اسے کہنا ۔دسمبر آ گیا ہے
بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ایک ایسا ملک ہے جس سے پاکستان کی جیت کھیل کے میدان میں بھی برداشت نہیں ہوتی۔
KARACHI:
یوں تو عاشقوں پہ سارے ہی مہینے سخت گزرتے ہیں لیکن جو بدنامی و رسوائی دسمبر کے حصے میں آئی وہ تو خود عاشقوں کو بھی نصیب نہ ہوئی۔ خدا جانے سخت سردی کے علاوہ اس مہینے نے عاشقوں اور شاعروں پہ کیا ستم ڈھایا ہے کہ ہجر و فراق کے سارے دکھڑے اسی کی نحوست کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں گویا اس سے ذاتی کرتوتوں کا کوئی تعلق نہیں خواہ سال کے گیارہ ماہ حرامزدگیوں میں گزرے ہوں۔
ادھر نومبر ابھی ٹھیک طرح رخصت نہیں ہو پاتا کہ شاعر، عاشق اور دانشور، اور اکثر یہ تینوں ایک ہی ہوتے ہیں، نحوست بھری دسمبری شاعری کی حسرت بھری بھاپ ایک دوسرے کے منہ پہ چھوڑتے نظر آتے ہیں حالانکہ بندہ تھوڑا رجائیت پسند ہو اور وہ ہوتا ہے اگر وہ شاعر نہ ہو، تو اسے سوچنا چاہیے کہ ایسا مبارک مہینہ اور کونسا ہو گا جس میں ایک بریک اپ کے بعد ایک نئے معاشقے کی گنجائش خود بخود نکل رہی ہے۔ ایسا قدرتی انتظام تو نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہما شما تو ایک ہی معاشقے میں ''چین'' بول جاتے ہیں۔
آخر یہ نوبت آتی کیوں ہے؟ کیا کوئی تعلق ابتدا ہی سے کچھ غیر فطری ہوتا ہے جسے بول بچن دے کر لوریاں دے دے کر سلایا جاتا ہے پھر ایک دسمبر، ایک دھواں دھواں دسمبر کیلنڈر پہ نمودار ہوتا ہے اور اچانک یہ بھولا بھالا تعلق بالغ ہو کر گھر سے نکل جاتا ہے اور اپنے پیچھے ہجر کی ایک داستان چھوڑ جاتا ہے؟ یا پھر رنجشیں دلوں میں پلتی رہتی ہیں، جڑیں پکڑتی رہتی ہیں اور کینسر کی طرح پھیل جاتی ہیں اور ایک دسمبر، ایک خون تھوکتا دسمبر، توقعات کی ای سی جی مشین پہ ایک لمبی لکیر چھوڑ جاتا ہے جس کے بعد ـ سوری ہم مریض کو بچا نہیں سکے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ کی بازگشت باقی رہ جاتی ہے۔
یا پھر کچھ فصلوں کے بیج ہی زہر آلود ہوتے ہیں۔ کچھ ساتھ نبھائے جا ہی نہیں سکتے، کچھ تعلق بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں او ر پھر ایک دسمبر اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے جشن کا عنوان بن جاتا ہے۔ ادھر ہم، ادھر تم!
متحدہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات، اس کے حکمرانوں کی نالائقی، فوجی اور سول بیوروکریسی کی عاقبت نااندیشی اور سیاست دانوں کی خود غرضیوں پہ کتابیں لکھی جاتی رہیں اور شاید ہمیشہ لکھی جاتی رہیں لیکن غیر جانبدار زاویئے سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ابتدا سے ہی سرزمین پاک غیروں کے لیے ایک اسٹیج سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ایک ایسا ملک ہے جس سے پاکستان کی جیت کھیل کے میدان میں بھی برداشت نہیں ہوتی کجا یہ کہ ہمارے کھلاڑی نیم برہنہ ہو کر مکمل برہنہ اشارے بھی کرتے پھریں۔ یہ حق صرف ان کی فلم انڈسٹری کو حاصل ہے۔ ایسے پڑوسی سے کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ پٹ سن کے سنہرے رنگ میں زہر نہیں گھولے گا۔
جب غلط فہمیوں کی فصل اچھی طرح پک چکی تو اندرا گاندھی نے امریکا کے صدر نکسن کو خط لکھا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں جو پناہ گزین بھارت آ گئے ہیں انھیں گوریلا ٹریننگ دے کر واپس پاکستان بھیجا جا سکتا ہے۔ اس پہ صدر نکسن نے کہا باجی اتنا غصہ ٹھیک نہیں۔ اتنی سی بات پہ جنگ نہیں کرتے۔ انھیں پاکستان سے سیٹو اور سینٹو کا ممبر ہونے کی وجہ سے ہمدردی نہیں تھی بس وہ خطے میں بھارتی اثر و رسوخ کی وسعت پذیری نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی روس کے ساتھ سرد جنگ جاری تھی جس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔ 28 مارچ 71ء کو امریکن قونصلیٹ ڈھاکا کے اسٹاف نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں مغربی پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ناروا سلوک کا رونا رویا گیا تھا۔
یہاں امریکا کو چین کی ضرورت پڑی اور قاصد کا کردار پاکستان نے ادا کیا۔ جولائی میں کیسنجر بیجنگ پہنچے اور چو این لائی سے ملے۔ چین نے واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے اور اگر کوئی جنگ بھارت کی طرف سے چھیڑی گئی تو وہ اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ یہاں کسنجر نے بھی یقین دلایا کہ وہ چین کے موقف کی تائید کرتا ہے اور ایسے کسی موقعے پر وہ چین کا ساتھ دیگا۔ چین نے اس پہ یقین نہیں کیا کیونکہ وہ پاکستان نہیں تھا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے مغربی ممالک کے دورے جاری رکھے اور بنگالیوں پہ مغربی پاکستان کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کیں اور ان کے لیے عالمی برادری کی ہمدردیاں بٹوریں۔ نومبر میں وہ نکسن سے ملیں لیکن نکسن نے انھیں واضح کر دیا کہ خطے میں کوئی جنگ قابل قبول نہیں ہے۔
وجہ وہی تھی۔ خطے میں روسی بالا دستی کا خوف لیکن وہ بھارتیوں کی نیت بھی سمجھ گئے تھے کہ وہ جنگ کیے بغیر ٹلیں گے نہیں جب کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات ان کے حق میں تھے۔ یہاں بھارتی پریس دعویٰ کرتا ہے کہ اس سے پہلے کہ بھارت جنگ چھیڑتا 3 دسمبر کو پاکستان نے کشمیر اور پنجاب کا محاذ کھول دیا۔ جب چین جنگ نہیں چاہتا تھا، امریکا بھی نہیں تو پاکستان نے یہ رسک کس کے اکسانے پہ لیا؟ کیا یحییٰ خان، ایوب خان بننا چاہتے تھے یا کوئی اور بات تھی؟ چار دسمبر کو امریکا نے سیکیورٹی کونسل میں جنگ رکوانے کے لیے قراداد پیش کی جو روس نے ویٹو کر دی۔ امریکا کو پاکستان سے محبت نہیں تھی۔
اسے اپنی پڑی تھی۔ ادھر بھارت نے امریکی ہمدردی سمیٹنے میں ناکامی کے بعد روس سے تعاون کا معاہدہ کر لیا تھا جب کہ اسرائیل سے دفاعی سازو سامان کا معاہدہ خفیہ طور پہ را کے ذریعے جاری تھا۔ گولڈا مائر نے شالومو زبرداویز جو اسرائیل کی خفیہ تجارتی اور دفاعی روابط کروانے والی فرم کا ڈائریکٹر تھا، کے ذریعے اندرا گاندھی کو خط بھیجا۔ عبرانی زبان میں لکھے اس خط میں اس دفاعی تعاون کے بدلے سفارتی تعلقات مانگے گئے تھے۔
یہ سودا طے پایا۔ نہ صرف بھارتی فوج بلکہ مکتی باہنی بھی اسرائیلی اسلحے سے لیس ہو گئی۔ سب اپنے پتے اچھی طرح کھیل رہے تھے۔ یہاں سی آئی اے کی رپورٹ کا حوالہ بے محل نہ ہو گا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ بھارت کو پورا یقین ہے کہ چین شمال میں کوئی مداخلت نہیں کریگا اگر ایسا ہوا تو بھارت اس دباو کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہ سن کر امریکا نے 9 دسمبر کو خلیج بنگال میں اپنا بحری بیڑا USS Enterprise اتارا جس کا مقصد صرف بھارت کو ڈرانا تھا اور چین کو پیغام دیا کہ وہ شمال کی طرف سے دباؤ بڑھائے۔ چین کو ڈر تھا کہ اس کی مداخلت روس کو انگیخت کر دے گی۔ اس پہ امریکا نے یقین دلایا کہ ایسی کسی بھی روسیانہ حرکت کا امریکی جواب دیا جائے گا۔
چین نے یقین نہ کیا کیونکہ وہ پاکستان نہیں تھا۔ چین نے کچھ بھی نہ کیا۔ شمالی محاذ کی سرگرمی ایک فسانے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ یہ پاکستان کی جنگ تھی۔ کے جی بی اس جنگ میں پوری طرح شریک تھی۔ روس اپنی بحری قوت کے ساتھ موجود تھا۔ اسرائیل کا اسلحہ چٹاگانگ میں آگ اگل رہا تھا البتہ برطانیہ نے بھارت کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک بحری بیڑا 'ایگل' بھیجا تھا جسے ولادیوستوک کی طرف سے آنیوالی نیوکلیئرسب میرینز اور اینٹی شپ میزائلوں نے واپسی پہ مجبور کر دیا۔ ادھر شاہ ایران نے بھی پاکستان سے وعدہ وفا نہ کیا۔ کوئی اپنی سلامتی کو داو پہ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ پاکستانی فوج بری محاذ پہ مستحکم تھی لیکن اس بار پھندے اندر سے لگے تھے۔
بالاخر تنگیل پہ بھارت کے فیصلہ کن حملے نے دسمبر کی نحوست پہ مہر تصدیق ثبت کر دی۔16 دسمبر کو جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس سارے قصے میں بھارت کہیں ایک باوقار، دلیر اور عالی ظرف دشمن کے طور پہ نظر نہ آیا۔ یہ ساری جنگ دشمن کا دشمن دوست کے اصول پہ لڑی گئی اور جیت لی گئی۔ ہم ہار گئے۔ ہمارا مشرقی پاکستان سے بریک اپ ہو گیا۔ سارے مسیحا ایک ساتھ بولے۔ سوری ہم مریض کو بچا نہ سکے۔ دسمبر واقعی منحوس مہینہ ہے۔
یوں تو عاشقوں پہ سارے ہی مہینے سخت گزرتے ہیں لیکن جو بدنامی و رسوائی دسمبر کے حصے میں آئی وہ تو خود عاشقوں کو بھی نصیب نہ ہوئی۔ خدا جانے سخت سردی کے علاوہ اس مہینے نے عاشقوں اور شاعروں پہ کیا ستم ڈھایا ہے کہ ہجر و فراق کے سارے دکھڑے اسی کی نحوست کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں گویا اس سے ذاتی کرتوتوں کا کوئی تعلق نہیں خواہ سال کے گیارہ ماہ حرامزدگیوں میں گزرے ہوں۔
ادھر نومبر ابھی ٹھیک طرح رخصت نہیں ہو پاتا کہ شاعر، عاشق اور دانشور، اور اکثر یہ تینوں ایک ہی ہوتے ہیں، نحوست بھری دسمبری شاعری کی حسرت بھری بھاپ ایک دوسرے کے منہ پہ چھوڑتے نظر آتے ہیں حالانکہ بندہ تھوڑا رجائیت پسند ہو اور وہ ہوتا ہے اگر وہ شاعر نہ ہو، تو اسے سوچنا چاہیے کہ ایسا مبارک مہینہ اور کونسا ہو گا جس میں ایک بریک اپ کے بعد ایک نئے معاشقے کی گنجائش خود بخود نکل رہی ہے۔ ایسا قدرتی انتظام تو نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہما شما تو ایک ہی معاشقے میں ''چین'' بول جاتے ہیں۔
آخر یہ نوبت آتی کیوں ہے؟ کیا کوئی تعلق ابتدا ہی سے کچھ غیر فطری ہوتا ہے جسے بول بچن دے کر لوریاں دے دے کر سلایا جاتا ہے پھر ایک دسمبر، ایک دھواں دھواں دسمبر کیلنڈر پہ نمودار ہوتا ہے اور اچانک یہ بھولا بھالا تعلق بالغ ہو کر گھر سے نکل جاتا ہے اور اپنے پیچھے ہجر کی ایک داستان چھوڑ جاتا ہے؟ یا پھر رنجشیں دلوں میں پلتی رہتی ہیں، جڑیں پکڑتی رہتی ہیں اور کینسر کی طرح پھیل جاتی ہیں اور ایک دسمبر، ایک خون تھوکتا دسمبر، توقعات کی ای سی جی مشین پہ ایک لمبی لکیر چھوڑ جاتا ہے جس کے بعد ـ سوری ہم مریض کو بچا نہیں سکے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ کی بازگشت باقی رہ جاتی ہے۔
یا پھر کچھ فصلوں کے بیج ہی زہر آلود ہوتے ہیں۔ کچھ ساتھ نبھائے جا ہی نہیں سکتے، کچھ تعلق بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں او ر پھر ایک دسمبر اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے جشن کا عنوان بن جاتا ہے۔ ادھر ہم، ادھر تم!
متحدہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات، اس کے حکمرانوں کی نالائقی، فوجی اور سول بیوروکریسی کی عاقبت نااندیشی اور سیاست دانوں کی خود غرضیوں پہ کتابیں لکھی جاتی رہیں اور شاید ہمیشہ لکھی جاتی رہیں لیکن غیر جانبدار زاویئے سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ابتدا سے ہی سرزمین پاک غیروں کے لیے ایک اسٹیج سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ایک ایسا ملک ہے جس سے پاکستان کی جیت کھیل کے میدان میں بھی برداشت نہیں ہوتی کجا یہ کہ ہمارے کھلاڑی نیم برہنہ ہو کر مکمل برہنہ اشارے بھی کرتے پھریں۔ یہ حق صرف ان کی فلم انڈسٹری کو حاصل ہے۔ ایسے پڑوسی سے کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ پٹ سن کے سنہرے رنگ میں زہر نہیں گھولے گا۔
جب غلط فہمیوں کی فصل اچھی طرح پک چکی تو اندرا گاندھی نے امریکا کے صدر نکسن کو خط لکھا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں جو پناہ گزین بھارت آ گئے ہیں انھیں گوریلا ٹریننگ دے کر واپس پاکستان بھیجا جا سکتا ہے۔ اس پہ صدر نکسن نے کہا باجی اتنا غصہ ٹھیک نہیں۔ اتنی سی بات پہ جنگ نہیں کرتے۔ انھیں پاکستان سے سیٹو اور سینٹو کا ممبر ہونے کی وجہ سے ہمدردی نہیں تھی بس وہ خطے میں بھارتی اثر و رسوخ کی وسعت پذیری نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی روس کے ساتھ سرد جنگ جاری تھی جس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔ 28 مارچ 71ء کو امریکن قونصلیٹ ڈھاکا کے اسٹاف نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں مغربی پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ناروا سلوک کا رونا رویا گیا تھا۔
یہاں امریکا کو چین کی ضرورت پڑی اور قاصد کا کردار پاکستان نے ادا کیا۔ جولائی میں کیسنجر بیجنگ پہنچے اور چو این لائی سے ملے۔ چین نے واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے اور اگر کوئی جنگ بھارت کی طرف سے چھیڑی گئی تو وہ اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ یہاں کسنجر نے بھی یقین دلایا کہ وہ چین کے موقف کی تائید کرتا ہے اور ایسے کسی موقعے پر وہ چین کا ساتھ دیگا۔ چین نے اس پہ یقین نہیں کیا کیونکہ وہ پاکستان نہیں تھا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے مغربی ممالک کے دورے جاری رکھے اور بنگالیوں پہ مغربی پاکستان کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کیں اور ان کے لیے عالمی برادری کی ہمدردیاں بٹوریں۔ نومبر میں وہ نکسن سے ملیں لیکن نکسن نے انھیں واضح کر دیا کہ خطے میں کوئی جنگ قابل قبول نہیں ہے۔
وجہ وہی تھی۔ خطے میں روسی بالا دستی کا خوف لیکن وہ بھارتیوں کی نیت بھی سمجھ گئے تھے کہ وہ جنگ کیے بغیر ٹلیں گے نہیں جب کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات ان کے حق میں تھے۔ یہاں بھارتی پریس دعویٰ کرتا ہے کہ اس سے پہلے کہ بھارت جنگ چھیڑتا 3 دسمبر کو پاکستان نے کشمیر اور پنجاب کا محاذ کھول دیا۔ جب چین جنگ نہیں چاہتا تھا، امریکا بھی نہیں تو پاکستان نے یہ رسک کس کے اکسانے پہ لیا؟ کیا یحییٰ خان، ایوب خان بننا چاہتے تھے یا کوئی اور بات تھی؟ چار دسمبر کو امریکا نے سیکیورٹی کونسل میں جنگ رکوانے کے لیے قراداد پیش کی جو روس نے ویٹو کر دی۔ امریکا کو پاکستان سے محبت نہیں تھی۔
اسے اپنی پڑی تھی۔ ادھر بھارت نے امریکی ہمدردی سمیٹنے میں ناکامی کے بعد روس سے تعاون کا معاہدہ کر لیا تھا جب کہ اسرائیل سے دفاعی سازو سامان کا معاہدہ خفیہ طور پہ را کے ذریعے جاری تھا۔ گولڈا مائر نے شالومو زبرداویز جو اسرائیل کی خفیہ تجارتی اور دفاعی روابط کروانے والی فرم کا ڈائریکٹر تھا، کے ذریعے اندرا گاندھی کو خط بھیجا۔ عبرانی زبان میں لکھے اس خط میں اس دفاعی تعاون کے بدلے سفارتی تعلقات مانگے گئے تھے۔
یہ سودا طے پایا۔ نہ صرف بھارتی فوج بلکہ مکتی باہنی بھی اسرائیلی اسلحے سے لیس ہو گئی۔ سب اپنے پتے اچھی طرح کھیل رہے تھے۔ یہاں سی آئی اے کی رپورٹ کا حوالہ بے محل نہ ہو گا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ بھارت کو پورا یقین ہے کہ چین شمال میں کوئی مداخلت نہیں کریگا اگر ایسا ہوا تو بھارت اس دباو کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہ سن کر امریکا نے 9 دسمبر کو خلیج بنگال میں اپنا بحری بیڑا USS Enterprise اتارا جس کا مقصد صرف بھارت کو ڈرانا تھا اور چین کو پیغام دیا کہ وہ شمال کی طرف سے دباؤ بڑھائے۔ چین کو ڈر تھا کہ اس کی مداخلت روس کو انگیخت کر دے گی۔ اس پہ امریکا نے یقین دلایا کہ ایسی کسی بھی روسیانہ حرکت کا امریکی جواب دیا جائے گا۔
چین نے یقین نہ کیا کیونکہ وہ پاکستان نہیں تھا۔ چین نے کچھ بھی نہ کیا۔ شمالی محاذ کی سرگرمی ایک فسانے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ یہ پاکستان کی جنگ تھی۔ کے جی بی اس جنگ میں پوری طرح شریک تھی۔ روس اپنی بحری قوت کے ساتھ موجود تھا۔ اسرائیل کا اسلحہ چٹاگانگ میں آگ اگل رہا تھا البتہ برطانیہ نے بھارت کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک بحری بیڑا 'ایگل' بھیجا تھا جسے ولادیوستوک کی طرف سے آنیوالی نیوکلیئرسب میرینز اور اینٹی شپ میزائلوں نے واپسی پہ مجبور کر دیا۔ ادھر شاہ ایران نے بھی پاکستان سے وعدہ وفا نہ کیا۔ کوئی اپنی سلامتی کو داو پہ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ پاکستانی فوج بری محاذ پہ مستحکم تھی لیکن اس بار پھندے اندر سے لگے تھے۔
بالاخر تنگیل پہ بھارت کے فیصلہ کن حملے نے دسمبر کی نحوست پہ مہر تصدیق ثبت کر دی۔16 دسمبر کو جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس سارے قصے میں بھارت کہیں ایک باوقار، دلیر اور عالی ظرف دشمن کے طور پہ نظر نہ آیا۔ یہ ساری جنگ دشمن کا دشمن دوست کے اصول پہ لڑی گئی اور جیت لی گئی۔ ہم ہار گئے۔ ہمارا مشرقی پاکستان سے بریک اپ ہو گیا۔ سارے مسیحا ایک ساتھ بولے۔ سوری ہم مریض کو بچا نہ سکے۔ دسمبر واقعی منحوس مہینہ ہے۔