بدلہ
اس بہیمانہ اورانسانیت سوزقتل عام نےملک کے20 کروڑعوام کوششدرکر دیاہے،ان کےدلوں میں خوف سےزیادہ نفرت کےجذبات موجزن ہیں۔
MIRPUR:
پچھلے دس بارہ سال کے دوران دہشت گردوں نے 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا، جس کا دکھ ہر پاکستانی کو ہے لیکن 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے دہشت گردی کی ایسی تاریخ رقم کی جس نے چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر کی بربریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اسکول کے 132 معصوم طالب علموں کو جس حیوانیت سے شہید کیا گیا اس کی مثال جنگوں کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ 16 دسمبر کو 10 بج کر 20 منٹ پر 7 دہشت گرد اسکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔
دہشت گردوں نے 8 گھنٹوں کی بربریت کے دوران 132 بچوں اور اساتذہ سمیت 9 افراد کو انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا، ان بھیڑیوں کے ایک ترجمان نے اس بربریت کا جواز ضرب عضب کی کارروائی کو قرار دیا ۔ ضرب عضب دہشت گردوں کے لیے ضرب غضب بن گیا ہے، اس آپریشن نے جہاں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے وہیں انھیں جوش انتقام میں ایسا حیوان بنا دیا ہے جو پھول جیسے 132 معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلا کر شرمندہ نہیں بلکہ سربلند کر رہا ہے۔
اس بہیمانہ اور انسانیت سوز قتل عام نے ملک کے 20 کروڑ عوام کو ششدر کر دیا ہے، ان کے دلوں میں خوف سے زیادہ نفرت کے جذبات موجزن ہیں۔ جس ضرب عضب کے خلاف ان وحشیوں نے بچوں سمیت 141 انسانوں کا خون بہایا ہے کیا یہ حیوان ان 50 ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو بھول گئے جو انھوں نے چند برسوں کے دوران بغیر کسی وجہ کے شہید کر دیے؟ 50 ہزار بے گناہوں کے بہیمانہ قتل کے خلاف اگر ہماری فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے تو یہ کارروائی ہر حوالے سے مناسب اور جائز ہے، اگر 141 بچوں، بڑوں کو بے دردی سے قتل کر کے یہ دہشت گرد اپنے حیوانی انتقام کی پیاس بجھا رہے ہیں تو 141 سمیت 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے جواب میں بیسیوں ضرب عضب ہونے چاہئیں اور اس وقت تک ان کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے جب تک پاک دھرتی پر ایک ناپاک دہشت گرد موجود ہے۔
دہشت گرد اب تک 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی ہوائی اڈوں، حساس عمارتوں حتیٰ کہ کراچی اور پشاور کے سول ایئرپورٹ پر تباہ کن حملے کر چکے ہیں کیا اتنا بڑا نقصان کرنے اور ملک کو تباہ کرنے والے حیوانوں کے خلاف سخت ترین آپریشن نہیں ہونا چاہیے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بڑے حادثے کے بعد چند دن تک ہائی الرٹ رہتے ہیں اس کے بعد پھر خواب غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری ان کوتاہیوں سے دہشت گرد واقف بھی ہیں اور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارا گزر کراچی کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کے قریب سے ہوا ہم گلستان جوہر سے شاہ فیصل روڈ کی طرف آ رہے تھے ایئرپورٹ کے قریب صرف ایک جگہ سرسری پوچھ گچھ ہوئی اس کے بعد ہم ایئرپورٹ کے پیچھے سے شاہ فیصل روڈ تک بغیر کسی رکاوٹ کے آئے راستے میں ایئرپورٹ کا پورا پچھلا حصہ غیر محفوظ نظر آیا ایئرپورٹ پر کھڑے بے شمار ملکی اور غیرملکی جہاز کھڑے نظر آئے۔ کیا اس ایئرپورٹ پر حملے کے بعد اس کے اردگرد ایک حفاظتی باڑ اور مستقل پہریداری نہیں ہونی چاہیے؟
ضرب عضب نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن ضرب عضب ابھی جاری ہے چونکہ یہ آپریشن فوج کر رہی ہے لہٰذا ایک فطری سی بات ہے کہ دہشت گرد اس کا انتقام لیں گے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسند اسکولوں اور طالب علموں کے سخت دشمن ہیں، اب تک سیکڑوں اسکولوں کو تباہ کر چکے ہیں اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ملالہ اس حوالے سے ایک بڑی مثال کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ اسکولوں اور طلبا کے یہ دہشت گرد اس لیے دشمن ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان کبھی ان کے قابو میں نہیں آ سکتے۔ ان کی جہالت کے لیے جاہل نوجوانوں ہی کی ضرورت ہے۔
ہماری دوسری بدقسمتی یا حماقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے خود دہشت گرد پیدا کیے۔ افغانستان میں روس کی مداخلت کے بعد امریکا کی سیاسی ضرورت یہ تھی کہ وہ افغانستان سے روس کو نکالے۔ افغانستان سے روس کو نکالنا امریکا کی ضرورت تھی ہماری نہیں جو سیاسی علما یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں روس کی آمد سے پاکستان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ اس خطے کی سیاست سے نابلد ہیں خطرہ امریکا کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو تھا اور ہم امریکا کے مفادات کے لیے قربان ہو گئے۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے روس جیسی دنیا کی دوسری سپرپاور کو افغانستان سے نکال دیا لیکن روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ہم نے جن بھیڑیوں کی کاشت کی آج وہی بھیڑیے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے 132 معصوم طلبا کو کھا گئے۔
اس میں شک نہیں کہ ضرب عضب کی وجہ دہشت گردوں کی کمر زخمی ہو گئی ہے لیکن یہ بھیڑیے ابھی موجود ہیں جس کا ثبوت پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ان کا بے باکانہ حملہ ہے۔ ان کی موجودگی صرف شمالی وزیرستان ہی میں نہیں بلکہ ملک کے ہر علاقے میں یہ وحشی موجود ہی نہیں متحرک بھی ہیں۔ منظم بھی ہو رہے ہیں داعش کی شکل میں جو عفریت شام اور عراق کو تباہ کر رہا ہے اس سے پاکستان کے انتہا پسندوں کو حوصلہ مل رہا ہے بلکہ یہ مقامی دہشت گرد داعش سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں اور الطاف حسین کراچی میں ان کی آمد اور موجودگی سے آگاہ کر رہے ہیں، کل جب الطاف حسین نے کراچی میں طالبان کی آمد کا ذکر کیا تھا تو ان کا مذاق اڑایا گیا آج جب وہ کراچی میں داعش کی آمد اور ملک میں اس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں تو ان کے انتباہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے قتل عام کے بعد حکمران طبقہ متحرک ہو گیا ہے اور آل پارٹیز کانفرنس جیسے اقدامات کر رہا ہے لیکن اس حقیقت سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان ہی سیاستدانوں نے انتخابات میں انتہا پسندوں سے مدد لی تھی اور انتہا پسند طاقتیں ہمیشہ ان کی ضرورت رہی ہیں۔ کیا آج دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی باتیں کرنے والے یہ باتیں خلوص دل سے کر رہے ہیں یا اپنی سیاسی ضرورتوں کے پس منظر میں کر رہے ہیں۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو متحد ہی نہیں بلکہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے لیکن اس اتحاد میں اگر سیاسی ضرورتیں اور سیاسی مفادات شامل ہوں گے تو اس قسم کا اتحاد کیا اہمیت رکھتا ہے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ البتہ ہم بااختیار قوتوں سے یہ امید ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ حادثہ یا سانحہ ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے ہائی الرٹ رہیں اور ان وحشیوں سے بچاؤ کی ہر تدبیر کریں۔
پچھلے دس بارہ سال کے دوران دہشت گردوں نے 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا، جس کا دکھ ہر پاکستانی کو ہے لیکن 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے دہشت گردی کی ایسی تاریخ رقم کی جس نے چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر کی بربریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اسکول کے 132 معصوم طالب علموں کو جس حیوانیت سے شہید کیا گیا اس کی مثال جنگوں کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ 16 دسمبر کو 10 بج کر 20 منٹ پر 7 دہشت گرد اسکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔
دہشت گردوں نے 8 گھنٹوں کی بربریت کے دوران 132 بچوں اور اساتذہ سمیت 9 افراد کو انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا، ان بھیڑیوں کے ایک ترجمان نے اس بربریت کا جواز ضرب عضب کی کارروائی کو قرار دیا ۔ ضرب عضب دہشت گردوں کے لیے ضرب غضب بن گیا ہے، اس آپریشن نے جہاں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے وہیں انھیں جوش انتقام میں ایسا حیوان بنا دیا ہے جو پھول جیسے 132 معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلا کر شرمندہ نہیں بلکہ سربلند کر رہا ہے۔
اس بہیمانہ اور انسانیت سوز قتل عام نے ملک کے 20 کروڑ عوام کو ششدر کر دیا ہے، ان کے دلوں میں خوف سے زیادہ نفرت کے جذبات موجزن ہیں۔ جس ضرب عضب کے خلاف ان وحشیوں نے بچوں سمیت 141 انسانوں کا خون بہایا ہے کیا یہ حیوان ان 50 ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو بھول گئے جو انھوں نے چند برسوں کے دوران بغیر کسی وجہ کے شہید کر دیے؟ 50 ہزار بے گناہوں کے بہیمانہ قتل کے خلاف اگر ہماری فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے تو یہ کارروائی ہر حوالے سے مناسب اور جائز ہے، اگر 141 بچوں، بڑوں کو بے دردی سے قتل کر کے یہ دہشت گرد اپنے حیوانی انتقام کی پیاس بجھا رہے ہیں تو 141 سمیت 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے جواب میں بیسیوں ضرب عضب ہونے چاہئیں اور اس وقت تک ان کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے جب تک پاک دھرتی پر ایک ناپاک دہشت گرد موجود ہے۔
دہشت گرد اب تک 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی ہوائی اڈوں، حساس عمارتوں حتیٰ کہ کراچی اور پشاور کے سول ایئرپورٹ پر تباہ کن حملے کر چکے ہیں کیا اتنا بڑا نقصان کرنے اور ملک کو تباہ کرنے والے حیوانوں کے خلاف سخت ترین آپریشن نہیں ہونا چاہیے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بڑے حادثے کے بعد چند دن تک ہائی الرٹ رہتے ہیں اس کے بعد پھر خواب غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری ان کوتاہیوں سے دہشت گرد واقف بھی ہیں اور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارا گزر کراچی کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کے قریب سے ہوا ہم گلستان جوہر سے شاہ فیصل روڈ کی طرف آ رہے تھے ایئرپورٹ کے قریب صرف ایک جگہ سرسری پوچھ گچھ ہوئی اس کے بعد ہم ایئرپورٹ کے پیچھے سے شاہ فیصل روڈ تک بغیر کسی رکاوٹ کے آئے راستے میں ایئرپورٹ کا پورا پچھلا حصہ غیر محفوظ نظر آیا ایئرپورٹ پر کھڑے بے شمار ملکی اور غیرملکی جہاز کھڑے نظر آئے۔ کیا اس ایئرپورٹ پر حملے کے بعد اس کے اردگرد ایک حفاظتی باڑ اور مستقل پہریداری نہیں ہونی چاہیے؟
ضرب عضب نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن ضرب عضب ابھی جاری ہے چونکہ یہ آپریشن فوج کر رہی ہے لہٰذا ایک فطری سی بات ہے کہ دہشت گرد اس کا انتقام لیں گے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسند اسکولوں اور طالب علموں کے سخت دشمن ہیں، اب تک سیکڑوں اسکولوں کو تباہ کر چکے ہیں اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ملالہ اس حوالے سے ایک بڑی مثال کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ اسکولوں اور طلبا کے یہ دہشت گرد اس لیے دشمن ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان کبھی ان کے قابو میں نہیں آ سکتے۔ ان کی جہالت کے لیے جاہل نوجوانوں ہی کی ضرورت ہے۔
ہماری دوسری بدقسمتی یا حماقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے خود دہشت گرد پیدا کیے۔ افغانستان میں روس کی مداخلت کے بعد امریکا کی سیاسی ضرورت یہ تھی کہ وہ افغانستان سے روس کو نکالے۔ افغانستان سے روس کو نکالنا امریکا کی ضرورت تھی ہماری نہیں جو سیاسی علما یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں روس کی آمد سے پاکستان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ اس خطے کی سیاست سے نابلد ہیں خطرہ امریکا کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو تھا اور ہم امریکا کے مفادات کے لیے قربان ہو گئے۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے روس جیسی دنیا کی دوسری سپرپاور کو افغانستان سے نکال دیا لیکن روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ہم نے جن بھیڑیوں کی کاشت کی آج وہی بھیڑیے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے 132 معصوم طلبا کو کھا گئے۔
اس میں شک نہیں کہ ضرب عضب کی وجہ دہشت گردوں کی کمر زخمی ہو گئی ہے لیکن یہ بھیڑیے ابھی موجود ہیں جس کا ثبوت پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ان کا بے باکانہ حملہ ہے۔ ان کی موجودگی صرف شمالی وزیرستان ہی میں نہیں بلکہ ملک کے ہر علاقے میں یہ وحشی موجود ہی نہیں متحرک بھی ہیں۔ منظم بھی ہو رہے ہیں داعش کی شکل میں جو عفریت شام اور عراق کو تباہ کر رہا ہے اس سے پاکستان کے انتہا پسندوں کو حوصلہ مل رہا ہے بلکہ یہ مقامی دہشت گرد داعش سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں اور الطاف حسین کراچی میں ان کی آمد اور موجودگی سے آگاہ کر رہے ہیں، کل جب الطاف حسین نے کراچی میں طالبان کی آمد کا ذکر کیا تھا تو ان کا مذاق اڑایا گیا آج جب وہ کراچی میں داعش کی آمد اور ملک میں اس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں تو ان کے انتباہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے قتل عام کے بعد حکمران طبقہ متحرک ہو گیا ہے اور آل پارٹیز کانفرنس جیسے اقدامات کر رہا ہے لیکن اس حقیقت سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان ہی سیاستدانوں نے انتخابات میں انتہا پسندوں سے مدد لی تھی اور انتہا پسند طاقتیں ہمیشہ ان کی ضرورت رہی ہیں۔ کیا آج دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی باتیں کرنے والے یہ باتیں خلوص دل سے کر رہے ہیں یا اپنی سیاسی ضرورتوں کے پس منظر میں کر رہے ہیں۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو متحد ہی نہیں بلکہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے لیکن اس اتحاد میں اگر سیاسی ضرورتیں اور سیاسی مفادات شامل ہوں گے تو اس قسم کا اتحاد کیا اہمیت رکھتا ہے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ البتہ ہم بااختیار قوتوں سے یہ امید ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ حادثہ یا سانحہ ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے ہائی الرٹ رہیں اور ان وحشیوں سے بچاؤ کی ہر تدبیر کریں۔