پاکستان دولخت کیوں ہوا

تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کا استعمال تفرقے کو جنم دیتا ہے یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔

KARACHI:
پاکستان دو لخت کیوں ہوا اور اس کی بنیادی وجوہات کیا تھیں؟ اس سے پردہ اٹھانے اور اس کے حقائق منظر عام پر لانے کے لیے متعدد بارکمیشن تشکیل دیے گئے تا کہ اس کے پس پردہ محرکات کا پتہ چل سکے لیکن اس کے باوجود وہ معلومات جو عوام کو فراہم کرنا چاہیے تھیں اُس سے ہمارے تمام حکمران قاصر رہے یہاں تک کہ حمود الرحمان کمیشن نے بھی اُن واقعات کی صحیح منظر کشی نہیں کی جس کی توقعات عوام کو اُن سے وابستہ تھیں۔ بہر کیف جو ہونا تھا ہو چکا سانپ تو نکل چکا اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد ہم نے بحیثیت پاکستانی کیا سبق حاصل کیا؟ ایسی کیا حکمت عملی اپنائی کہ آیندہ ایسے سانحات وقوع پزیر نہ ہوں؟

مشرقی پاکستان جو کل تک ہمارا بازو تھا آج وہ کٹ چکا ہے ہماری نوجوان نسل کو اس کا ادراک بھی نہیں کہ کیسا خونی اور المناک پس منظر اس سانحے کے پس پشت تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سانسوں کی روانی رکنے لگتی ہے قلم کانپنے لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے صرف اپنی انا اور زر ہوس کی تسکین کے لیے کم و بیش 8 لاکھ نفوس کے خون کی ہولی کھیلی ایسے ایسے ظلم کیے گئے کہ شائد چنگیزیت بھی شرما جائے اور آج بھی محصور ین بنگلہ دیش کیمپوں میں لاکھوں افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنھیں نہ تو پاکستانی کہا جاتا ہے نہ بنگلہ دیشی! جنھیں حب الوطنی کی پاداش میں ایسی بھیانک سزا دی گئی ہے کہ شاید قیامت تک اُن کی نسلیں حب الوطنی کے نام پر ہی کانوں کو ہاتھ لگائیں۔

اُن محصورین کے رشتے داروں کی بڑی تعداد آج بھی اورنگی ٹاؤن میں بسی ہوئی ہے جو اپنے رشتے داروں کو یادکر کے خون کے آنسو روتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان صرف اس لیے کر دیا کہ پاکستان کا پرچم بلند رہے لیکن افسوس کہ اُن کی قربانی رائیگاں گئی اُن کو آج کوئی یاد نہیں کرتا اور نہ ہی الیکٹرونک میڈیا پر اُن کی بے بسی کی تصاویر پیش کی جاتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے بعد بھی قربانیوں اور حب الوطنی کی لازوال مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک ذہنوں میں نقش رہیں گی۔

حکمرانوں کو چاہیے تھے کہ ان محب الوطن افراد کے لیے ایسا عظیم الشان یادگار بنانی چاہیے تھی تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ یہ مادر وطن ہمیں طشتری میں سجا کر نہیں دیا گیا بلکہ جب جب ضرورت پڑی تو ملک کو بچانے کے لیے ہر وہ قربانیاں دی گئیں جو وقت کی ضرورت تھیں لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران رنگ و نسل کی بنیاد پر حکومت کرتے ہیں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے نہیں۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ ملک ہی ہماری پہچان ہے اور یہی پہچان ہی ہماری آن بان اور شان ہے۔


تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کا استعمال تفرقے کو جنم دیتا ہے یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں جب عوام پر لشکر کشی کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تاریخ کے مطابق سیاسی مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، طاقت کبھی بھی ان مسائل کا حل ہرگز نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں اب تک 2 جنگ عظیم ہوئی ہیں لیکن جنگ کے میدان میں آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے صرف گفت و شنیدکے ذریعے ہی مسائل حل ہوئے ہیں۔ آہ! مشرقی پاکستان جو ہمارا بازو تھا وہ کٹ گیا یہ کرب ناک داستان یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کی گئی تو وطن کے رکھوالوں نے جن کی تعداد مشرقی پاکستان میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ سامنے صرف موت ہے زندگی نہیں لیکن وطن عزیز قربانی مانگ رہا تھا۔

چند مٹھی بھر لوگوں نے پاکستان کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لیے آٹھ لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور بنگالیوں نے ان کا اس طرح قتل عام کیا کہ اس کو بیان کر تے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے۔ مغربی پاکستان سے آئے ہوئے فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنا اور انھیں راستہ بتانے کی اگر کسی نے جرات کی تو وہ مشرقی پاکستان کے اردو بولنے والے مہاجر تھے یہ وہ مہاجرین تھے جن کے آباؤ اجداد نے برصغیر میں پاکستان کا قیام عمل میں لانے کے لیے قربانیاں دیں اور انھی کی آل اولاد نے پاکستان کو بچانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے بغیر معاوضہ کے فوج سے آگے بڑھ کر قربانی کی وہ مثال قائم کی جو تا قیامت زندہ پایندہ رہے گی لیکن ان کو اور ان کی نسل کو حب الوطنی کی ایسی سزا دی گئی جو بنگلہ دیش کے 66 کیمپوں میں آج بھی کسمپرسی کی زندگی گرار رہے ہیں جو آج بھی ان کیمپوں میں (جن میں ڈھاکا ، کھلنا ، دیناج پور ، رنگ پور ) مصائب میں گھرے ہوئے درد ناک زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کیا یہ حب الوطنی کی سزا ہے؟

16 دسمبر ملک و ملت کے لیے سیاہ ترین دن ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملک و ملت کے ٹھیکیداروں کو اس دن کے حوالے سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے حالات سے بچنے کا عزم کرنا ہو گا تا کہ اس قسم کے گھناؤنے اور ناقابل فراموش واقعات رونما نہ ہو سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر کی بالا دستی ختم نہ ہوئی تو نہ جا نے پاکستان کو اور کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا یہ سانحہ ہم سب سے سوال در سوال کر رہا ہے اور اُن عناصر کو آئینہ دکھا رہا ہے کہ اب بھی تعصب سے بالا تر ہو کر مادر وطن کے بہتر مفاد میں فیصلے کیے جائیں اور وطن عزیز کو قومیت و رنگ و نسل کی ضرورت نہیں ہے اگر ہے تو قومی یکجہتی کی اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب انصاف کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا اور بلا جواز ملک میں مذید تعصب و فرقہ واریت کو ہوا دی گئی تو ملک کا استحکام تادیر قائم رہنا نا ممکن ہو جائے گا ۔

16دسمبر 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کو ان عناصر کا احتساب کیا جانا چاہیے جو ملک میں افراتفری کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں شہید ہونے والے تمام شہداء کا لہو ہم سے تقاضہ کر رہا ہے کہ اب بھی وقت ہے پاکستان کی سالمیت کی فکر کی جائے کیونکہ وطن کے وجود سے ہی ہمارا وجود قائم ہے جسکی حفاظت کرنا ہر محب وطن پاکستانی کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ ملک کے بہتر مفاد میں ایسے رہنما کا انتخاب کریں جس کا تعلق غریب و متوسط طبقے سے براہ راست ہو کیونکہ ایسا ہی مخلص رہنما قومی یکجہتی کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور ایسے محب وطن رہنما کو ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ہمارے درمیان موجود ہے جو ہزاروں میل دور رہ کر بھی غریب و متوسط طبقے کے عوام کی فکر و سوچ میں مبتلا رہتا ہے اور پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے دن رات جہد مسلسل میں مصروف عمل ہے۔
Load Next Story