subject) اور معروض(Object)کو دو مخالف حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔
وہ تعقلات (Concepts) اور مقولات (Categories) کو فہم محض میں تجریدی طور پر تصور کرلیتا ہے اور پھر حسیاتی ادراکات پر ان کا اطلاق کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ظاہر (Appearance) اور جوہر (Essence) کے درمیان تضادات موجود ہیں جن کی کسی بھی صورت میں تحلیل نہیں ہوسکتی ہے ۔ تحلیل کے بغیر دونوں میں تطابق ممکن نہیں ہے۔ ظاہر اور حقیقت کے اس ناقابلِ تحلیل تضاد سے ثنویت (Dualism) کے فلسفے کو تقویت ملتی ہے۔ اقبال ثنویت کے فلسفے کے مخالف تھے، کانٹ کے فلسفے میں 'شے فی الذات' کو نہ جاننے کا قضیہ اسی 'ثنویت' کی وجہ ہی سے جنم لیتا ہے۔ یہی اس کے فلسفے میں مضمر سب سے اہم مغالطہ تھا جس سے اقبال بے خبر رہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اقبال فلسفیانہ قضایا سے بہت جلدی میں نتائج اخذ کرنا چاہتے تھے۔
کانٹ کے بعد جرمن فلسفیوں کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ تھا کہ کیا کانٹ کے وضع کردہ دو مختلف فلسفیانہ حقائق یعنی موضوع اور معروض کو دو مختلف سچائیوں کے طور پر پیش کرنے اور بعد ازاں ان میں تطابق دکھانے کے تصور کا ابطال کرتے ہوئے انھیں ایک ایسے وحدانی منطقی نظام کے تحت تشکیل دیا جائے جو سائنسی اہمیت کا حامل ہو۔ وحدانی نظام کی تشکیل کے عناصر کانٹ کے فلسفے میں بھی موجود تھے۔ مثال کے طور پر کانٹ کے نزدیک 'شے فی الذات' جو کہ خارجی دنیا کا جوہر ہے، وہ اس'نومینا'(Noumenon) کے مترادف ہے جو فہم محض کے مقولات پر مشتمل ہے یعنی 'نومینا' بھی 'شے فی الذات' ہے۔
کانٹ کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا احساس تو ہمارے ساتھ رہتا ہے مگر اس کے بارے میں علم حاصل نہیں کیا جا سکتا لہٰذا 'شے فی الذات' کو خارجی دنیا میں تصور کرنے کی بجائے ضروری یہ ہے کہ اس نومینا سے آغاز کیا جائے جو کہ موضوع میں موجود ہے کیونکہ 'شے فی الذات کا وہ تصور جسے کانٹ تشکیل دیتا ہے وہ منطقی طور پر ناممکن ہے۔ منطق کو سائنس کے درجے پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ منطقی اصول و قواعد کوتجریدی تصورات پر قربان نہ کیا جائے۔ تعقلات اور معقولات کا معروض پر اطلاق کرنے کی بجائے 'وجود' سے ان کا عقلی استخراج (Deduction) کیا جائے۔ فختے کے سامنے یہی چیلنج تھا۔ اس نے اپنی کتاب 'علم کی سائنس' میں کانٹ کی موضوع اور معروض کی اصطلاحات کو 'ایگو' اور 'نان ایگو' جیسی اصطلاحات سے تبدیل کردیا۔
ایگو آغاز میں اپنے برابر ہوتی ہے، مگر جونہی اس کی عملی سرگرمی جنم لیتی ہے اور اس سرگرمی سے جو کچھ خلق ہوتا ہے وہ اس 'ایگو' سے متضاد اورمختلف ہوتا ہے یعنی خودی نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ خودی نہیں ہے بلکہ غیر خودی ہے، جو خودی کے منقلب ہونے کا عمل ہے لہٰذا غیر خودی کہیں خارج میں نہیں بلکہ خودی ہی کے اندر موجود ہوتی ہے۔'سیلف' خودی اور غیر خودی کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو شناخت کرتا ہے۔ اس طرح غیر خودی،جو خودی کے اندر ہی موجود ہوتی ہے وہ خودی کا معروض بن جاتی ہے اور خارج میں معروض کے کانٹین تصور سے نجات مل جاتی ہے۔ یوں ثنویت کے اس فلسفے کا خاتمہ ہوجاتا ہے جس کانٹ کی ''تنقید عقل محض'' میں موجود تھا۔
اقبال نے ثنویت کو تو مسترد کردیا مگر کانٹ کی تعریف و تحسین صرف اس وجہ سے کی کہ عقلیت کی معذوری سے وجدان کے لیے راستہ ہموار ہو رہا تھا۔اقبال یہ جاننے سے قاصر رہے کہ کانٹین فلسفے میں 'ثنویت' کے تصور کے بغیر 'شے فی الذات' کا قضیہ جنم ہی نہیں لے سکتا تھا۔ اقبال اس حقیقت سے بھی نابلد رہے کہ عقلیت اور شے فی الذات سے متعلق جو فلسفیانہ و منطقی پروجیکٹ کو کانٹ کے غلط منطقی آغاز سے مکمل نہ ہوسکا، اس کے نقائص کو فختے نے کمال ذہانت سے نہ صرف عیاں کردیا بلکہ 'شے فی الذات' کے قضیے کو بھی اپنے عقلی و منطقی فلسفے سے حل کرتے ہوئے ہیگل کی جدلیاتی منطق کے لیے راستہ آسان کردیا تھا۔
چوتھے خطبے میں اقبال ایک نہایت ہی دلچسپ نکتہ اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ''ہیگل کا نظریہ حقیقت، بطورِ عقل کی لامتناہیت جس سے حقیقی کی لازمی عقلیت جنم لیتی ہے، ایسا ہی اسلام میں بھی ہوا ہے۔'' اسلام میں ایسا ہوا ہے کہ نہیں، یہ نکتہ اس وقت زیرِ بحث نہیں ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اقبال کا یہ اقتباس ان کی گزشتہ فکر سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقبال کی فکر باطنی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ان کی سوچ میں موافقت اور مطابقت جیسے تصورات کا فقدان ہے۔ اگر اقبال کی ہیگل کے بارے میں اس رائے کو تسلیم کرلیا جائے تو ان کا وجدان کی بالادستی کا نظریہ از خود منہدم ہوجاتا ہے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اقبال ،ہیگل کی عقلیت پسندی کے حقیقی مفاہیم کو سمجھنے سے بھی عاری رہے ہیں اور اس کی یکطرفہ اور من مانی تشریح کرتے رہے ہیں۔ ہیگل کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کانٹ کے فلسفہ ثنویت سے جنم لینے والی 'شے فی الذات'کی تفہیم اور بعد ازاں اس پر فختے اور شیلنگ کے منطقی و عقلی اعتراضات کا صحیح ادراک نہ کر لیا جائے۔ ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' کا مقصد' عقل محض' کی رہنمائی میں 'شے فی الذات' کی تعریف اور اس کا انکشاف کرنا تھا۔ وہی عقل محض جسے اقبال تنقیص کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ہیگل کے نزدیک عقل محض کا مقصد'منطق کی سائنس' کے سیکشن 50 کے مطابق'' خدا کو اس کے ابدی جوہر میں فطرت اور متناہی ذہن کی تخلیق سے پہلے کی حالت میں منکشف کرنا ہے''
یعنی مطلق خیال یا مطلق حقیقت ایک منطقی تشکیل ہے،وجود کی تخلیق وجدان کی سرگرمی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انتہائی محتاط انداز میں مطلق خیال کے اندر سے استخراج شدہ تعقلات اور معقولات کا منطقی اظہار ہے، جو بالآخر ''مطلق حقیقت'' تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک ایسا منطقی نظام جس میں تعقلات و مقولات کسی خارجی ہاتھ کی وساطت سے نہیں از خود سائنسی انداز میں منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ فلسفیانہ طریقہ کار یہ ہے کہ عقلیت کی مطلق حقیقت تک رسائی کو اسی عقلی و منطقی انداز میں روکا جائے جو انداز کسی فلسفی نے اپنے فلسفیانہ و منطقی نظام کی تشکیل کے لیے اختیار کررکھا ہوتا ہے تاہم اقبال کی فکر منطقی سطح پر مربوط نہیں بلکہ کیفیات سے عبارت ہے۔