راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ادھر ہم اس گو مگو میں ہیں کہ کونسے ’’گو‘‘ کی آواز میں آواز ملائیں اور کونسے ’گو‘ کے نعرے کو سنی ان سنی کریں۔
شاعر تو شعر کہہ کر چلا گیا۔ اب ہم گھر میں بند بیٹھے ہیں اور اس شعر کا عذاب سہہ رہے ہیں ؎
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
بس ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے سلیم شاہد سے یہ شعر سرزد ہوا۔ یہ شعر اڑتے اڑتے فیضؔ صاحب تک پہنچا وہاں سے داد لے کر پھر ٹی ہاؤس میں آ کر گونجنے لگا۔ خدا غریق رحمت کرے اس شاعر کو وہ تو شعر پر داد لے کر دنیا سے گزر گیا۔ ہمیں شعر کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔ کتنے دنوں سے سن رہے تھے کہ عمران خان فلاں فلاں شہر کو بند کر چکے ہیں۔ اب لاہور شہر کی باری ہے۔ آخر وہ باری آ گئی۔ در و دیوار پہن کر ہم گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جائیں کہاں کہ جانے آنے کے سب رستے ہیں بند۔
ایک نوجوان بال بنا کر گھر سے نکلنے لگا تھا کہ باپ نے ٹوکا کہ اے فرزند دلبند ' کہاں جا رہا ہے' رستے سب بند ہیں۔
دنیا و مافیہا سے بے خبر اس نوجوان نے چکرا کر پوچھا رستے بند ہیں۔ کیوں بند ہیں۔''
باپ نے گریہ کیا اور کہا کہ ''اے میرے فرزند دل بند سارے رستے بند ہیں اس لیے کہ شہر بند ہے۔
اس نے جھنجھلا کر پوچھا ''شہر کیوں بند ہے۔''
باپ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا ''حکم حاکم مرگ مفاجات'' پھر تأمل کیا اور بولا ''کیسا حکم حاکم۔ ارے حاکم کا تو خود دم بند ہے۔ اب حکم کسی اور کا چل رہا ہے۔ اور ابھی تو صرف لاہور بند ہوا ہے۔ دھمکی آئی ہے کہ میں پورا پاکستان بند کر دوں گا۔
پورا پاکستان بند ہو جائے گا'' تو جوان حیران ہوا۔
بولا ''پھر ہم کہاں جائیں گے۔''
''ہم کہاں جائیں گے۔ ارے جانا کہاں رستے تو سب بند ہوں گے ؎
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
اس پر ہمیں وہ شاعر یاد آ یا جس نے جانے کیا سونگھ کر اور کیا دیکھ کر یہ شعر لکھا تھا کہ؎
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے کوچوں میں گریبانوں کے
خیر گریبانوں کے تو ڈھیر نہیں لگے۔ مگر عجب نہ تھا کہ دوپٹوں کے ڈھیر لگ جاتے اس لیے کہ بند شہر میں عمران خان کی آمد آمد تھی۔ مشتاقان دید اس آمد کے جلسہ گاہ میں ڈھیروں کے حساب سے جمع تھے۔ ان میں سب سے بڑھ کر لڑکیاں بالیاں تھیں اور نوجوان' کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا۔ یہ دو رنگا مجمع ابلا پڑ رہا تھا۔ اور نعرے لگا رہا تھا کہ گو نواز گو۔ دیکھتے دیکھتے ایک اور لہر آئی اور نوجوانان گو نواز گو نے لڑکیوں پر ہلا بول دیا۔ لیجیے اب تو وہاں ایک کھلبلی پڑ گئی۔
لڑکیوں نے شور مچایا تو منتظمین نے نوجوانوں کو ڈانٹا اور اپنے جامے میں رہنے کی نصیحت کی۔ لیکن جوش میں ہوش کہاں۔ مجمع اپنی ترنگ میں تھا۔ نہ کوئی اپنے آپے میں تھا نہ اپنے جامہ میں تھا۔ لڑکیوں کو جانے کہاں سے کچھ چھڑیاں مل گئیں۔ انھوں نے اپنے دفاع میں چھڑیوں سے کچھ لڑکوں کو پیٹ بھی ڈالا۔ مگر اس طرح کہیں دفاع ہوتا ہے۔ تب وہ بھرا کھا کر نکل کھڑی ہوئیں۔ خود جا رہی تھیں اور گو نواز گو کے نعرے لگا رہی تھیں۔ بیچ بیچ میں کسی غصیلی نے گو عمران گو کا نعرہ بھی بلند کیا۔ مگر یہ نعرہ گو نواز گو کے نعروں میں دب کر رہ گیا۔
ادھر ہم اس گو مگو میں ہیں کہ کونسے ''گو'' کی آواز میں آواز ملائیں اور کونسے 'گو' کے نعرے کو سنی ان سنی کریں۔ ارے اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم بند شہر میں بھٹکتے بھٹکتے اندھی گلی میں آن پھنسے ہیں۔ اور اندھی گلی تو اندھی گلی ہوتی ہے۔ اگے سب رستہ بند ہے۔ تو پھر وہی الاپ کہ کیا ؎
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
اور کچھ مر بھی گئے ہجوم اتنا تھا کہ کتنی ایمبولینسوں کو اسپتال تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ جابجا ٹائر جل رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے جیالے کسی سواری کو گزرنے نہیں دے رہے تھے۔ ایمبولینس میں پڑے مریضوں کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے۔ ایک خبر کہتی ہے کہ اس ہبڑ دبڑ میں پانچ مریض چل بسے۔ گزر جانے والے دو بچے بھی تھے۔ مگر ہجوم عاشقاں اس سے بے پرواہ اپنی نعرہ بازی میں مگن تھا۔ اور جن کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ وہ اپنی پناہ گاہوں میں مطمئن بیٹھے تھے اور خوش تھے کہ شہر بند کی کال بے اثر رہی کتنے مارکیٹ کھلے رہے۔
ہاں ایسا بھی تو ہوا کہ دکانداروں نے جب دیکھا کہ مظاہرین کا پلہ بھاری ہے اور پولیس ان کا دفاع نہ کر پائے گی تو انھوں نے جلد ی جلدی دکانیں بند کیں۔ مگر اس کے بعد کیا کریں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو انھوں نے اپنے بند بازار کے بیچ وکٹ کھڑی کیے اور کرکٹ کھیلنی شروع کر دی۔ انارکلی بازار کی گاہکوں سے خالی سڑک پر ایک دکاندار سے رپورٹر نے پوچھا کہ یہ کونسا وقت ہے کرکٹ کھیلنے کا تو اسنے ہٹ لگاتے لگاتے جواب دیا کہ اور کیا کریں۔ کیا گھر جا کر بند ہو جائیں۔ یاں اپنا بازار ہے۔ دکانداری نہیں تو کرکٹ کا شغل ہی سہی۔ دل تو بہلے گا۔
صحیح کیا' ٹھالی سے بیگار بھلی۔ اس پر ہمیں نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم یاد آ رہی ہے جس کی ردیف ہی یہ ہے ٹھالی سے بیگار بھلی۔ مگر وہاں سہلیوں نے شغل کچھ اور دریافت کیا تھا۔ مگر نظیر نے تو اس شغل کو بے تکلف بیان کر دیا۔ ہم وہ نظیر والی بے تکلفی کہاں سے لائیں۔
بہر حال شہر بند کرنے والے اپنی جگہ خوش کہ میدان مار لیا۔ حاکم لوگ اپنی خوش فہمی میں خورسند کہ کتنے بازار تو کھلے رہے۔ ہماری اسٹرٹیجی کامیاب رہی۔ سارا وبال پڑا شہریوں پر۔ رستے ان کے بند ہوئے۔ مریض ان کے جان سے گئے۔
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
بس ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے سلیم شاہد سے یہ شعر سرزد ہوا۔ یہ شعر اڑتے اڑتے فیضؔ صاحب تک پہنچا وہاں سے داد لے کر پھر ٹی ہاؤس میں آ کر گونجنے لگا۔ خدا غریق رحمت کرے اس شاعر کو وہ تو شعر پر داد لے کر دنیا سے گزر گیا۔ ہمیں شعر کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔ کتنے دنوں سے سن رہے تھے کہ عمران خان فلاں فلاں شہر کو بند کر چکے ہیں۔ اب لاہور شہر کی باری ہے۔ آخر وہ باری آ گئی۔ در و دیوار پہن کر ہم گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جائیں کہاں کہ جانے آنے کے سب رستے ہیں بند۔
ایک نوجوان بال بنا کر گھر سے نکلنے لگا تھا کہ باپ نے ٹوکا کہ اے فرزند دلبند ' کہاں جا رہا ہے' رستے سب بند ہیں۔
دنیا و مافیہا سے بے خبر اس نوجوان نے چکرا کر پوچھا رستے بند ہیں۔ کیوں بند ہیں۔''
باپ نے گریہ کیا اور کہا کہ ''اے میرے فرزند دل بند سارے رستے بند ہیں اس لیے کہ شہر بند ہے۔
اس نے جھنجھلا کر پوچھا ''شہر کیوں بند ہے۔''
باپ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا ''حکم حاکم مرگ مفاجات'' پھر تأمل کیا اور بولا ''کیسا حکم حاکم۔ ارے حاکم کا تو خود دم بند ہے۔ اب حکم کسی اور کا چل رہا ہے۔ اور ابھی تو صرف لاہور بند ہوا ہے۔ دھمکی آئی ہے کہ میں پورا پاکستان بند کر دوں گا۔
پورا پاکستان بند ہو جائے گا'' تو جوان حیران ہوا۔
بولا ''پھر ہم کہاں جائیں گے۔''
''ہم کہاں جائیں گے۔ ارے جانا کہاں رستے تو سب بند ہوں گے ؎
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
اس پر ہمیں وہ شاعر یاد آ یا جس نے جانے کیا سونگھ کر اور کیا دیکھ کر یہ شعر لکھا تھا کہ؎
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے کوچوں میں گریبانوں کے
خیر گریبانوں کے تو ڈھیر نہیں لگے۔ مگر عجب نہ تھا کہ دوپٹوں کے ڈھیر لگ جاتے اس لیے کہ بند شہر میں عمران خان کی آمد آمد تھی۔ مشتاقان دید اس آمد کے جلسہ گاہ میں ڈھیروں کے حساب سے جمع تھے۔ ان میں سب سے بڑھ کر لڑکیاں بالیاں تھیں اور نوجوان' کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا۔ یہ دو رنگا مجمع ابلا پڑ رہا تھا۔ اور نعرے لگا رہا تھا کہ گو نواز گو۔ دیکھتے دیکھتے ایک اور لہر آئی اور نوجوانان گو نواز گو نے لڑکیوں پر ہلا بول دیا۔ لیجیے اب تو وہاں ایک کھلبلی پڑ گئی۔
لڑکیوں نے شور مچایا تو منتظمین نے نوجوانوں کو ڈانٹا اور اپنے جامے میں رہنے کی نصیحت کی۔ لیکن جوش میں ہوش کہاں۔ مجمع اپنی ترنگ میں تھا۔ نہ کوئی اپنے آپے میں تھا نہ اپنے جامہ میں تھا۔ لڑکیوں کو جانے کہاں سے کچھ چھڑیاں مل گئیں۔ انھوں نے اپنے دفاع میں چھڑیوں سے کچھ لڑکوں کو پیٹ بھی ڈالا۔ مگر اس طرح کہیں دفاع ہوتا ہے۔ تب وہ بھرا کھا کر نکل کھڑی ہوئیں۔ خود جا رہی تھیں اور گو نواز گو کے نعرے لگا رہی تھیں۔ بیچ بیچ میں کسی غصیلی نے گو عمران گو کا نعرہ بھی بلند کیا۔ مگر یہ نعرہ گو نواز گو کے نعروں میں دب کر رہ گیا۔
ادھر ہم اس گو مگو میں ہیں کہ کونسے ''گو'' کی آواز میں آواز ملائیں اور کونسے 'گو' کے نعرے کو سنی ان سنی کریں۔ ارے اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم بند شہر میں بھٹکتے بھٹکتے اندھی گلی میں آن پھنسے ہیں۔ اور اندھی گلی تو اندھی گلی ہوتی ہے۔ اگے سب رستہ بند ہے۔ تو پھر وہی الاپ کہ کیا ؎
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
اور کچھ مر بھی گئے ہجوم اتنا تھا کہ کتنی ایمبولینسوں کو اسپتال تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ جابجا ٹائر جل رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے جیالے کسی سواری کو گزرنے نہیں دے رہے تھے۔ ایمبولینس میں پڑے مریضوں کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے۔ ایک خبر کہتی ہے کہ اس ہبڑ دبڑ میں پانچ مریض چل بسے۔ گزر جانے والے دو بچے بھی تھے۔ مگر ہجوم عاشقاں اس سے بے پرواہ اپنی نعرہ بازی میں مگن تھا۔ اور جن کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ وہ اپنی پناہ گاہوں میں مطمئن بیٹھے تھے اور خوش تھے کہ شہر بند کی کال بے اثر رہی کتنے مارکیٹ کھلے رہے۔
ہاں ایسا بھی تو ہوا کہ دکانداروں نے جب دیکھا کہ مظاہرین کا پلہ بھاری ہے اور پولیس ان کا دفاع نہ کر پائے گی تو انھوں نے جلد ی جلدی دکانیں بند کیں۔ مگر اس کے بعد کیا کریں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو انھوں نے اپنے بند بازار کے بیچ وکٹ کھڑی کیے اور کرکٹ کھیلنی شروع کر دی۔ انارکلی بازار کی گاہکوں سے خالی سڑک پر ایک دکاندار سے رپورٹر نے پوچھا کہ یہ کونسا وقت ہے کرکٹ کھیلنے کا تو اسنے ہٹ لگاتے لگاتے جواب دیا کہ اور کیا کریں۔ کیا گھر جا کر بند ہو جائیں۔ یاں اپنا بازار ہے۔ دکانداری نہیں تو کرکٹ کا شغل ہی سہی۔ دل تو بہلے گا۔
صحیح کیا' ٹھالی سے بیگار بھلی۔ اس پر ہمیں نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم یاد آ رہی ہے جس کی ردیف ہی یہ ہے ٹھالی سے بیگار بھلی۔ مگر وہاں سہلیوں نے شغل کچھ اور دریافت کیا تھا۔ مگر نظیر نے تو اس شغل کو بے تکلف بیان کر دیا۔ ہم وہ نظیر والی بے تکلفی کہاں سے لائیں۔
بہر حال شہر بند کرنے والے اپنی جگہ خوش کہ میدان مار لیا۔ حاکم لوگ اپنی خوش فہمی میں خورسند کہ کتنے بازار تو کھلے رہے۔ ہماری اسٹرٹیجی کامیاب رہی۔ سارا وبال پڑا شہریوں پر۔ رستے ان کے بند ہوئے۔ مریض ان کے جان سے گئے۔