سانحہ پشاور فیصلہ کن گھڑی کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا

مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ایکسپریس فورم پشاور میں گفتگو

مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ایکسپریس فورم پشاور میں گفتگو۔ فوٹو: عبدالغفار بیگ/ایکسپریس

9/11 کے بعد سے اس خطے میں جب دہشت گردی اور عسکریت پسندی نے ڈیرے ڈالے، اس کے بعد جب بھی دہشت گردی کی کوئی واردات رونما ہوئی۔

اس نے کئی گھر اجاڑے اور ہر واردات پر کلیجہ منہ کو آنے لگا ہے لیکن دہشت گردی کی بعض وارداتیں ایسی بھی رونما ہوئیں کہ ایک کارروائی نے پورے ملک کو ہی ہلاکر رکھ دیا لیکن 2001ء کے بعد سے ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں سے شاید ہی کوئی ایسی واردات ہو کہ جس میں فرشتہ صفت معصوم بچوں کو مارا گیا ہو اور وہ بھی چن ،چن کر اس انداز میں کہ زندگی کے درست طریقہ سے معنی بھی نہ سمجھنے والے بچوں سے کچھ یوں زندگی چھین لی جائے کہ ان کی روحیں بھی سوال ہی کرتی رہ جائیں کہ ان کا کیا قصور تھا؟ انھیں کس بات کی سزا دی گئی؟ اور انہوں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ جسے انھیں اس قدر بھیانک سزادی گئی؟

لیکن یہ سب کچھ 16 دسمبر کو پشاور میں ہوا ،ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں دہشت گرد داخل ہوئے ،انہوں نے بچوں پر گولیاں برسائیں ،ان کے گلے کاٹے ،معلمات کو زندہ جلاڈالا،بم دھماکے کیے اور دہشت اور بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ اگر آج چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی زندہ ہوتے تو کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوجاتے۔

پشاور وہ بدقسمت شہر ہے جس کاہراندام گھائل ہوچکاہے اور جس نے سینکڑوں کی تعداد میں بم دھماکے بھی دیکھے، خود کش حملے بھی سہے اور دہشت گردی کی وارداتیں بھی جھیلیں، اسی بدقسمت شہر کے نصیب میں 16 دسمبر 2014 ء کا یہ سیاہ دن بھی دیکھنا لکھا ہوا تھا کہ جب لوگ اپنے جگر گوشوں کے لاشے اٹھانے پر مجبور ہوگئے اور وہ بھی اس بڑی تعداد میں کہ گنتی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ،اس واقعہ نے ملک کے تمام طبقات کو تو جھنجھوڑا ہی لیکن سیاسی قیادت بھی جاگ اٹھی۔

اس سلسلے میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پشاور ہی میں ملک کی تمام سیاسی قیادت کومدعوکرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ،جس میں سنجیدگی کے ساتھ اس عفریت پر قابوپانے پرغوروحوض کے ساتھ کئی ایک فیصلے کیے گئے جبکہ گذشتہ چار ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا دینے والی پاکستان تحریک انصاف نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے قومی یکجہتی کی خاطر اپنا دھرنا بھی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

اسی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے موجودہ تناظر میں ایکسپریس نے بھی اس اندوہ ناک واقعہ اوردہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے، پوری قوم کے متحد ہونے اورآئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے سیاسی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹاکرنے کے لیے ایک فورم کااہتمام کیا،جس میں مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کرتے ہوئے کھل کراپنے خیالات کااظہارکیا اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کیں ، پرواگرام میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین کیاجارہاہے ۔

عنایت اللّٰہ خان (سینئر وزیر برائے بلدیات)

16 دسمبر کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور اس دن معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ ہم اسے کبھی بھی بھول نہیں پائیں گے اور اب یہ فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے۔ہم اس واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیںکہ ریاست اپنے تمام تر وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے دہشت گردوں کو سزا دے کیونکہ ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔بطور سیاسی جماعت ہمارا موقف انتہائی واضح ہے کہ نہ تو سیاست میں تشدد کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی۔



ہم ایک پارٹی کے طور پر حکومت کا حصہ ہیں اور جو بھی فیصلہ کیاجائے گا ہم اس پر عمل درآمد کریں گے ۔ہمیں اس وقت ایک ایسی نیشنل سیکورٹی پالیسی کی ضرورت ہے کہ جس میں دہشت گردی کے اس مسئلے کی جڑ کو دیکھا جائے اور اس پالیسی بنانے میں تمام سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہوں اور ان میں مکمل طور پر اتفاق ہو۔ہماری اس وقت کی پالیسی وہی ہے جو سردجنگ کے زمانہ میں بنائی گئی تھی ، میرے نزدیک اسے اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتیں پالیسیاں بنائیں اورہم ان کا بھرپور ساتھ دیں گے ۔

شہرام خان ترکئی (چیئرمین عوامی جمہوری اتحاد و سینئر وزیر برائے صحت خیبرپختونخوا)

پشاور میں سکول کے معصوم بچوں کا قتل عام دنیا کی تاریخ کا افسوسناک واقعہ تھااور انسانی جنگوں کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کو تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔ اب ہمیں بحیثیت انسان اور بحیثیت پاکستانی اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور وہ فیصلے کرنا ہوں گے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کئے گئے۔

اس کے علاوہ ہماری ڈائریکشن کلیئر ہونی چاہیے اور اب ایک واضح لکیر کھنچی جانی چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ کون ہے اور پاکستان کا دشمن کون ہے کیونکہ نرمی کا وقت گذرچکا ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ اتنے حملوں میں ،میں یا میرا خاندان بچ گیا، اگر اب بھی ہم کنفیوژن کا شکار رہے تو آج کسی اور کی باری ہے تو کل کوہماری باری بھی آسکتی ہے۔



لہٰذااب ہمیں پاکستان کی سیاست کرنا ہوگی، پاکستان ہوگا تو سیاست بھی ہوگی اور عہدے بھی ہوں گے۔ لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ہر قسم کے اختلافات بھلاکر ایک ہونا ہوگا بصورت دیگر ہمارے پاس تو ہجرت کیلئے بھی کوئی ملک نہیں ہے، افغان مہاجرین تو ہمارے پاس آگئے تھے لیکن ہم کہاں جائیں گے؟

قوم میں آج جو یکجہتی نظر آرہی ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی، میں نے جو مناظر ہسپتال میں دیکھے ہیں، زندگی بھر فراموش نہیں کرسکتا۔اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سارے شہید ہونے والے بچے ہمارے اپنے بچے تھے، میں نے دو تین گھنٹے ہسپتال میں انتظامات کی نگرانی کے دوران بچوں کی لاشیں اور زخمی دیکھے مگر اس کے بعد برداشت نہ کرسکا۔ ہر بچے کی شکل میں اپنے بچوں کی شکلیں نظر آئیں، اس افسوسناک واقعے پر پوری دنیا میں افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔

شوکت یوسف زئی (رہنما پاکستان تحریک انصاف)

آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے قبل بھی ہم قیام امن کی بات کرتے تھے اور اب بھی ہم امن کے خواہاں ہیں اور اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔آپریشن ضرب عضب کے شروع ہونے کے بعد پشاور میں ایسی کارروائیوں کی توقع تھی جس کی وجہ سے پشاور پولیس انتہائی الرٹ تھی، لیکن پھر بھی وہاں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگیا ہے تاہم اس کے باوجود ہم سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کا دل نہیں توڑنا چاہیے تاکہ مزید مسائل نہ بنیں اور جوہوا وہ ناکامی تو ہے۔

یہ مسئلہ مرکزی یا صوبائی حکومتوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے ۔صوبائی دارالحکومت پشاور، فاٹا سے بالکل متصل ہے جہاں پہلے سے موجود جرائم پیشہ عناصرکے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے اور پھر باہر سے بھی مزید لوگ آرہے ہیں۔ اس لیے پولیس اور سیکورٹی اداروں کو دو مختلف محاذوں پر لڑنا پڑرہاہے جس پر ہم انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔میرے حلقہ میں 17 بچوں کی شہادت ہوئی ہے جنھیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کا کیا قصور ہے۔

آج پوری قوم متحد ہے اور سب یکساں طور پر ایک پلیٹ فارم پر موجود ہیں اس لیے کسی قسم کی کوئی الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں اپنی سمت کو درست کرنا ہوگا ۔یہ بہادر قوم ہے اور پشاور کے لوگوںنے تو بہادری اور جرات کی انتہا کردی ہے کیونکہ جتنی قربانیاں انہوں نے دی ہیں اتنی شاید ہی کسی نے دی ہوں۔ سیاست بہت ہوچکی، اب سیاسی قیادت کو چاہیے کہ سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ کرے کیونکہ صوبہ اور ملک ہوگا تو سیاست بھی ہوگی۔



رونے دھونے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہمیں خود مسائل کا حل نکالنا ہوگا،اس کے لیے'' ایف سی'' جسے اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وہ فاٹا اور بندوبستی علاقوں کے درمیانی علاقوں کی حفاظت کرے اسے فوری طور پر صوبہ کے حوالے کیاجائے اور ایمرجنسی بنیادوں پر صوبہ کو وسائل فراہم کیے جائیں کیونکہ پولیس معمول کے جرائم کو بھی کنٹرول کرے اور دہشت گردی کا مقابلہ بھی تویہ کیسے ممکن ہے۔اس وقت پوری قوم کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ جب دہشت گرد ایک ہوسکتے ہیں تو ہم کیوں ایک نہیں ہوسکتے۔

ہم نے حکومت سنبھالنے کے فوراً بعداپنے تین ساتھی گنوائے ہیں۔ہم نے آپریشن ضرب عضب کی کوئی مخالفت نہیں کی اور اب بھی اس موقع پر یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی وعسکری قیادت کو یکجا ہونا پڑے گا اورفیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ قوم آج حکومتی اور سیکورٹی اداروں سے پوچھ رہی ہے کہ یہ کیا ہورہاہے ؟اس لیے آج نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ سڑکیں بنانے یا جہاز چلانے سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ ترقی امن کے ساتھ مشروط ہے اور اس وقت ہماراسب سے بڑا ایشو ہی دہشت گردی ہے۔

اگر وزیراعظم ''اے پی سی'' نہ بلاتے تو ہم اس پر'' اے پی سی'' بلالیتے کیونکہ یہ ایشو ہی اتنا بڑا ہے اور اب بھی ہم چاہیں گے کہ صوبائی حکومت سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے صوبائی سطح کی ''اے پی سی'' بلائے ، اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے دھرناختم کرنے کے اعلان کو سراہاجانا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں انہوں نے دھرنا ختم کرنے کااعلان کیا جب پوری قوم کومتحد ہونے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم (امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا)

جو کچھ ہوا اس پر پوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جذبات کی کیفیت سے باہر نکل کر ٹھنڈے دل ودماغ سے مسائل کا حل نکالاجائے کیونکہ بہت سے سوالات ہیں جن کے لیے الزام تراشی کی بجائے سیاسی طور پر معاملات کو دیکھتے ہوئے حل نکالنا چاہیے۔ مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک کتنے ہی واقعات ہوئے لیکن کسی ایک کا بھی کوئی حل نہیں نکالا گیا ۔امن کمیٹیوں کے ارکان کو مارا گیا لیکن کسی کے قاتل کو نہیں پکڑا گیا تاہم اب ہمیں اس واقعہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔

اب یہ بتایا جارہا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ یہ کارروائی کہاں سے کنٹرول کی گئی ،اس سے قبل ہونے والے واقعات کے حوالے سے بھی ان کے پاس ثبوت ہوں گے تو ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ،فوج ،حکومت یا اپوزیشن ،جو کوئی بھی اس واقعہ میں ملوث ہو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے اور اسے قرار واقعی سزا دینی چاہیے کیونکہ ایسا نہ ہونے ہی کی وجہ سے ہم الجھے ہوئے ہیں۔



افسوس کی بات ہے کہ 7 دہشت گردآئے اور انہوں نے 150افرادکو ماردیاجن کا مقابلہ اسی جذبہ سے ہونا چاہیے کہ موت کا خوف نہ ہو ۔تاہم ہویہ رہا ہے کہ ہم جینا چاہتے ہیں اور وہ مرنا، جس کی وجہ سے ہم ان کا مقابلہ نہیں کرپارہے ،میں تو اس بات پہ حیران ہوں کہ پاکستان میں پھانسی کی سزا پر پابندی کس نے لگائی ،یہ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ امریکہ اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کس نے کیا، میرے نزدیک قصاص پر پوری طرح عمل ہونا چاہیے۔

افسوس کا مقام ہے کہ ایک جانب فوج ہے اور دوسری جانب طالبان اور دونوں کے پاس بندوق ہے جن کے خوف سے ہم نہ ادھر کی بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی ادھر کی۔ ہمارے یہاں قتل ہوتا ہے لیکن ملزمان چھوٹ جاتے ہیں ،کیا یہ انصاف ہے اور کیا یہ نظام ہے ،ایسے حالات میںمسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہیں۔

سردار حسین بابک (رہنما عوامی نیشنل پارٹی وپارلیمانی لیڈر خیبرپختونخوا اسمبلی)

پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی مثال دنیا میں نہیں ملتی جس پر پوری دنیا افسردہ اور غم میں ڈوبی ہوئی ہے ،دہشت گردی کی جو لہر جاری ہے اس میں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں ،علماء اور دیگر افرادکو ٹارگٹ کیا گیا،حجروں ،جرگوں اور مساجد کو نشانہ بنایاگیا تاہم بچوں کو نشانہ بنانے کا واقعہ ایسا ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔



اس وقت جو ہورہاہے اس کے حوالے سے اے این پی کی پالیسی بڑی واضح ہے جس کی ہمیں بہت بڑی سزا بھی ملی، جو سب کے سامنے ہے ۔آپریشن ضرب عضب کا ردعمل برداشت کرنا یقینی طور پر مشکل ہے تاہم اس کا واحدحل یہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے ،اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔ میرے نزدیک جو فیصلے ملکی قیادت آج کر رہی ہے یہ فیصلے بہت پہلے ہوجانے چاہیے تھے تاہم بعض لوگ مصلحتوں کا شکار تھے جس کی وجہ سے فیصلے نہیں ہوپارہے تھے۔


اب وقت کا تقاضایہ ہے کہ ریاستی ادارے جو بھی فیصلے کریں ملکی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو اور ان کے فیصلوں پران کا ساتھ دے ۔سکول کے واقعہ کی وجہ سے پوری قوم متحدہ ہوگئی ہے اور ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں ،اس لیے یہی وقت ہے کہ فیصلہ سازی کی جائے۔

سکندر حیات خان شیرپاؤ (چیئرمین قومی وطن پارٹی خیبرپختونخوا)

یہ انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد یہ اس حوالے سے سنگین ترین واردات ہے جس میں بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں ہم نے بے شمار بزرگوں،نوجوانوں اور ماؤں بہنوں کے جنازے اٹھائے ہیں مگر اب بات بچوں تک آگئی ہے اور دہشت گرد ہمارے بچوں تک آپہنچے ہیں لہٰذایہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔

ہمارے پاس مزید دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پشاور کا سانحہ تاریک ترین دن تھا اور اس دن جس طریقے سے یہاں کے لوگوں نے پختون روایات کے مطابق زخمیوں کو مدد فراہم کی، خون کے عطیات دئیے، جنازے اٹھائے اس پر پختون قوم کے جذبے اور ان کے حوصلے کو سلام ہے، اس واقعے کے بعد بھی ایک بار پھر پختون قوم نے زندہ قوم ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔



دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اب تک ہم نے سنجیدگی کے ساتھ کیا کیا ہے اور کیا نہیں ؟ بس عزم پکا ہونا چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ چیز پہلے کرنی ہے اور فلاں چیز بعد میں کرنی ہے۔ مسائل کی جڑ عدم مساوات ہے اگر پورے ملک میں ایک قانون اور فاٹا کیلئے دوسرے قوانین ہونگے تو انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہونگے؟

فاٹا میں غربت کے خاتمے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہاں کے بے روزگاروں کو باعزت روزگار دینے کی ضرورت ہے اور وہاں کے عوام کا یہ احساس ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ پاکستان کے بڑے شہروں کے عوام کے برابر سلوک نہیں کیا جاتا، جب تک عدم مساوات ختم نہیں ہوگا اور ناانصافیوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا جائے گا، بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر چار اکائیوں میں سے ایک اکائی حاوی ہو تو بات کیسے آگے بڑھ پائے گی؟

دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا ملک کو درپیش کوئی دوسرا مسئلہ پختونوں کو سٹیک ہولڈر کے طور پر لینا ہوگا اور پائیدار امن کے قیام کیلئے افغانستان کو خودمختار اور الگ ملک تسلیم کرنا ہوگا جس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوامی سطح پر رابطے بڑھائے جائیں۔

میاں افتخار حسین (مرکزی جنرل سیکریٹری عوامی نیشنل پارٹی)

آرمی پبلک سکول کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد کو تو چھوڑیئے اس بات کا اندازہ کیجئے کہ جب گولیاں برس رہی ہوں گی تو ان بچوں پر کیا گزررہی ہوگی اور جو بچے اس وقت زندہ ہیں وہ کس حالت میں ہوں گے۔ ان کی ماؤں، بہنوں کی کیا حالت ہوگی ،لوگ معصوم فرشتوں کی لاشیں دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے۔مینا بازار دھماکہ ہمارے دور میں ہوا جس میں بڑی تعداد میں لوگ جل کر راکھ ہوئے تھے تاہم یہ واقعہ اس سے زیادہ افسوسناک ہے اور اس واقعہ کے ذریعے دہشت گردوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس قدر ظلم اور بربریت کرسکتے ہیں۔

یہ واقعہ سیکورٹی لیپس کا نتیجہ بھی ہے کیونکہ اس میں 150 بچے شہید ہوگئے ہیں ،جب آرمی کا سکول محفوظ نہیں ہے تو پھر کونسی جگہ محفوظ ہوگی ؟جب وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو ہم اس وقت سے کہہ رہے تھے کہ یہ امن عارضی ہے اور طوفان کا پیش خیمہ ہے کیونکہ جب فوج عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرے گی تو امن کیسے قائم ہوسکتا ہے ،چونکہ دہشت گرد منتشر ہوگئے تھے اس لیے وہ بڑی کارروائی نہیں کرپارہے تھے تاہم وہ ٹارگٹ کلنگ ضرور کررہے تھے۔

انہوں نے ہمارے 30 افراد شہید کیے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو ان سے کیسے نمٹا جائے گا ۔ جو کچھ کیا گیا ہے اس کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے یہ عسکریت پسند اس کے بعد اس سے زیادہ شدید حملہ کرینگے جس سے لوگ یہ حملہ بھول جائیں گے۔ ا س لیے ہمیں دہشت گردی کو جنگ کہنا ہوگا اور اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی ،ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی کون اور کیسے چلا رہا ہے جبکہ دہشت گرد دندناتے ہوئے پھررہے ہیں ،یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم نے پشاور میں بیٹھ کر سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کیا۔



عراق اور شام میں داعش جو کچھ کررہی ہے یہ فیز ون ہے جبکہ فیز ٹو ابھی باقی ہے کیونکہ داعش ،القاعدہ سے بڑی طاقت ہے اور جو دہشت گرد القاعدہ میں تھے وہی کل داعش میں ہوں گے جو اسرائیل کی پیداوار ہے۔ اس لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ادھر ،ادھر کی باتیں کرنے کی بجائے ان دہشت گردوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پوری ایمانداری سے اچھے یا برے کے الفاظ کا استعمال نہ کرتے ہوئے سیاست سے بالاتر ہوکر فیصلے کرنے چاہئیں۔

دہشت گردی کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بھی دیگر ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے ،اس لیے ا ن پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ 9/11 کے بعد بھی امریکہ بدلا نہیں اورہم تیس سالوں سے امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں تو اب افغانستان اور امریکہ کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے اس لیے مشترکہ طور پر پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس میں کوئی اچھا یا برا نہیں ہونا چاہیے اوریہاں سیاسی اور فوجی قیادت کو اکھٹا ہوکر فیصلے کرنے چاہئیں۔

ہم نے جب اپنی حکومت میں مذاکرات کیے تو اس پر بھی لوگوں کو اعتراض تھا اور جب کارروائی کی تب بھی اعتراض کرتے رہے ،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبہ میں ایپکس کمیٹی فیصلے کرے جس میں گورنر ،وزیراعلیٰ اور کورکمانڈر سب اپنا اپناکردار ادا کریں،حکومت آگے آئے اور قیادت کرے اورتمام جماعتوں کو چاہیے کہ اس کا ساتھ دیں کیونکہ اگر ہم نے اس واقعہ سے بھی سبق نہ سیکھا تو اس صورت میں ہمیں دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔

ہمیں صوبہ کے جغرافیہ کومد نظر رکھنا چاہیے جس کے ساتھ فاٹا بھی جڑا ہوا ہے اور اس میں پاٹا بھی موجود ہے کہ جہاں قانون سازی، مرکز اور صدر کی منظوری سے ہوتی ہے۔ہم پشاور سے باہر نکلتے ہیں تو ایف آر کے علاقہ سے گزرتے ہیں کہ جو وفاق کے کنٹرول میں ہے ،ہزارہ ڈویژن جانا ہوتو ہم پنجاب سے گزرکر جاتے ہیں اس لیے ہماری ایف سی ہمیں واپس دی جائے کہ فاٹا اور بندوبستی علاقوں کے درمیان حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں ۔

بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ (دفاعی وعسکری تجزیہ نگار)

یہ انتہائی افسوسناک اور المناک واقعہ ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس سلسلے میں کافی عرصہ سے باتیں تو ہورہی ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا اوراگر اب سیاسی جماعتیں اگر،مگر میں الجھی رہیں تو اس سے مزید نقصان ہوگا ۔جن لوگوں نے اسکول میں بچوں کا قتل عام کیا ہے وہ اسلام تو کیا انسانیت سے بھی خارج ہیں۔ میں تو ان دہشت گردوں سے ملتا رہا ہوں یہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان ۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا حل صرف اور صرف طاقت کا استعمال ہے کیونکہ یہ وحشی لوگ ہیں جو خوف پھیلانا چاہتے ہیں اور سب کو ڈرا کر ملک پر حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

میرے نزدیک آپریشن ضرب عضب 2010 ء میں شروع ہوجانا چاہیے تھا ،اگر ایسا ہوتا توجو واقعات ان چار سالوں میں ہوتے رہے وہ نہ ہوتے او رنہ ہی ان عسکریت پسندوں کو مضبوط اورمنظم ہونے کا موقع ملتا۔آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی میں کمی تو ہوئی ہے تاہم اب اس آپریشن کو پورا کرنا ہوگا جبکہ آپریشن خیبر ون کو بھی مزید طاقت کے ساتھ پورا کرنا ہوگا۔



اسکول کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت ان حالات میں ان عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کرسکتی اور ہمیں ان لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ30لاکھ افغان مہاجرین جوہمارے وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں انھیں بھی فوری طور پر ان کے ملک واپس بھجوایا جائے اور اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہے تو اس صورت میں بھی انھیں کیمپوں تک محدود کیا جائے۔ عام شہریوں کو اس بارے میں آگاہی دی جائے کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا عسکریت پسندی کے حوالے سے فوری طور پر سیکورٹی فورسز کو اطلاع کریں کیونکہ ہر جگہ نہ تو پولیس آسکتی ہے اور نہ ہی سیکورٹی فورسز، اس لیے شہریوں کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑے گا۔

ہماری فوج امریکہ سے بھی بہتر ہے اور وہ ہماری نقالی کرتا ہے ،آن گراؤنڈ کوئی اچھا یا برا نہیں ہے،سب عسکریت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے ۔جن ممالک میں نیشنل سیکورٹی کونسل موجود ہے وہاں پر ان میں مسائل پیدا نہیں ہوتے ،یہاں یہ تجویز دینے پر جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کردیا گیا تھا، ہمارے یہاں اب بھی نیشنل سیکورٹی کونسل کا خلاء موجود ہے جسے پر کرنا چاہیے تاکہ مل بیٹھ کر فیصلے کیے جاسکیں اور دہشت گردی ختم کی جاسکے۔

مولانا شجاع الملک (صوبائی جنرل سیکرٹری جمعیت علماء اسلام(ف))

سانحہ پشاور کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ ظلم اور بربریت کی انتہا ہے ۔ آج تک کسی بھی جگہ پر نہتے اور معصوم بچوں کو اس بے دردی اور سفاکیت سے قتل نہیں کیا گیا جس طریقہ سے آرمی پبلک سکول میں کیاگیا۔اس قسم کی کارروائی کی نہ تو شریعت میں اجازت ہے اورنہ ہی پختون روایات اورانسانیت اس کی اجازت دیتی ہے،پتا نہیں یہ کس قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔

اب لگتا یہی ہے کہ ہمیں تمام اختلافات اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہوکر ان عناصر کا قلع قمع کرنا ہوگا جو ہمارے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیلنے کی طرف تلے ہوئے ہیں اور اگر ہم نے اس واقعہ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا تو ہم اسی طرح تڑپتے ،مرتے رہیں گے ۔یہ حالات آج یا کل پرسوں کے نہیں بلکہ عرصہ سے ہمارے اوپر مسلط کیے گئے ہیں جس میں سامراجی قوتوں کے مفادات پوشیدہ ہیں اور انہی مفادات کی خاطرانہوں نے اس خطے اور خصوصاً پختون سرزمین کو تختہ مشق بنارکھا ہے اوریہاں پر وہ آگ لگائی ہے جس کے شعلے دور، دور تک پھیل رہے ہیں۔



اس جنگ میں اگر کوئی کہے کہ جے یو آئی طالبان وغیرہ کی ہمدرد ہے تو کیا ان کو مولانا حسن جان ،ڈاکٹر خالد محمود سومرو،مولانا معراج الدین ،شیخ الحدیث نور محمد کی شہادتیں اورجے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر خود کش حملے دکھائی نہیں دیتے ،لہٰذاالزام تراشی سے نکل کر اصل مسئلہ کی جڑ تک پہنچتے ہوئے سد باب کرنے کے لیے تمام سیاسی ،مذہبی قوتوں سمیت عسکری قیادت کو ایک پیج پر آکر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنا ہوگی۔

اس ضمن میں عمران خان کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان لائق تحسین ہے جبکہ عمران خان کی جانب سے وزیراعظم کو چار مرتبہ حمایت کی یقین دہانی آئندہ کے منظر نامے پر مثبت اثرات مرتب کرے گی ۔

انتخاب خان چمکنی (صدر پاکستان مسلم لیگ(ق) خیبرپختونخوا)

پشاور کے دل خراش سانحے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی کا خیرمقدم کرتے ہیں تاہم کانفرنس میں شریک تمام لیڈروں کو غمزدہ خاندانوں کے پاس بھی جانا چاہیے تھا ۔ یہ صرف ان خاندانوں کا ماتم نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا ماتم ہے ۔ میرے نزدیک صرف گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس یا دوسرے حکومتی ایوانوں میں اجلاسوں سے کام نہیں چلے گا، غم زدہ خاندانوں کو own کرنا ہوگا۔



یہ وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نہیں ہے اوراے پی سی چاہے مرکزی حکومت بلائے یا صوبائی حکومت ،اصل بات عملدرآمد کی ہے۔ہمیں دہشت گردی کی جڑ کو دیکھنا ہوگا اور خارجہ پالیسی پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ نیشنل سکیورٹی کونسل کو عملی شکل ملنی چاہیے اور ہمارے اداروں کے پاس دہشت گردوں کا مکمل ڈیٹا ہونا چاہیے۔

اس میں عام شہریوں کو بھی اپنا کردار دیکھنا ہوگا کہ وہ کس حد تک دہشت گردی پر قابو پانے میں اداروں کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔اس وقت عدالتوں میں دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے بے شمار کیسز زیر سماعت ہیں لیکن کسی بھی کیس میں ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ میرے نزدیک مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور سکری قیادت کو ایک پیج پر آنا چاہیے۔
Load Next Story