لاہور بند۔ لاہوری کھلے
ایک نیا سیاسی لیڈر جسے سیاستدان ابھی اپنی صف میں شمار بھی نہیں کرتے ان سب سے آگے نکل گیا ہے۔
HYDERABAD:
میلہ ٹھیلا بنا دیں اور لاہوریوں کو اس کی رنگینی اور رونق کا یقین دلا دیں۔ تو پھر حاضرین سے بے فکر ہو جائیں ایک پرانے لاہوری نے جب مجھ سے یہ بات کہی تو پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب بولے اور یہ بھی یاد کریں کہ لاہوریوں کو ہمیشہ یہ گلا رہا کہ ''ست دہاڑے تے اٹھ میلے۔ گھر جاواں میں کہڑے ویلے'' کہ دن سات ہیں اور میلے آٹھ تو میں گھر کس وقت جاؤں۔ گزشتہ پیر کے دن لاہوریوں کو ایک انوکھا اور ان دیکھا میلہ مل گیا۔ میلوں میں ان کی زندگی گزر گئی۔
انھوں نے میلہ بازی کے شوق میں صوفیاء کے عرسوں کو بھی میلہ بنا دیا جیسے میلہ چراغاں جو صوفی اور شاعر مادھو لال حسین کا عرس ہے لیکن اس موقع پر مزار اور آس پاس میں چراغ جلانے کی قدیم رسم ہے جس کی مناسبت سے اسے چراغاں والا عرس یعنی میلہ چراغاں بنا دیا اور قریب ہی مغلوں کے باغ شالا مار کے حسین سبزہ زاروں میں بھی میلہ سجا دیا جس سے یہ میلہ ایک منفرد رنگ اختیار کر گیا۔ اسی شہر لاہور کے بارے میں اعلان کیا گیا کہ عمران خان اپنی جماعت کی رونق کے لیے یہاں 15 دسمبر کو جشن منائیں گے اور اس دن ان کے کارکن اس شہر کو بند کر دیں گے جس سے پتہ چلے گا کہ یہ شہر اس شہر کے باسی میاں صاحبان کا ہی نہیں کسی اور کا بھی ہے۔
خود عمران بھی اسی شہر کے باسی ہیں اور ان کے بزرگوں نے میانوالی سے لاہور منتقل ہو کر اس کے ایک خوبصورت علاقے زمان پارک میں اپنا گھر بنا لیا۔ جہاں عمران پلے بڑھے۔ ماں باپ کا یہ اکلوتا بیٹا ان کا اور ان کی بہنوں کا اکلوتا پیارا تھا۔ عمران تعلیم کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ کرکٹ کا یہ نامور کھلاڑی انگریزوں کے پسندیدہ ترین کھیل کا بادشاہ تھا اور انھوں نے عمران کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم دی بلکہ ایک اعلیٰ دلہن بھی دے دی۔ اس رشتے کی نشانی دو خوبصورت بیٹے اب ماں کے پاس ہی ولایت میں ہیں۔ سال بہ سال باپ سے بھی ملتے رہتے ہیں اور پاکستان کا چکر بھی لگا لیتے ہیں۔
اخباری رپورٹروں نے بتایا ہے کہ اس دن لاہور بند رہا۔ شہر کے بازار یوں تو عید بقر عید پر بھی جزوی طور پر کھلے رہتے ہیں اس دن لاہور کی بندش کے دن زیادہ ہی بند تھے اور شہر بھر کی سڑکوں پر ایک قیامت خیز ہلا گلا تھا۔ سیکیورٹی والوں نے عمران کو شہر میں جہاں جہاں جانے دیا وہ کارکنوں سے ملتا رہا اور ان سے خطاب کرتا رہا۔ لاہور میں یہ دن عمران کا دن تھا اگرچہ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ عمران خان کے مطالبات کی فہرست کیا ہے یا ان کا پروگرام اور لائحہ عمل کیا ہے۔ ان کے دھرنوں کے ایک سو سے زائد دنوں میں روزانہ شام کی تقریر میں بھی وہ اگر اس قوم کو کچھ دے سکے تو یہ نعرہ دے سکے کہ ''گو نواز گو'' یہ مختصر نعرہ بہت ہی مقبول جا رہا ہے۔
پہلے وہ نواز سے استعفیٰ مانگتے تھے پھر انھوں نے یہ مطالبہ ترک کر دیا ان دنوں وہ کسی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس مطالبہ کے حق میں شہر کے شہر بند کرا رہے ہیں۔ انھوں نے کراچی جیسے بہت ہی بڑے شہر کو بند کرا لیا فیصل آباد کو بھی بند کیا گیا اور دو خون بھی ہو گئے۔ شہروں کی بندش کا یہ سلسلہ جاری ہے اور سچ بات یہ ہے کہ عمران نے بھرے، آباد اور پر رونق شہروں کی بندش کا جو منفرد اور دلیرانہ فیصلہ کیا ہے وہ کامیاب رہا ہے۔ لاہوری تو میلوں ٹھیلوں کے بنے ہوئے شہری ہیں لیکن دوسرے شہروں میں بھی خصوصاً کراچی میں عمران کی کامیابی چونکا دینے والا واقعہ ہے اور یہ عمران کی ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی ہے جو قیام پاکستان کے بعد اگر کسی کو نصیب ہوئی ہے تو بس ایک جلسہ جلوس کی حد تک ہی لیکن یہ مسلسل کامیابی جو روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے عمران کے حصے میں آتی ہے۔
ایک نیا سیاسی لیڈر جسے سیاستدان ابھی اپنی صف میں شمار بھی نہیں کرتے ان سب سے آگے نکل گیا ہے اور سچ پوچھیں تو اب ہمارے ہاں کوئی سیاستدان رہا بھی نہیں۔ سب چلے گئے اور باقی رہ گئے سیاست کے نام پر غیر سیاسی لوگ برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی سیاست میں بالکل ان پڑھ ہیں جس سیاست نے پاکستان جیسا ایک منفرد ملک بنا لیا تھا وہ اب صرف اس ملک کے شہروں کو بند کرا سکتا ہے اور اس کی اصل وجہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے عوام کو مایوس کیا ہے اور یہ مایوس لوگ اب شہروں کو بند کرا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں۔ کیوں؟ یہ انھیں بھی معلوم نہیں ہے صرف اپنا غصہ نکالنا مقصد ہے۔
اس دسمبر کے مہینے میں ہم پر ایک قیامت گزر گئی اور ہم ایک نہ ختم ہونے والے غم اور ماتم میں گرفتار ہو گئے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمیں اس غم سے نجات کون دلائے گا۔ اندرا گاندھی نے تو کہہ دیا کہ سقوط ڈھاکا سے ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا اور یہ کہہ کر تسلی کر لی لیکن ہم اس سانحہ عظیم کا بدلہ کس سے لیں گے جب کہ اس میں اندرا گاندھی والا بھارت بھی ہے اور ہمارے اپنے بھی ہیں۔
جنہوں نے برملا اور برسرعام ملک توڑنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہمارے اس قومی سانحے پر پڑے ہوئے پردوں کو کون اٹھائے گا اور ہمیں ہمارے ان مہربانوں کے چہرے صاف صاف دکھائے گا لیکن آیے پہلے تو دھرنوں اور باقی ماندہ ملک کے شہروں کو بند کرنے کا تماشا کرتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا وغیرہ کا رونا دھونا تو جاری رہے گا۔ اور فوری طور پر لاہوریوں کا تماشا کریں جنہوں نے اس شہر کو اس کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی طور پر بند کیا اور اس شہر کی سڑکوں پر ایک رنگین ہنگامہ برپا کیا۔ اور لاہور کو زندہ کر دیا۔
میلہ ٹھیلا بنا دیں اور لاہوریوں کو اس کی رنگینی اور رونق کا یقین دلا دیں۔ تو پھر حاضرین سے بے فکر ہو جائیں ایک پرانے لاہوری نے جب مجھ سے یہ بات کہی تو پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب بولے اور یہ بھی یاد کریں کہ لاہوریوں کو ہمیشہ یہ گلا رہا کہ ''ست دہاڑے تے اٹھ میلے۔ گھر جاواں میں کہڑے ویلے'' کہ دن سات ہیں اور میلے آٹھ تو میں گھر کس وقت جاؤں۔ گزشتہ پیر کے دن لاہوریوں کو ایک انوکھا اور ان دیکھا میلہ مل گیا۔ میلوں میں ان کی زندگی گزر گئی۔
انھوں نے میلہ بازی کے شوق میں صوفیاء کے عرسوں کو بھی میلہ بنا دیا جیسے میلہ چراغاں جو صوفی اور شاعر مادھو لال حسین کا عرس ہے لیکن اس موقع پر مزار اور آس پاس میں چراغ جلانے کی قدیم رسم ہے جس کی مناسبت سے اسے چراغاں والا عرس یعنی میلہ چراغاں بنا دیا اور قریب ہی مغلوں کے باغ شالا مار کے حسین سبزہ زاروں میں بھی میلہ سجا دیا جس سے یہ میلہ ایک منفرد رنگ اختیار کر گیا۔ اسی شہر لاہور کے بارے میں اعلان کیا گیا کہ عمران خان اپنی جماعت کی رونق کے لیے یہاں 15 دسمبر کو جشن منائیں گے اور اس دن ان کے کارکن اس شہر کو بند کر دیں گے جس سے پتہ چلے گا کہ یہ شہر اس شہر کے باسی میاں صاحبان کا ہی نہیں کسی اور کا بھی ہے۔
خود عمران بھی اسی شہر کے باسی ہیں اور ان کے بزرگوں نے میانوالی سے لاہور منتقل ہو کر اس کے ایک خوبصورت علاقے زمان پارک میں اپنا گھر بنا لیا۔ جہاں عمران پلے بڑھے۔ ماں باپ کا یہ اکلوتا بیٹا ان کا اور ان کی بہنوں کا اکلوتا پیارا تھا۔ عمران تعلیم کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ کرکٹ کا یہ نامور کھلاڑی انگریزوں کے پسندیدہ ترین کھیل کا بادشاہ تھا اور انھوں نے عمران کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم دی بلکہ ایک اعلیٰ دلہن بھی دے دی۔ اس رشتے کی نشانی دو خوبصورت بیٹے اب ماں کے پاس ہی ولایت میں ہیں۔ سال بہ سال باپ سے بھی ملتے رہتے ہیں اور پاکستان کا چکر بھی لگا لیتے ہیں۔
اخباری رپورٹروں نے بتایا ہے کہ اس دن لاہور بند رہا۔ شہر کے بازار یوں تو عید بقر عید پر بھی جزوی طور پر کھلے رہتے ہیں اس دن لاہور کی بندش کے دن زیادہ ہی بند تھے اور شہر بھر کی سڑکوں پر ایک قیامت خیز ہلا گلا تھا۔ سیکیورٹی والوں نے عمران کو شہر میں جہاں جہاں جانے دیا وہ کارکنوں سے ملتا رہا اور ان سے خطاب کرتا رہا۔ لاہور میں یہ دن عمران کا دن تھا اگرچہ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ عمران خان کے مطالبات کی فہرست کیا ہے یا ان کا پروگرام اور لائحہ عمل کیا ہے۔ ان کے دھرنوں کے ایک سو سے زائد دنوں میں روزانہ شام کی تقریر میں بھی وہ اگر اس قوم کو کچھ دے سکے تو یہ نعرہ دے سکے کہ ''گو نواز گو'' یہ مختصر نعرہ بہت ہی مقبول جا رہا ہے۔
پہلے وہ نواز سے استعفیٰ مانگتے تھے پھر انھوں نے یہ مطالبہ ترک کر دیا ان دنوں وہ کسی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس مطالبہ کے حق میں شہر کے شہر بند کرا رہے ہیں۔ انھوں نے کراچی جیسے بہت ہی بڑے شہر کو بند کرا لیا فیصل آباد کو بھی بند کیا گیا اور دو خون بھی ہو گئے۔ شہروں کی بندش کا یہ سلسلہ جاری ہے اور سچ بات یہ ہے کہ عمران نے بھرے، آباد اور پر رونق شہروں کی بندش کا جو منفرد اور دلیرانہ فیصلہ کیا ہے وہ کامیاب رہا ہے۔ لاہوری تو میلوں ٹھیلوں کے بنے ہوئے شہری ہیں لیکن دوسرے شہروں میں بھی خصوصاً کراچی میں عمران کی کامیابی چونکا دینے والا واقعہ ہے اور یہ عمران کی ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی ہے جو قیام پاکستان کے بعد اگر کسی کو نصیب ہوئی ہے تو بس ایک جلسہ جلوس کی حد تک ہی لیکن یہ مسلسل کامیابی جو روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے عمران کے حصے میں آتی ہے۔
ایک نیا سیاسی لیڈر جسے سیاستدان ابھی اپنی صف میں شمار بھی نہیں کرتے ان سب سے آگے نکل گیا ہے اور سچ پوچھیں تو اب ہمارے ہاں کوئی سیاستدان رہا بھی نہیں۔ سب چلے گئے اور باقی رہ گئے سیاست کے نام پر غیر سیاسی لوگ برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی سیاست میں بالکل ان پڑھ ہیں جس سیاست نے پاکستان جیسا ایک منفرد ملک بنا لیا تھا وہ اب صرف اس ملک کے شہروں کو بند کرا سکتا ہے اور اس کی اصل وجہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے عوام کو مایوس کیا ہے اور یہ مایوس لوگ اب شہروں کو بند کرا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں۔ کیوں؟ یہ انھیں بھی معلوم نہیں ہے صرف اپنا غصہ نکالنا مقصد ہے۔
اس دسمبر کے مہینے میں ہم پر ایک قیامت گزر گئی اور ہم ایک نہ ختم ہونے والے غم اور ماتم میں گرفتار ہو گئے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمیں اس غم سے نجات کون دلائے گا۔ اندرا گاندھی نے تو کہہ دیا کہ سقوط ڈھاکا سے ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا اور یہ کہہ کر تسلی کر لی لیکن ہم اس سانحہ عظیم کا بدلہ کس سے لیں گے جب کہ اس میں اندرا گاندھی والا بھارت بھی ہے اور ہمارے اپنے بھی ہیں۔
جنہوں نے برملا اور برسرعام ملک توڑنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہمارے اس قومی سانحے پر پڑے ہوئے پردوں کو کون اٹھائے گا اور ہمیں ہمارے ان مہربانوں کے چہرے صاف صاف دکھائے گا لیکن آیے پہلے تو دھرنوں اور باقی ماندہ ملک کے شہروں کو بند کرنے کا تماشا کرتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا وغیرہ کا رونا دھونا تو جاری رہے گا۔ اور فوری طور پر لاہوریوں کا تماشا کریں جنہوں نے اس شہر کو اس کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی طور پر بند کیا اور اس شہر کی سڑکوں پر ایک رنگین ہنگامہ برپا کیا۔ اور لاہور کو زندہ کر دیا۔