سربیا سے بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کے معاہدے کی تفصیلات طلب
آئی جی سندھ بیرون ملک جا کر معاہدے کرنے کے مجاز نہیں، وہ کس حیثیت سے معاہدہ کرنے گئے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم
سپریم کورٹ کے جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے چیف سیکریٹری سندھ سے سربیا سے ہونیوالے معاہدے کی تفصیلات، حکومت سندھ، محکمہ داخلہ اور نیب کے مابین ہونے والی خط و کتابت اور تمام اوریجنل سمریاں حلف نامے کے ساتھ طلب کرلیں۔
فاضل بینچ نے سندھ پولیس کے لیے سربیا سے بکتربند گاڑیوں کی خریداری کے معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب پاکستان میں وہی گاڑی 5 کروڑروپے میں دستیاب ہے تو بیرون ملک سے 39کروڑ روپے کی کیوں خریدی جارہی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ بیرون ملک جا کر معاہدے کرنے کے مجاز نہیں، وہ کس حیثیت سے معاہدہ کرنے گئے، بتایا جائے نیب سے معاہدے کی منظوری کیوں نہیں لی گئی۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سرسری نظر میں معاملہ شفاف نہیں لگتا، بین الاقوامی ٹینڈرز میں تو اس سے بہتر پیشکشیں مل سکتی تھیں، عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ سندھ پولیس کو درکار بکتربند گاڑیوں میں مطلوبہ خصوصیات سے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کو آگاہ کیا جائے تاکہ مطلوبہ معیار کی گاڑی یہاں تیار کی جاسکے،اس موقع پر ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا کے جی ایم کرنل عامر پیش ہوئے، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جدید ترین آلات سے آراستہ بکتر بند گاڑیاں مقامی طور پر بھی تیار کی جارہی ہیں اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلاکی ایک کھیپ جنوری میں مارکیٹ میں آجائے گی۔
انھوں نے عدالت کے استفسار پربتایا کہ سندھ پولیس کو مطلوبہ خصوصیات والی بکتر بند گاڑیاں بھی تیار کی جاسکتی ہیں،جسٹس سرمد جلال عثمانی کے استفسار پر کہ قانون نافذکرنیوالے اداروں کی جن دہشت گردوں سے جنگ ہے وہ جدید ترین اسلحہ اور راکٹ لانچرز سے بھی لیس ہیں، کیا ان سے بچائو کیلیے یہ اے پی سی موثر ہوگی، کرنل عامر کا کہنا تھا کہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں تیار کی جانے والی B-7 گاڑیاں جدید ہیں، خبیر پختونخواہ پولیس کو بھی فراہم کی جارہی ہیں۔
سربیا سے جو گاڑیاں منگوائی جارہی ہیں ان میں 185 ہارس پاور کا انجن نصب ہے جبکہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کی B-7میں 200 پارس پاور کا انجن ہے، یہاں تیار کی جانیوالی ''ٹریگون'' گاڑیوں میں 300ہارس پاور کا انجن ہے، یہ گاڑیاں راکٹ اور آر پی جی سے بچائو کیلیے بھی موثر ہے، اس موقع پر آئی جی سندھ کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ جب حکومت نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلاسے پوچھا تھا تو بتایا گیا تھا کہ یہاں B-6 تیار کی جارہی ہیں انھیں B-7میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے B-6کی سطح کی گاڑی کامطالبہ کیااور اسے B-7 میں اپ گریڈ کرنے کی شرط رکھی، مہران کار میں ٹویوٹا کا انجن کیسے لگا سکتے ہیں، اپ گریڈنگ اور نئے یونٹس تیار کرنے میں فرق ہے، ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا کے کرنل عامر نے بتایا کہ یہاں جدید B-7گاڑیاں تیار کی جارہی ہیں جو کے پی کے پولیس کو بھی فراہم کی جارہی ہے، جسٹس انور ظہیر جمالی نے آبزرویشن دی کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا یہ شفاف معاہدہ ہے یا نہیں، بادی النظر میں شفافیت نظر نہیں آتی، اتنی جلد بازی میں اچانک سربیا سے کیوں معاہد ہ کیا گیا۔
آئی جی سندھ کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ سربیا سے معاہد ہ ختم کرنے سے بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوگی، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کی منظوری کے بغیر کیسے معاہدہ ہوگیا،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ یہاں سے تیار کی جانے والی گاڑی کی مالیت پانچ کروڑ روپے ہے جبکہ یہی چیز سربیا سے 39کروڑ روپے کی خریدی جارہی ہے، یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ معمولی فرق ہوتا تو نظر انداز کیا جاسکتا تھا مگر یہاں زمین آسمان کا فرق ہے،عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میران شاہ کو ہدایت کی کہ پولیس کو مطلوب گاڑیوں کی خصوصیات سے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کو آگاہ کیا جائے، ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا جائزہ لیکر بتائے کہ یہ گاڑیاں یہاں تیار کی جاسکتی ہیں تو اس کی لاگت کیا ہوگی۔
فاضل بینچ نے سندھ پولیس کے لیے سربیا سے بکتربند گاڑیوں کی خریداری کے معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب پاکستان میں وہی گاڑی 5 کروڑروپے میں دستیاب ہے تو بیرون ملک سے 39کروڑ روپے کی کیوں خریدی جارہی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ بیرون ملک جا کر معاہدے کرنے کے مجاز نہیں، وہ کس حیثیت سے معاہدہ کرنے گئے، بتایا جائے نیب سے معاہدے کی منظوری کیوں نہیں لی گئی۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سرسری نظر میں معاملہ شفاف نہیں لگتا، بین الاقوامی ٹینڈرز میں تو اس سے بہتر پیشکشیں مل سکتی تھیں، عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ سندھ پولیس کو درکار بکتربند گاڑیوں میں مطلوبہ خصوصیات سے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کو آگاہ کیا جائے تاکہ مطلوبہ معیار کی گاڑی یہاں تیار کی جاسکے،اس موقع پر ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا کے جی ایم کرنل عامر پیش ہوئے، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جدید ترین آلات سے آراستہ بکتر بند گاڑیاں مقامی طور پر بھی تیار کی جارہی ہیں اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلاکی ایک کھیپ جنوری میں مارکیٹ میں آجائے گی۔
انھوں نے عدالت کے استفسار پربتایا کہ سندھ پولیس کو مطلوبہ خصوصیات والی بکتر بند گاڑیاں بھی تیار کی جاسکتی ہیں،جسٹس سرمد جلال عثمانی کے استفسار پر کہ قانون نافذکرنیوالے اداروں کی جن دہشت گردوں سے جنگ ہے وہ جدید ترین اسلحہ اور راکٹ لانچرز سے بھی لیس ہیں، کیا ان سے بچائو کیلیے یہ اے پی سی موثر ہوگی، کرنل عامر کا کہنا تھا کہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں تیار کی جانے والی B-7 گاڑیاں جدید ہیں، خبیر پختونخواہ پولیس کو بھی فراہم کی جارہی ہیں۔
سربیا سے جو گاڑیاں منگوائی جارہی ہیں ان میں 185 ہارس پاور کا انجن نصب ہے جبکہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کی B-7میں 200 پارس پاور کا انجن ہے، یہاں تیار کی جانیوالی ''ٹریگون'' گاڑیوں میں 300ہارس پاور کا انجن ہے، یہ گاڑیاں راکٹ اور آر پی جی سے بچائو کیلیے بھی موثر ہے، اس موقع پر آئی جی سندھ کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ جب حکومت نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلاسے پوچھا تھا تو بتایا گیا تھا کہ یہاں B-6 تیار کی جارہی ہیں انھیں B-7میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے B-6کی سطح کی گاڑی کامطالبہ کیااور اسے B-7 میں اپ گریڈ کرنے کی شرط رکھی، مہران کار میں ٹویوٹا کا انجن کیسے لگا سکتے ہیں، اپ گریڈنگ اور نئے یونٹس تیار کرنے میں فرق ہے، ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا کے کرنل عامر نے بتایا کہ یہاں جدید B-7گاڑیاں تیار کی جارہی ہیں جو کے پی کے پولیس کو بھی فراہم کی جارہی ہے، جسٹس انور ظہیر جمالی نے آبزرویشن دی کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا یہ شفاف معاہدہ ہے یا نہیں، بادی النظر میں شفافیت نظر نہیں آتی، اتنی جلد بازی میں اچانک سربیا سے کیوں معاہد ہ کیا گیا۔
آئی جی سندھ کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ سربیا سے معاہد ہ ختم کرنے سے بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوگی، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کی منظوری کے بغیر کیسے معاہدہ ہوگیا،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ یہاں سے تیار کی جانے والی گاڑی کی مالیت پانچ کروڑ روپے ہے جبکہ یہی چیز سربیا سے 39کروڑ روپے کی خریدی جارہی ہے، یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ معمولی فرق ہوتا تو نظر انداز کیا جاسکتا تھا مگر یہاں زمین آسمان کا فرق ہے،عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میران شاہ کو ہدایت کی کہ پولیس کو مطلوب گاڑیوں کی خصوصیات سے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کو آگاہ کیا جائے، ہیوی انڈسٹریزٹیکسلا جائزہ لیکر بتائے کہ یہ گاڑیاں یہاں تیار کی جاسکتی ہیں تو اس کی لاگت کیا ہوگی۔