پاکستان ایک نظر میں اتحاد کے لیے سانحات کا انتظار کیوں
یہاں سب کیلیے سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہےکہ کہیں تمام اختلافات کو بھلا کرمتحدومتفق ہونیکا سلسلہ وقتی طور پر ہی نہ ہو۔
گزشتہ روز کراچی کے ایک معروف صحافی نے اپنے فیس بک اسٹیٹس میں لکھا کہ معصوم کلیوں کے خون کا پہلا اثر یہ ہوا ہے کہ ہمارا ملک گزشتہ کئی ماہ سے شدید سیاسی بحران کا شکار رہا اور سیاسی قوتیں (عمران خان صاحب اور دیگر)ایک ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات نام تک سن کے لئے تیار نہیں تھے مگر آج 132 معصوم بچوں سمیت 140سے زائد افرادکے خون نے ہماری سیاسی قیادت کو ایک ساتھ بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔
صحافی نے یہ تبصرہ عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو سانحہ کے روز مثبت پیغام احتجاجی مظاہروں و دھرنوں کو ملتوی کرنے کے اعلان پر دیاتھا۔ ابھی میں یہ پڑھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی کی اسکرین پر ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جسے دیکھ کر پہلے تو نظروں کو یقین نہ آیا، لیکن بعد میں میاں نواز شریف اور عمران خان کی جانب سے مشترکہ کانفرنس میں ہونے والی گفتگو نے یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے پورے ملک کو سیاست کا اکھاڑا بنانے والی دوشخصیات ایک جگہ جمع ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی عوام اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے جس طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا گیا اور افواج پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا تعاون پیش کیا یہ ایک خوش آئندبات ہے۔ یوں ہم ایک مرتبہ پھر متحدہوکر اندورنی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
لیکن یہاں سب کے لیے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کہیں تمام اختلافات کو بھلا کر متحد و متفق ہونے کا سلسلہ وقتی طور پر ہی نہ ہو۔ ماضی میں بھی پاکستان میں بہت سی آفات و سانحات کے موقع پر ایسا ہوا کہ پوری قوم و سیاسی جماعتوں نے ایک ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن یہ اتحاد و اتفاق کبھی دیرپاثابت نہ ہوا۔ بلکہ مختصر وقت کے بعد وہی اختلافات اور تنازعات یکجہتی کی اس فضاء کو ختم کر دیتے ہیں۔
پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر کھڑ ا ہے۔یہ ایسا وقت ہے کہ ملک کو ہر جانب سے نقصان پہچانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔ عالمی طاقتیں اور پاکستان کا روایتی حریف بھارت جنوبی ایشیا میں کمزور پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ دشمن براہِ راست کسی کارروائی سے شاید یہ مذموم مقاصد حاصل نہ کر سکے مگر ہم اپنی سیاسی نا پختگی کے ذریعے یہ کام خود سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔ ایک جماعت دوسری جماعت کو اور ایک فریق دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش پر عمل درآمد کر رہا ہے،پھر ایسی صورتحال میں جب عوام متحد ہونے کے بجائے تقسیم ہو جائے تو دشمن ایسی صفوں میں بڑی آسانی سے نقب لگا لیتا ہے جس میں رخنے ڈالے جا چکے ہوں۔
جہاں تک میری سوچ اور فکر ہے ایسے حالات میں پاکستان کے عوام سیاستدان اور دانشور طبقہ کو بڑی عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عوام میں پھیلتی ہوئی مایوسیوں کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم اتحاد و اتفاق کے لیے کسی سانحہ کاانتظار کریں۔جتنا ہم نقصان اٹھا چکے بہت ہے۔اب ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ اب اپنے دلوں سے نفرت اور عداوتیں ختم کر کے ایک ہونے کا وقت ہے۔ پاکستان کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ سب اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچیں۔
آخر میں اپنی ساری بات کا خلاصہ اس انداز میں پیش کرنا چاہوں گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
صحافی نے یہ تبصرہ عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو سانحہ کے روز مثبت پیغام احتجاجی مظاہروں و دھرنوں کو ملتوی کرنے کے اعلان پر دیاتھا۔ ابھی میں یہ پڑھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی کی اسکرین پر ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جسے دیکھ کر پہلے تو نظروں کو یقین نہ آیا، لیکن بعد میں میاں نواز شریف اور عمران خان کی جانب سے مشترکہ کانفرنس میں ہونے والی گفتگو نے یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے پورے ملک کو سیاست کا اکھاڑا بنانے والی دوشخصیات ایک جگہ جمع ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی عوام اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے جس طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا گیا اور افواج پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا تعاون پیش کیا یہ ایک خوش آئندبات ہے۔ یوں ہم ایک مرتبہ پھر متحدہوکر اندورنی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
لیکن یہاں سب کے لیے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کہیں تمام اختلافات کو بھلا کر متحد و متفق ہونے کا سلسلہ وقتی طور پر ہی نہ ہو۔ ماضی میں بھی پاکستان میں بہت سی آفات و سانحات کے موقع پر ایسا ہوا کہ پوری قوم و سیاسی جماعتوں نے ایک ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن یہ اتحاد و اتفاق کبھی دیرپاثابت نہ ہوا۔ بلکہ مختصر وقت کے بعد وہی اختلافات اور تنازعات یکجہتی کی اس فضاء کو ختم کر دیتے ہیں۔
پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر کھڑ ا ہے۔یہ ایسا وقت ہے کہ ملک کو ہر جانب سے نقصان پہچانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔ عالمی طاقتیں اور پاکستان کا روایتی حریف بھارت جنوبی ایشیا میں کمزور پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ دشمن براہِ راست کسی کارروائی سے شاید یہ مذموم مقاصد حاصل نہ کر سکے مگر ہم اپنی سیاسی نا پختگی کے ذریعے یہ کام خود سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔ ایک جماعت دوسری جماعت کو اور ایک فریق دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش پر عمل درآمد کر رہا ہے،پھر ایسی صورتحال میں جب عوام متحد ہونے کے بجائے تقسیم ہو جائے تو دشمن ایسی صفوں میں بڑی آسانی سے نقب لگا لیتا ہے جس میں رخنے ڈالے جا چکے ہوں۔
جہاں تک میری سوچ اور فکر ہے ایسے حالات میں پاکستان کے عوام سیاستدان اور دانشور طبقہ کو بڑی عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عوام میں پھیلتی ہوئی مایوسیوں کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم اتحاد و اتفاق کے لیے کسی سانحہ کاانتظار کریں۔جتنا ہم نقصان اٹھا چکے بہت ہے۔اب ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ اب اپنے دلوں سے نفرت اور عداوتیں ختم کر کے ایک ہونے کا وقت ہے۔ پاکستان کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ سب اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچیں۔
آخر میں اپنی ساری بات کا خلاصہ اس انداز میں پیش کرنا چاہوں گا۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ؟
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔