آتشزدگی شرپسندوں کی کارروائی ہے فیکٹری مالکان ومنیجر
شرپسندوں کا نام بتانے سے گریز، ایسا لگتا ہے کہ مالکان اور منیجر خوفزدہ ہیں، تفتیشی حکام
PESHAWAR:
آتشزدگی کا شکار ہونیوالی فیکٹری کے مالکان اور جنرل منیجر نے آتشزدگی کے واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔
تینوں مالکان اور جنرل منیجر کا اصرار ہے کہ ان کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کسی طور پر حادثہ نہیں بلکہ شرپسندوں کی کارروائی ہے جو کہ مذموم مقاصد کے لیے کی گئی ہے، تفتیشی حکام تاحال آگ لگنے کی وجہ معلوم کرنے سے قاصر ہیں، تفتیش بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں تقریبا 20 روز قبل آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری میں تقریباً 259 محنت کش جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔
ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کا سانحہ قرار دیے جانے والے واقعے کی تفتیش کیلیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متعدد تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے سانحے کی تحقیقات کیلیے عدالتی ٹریبونل بھی قائم کیا گیا ہے جس کی سماعت جاری ہے۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے، پولیس کے ڈی آئی جی کی سربراہی میں کام کرنے والی تفتیشی ٹیم نے ابتدا میںآگ کو شارٹ سرکٹ بھی قرار دیا اور ایک موقع پر آگ لگنے کے واقعے میں تخریب کاری کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔
الیکٹریکل انسپکٹر اور فارنسک ماہرین کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد تخریب کاری کے عنصر کو یکسر مسترد کردیا گیا تاہم پولیس اور ایف آئی اے کے تفتیشی حکام شارٹ سرکٹ کے مفروضے کے معاملے پر پر اعتماد نظر نہیں آتے، تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے تینوں جنریٹر، کے ای ایس سی کا ٹرانسفارمر، مین کیبلز اور سوئچ بورڈز کے معائنے کے بعد برقیات کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ شارٹ سرکٹ بظاہر آتشزدگی کی وجہ نظر نہیں آتا جبکہ فیکٹری کے بوائلر اور تہہ خانے میںموجود گیس کے سلنڈر بھی درست حالت میں ہیں۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اگر شارٹ سرکٹ مرکزی سوئچ بورڈ یا وائرنگ کے بجائے عمارت کے کسی اور مقام سے بھی شروع ہوا تھا تو آگ اتنی تیزی سے نہیں پھیل سکتی، اس ساری صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ تحقیقات بند گلی میں پہنچ چکی ہیں۔ ابتدا میں تحقیقات کار فیکٹری کے مالکان کے بیانات کو اہم قرار دے رہے تھے جس کی بنیادی وجہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہونے والی یہ اطلاعات تھیں کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگا گیا تھا جس سے انکار پر آتشزدگی کا واقعہ ہوا تاہم فیکٹری کے تینوں مالکان نے بھتہ مانگے جانے کی اطلاعات کی تردید کی تاہم انھوں نے آگ لگنے کے واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا اور ان کا اصرار ہے کہ آتشزدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ یا کوئی اور نہیں بلکہ شرپسندوں کی کارروائی ہے۔
تفتیشی حکام ابھی ان خطوط پر کام ہی کررہے تھے کہ فیکٹری کے مفرور جنرل منیجر نے بھی اپنی گرفتاری کے بعد واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا ہے، منصور کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ آتشزدگی کے وقت فیکٹری میں موجود تھا اور جتنی تیزی سے آگ پھیلی اس سے یہ ظاہر ہے کہ واقعہ شارٹ سرکٹ نہیں بلکہ کسی نے جان بوجھ کر آگ لگائی ہے تاہم مالکان اور جنرل منیجر اس سلسلے میں تفتیشی حکام کی مزید رہنمائی نہیں کرپارہے نہ ہی وہ کسی شخص پر شرپسند ہونے کا شبہ ظاہر کررہے ہیں۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مالکان اور جنرل منیجر خوفزدہ ہیں اور کسی کا نام لینے سے گریز کررہے ہیں، جس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ انھیں جن افراد پر شبہ ہے یا تو وہ انتہائی بااثر لوگ ہیں یا وہ خطرناک ملزمان کا ٹولہ ہے۔ اس مفروضے کو مقدمے کے ابتدائی تفتیشی افسر ظفراقبال کے بیان سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انھوں نے عدالتی ٹریبونل کے سامنے کہا تھا کہ کچھ دادا گیر قسم کے افراد فیکٹری چلانے میں مالکان کی مدد کرتے تھے تاہم اس بیان کے بعد مقدمے کی تفتیش ایک اور افسر کو منتقل کردی گئی ہے۔
آتشزدگی کا شکار ہونیوالی فیکٹری کے مالکان اور جنرل منیجر نے آتشزدگی کے واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔
تینوں مالکان اور جنرل منیجر کا اصرار ہے کہ ان کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کسی طور پر حادثہ نہیں بلکہ شرپسندوں کی کارروائی ہے جو کہ مذموم مقاصد کے لیے کی گئی ہے، تفتیشی حکام تاحال آگ لگنے کی وجہ معلوم کرنے سے قاصر ہیں، تفتیش بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں تقریبا 20 روز قبل آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری میں تقریباً 259 محنت کش جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔
ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کا سانحہ قرار دیے جانے والے واقعے کی تفتیش کیلیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متعدد تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے سانحے کی تحقیقات کیلیے عدالتی ٹریبونل بھی قائم کیا گیا ہے جس کی سماعت جاری ہے۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے، پولیس کے ڈی آئی جی کی سربراہی میں کام کرنے والی تفتیشی ٹیم نے ابتدا میںآگ کو شارٹ سرکٹ بھی قرار دیا اور ایک موقع پر آگ لگنے کے واقعے میں تخریب کاری کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔
الیکٹریکل انسپکٹر اور فارنسک ماہرین کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد تخریب کاری کے عنصر کو یکسر مسترد کردیا گیا تاہم پولیس اور ایف آئی اے کے تفتیشی حکام شارٹ سرکٹ کے مفروضے کے معاملے پر پر اعتماد نظر نہیں آتے، تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے تینوں جنریٹر، کے ای ایس سی کا ٹرانسفارمر، مین کیبلز اور سوئچ بورڈز کے معائنے کے بعد برقیات کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ شارٹ سرکٹ بظاہر آتشزدگی کی وجہ نظر نہیں آتا جبکہ فیکٹری کے بوائلر اور تہہ خانے میںموجود گیس کے سلنڈر بھی درست حالت میں ہیں۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اگر شارٹ سرکٹ مرکزی سوئچ بورڈ یا وائرنگ کے بجائے عمارت کے کسی اور مقام سے بھی شروع ہوا تھا تو آگ اتنی تیزی سے نہیں پھیل سکتی، اس ساری صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ تحقیقات بند گلی میں پہنچ چکی ہیں۔ ابتدا میں تحقیقات کار فیکٹری کے مالکان کے بیانات کو اہم قرار دے رہے تھے جس کی بنیادی وجہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہونے والی یہ اطلاعات تھیں کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگا گیا تھا جس سے انکار پر آتشزدگی کا واقعہ ہوا تاہم فیکٹری کے تینوں مالکان نے بھتہ مانگے جانے کی اطلاعات کی تردید کی تاہم انھوں نے آگ لگنے کے واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا اور ان کا اصرار ہے کہ آتشزدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ یا کوئی اور نہیں بلکہ شرپسندوں کی کارروائی ہے۔
تفتیشی حکام ابھی ان خطوط پر کام ہی کررہے تھے کہ فیکٹری کے مفرور جنرل منیجر نے بھی اپنی گرفتاری کے بعد واقعے کو حادثہ ماننے سے انکار کردیا ہے، منصور کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ آتشزدگی کے وقت فیکٹری میں موجود تھا اور جتنی تیزی سے آگ پھیلی اس سے یہ ظاہر ہے کہ واقعہ شارٹ سرکٹ نہیں بلکہ کسی نے جان بوجھ کر آگ لگائی ہے تاہم مالکان اور جنرل منیجر اس سلسلے میں تفتیشی حکام کی مزید رہنمائی نہیں کرپارہے نہ ہی وہ کسی شخص پر شرپسند ہونے کا شبہ ظاہر کررہے ہیں۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مالکان اور جنرل منیجر خوفزدہ ہیں اور کسی کا نام لینے سے گریز کررہے ہیں، جس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ انھیں جن افراد پر شبہ ہے یا تو وہ انتہائی بااثر لوگ ہیں یا وہ خطرناک ملزمان کا ٹولہ ہے۔ اس مفروضے کو مقدمے کے ابتدائی تفتیشی افسر ظفراقبال کے بیان سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انھوں نے عدالتی ٹریبونل کے سامنے کہا تھا کہ کچھ دادا گیر قسم کے افراد فیکٹری چلانے میں مالکان کی مدد کرتے تھے تاہم اس بیان کے بعد مقدمے کی تفتیش ایک اور افسر کو منتقل کردی گئی ہے۔