کامریڈ جمال الدین بخاری آخری حصہ
اس کے علاوہ کامریڈ جب روس کے دورے پر گئے تھے تو ان کے ساتھ ریشمی رومال تحریک کے عبیداﷲ سندھی بھی تھے
KARACHI:
لاڑکانہ میں کامریڈ جمال الدین بخاری نے ہفتہ وار سندھی اخبار انصاف اور انگریزی ہفتہ وار اخبار نیو ارا (New Era) کا اجرا کیا۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے کراچی سے اخبار ''آزادی'' کا اجرا کیا اور اس کے ایڈیٹر بھی رہے دوسرا اخبار تھا چنگاری، پھر 1930ء میں ہفت روزہ ورکرز کے مدیر رہے اس کے علاوہ سندھ کی تاریخی اخبار ''الوحید'' کے بھی 6 ماہ مدیر رہے اور یہ سال تھا 1923ء۔ ہفت وار اخبار ''صداقت'' کے بھی مدیر تھے۔
لاڑکانہ میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن ہونے سے انھیں ضلع لاڑکانہ کی ورکنگ کمیٹی کا خزانچی بنایا گیا جس کے بعد خیرپور ڈویژن مسلم لیگ کے خزانچی بنے پھر 1967ء میں لیگ کے پروپیگنڈا سیکریٹری بنا دیے گئے۔ یوں ہر تنظیم اور ادارے کے وہ ممبر اور آفس بیریئر (Office Bearer) بنتے رہے جن میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن، لاڑکانہ ایجوکیشن سوسائٹی، لاڑکانہ میونسپل اسکول، علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، عوامی خدمت جماعت کے کنوینر رہے، رائٹر گلڈ پاکستان، آرٹ کونسل لاڑکانہ، ٹی بی ایسوسی ایشن لاڑکانہ، حلقہ ادب لاڑکانہ، جمعیت شوریٰ سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی ہوئے ، لاڑکانہ اربن ترقیاتی پروجیکٹ کونسل میں رہے اس کے علاوہ وہ ممبر میونسپل کمیٹی لاڑکانہ، کونسلر یونین، کونسل جاڑل شاہ اور ایم ایل او کے لیے محمد ایوب کھوڑو کے سامنے الیکشن میں مقابلہ کیا۔
اس کے علاوہ ان کا کردار ون یونٹ کے خلاف بھی بہت مضبوط رہا ہے جب وہ زیڈ اے بھٹو ٹرسٹ لاڑکانہ کے کنٹریکٹر بنا دیے گئے تو انھوں نے غریب طلبہ و طالبات کو پڑھائی کے لیے بڑی مدد کی جب کہ عام آدمی کے لیے بھی ہمیشہ دروازہ کھول کے رکھا، پاکستان بننے کے بعد جب قائد اعظم محمد علی جناح نے انھیں نیشنل اسمبلی میں نمایندگی دینا چاہی تو انھوں نے ازراہ مروت قاضی مجتبیٰ کا نام دیا جو یوسف ہارون اور محمود ہارون کے ٹیچر تھے۔
کامریڈ بخاری کو سندھ سے بڑی محبت تھی اور وہ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے تھے اور انھوں نے اپنی باقی زندگی سندھی زبان، اس کے ادب اور سندھ میں بسنے والے لوگوں کے لیے وقف کر دی تھی وہ پاکستان کے سب علاقوں کے ساتھ سندھ کو خوشحال، ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان کی جد و جہد رہی کہ غریب، ہاری، مزدور اور دوسرے محنت کش لوگ خوش رہیں اور انھیں تین وقت کی روٹی عزت کے ساتھ ملتی رہے اور سرمایہ داروں، سرداروں، زمینداروں، کارخانے داروں سے ہمیشہ اس بات پر اختلاف کرتے رہے کہ غریبوں کا حق انھیں ملنا چاہیے جو ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں، غلامی سے بڑی نفرت تھی اور وہ ہر اس شخص کو اپنا دوست بنا لیتے تھے جسے اپنے وطن سے اور سندھ دھرتی سے عقیدت اور محبت تھی۔
کامریڈ 12 مرتبہ جیل گئے اور تقریباً 18 سال سزا بھگتی جو بین الاقوامی اور مقامی شخصیات ان سے متاثر تھے ان میں چو این لائی، ذوالفقار علی بھٹو، جمال ناصر، جی ایم سید، قاضی فضل اﷲ، کامریڈ حیدر بخش جتوئی شامل تھے۔ اپنی زندگی میں جن ملکوں کا دورہ کیا ان میں روس، جرمنی، چائنا، انگلینڈ، ایران، عراق، سعودی عرب، افغانستان، آذر بائیجان، برما، سری لنکا، تھائی لینڈ، فرانس، بھوٹان، ہنگری، پولینڈ، ترکی، شام، ساؤتھ افریقا، مصر، اردن، ہالینڈ، بیلجیم، بیت المقدس اور بہت سارے ممالک شامل ہیں۔
ایک مرتبہ جب کامریڈ اپنے بھائی کے موت پر ہندوستان گئے تو انھیں جیل میں بند کر دیا گیا اور جب ان سے کوئی دوست ملنے آیا تو انھوں نے ایک خط جواہر لعل نہرو کے نام لکھ کر پوسٹ کرنے کو دیا۔ جب خط نہرو کو ملا تو انھوں نے کامریڈ کو رہا کروایا اور اپنی کابینہ میں وزیر کی کرسی آفر کی مگر انھوں نے اپنے وطن کی محبت میں اس پیشکش سے معذرت کی۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ جب کمیونسٹ پارٹی میں اہم عہدے پر تھے تو انھوں نے اسٹالین سے کسی بات پر اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کی جگہ سجاد ظہیر کو رکھا گیا۔
اس کے علاوہ کامریڈ جب روس کے دورے پر گئے تھے تو ان کے ساتھ ریشمی رومال تحریک کے عبیداﷲ سندھی بھی تھے اور انھوں نے 1919ء میں لینن کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ ریشمی رومال تحریک کے اہم لیڈر مولانا محمود الحسن دیوبندی اور ہجرت تحریک کے بیرسٹر جان محمد جونیجو اور آزادی تحریک کے مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ ان کی پسندیدہ شخصیات میں فیڈل کاسترو، ہوچی منہ، ماؤزے تنگ، کمال اتاترک، کم ال سنگ شامل ہیں۔
کامریڈ نے بچپن میں گھڑ سواری، کرکٹ، تیراکی کو اپنے پسندیدہ کھیلوں میں شمار رکھا۔ وہ اس کھانے کو پسند کرتے تھے جو اسے بھوک کے وقت مل جائے۔ پھر بھی دال چاول ان کی پسند میں تھوڑا بہت شامل تھے۔ باقی وہ فروٹ بے حد پسند کرتے تھے۔ کتاب خریدنا، اسے پڑھنا اور پھر لائبریری میں رکھنا ان کا اہم مشغلہ تھا، اس نے اپنے گھر میں ایک اچھی اور چھوٹی لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ تقریر کرنا اور نوجوان نسل کو تعلیم اور کتاب پڑھنے کی طرف زیادہ راغب کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔
لاڑکانہ میں آنے کے بعد وہ پہلے قاضی فضل اللہ کے پھر ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے۔ بھٹو صاحب کو سوشلزم کا نعرہ دینے والے کامریڈ ہی تھے جو انھیں کہیں بھی جاتے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ عید کے موقع پر خاص طور پر کامریڈ کے لیے بھٹو اچھے تحفے بھیجا کرتے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں کامریڈ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے جس کے علاج کے لیے بھٹو نے انھیں کوئٹہ سینیٹوریم بھیجا جہاں پر تقریباً 5 سال زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہو کر لاڑکانہ لوٹے جس کا خرچہ بھٹو نے اٹھایا تھا۔
بھٹو کے بڑے بھائی سکندر علی بھٹو بھی ان کے دوستوں میں سے تھے جو انگریزی میں شاعری کرتے تھے اور اسے چھپوانے کے لیے بخاری کے پاس آتے تھے اور ہفتے وار نیوارا(New Era) انگریزی اخبار میں ان کی شاعری شایع ہوتی تھی۔ کامریڈ نے اپنا پریس لگا رکھا تھا جس میں ان کے دونوں ہفتے وار اخبار چھپتے تھے۔ دوست بتاتے تھے کہ بخاری صاحب چائے اور کافی کے شوقین تھے۔
جی ایم سید سے ان کے پرانے مراسم تھے۔ جب بخاری کی شادی ہوئی تو جی ایم سید نے ان کی دعوت حیدر آباد میں اپنی حیدر منزل پر منعقد کی جس میں بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ کامریڈ سوبھو گیان چندانی نے کہا تھا کہ کامریڈ بخاری ان کے استاد تھے جن سے انھوں نے کمیونزم سیکھا۔ اس کے علاوہ جب حیدر بخش جتوئی ڈپٹی کلیکٹر تھے تو بخاری ان سے اکثر ملاقات کرتے تھے اور جب بھی ان میں باتیں ہوتیں تو اکثر مزدور اور ہاریوں کے حقوق کے بارے میں بات چلتی رہتی جس کا اثر جتوئی صاحب پر ایسا ہوا کہ انھوں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے کر ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
کامریڈ ایک کمٹڈ لیڈر تھے اور وہ ہمیشہ دانشمندی اور علم سے کام لیتے تھے۔ کراچی میں جہاں انھوں نے اور بہت ساری مزدور یونینیں بنائیں اس میں ٹرام ورکرز یونین اور سوئیپر یونین بھی شامل ہے۔ وہ بہت سادہ دل اور غریب پرور تھے، انھوں نے احمد آباد کا اپنا گھر 5 ہزار روپے میں فروخت کیا تھا اور وہ رقم مزدوروں کی بھلائی میں خرچ کر ڈالی۔ حتیٰ کہ لاڑکانہ والے گھر کو بھی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے جس کے لیے بھٹو نے ایک کوآپریٹیو بینک کو کہہ کر کامریڈ کو قرضہ دلوایا جس کی قسطیں دینا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا تھا ۔
وہ ساری زندگی دوسروں کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور ادارے بنانے میں کوشاں رہے، سر شاہنواز بھٹو میموریل لائبریری کے ممبر تھے، اس کے علاوہ سندھی زبان کی ادبی ترقی کے لیے سندھی ادبی سنگت میں جوائنٹ سیکریٹری رہے۔ اس سلسلے میں 1955ء میں سندھی ادبی کانفرنس منعقد کروانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ پیر فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود پیری مریدی کو کبھی پاس نہیں آنے دیا۔
ایک دن نمونیا کے مرض نے انھیں کمزور کر دیا جس کی پیچیدگی کے باعث 17 دسمبر 1984ء کو اپنے گھر میں انتقال کر گئے اور انھیں قریبی قائم شاہ بخاری کے پیچھے والے حصے میں قبرستان میں آخری آرام کے لیے جگہ دی گئی۔ آج بھی ان کی اولاد ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کی سندھ اور سندھی زبان کے ساتھ محبت قائم ہے اور ان کا ملنا جلنا لوگوں کی خدمت کرنا جاری ہے۔
لاڑکانہ میں کامریڈ جمال الدین بخاری نے ہفتہ وار سندھی اخبار انصاف اور انگریزی ہفتہ وار اخبار نیو ارا (New Era) کا اجرا کیا۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے کراچی سے اخبار ''آزادی'' کا اجرا کیا اور اس کے ایڈیٹر بھی رہے دوسرا اخبار تھا چنگاری، پھر 1930ء میں ہفت روزہ ورکرز کے مدیر رہے اس کے علاوہ سندھ کی تاریخی اخبار ''الوحید'' کے بھی 6 ماہ مدیر رہے اور یہ سال تھا 1923ء۔ ہفت وار اخبار ''صداقت'' کے بھی مدیر تھے۔
لاڑکانہ میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن ہونے سے انھیں ضلع لاڑکانہ کی ورکنگ کمیٹی کا خزانچی بنایا گیا جس کے بعد خیرپور ڈویژن مسلم لیگ کے خزانچی بنے پھر 1967ء میں لیگ کے پروپیگنڈا سیکریٹری بنا دیے گئے۔ یوں ہر تنظیم اور ادارے کے وہ ممبر اور آفس بیریئر (Office Bearer) بنتے رہے جن میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن، لاڑکانہ ایجوکیشن سوسائٹی، لاڑکانہ میونسپل اسکول، علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، عوامی خدمت جماعت کے کنوینر رہے، رائٹر گلڈ پاکستان، آرٹ کونسل لاڑکانہ، ٹی بی ایسوسی ایشن لاڑکانہ، حلقہ ادب لاڑکانہ، جمعیت شوریٰ سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی ہوئے ، لاڑکانہ اربن ترقیاتی پروجیکٹ کونسل میں رہے اس کے علاوہ وہ ممبر میونسپل کمیٹی لاڑکانہ، کونسلر یونین، کونسل جاڑل شاہ اور ایم ایل او کے لیے محمد ایوب کھوڑو کے سامنے الیکشن میں مقابلہ کیا۔
اس کے علاوہ ان کا کردار ون یونٹ کے خلاف بھی بہت مضبوط رہا ہے جب وہ زیڈ اے بھٹو ٹرسٹ لاڑکانہ کے کنٹریکٹر بنا دیے گئے تو انھوں نے غریب طلبہ و طالبات کو پڑھائی کے لیے بڑی مدد کی جب کہ عام آدمی کے لیے بھی ہمیشہ دروازہ کھول کے رکھا، پاکستان بننے کے بعد جب قائد اعظم محمد علی جناح نے انھیں نیشنل اسمبلی میں نمایندگی دینا چاہی تو انھوں نے ازراہ مروت قاضی مجتبیٰ کا نام دیا جو یوسف ہارون اور محمود ہارون کے ٹیچر تھے۔
کامریڈ بخاری کو سندھ سے بڑی محبت تھی اور وہ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے تھے اور انھوں نے اپنی باقی زندگی سندھی زبان، اس کے ادب اور سندھ میں بسنے والے لوگوں کے لیے وقف کر دی تھی وہ پاکستان کے سب علاقوں کے ساتھ سندھ کو خوشحال، ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان کی جد و جہد رہی کہ غریب، ہاری، مزدور اور دوسرے محنت کش لوگ خوش رہیں اور انھیں تین وقت کی روٹی عزت کے ساتھ ملتی رہے اور سرمایہ داروں، سرداروں، زمینداروں، کارخانے داروں سے ہمیشہ اس بات پر اختلاف کرتے رہے کہ غریبوں کا حق انھیں ملنا چاہیے جو ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں، غلامی سے بڑی نفرت تھی اور وہ ہر اس شخص کو اپنا دوست بنا لیتے تھے جسے اپنے وطن سے اور سندھ دھرتی سے عقیدت اور محبت تھی۔
کامریڈ 12 مرتبہ جیل گئے اور تقریباً 18 سال سزا بھگتی جو بین الاقوامی اور مقامی شخصیات ان سے متاثر تھے ان میں چو این لائی، ذوالفقار علی بھٹو، جمال ناصر، جی ایم سید، قاضی فضل اﷲ، کامریڈ حیدر بخش جتوئی شامل تھے۔ اپنی زندگی میں جن ملکوں کا دورہ کیا ان میں روس، جرمنی، چائنا، انگلینڈ، ایران، عراق، سعودی عرب، افغانستان، آذر بائیجان، برما، سری لنکا، تھائی لینڈ، فرانس، بھوٹان، ہنگری، پولینڈ، ترکی، شام، ساؤتھ افریقا، مصر، اردن، ہالینڈ، بیلجیم، بیت المقدس اور بہت سارے ممالک شامل ہیں۔
ایک مرتبہ جب کامریڈ اپنے بھائی کے موت پر ہندوستان گئے تو انھیں جیل میں بند کر دیا گیا اور جب ان سے کوئی دوست ملنے آیا تو انھوں نے ایک خط جواہر لعل نہرو کے نام لکھ کر پوسٹ کرنے کو دیا۔ جب خط نہرو کو ملا تو انھوں نے کامریڈ کو رہا کروایا اور اپنی کابینہ میں وزیر کی کرسی آفر کی مگر انھوں نے اپنے وطن کی محبت میں اس پیشکش سے معذرت کی۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ جب کمیونسٹ پارٹی میں اہم عہدے پر تھے تو انھوں نے اسٹالین سے کسی بات پر اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کی جگہ سجاد ظہیر کو رکھا گیا۔
اس کے علاوہ کامریڈ جب روس کے دورے پر گئے تھے تو ان کے ساتھ ریشمی رومال تحریک کے عبیداﷲ سندھی بھی تھے اور انھوں نے 1919ء میں لینن کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ ریشمی رومال تحریک کے اہم لیڈر مولانا محمود الحسن دیوبندی اور ہجرت تحریک کے بیرسٹر جان محمد جونیجو اور آزادی تحریک کے مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ ان کی پسندیدہ شخصیات میں فیڈل کاسترو، ہوچی منہ، ماؤزے تنگ، کمال اتاترک، کم ال سنگ شامل ہیں۔
کامریڈ نے بچپن میں گھڑ سواری، کرکٹ، تیراکی کو اپنے پسندیدہ کھیلوں میں شمار رکھا۔ وہ اس کھانے کو پسند کرتے تھے جو اسے بھوک کے وقت مل جائے۔ پھر بھی دال چاول ان کی پسند میں تھوڑا بہت شامل تھے۔ باقی وہ فروٹ بے حد پسند کرتے تھے۔ کتاب خریدنا، اسے پڑھنا اور پھر لائبریری میں رکھنا ان کا اہم مشغلہ تھا، اس نے اپنے گھر میں ایک اچھی اور چھوٹی لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ تقریر کرنا اور نوجوان نسل کو تعلیم اور کتاب پڑھنے کی طرف زیادہ راغب کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔
لاڑکانہ میں آنے کے بعد وہ پہلے قاضی فضل اللہ کے پھر ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے۔ بھٹو صاحب کو سوشلزم کا نعرہ دینے والے کامریڈ ہی تھے جو انھیں کہیں بھی جاتے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ عید کے موقع پر خاص طور پر کامریڈ کے لیے بھٹو اچھے تحفے بھیجا کرتے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں کامریڈ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے جس کے علاج کے لیے بھٹو نے انھیں کوئٹہ سینیٹوریم بھیجا جہاں پر تقریباً 5 سال زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہو کر لاڑکانہ لوٹے جس کا خرچہ بھٹو نے اٹھایا تھا۔
بھٹو کے بڑے بھائی سکندر علی بھٹو بھی ان کے دوستوں میں سے تھے جو انگریزی میں شاعری کرتے تھے اور اسے چھپوانے کے لیے بخاری کے پاس آتے تھے اور ہفتے وار نیوارا(New Era) انگریزی اخبار میں ان کی شاعری شایع ہوتی تھی۔ کامریڈ نے اپنا پریس لگا رکھا تھا جس میں ان کے دونوں ہفتے وار اخبار چھپتے تھے۔ دوست بتاتے تھے کہ بخاری صاحب چائے اور کافی کے شوقین تھے۔
جی ایم سید سے ان کے پرانے مراسم تھے۔ جب بخاری کی شادی ہوئی تو جی ایم سید نے ان کی دعوت حیدر آباد میں اپنی حیدر منزل پر منعقد کی جس میں بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ کامریڈ سوبھو گیان چندانی نے کہا تھا کہ کامریڈ بخاری ان کے استاد تھے جن سے انھوں نے کمیونزم سیکھا۔ اس کے علاوہ جب حیدر بخش جتوئی ڈپٹی کلیکٹر تھے تو بخاری ان سے اکثر ملاقات کرتے تھے اور جب بھی ان میں باتیں ہوتیں تو اکثر مزدور اور ہاریوں کے حقوق کے بارے میں بات چلتی رہتی جس کا اثر جتوئی صاحب پر ایسا ہوا کہ انھوں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے کر ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
کامریڈ ایک کمٹڈ لیڈر تھے اور وہ ہمیشہ دانشمندی اور علم سے کام لیتے تھے۔ کراچی میں جہاں انھوں نے اور بہت ساری مزدور یونینیں بنائیں اس میں ٹرام ورکرز یونین اور سوئیپر یونین بھی شامل ہے۔ وہ بہت سادہ دل اور غریب پرور تھے، انھوں نے احمد آباد کا اپنا گھر 5 ہزار روپے میں فروخت کیا تھا اور وہ رقم مزدوروں کی بھلائی میں خرچ کر ڈالی۔ حتیٰ کہ لاڑکانہ والے گھر کو بھی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے جس کے لیے بھٹو نے ایک کوآپریٹیو بینک کو کہہ کر کامریڈ کو قرضہ دلوایا جس کی قسطیں دینا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا تھا ۔
وہ ساری زندگی دوسروں کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور ادارے بنانے میں کوشاں رہے، سر شاہنواز بھٹو میموریل لائبریری کے ممبر تھے، اس کے علاوہ سندھی زبان کی ادبی ترقی کے لیے سندھی ادبی سنگت میں جوائنٹ سیکریٹری رہے۔ اس سلسلے میں 1955ء میں سندھی ادبی کانفرنس منعقد کروانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ پیر فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود پیری مریدی کو کبھی پاس نہیں آنے دیا۔
ایک دن نمونیا کے مرض نے انھیں کمزور کر دیا جس کی پیچیدگی کے باعث 17 دسمبر 1984ء کو اپنے گھر میں انتقال کر گئے اور انھیں قریبی قائم شاہ بخاری کے پیچھے والے حصے میں قبرستان میں آخری آرام کے لیے جگہ دی گئی۔ آج بھی ان کی اولاد ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کی سندھ اور سندھی زبان کے ساتھ محبت قائم ہے اور ان کا ملنا جلنا لوگوں کی خدمت کرنا جاری ہے۔