سانحہ پشاور دہشت گردوں کا پاکستان کے مستقبل پر حملہ
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قومی سطح کے لیڈر کھل کر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے کینٹ ایریا میں وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 طالب علم اور اسکول اسٹاف سمیت 141 افراد شہید جب کہ سو سے زاید بچے اور اسٹاف کے ارکان زخمی ہو گئے۔اس سانحے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پورے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پاک آرمی کے جوانوں نے حملہ آور تمام دہشت گردوں کوہلاک کر دیا۔ واقعات کے مطابق منگل کو چھ مسلح دہشت گرد اسکول کی عمارت میں داخل ہوئے اور وہاں موجود طالب علموں کو یرغمال بنا لیا۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کرسیوں کے نیچے چھپے ہوئے معصوم طلباء کو بھی گولیاں ماری گئیں۔ اس سانحے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔
سانحہ پشاور نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ تاریخ میں یہ سب سے زیادہ بے رحمانہ اور سفاکانہ کارروائی تھی۔اس کارروائی سے قبل بھی دہشت گردوں نے بہت سے مقامات پر خود کش حملے اور فائرنگ کے ذریعے بے گناہوں کو شہید کیا ہے لیکن اگلے روز پشاور میں انھوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے بے گناہ اور معصوم طالب علموں پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی رعایت یا رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ اس سانحہ نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔
پاکستان کا کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جس نے اس سانحہ کی مذمت نہ کی ہو۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف،پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سانحہ کے بعد پشاور پہنچے۔ اس سانحے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپس میں متحارب سیاسی جماعتوں نے یکساں موقف اختیار کیا ہے۔ یہ خرابی سے تعمیر کی نئی صورت ہے۔
پاکستان میں دہشت گردوں نے جس طرح بے گناہ افراد کا خون بہایا ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ایک مضبوط اور موثر پالیسی اختیار کی جائے۔ پشاور میں معصوم بچوں کو شہید کر کے دہشت گردوں نے انسانیت کی ساری حدود پار کر لی ہیں۔ اب پاکستانی قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ طالب علم اور بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پشاور میں اسکول کے بچوں کو شہید کر کے دہشت گردوں نے پاکستان کے مستقبل پر حملہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے نظریاتی کنفیوژن پھیلائی گئی۔
اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی سامنے آئی۔ خود کو دینی حلقے کہلانے والوں نے اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی گردان کر کے عوام کو بھی ابہام کا شکار کیا اور دہشت گردوں کے لیے بھی راہ ہموار کی۔ ادھر ملک کی سیاسی جماعتوں میں بھی طالبان کے حوالے سے تقسیم واضح نظر آئی۔ جماعت اسلامی،جے یو آئی اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے علاوہ مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے موقف کو اپنایا۔ ان جماعتوں نے دوسری سیاسی قیادت کو بھی مجبور کیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا آپشن اختیار کریں۔ مختلف مواقعے پر طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کیے گئے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوئے۔
سوات میں مذاکرات ہوئے،اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی جب کہ خیبر پختونخوا میں اے این پی برسراقتدار تھی۔ ان مذاکرات کے بعد طالبان نے پورے سوات پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ سوات آپریشن کی صورت میں سامنے آیا۔ موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو طالبان سے مذاکرات کا عمل ایک بار پھر شروع ہوا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مسلسل طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت پر دبائو ڈالتے رہے۔ موجودہ حکومت نے مذاکرات کا عمل شروع کیا تو اس دوران بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے،پشاور میں ہی چرچ پر حملہ کیا گیا۔ لیکن مذاکرات کا عمل جاری رہا اور پھر حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں موت کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذاکرات کا آپشن کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ایجنڈا ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے اور انھوں نے مذہب کی آڑ لے رکھی ہے۔ یہ کوئی عام سا تناز ع نہیں ہے کہ جسے جرگے یا کمیٹی کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ اب تک جو بھی مذاکرات ہوئے ہیں،اس کے نتیجے میں دہشت گردوں نے فائدہ حاصل کیا ہے،وہ مذاکرات کے ذریعے وقت حاصل کرتے رہے ہیں اور اس دوران اپنے نیٹ ورک کو پھیلاتے رہے ہیں۔ وہ مذاکرات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہے ہیں۔ ادھر سیاسی حکومتوں کے دور میں انتظامی سطح پر بھی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آئے۔
دہشت گرد آزادانہ انداز میں اپنی کارروائی کرتے رہے۔ کراچی،لاہور،راولپنڈی اور پشاور جیسے بڑے شہر ان کی کارروائیوں سے محفوظ نہ رہے۔ پولیس اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ پشاور میں بھی دہشت گرد بڑے آرام کے ساتھ اسکول میں داخل ہو گئے اور کوئی انھیں روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لاہور میں واہگہ بارڈر کے قریب بھی خود کش حملہ آور با آسانی پہنچ گیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ سول حکومتیں اور ان کی مشینری اپنے فرائض پوری تندہی سے ادا نہیں کر رہیں۔ ادھر جو دہشت گرد گرفتار ہوئے وہ بھی عدالتوں سے رہا ہوتے رہے۔ کسی دہشت گرد کو سزا نہ ہو سکی۔
اس میں قصور کس کا تھا،اس بحث میں پڑے بغیر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جس حوصلے،جرات اور نظریاتی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری حکومتوں اور سیاسی قیادت میں نہیں رہی۔ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت عوام کو دہشت گردوں کے خلاف یکسو کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے عوام میں تقسیم پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کبھی بھی بھرپور کارروائی نہ ہو سکی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں افواج پاکستان کے افسر اور جوان بھی شامل ہیں اور بے گناہ شہری بھی۔ انتہا یہ ہے کہ دہشت گردوں نے درگاہوں اور عبادتگاہوں کا بھی احترام نہیں کیا اور وہاں بھی خود کش حملے کیے۔
یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قومی سطح کے لیڈر کھل کر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔ کبھی یہ آڑ لی جاتی ہے کہ یہ غیروں کی لڑائی ہے،کبھی بھارت کی طرف اشارہ کر کے دہشت گردوں کے لیے گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ ہمارے قومی سطح کے لیڈر یہ کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں،اور جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک تنظیم ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس کی ذمے داری قبول کرتی ہے اور ہماری لیڈر شپ کھل کر نام لینے سے بھی ہچکچاتی ہے۔ ملک کے اہل قلم بھی عوام میں کنفوژن پھیلانے میں مصروف ہیں،یہ صورت حال ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔
دنیا میں پاکستان واحد ملک نہیں ہے جسے دہشت گرد گروہوں کا سامنا ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ایسے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی ہے اور اس پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان بھی دہشت گردوں پر قابو پا سکتا ہے لیکن اس کے لیے جرات مندی اور نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ،حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہم یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کہ یہ پاکستان کے دشمنوں کی کارروائی ہے یا اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو ہو ہی رہی ہے،لیکن اس کے لیے نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں جو تنظیمیں،گروہ یا شخصیتیں عوام میں نظریاتی کنفیوژن پھیلا رہی ہیں اور برملا ایسی باتیں اور تقریریں کر رہی ہیں جن سے دہشت گردوں کے نظریات کو تقویت مل رہی ہے،ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ آئین اور قانون میں اگر کسی قسم کی کمزوری یا رکاوٹ ہے تو اسے بھی دور کیا جانا چاہیے۔ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کا تعین کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردو سن لیں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ یہ عزم حوصلہ افزا ہے'ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ایسے ہی عزم کا اظہار کرنا چاہیے۔
قوم کو سانحہ پشاور سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ پاکستان کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا غم نہ منایا گیا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہمارا مستقبل تباہ کرنے چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران پہلے بھی بیانات کی حد تک نعرے بازی کرتے رہے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گرد وں کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اس حوالے سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کو بچانے کے لیے بعض اوقات سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کینسر کے خاتمے کے لیے آپریشن لازم ہوتا ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پورے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پاک آرمی کے جوانوں نے حملہ آور تمام دہشت گردوں کوہلاک کر دیا۔ واقعات کے مطابق منگل کو چھ مسلح دہشت گرد اسکول کی عمارت میں داخل ہوئے اور وہاں موجود طالب علموں کو یرغمال بنا لیا۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کرسیوں کے نیچے چھپے ہوئے معصوم طلباء کو بھی گولیاں ماری گئیں۔ اس سانحے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔
سانحہ پشاور نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ تاریخ میں یہ سب سے زیادہ بے رحمانہ اور سفاکانہ کارروائی تھی۔اس کارروائی سے قبل بھی دہشت گردوں نے بہت سے مقامات پر خود کش حملے اور فائرنگ کے ذریعے بے گناہوں کو شہید کیا ہے لیکن اگلے روز پشاور میں انھوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے بے گناہ اور معصوم طالب علموں پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی رعایت یا رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ اس سانحہ نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔
پاکستان کا کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جس نے اس سانحہ کی مذمت نہ کی ہو۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف،پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سانحہ کے بعد پشاور پہنچے۔ اس سانحے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپس میں متحارب سیاسی جماعتوں نے یکساں موقف اختیار کیا ہے۔ یہ خرابی سے تعمیر کی نئی صورت ہے۔
پاکستان میں دہشت گردوں نے جس طرح بے گناہ افراد کا خون بہایا ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ایک مضبوط اور موثر پالیسی اختیار کی جائے۔ پشاور میں معصوم بچوں کو شہید کر کے دہشت گردوں نے انسانیت کی ساری حدود پار کر لی ہیں۔ اب پاکستانی قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ طالب علم اور بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پشاور میں اسکول کے بچوں کو شہید کر کے دہشت گردوں نے پاکستان کے مستقبل پر حملہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے نظریاتی کنفیوژن پھیلائی گئی۔
اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی سامنے آئی۔ خود کو دینی حلقے کہلانے والوں نے اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی گردان کر کے عوام کو بھی ابہام کا شکار کیا اور دہشت گردوں کے لیے بھی راہ ہموار کی۔ ادھر ملک کی سیاسی جماعتوں میں بھی طالبان کے حوالے سے تقسیم واضح نظر آئی۔ جماعت اسلامی،جے یو آئی اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے علاوہ مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے موقف کو اپنایا۔ ان جماعتوں نے دوسری سیاسی قیادت کو بھی مجبور کیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا آپشن اختیار کریں۔ مختلف مواقعے پر طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کیے گئے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوئے۔
سوات میں مذاکرات ہوئے،اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی جب کہ خیبر پختونخوا میں اے این پی برسراقتدار تھی۔ ان مذاکرات کے بعد طالبان نے پورے سوات پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ سوات آپریشن کی صورت میں سامنے آیا۔ موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو طالبان سے مذاکرات کا عمل ایک بار پھر شروع ہوا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مسلسل طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت پر دبائو ڈالتے رہے۔ موجودہ حکومت نے مذاکرات کا عمل شروع کیا تو اس دوران بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے،پشاور میں ہی چرچ پر حملہ کیا گیا۔ لیکن مذاکرات کا عمل جاری رہا اور پھر حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں موت کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذاکرات کا آپشن کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ایجنڈا ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے اور انھوں نے مذہب کی آڑ لے رکھی ہے۔ یہ کوئی عام سا تناز ع نہیں ہے کہ جسے جرگے یا کمیٹی کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ اب تک جو بھی مذاکرات ہوئے ہیں،اس کے نتیجے میں دہشت گردوں نے فائدہ حاصل کیا ہے،وہ مذاکرات کے ذریعے وقت حاصل کرتے رہے ہیں اور اس دوران اپنے نیٹ ورک کو پھیلاتے رہے ہیں۔ وہ مذاکرات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہے ہیں۔ ادھر سیاسی حکومتوں کے دور میں انتظامی سطح پر بھی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آئے۔
دہشت گرد آزادانہ انداز میں اپنی کارروائی کرتے رہے۔ کراچی،لاہور،راولپنڈی اور پشاور جیسے بڑے شہر ان کی کارروائیوں سے محفوظ نہ رہے۔ پولیس اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ پشاور میں بھی دہشت گرد بڑے آرام کے ساتھ اسکول میں داخل ہو گئے اور کوئی انھیں روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لاہور میں واہگہ بارڈر کے قریب بھی خود کش حملہ آور با آسانی پہنچ گیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ سول حکومتیں اور ان کی مشینری اپنے فرائض پوری تندہی سے ادا نہیں کر رہیں۔ ادھر جو دہشت گرد گرفتار ہوئے وہ بھی عدالتوں سے رہا ہوتے رہے۔ کسی دہشت گرد کو سزا نہ ہو سکی۔
اس میں قصور کس کا تھا،اس بحث میں پڑے بغیر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جس حوصلے،جرات اور نظریاتی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری حکومتوں اور سیاسی قیادت میں نہیں رہی۔ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت عوام کو دہشت گردوں کے خلاف یکسو کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے عوام میں تقسیم پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کبھی بھی بھرپور کارروائی نہ ہو سکی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں افواج پاکستان کے افسر اور جوان بھی شامل ہیں اور بے گناہ شہری بھی۔ انتہا یہ ہے کہ دہشت گردوں نے درگاہوں اور عبادتگاہوں کا بھی احترام نہیں کیا اور وہاں بھی خود کش حملے کیے۔
یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قومی سطح کے لیڈر کھل کر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔ کبھی یہ آڑ لی جاتی ہے کہ یہ غیروں کی لڑائی ہے،کبھی بھارت کی طرف اشارہ کر کے دہشت گردوں کے لیے گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ ہمارے قومی سطح کے لیڈر یہ کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں،اور جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک تنظیم ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس کی ذمے داری قبول کرتی ہے اور ہماری لیڈر شپ کھل کر نام لینے سے بھی ہچکچاتی ہے۔ ملک کے اہل قلم بھی عوام میں کنفوژن پھیلانے میں مصروف ہیں،یہ صورت حال ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔
دنیا میں پاکستان واحد ملک نہیں ہے جسے دہشت گرد گروہوں کا سامنا ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ایسے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی ہے اور اس پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان بھی دہشت گردوں پر قابو پا سکتا ہے لیکن اس کے لیے جرات مندی اور نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ،حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہم یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کہ یہ پاکستان کے دشمنوں کی کارروائی ہے یا اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو ہو ہی رہی ہے،لیکن اس کے لیے نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں جو تنظیمیں،گروہ یا شخصیتیں عوام میں نظریاتی کنفیوژن پھیلا رہی ہیں اور برملا ایسی باتیں اور تقریریں کر رہی ہیں جن سے دہشت گردوں کے نظریات کو تقویت مل رہی ہے،ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ آئین اور قانون میں اگر کسی قسم کی کمزوری یا رکاوٹ ہے تو اسے بھی دور کیا جانا چاہیے۔ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کا تعین کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردو سن لیں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ یہ عزم حوصلہ افزا ہے'ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ایسے ہی عزم کا اظہار کرنا چاہیے۔
قوم کو سانحہ پشاور سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ پاکستان کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا غم نہ منایا گیا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہمارا مستقبل تباہ کرنے چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران پہلے بھی بیانات کی حد تک نعرے بازی کرتے رہے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گرد وں کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اس حوالے سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کو بچانے کے لیے بعض اوقات سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کینسر کے خاتمے کے لیے آپریشن لازم ہوتا ہے۔