جابر سلطانوں اور بیویوں کے سامنے کلمہ حق
حکومت نے آئینوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی، ویسے بھی اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنا کوئی اچھا کاروبار نہیں۔
آپ یقین کریں اگر صرف کہنے سے یقین نہ آرہا ہو تو جو چاہے قسم اٹھا لیجیے کہ انتخابی امیدواروں کی طرح آپ قسم نہ بھی دیں تو بھی ہم بڑی سے بڑی قسم حتیٰ کہ کنڈولیزا رائس تک کی قسم کھانے کو تیارہیں کہ ہمیں یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے اور خود کو خود ہی ضربیں دے دے کر اور جمع تفریق کر کر کے ''بڑی مقدار'' یا فگر بنانے کی عادت بالکل بھی پسند نہیں ہے خاص طور پر اگر ''کوئی اور'' ایسا کر رہا ہو جیسا کہ آج کل ہمارے اکثر کالم نگار کرتے رہتے ہیں کہ پورا کالم پڑھ ڈالیے مجال ہے جو اس میں ''میں میں'' کے سوا کہیں بھی ''تو تو'' نظر آئے۔
ایک بہت بڑی پرابلم اس میں یہ ہے کہ ہمیں آئینہ بھی دستیاب نہیں ہے کیونکہ کچھ عرصے پہلے جب حکومت نے دیکھا کہ لوگ آئینوں کا بہت غلط استعمال کر رہے ہیں، ان میں خود دیکھنے کے بجائے دوسروں کو دکھاتے ہیں اور کسی جگہ بیٹھ کر دوسروں کے آنگن میں روشنی بھی ڈالتے ہیں، تو حکومت نے آئینوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی، ویسے بھی اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنا کوئی اچھا کاروبار نہیں، ایسے شہر میں نکڑ پر بیٹھ کر پالش کی دکان کون لگائے جہاں کسی کے پیروں میں جوتے ہی نہ ہوں یا اس شہر میں جوتوں کی دکان کھولے جہاں زیادہ تر لوگ دونوں پیروں سے محروم ہوں یا ایسے بازار میں دستار بیچنا چاہے جہاں کسی کے کاندھوں پر سر ہی نہ ہو، سو ہم بھی بسم اللہ کر کے بغیر آئینے ہی کے اپنا سر مونڈھنا شروع کرتے ہیں۔
یا تو اپنا سر وہ ''چاند'' کر لیں گے جو دور سے نظر آتا ہے یا وہ چاند جو امریکیوں نے دریافت کیا تھا، جہاں ''بڑھیا'' چرخہ نہیں بلکہ بلڈوزر چلا رہی تھی، تو اپنے سر پر ہم استرے کا پہلا وار کرتے ہوئے اپنے بارے میں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کبھی کچھ بھی نہیں کہتے، حالانکہ ہم نے نہ کبھی کسی ''گیتا'' پر ہاتھ رکھا ہے نہ ''سیتا'' کو اپنے ہاتھ پر رکھا ہے بلکہ کسی للیتا، سنگیتا، ارپیتا اور ''شش میتا'' کو بھی ہاتھ لگایا ہے لیکن یہ سچ بولنے کی صفت ہمارے اندر پیدائشی طور پر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ہمارے آباء و اجداد کے بارے میں نہایت ثقہ روایتیں موجود ہیں کہ وہ ہمیشہ جابر سلطانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے سامنے ''کلمہ حق'' بلند کرتے تھے اور ایسا بلند کرتے تھے کہ کلمہ حق کے ساتھ ساتھ خود بھی بلند ہو کر لٹک جاتے تھے یا کم از کم اپنا سر تو بلند کر کے کسی کلہ مینا پر دھر دیا کرتے تھے، ہم بھی شاید یہی شغل کرتے لیکن ہمارے زمانے میں ''سلطانوں'' کی پیداوار ہی بند ہو گئی۔
ابتداء میں ہم نے کوشش بھی کی تھی۔ ایک ''سلطان'' نام کا شخص مل بھی گیا تھا لیکن جب ہم نے اس کے سامنے ''کلمہ حق'' بلند کرنا شروع کیا کیونکہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ سلطان تو تھا لیکن جابر سلطان کے بجائے کم بخت کا نام ''صابر سلطان'' تھا اور اس کے بھائی کا نام شاکر سلطان تھا، کافی تلاش کے بعد ایک ''دانائے راز'' نے ہمیں بتایا کہ تمہارے اجداد کے کلمہ حق کی وجہ سے وہ جابر سلطان لوگ اب روپے اور لباس بدل کر ''بچہ جمہور'' بن گئے ہیں اور کسی ایک جگہ کے بجائے پورے ملک میں اپنی نسل کو منتشر کر گئے ۔کہیں عوامی نمایندے کہلاتے ہیں، کہیں پر منتخب نمایندوں کا بھیس بنا کر رہتے ہیں اور کہیں پر وزیر، مشیر، شہیر، سفیر اور نہ جانے کیا کیا بن کر اپنا پرانا جابر سلطانوں والا دھندہ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں تھے جو ملک کے کونے کونے میں جا کر ان بھیس بدلے جابر سلطانوں کو ڈھونڈتے اور پھر جا کر ان کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے، سو اپنے اسی دانائے راز جو ساتھ ہی ''کانائے راز'' بھی ہے کے مشورے پر یہ کالم نگاری کا شغل اپنا لیا محض اس لیے کہ ان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اپنا فریضہ ادا کر سکیں۔
یعنی ہم کالم نگار والم نگار نہیں ہیں بلکہ اس بہانے کلمہ حق بلند کرنے کا اپنا خاندانی فریضہ ادا کر رہے ہیں، لیکن اپنے پڑھنے والوں سے ہم ساؤدان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کام ہم جیسے جدی پشتی سچائی کے علم بردار ہی کر سکتے ہیں آپ لوگ اسے بالکل ٹرائی نہ کیجیے گا کیونکہ اس میں بڑے بڑے خطرات پوشیدہ ہیں بلکہ جابر سلطان تو دور کی بات ہے اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بھی ٹرائی نہ کریں کیونکہ بیویاں جابر سلطانوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ قہر خداوندی چشم گل چشم نے اپنی بیوی کے سامنے یہ ٹرائی کی تھی۔
وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کی بیوی گونگی اور بہری یعنی بقول علامہ برڈ فلو ''نعمت عظمیٰ'' ہے لیکن بیوی کے بھائی بہرے تھے نہ گونگے چنانچہ جب بہن نے بھائیوں کے سامنے اشاروں کی زبان میں شکایت درج کی تو سب نے اس بے چارے پر اپنے اپنے پیشے کی مشق کی، بڑا جو قصائی تھا اس نے اس کی بوٹی اور ہڈی ہڈی کو ایک دوسرے سے الگ کیا، دوسرا جو نانبائی تھا اس نے بے چارے کو آٹا سمجھ کر گوندھا، تیسرے فٹ بالر نے آنگن کو گراؤنڈ اور دروازوں کو گول پول فرض کر کے آٹھ دس گول کیے، البتہ چوتھا چونکہ سیدھا کرکٹ کا میچ ادھورا چھوڑ کر آیا تھا، اس نے چوکوں چھکوں کی مدد سے اپنی سنچری مکمل کر لی، اس کے بعد ہم بھی محتاط ہو گئے کہ دور جدید کے ان نقلی جابر سلطان کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے صرف آئینے کے سامنے خود ہی کو جابر سلطان سمجھ کر کھری کھری سناتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم خود سے ہمیشہ لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں۔
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار ''گر گئے''
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
ایک بہت بڑی پرابلم اس میں یہ ہے کہ ہمیں آئینہ بھی دستیاب نہیں ہے کیونکہ کچھ عرصے پہلے جب حکومت نے دیکھا کہ لوگ آئینوں کا بہت غلط استعمال کر رہے ہیں، ان میں خود دیکھنے کے بجائے دوسروں کو دکھاتے ہیں اور کسی جگہ بیٹھ کر دوسروں کے آنگن میں روشنی بھی ڈالتے ہیں، تو حکومت نے آئینوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی، ویسے بھی اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنا کوئی اچھا کاروبار نہیں، ایسے شہر میں نکڑ پر بیٹھ کر پالش کی دکان کون لگائے جہاں کسی کے پیروں میں جوتے ہی نہ ہوں یا اس شہر میں جوتوں کی دکان کھولے جہاں زیادہ تر لوگ دونوں پیروں سے محروم ہوں یا ایسے بازار میں دستار بیچنا چاہے جہاں کسی کے کاندھوں پر سر ہی نہ ہو، سو ہم بھی بسم اللہ کر کے بغیر آئینے ہی کے اپنا سر مونڈھنا شروع کرتے ہیں۔
یا تو اپنا سر وہ ''چاند'' کر لیں گے جو دور سے نظر آتا ہے یا وہ چاند جو امریکیوں نے دریافت کیا تھا، جہاں ''بڑھیا'' چرخہ نہیں بلکہ بلڈوزر چلا رہی تھی، تو اپنے سر پر ہم استرے کا پہلا وار کرتے ہوئے اپنے بارے میں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کبھی کچھ بھی نہیں کہتے، حالانکہ ہم نے نہ کبھی کسی ''گیتا'' پر ہاتھ رکھا ہے نہ ''سیتا'' کو اپنے ہاتھ پر رکھا ہے بلکہ کسی للیتا، سنگیتا، ارپیتا اور ''شش میتا'' کو بھی ہاتھ لگایا ہے لیکن یہ سچ بولنے کی صفت ہمارے اندر پیدائشی طور پر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ہمارے آباء و اجداد کے بارے میں نہایت ثقہ روایتیں موجود ہیں کہ وہ ہمیشہ جابر سلطانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے سامنے ''کلمہ حق'' بلند کرتے تھے اور ایسا بلند کرتے تھے کہ کلمہ حق کے ساتھ ساتھ خود بھی بلند ہو کر لٹک جاتے تھے یا کم از کم اپنا سر تو بلند کر کے کسی کلہ مینا پر دھر دیا کرتے تھے، ہم بھی شاید یہی شغل کرتے لیکن ہمارے زمانے میں ''سلطانوں'' کی پیداوار ہی بند ہو گئی۔
ابتداء میں ہم نے کوشش بھی کی تھی۔ ایک ''سلطان'' نام کا شخص مل بھی گیا تھا لیکن جب ہم نے اس کے سامنے ''کلمہ حق'' بلند کرنا شروع کیا کیونکہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ سلطان تو تھا لیکن جابر سلطان کے بجائے کم بخت کا نام ''صابر سلطان'' تھا اور اس کے بھائی کا نام شاکر سلطان تھا، کافی تلاش کے بعد ایک ''دانائے راز'' نے ہمیں بتایا کہ تمہارے اجداد کے کلمہ حق کی وجہ سے وہ جابر سلطان لوگ اب روپے اور لباس بدل کر ''بچہ جمہور'' بن گئے ہیں اور کسی ایک جگہ کے بجائے پورے ملک میں اپنی نسل کو منتشر کر گئے ۔کہیں عوامی نمایندے کہلاتے ہیں، کہیں پر منتخب نمایندوں کا بھیس بنا کر رہتے ہیں اور کہیں پر وزیر، مشیر، شہیر، سفیر اور نہ جانے کیا کیا بن کر اپنا پرانا جابر سلطانوں والا دھندہ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں تھے جو ملک کے کونے کونے میں جا کر ان بھیس بدلے جابر سلطانوں کو ڈھونڈتے اور پھر جا کر ان کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے، سو اپنے اسی دانائے راز جو ساتھ ہی ''کانائے راز'' بھی ہے کے مشورے پر یہ کالم نگاری کا شغل اپنا لیا محض اس لیے کہ ان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اپنا فریضہ ادا کر سکیں۔
یعنی ہم کالم نگار والم نگار نہیں ہیں بلکہ اس بہانے کلمہ حق بلند کرنے کا اپنا خاندانی فریضہ ادا کر رہے ہیں، لیکن اپنے پڑھنے والوں سے ہم ساؤدان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کام ہم جیسے جدی پشتی سچائی کے علم بردار ہی کر سکتے ہیں آپ لوگ اسے بالکل ٹرائی نہ کیجیے گا کیونکہ اس میں بڑے بڑے خطرات پوشیدہ ہیں بلکہ جابر سلطان تو دور کی بات ہے اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بھی ٹرائی نہ کریں کیونکہ بیویاں جابر سلطانوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ قہر خداوندی چشم گل چشم نے اپنی بیوی کے سامنے یہ ٹرائی کی تھی۔
وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کی بیوی گونگی اور بہری یعنی بقول علامہ برڈ فلو ''نعمت عظمیٰ'' ہے لیکن بیوی کے بھائی بہرے تھے نہ گونگے چنانچہ جب بہن نے بھائیوں کے سامنے اشاروں کی زبان میں شکایت درج کی تو سب نے اس بے چارے پر اپنے اپنے پیشے کی مشق کی، بڑا جو قصائی تھا اس نے اس کی بوٹی اور ہڈی ہڈی کو ایک دوسرے سے الگ کیا، دوسرا جو نانبائی تھا اس نے بے چارے کو آٹا سمجھ کر گوندھا، تیسرے فٹ بالر نے آنگن کو گراؤنڈ اور دروازوں کو گول پول فرض کر کے آٹھ دس گول کیے، البتہ چوتھا چونکہ سیدھا کرکٹ کا میچ ادھورا چھوڑ کر آیا تھا، اس نے چوکوں چھکوں کی مدد سے اپنی سنچری مکمل کر لی، اس کے بعد ہم بھی محتاط ہو گئے کہ دور جدید کے ان نقلی جابر سلطان کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے صرف آئینے کے سامنے خود ہی کو جابر سلطان سمجھ کر کھری کھری سناتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم خود سے ہمیشہ لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں۔
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار ''گر گئے''
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں